یہ سیلاب زدہ شہباز شریف
قدرت نے آسماں سے سیلاب نازل کیا اور سیلاب زدہ زمین پر سیلاب کا مقابلہ کرنے کے لیے شہباز شریف کو ڈھونڈ نکالا ۔۔۔
قدرت نے آسماں سے سیلاب نازل کیا اور سیلاب زدہ زمین پر سیلاب کا مقابلہ کرنے کے لیے شہباز شریف کو ڈھونڈ نکالا۔ اس طرح ان دونوں کے درمیان ایک جنگ شروع ہو گئی نہ جانے کب تک۔ دن رات جاری رہنے والی اس جنگ میں اس وقت گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے۔ ایک طرف ایک انسان کی بد دل فوج ہے جسے زبردستی اس کے محفوظ آرام دہ مورچوں سے نکالا گیا ہے اور اسے بے رحم سیلاب کے سامنے ڈال دیا گیا ہے لیکن اس زمینی فوج کا سپہ سالار دیوانہ وار اپنے سے کہیں زیادہ طاقت ور مدمقابل کے سامنے معرکہ زن ہے۔
شہباز شریف ایک محاذ پر کچھ کامیاب ہوتا ہے کہ دوسرا کھل جاتا ہے۔ آج ایک شہر کو کسی بند کو توڑ کر بچایا جاتا ہے تو کل دوسرے شہر کو بھی اس کا کوئی بند توڑ کر۔بند بنانا ایک بہت مشکل مشقت بھرا اور مہنگا عمل ہے لیکن انسان کی جان سے زیادہ مہنگا نہیں۔ یوں کہیں کہ ایک طرف بپھرا ہوا بے رحم سیلاب ہے تو دوسری طرف اس کے شکار انسانوں کو بچانے کی کوشش میں مصروف ایک بیمار انسان جس کی کمر میں درد کا مرض ہے جو انسان کو بے بس کر دیتا ہے لیکن یہ بے بس بیمار گاڑیوں میں لیٹ کر سفر کرتا ہے یوں کچھ دیر کے لیے کمر سیدھی کر لیتا ہے تو پھر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔
میاں شہباز شریف جب قید میں تھا تو اس کے پیغام آتے تھے کہ میں اپنے کالموں میں امیر المومنین حضرت عمر بن عبدالعزیز کی زندگی کے واقعات کا زیادہ ذکر کیا کروں۔ شاید وہ ان واقعات کا ذخیرہ کرتا رہا جسے اب وہ خرچ کر رہا ہے۔ ہماری تاریخ کے اس پانچویں خلیفہ راشد کو مورخوں نے یہ خطاب دیا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا عید کے حوالے سے ایک سرسری سا ذکر، یہ میں کئی بار پہلے بھی لکھ چکا ہوں مگر پھر ضرورت پڑ گئی ہے۔ اہلیہ شہزادی فاطمہ نے جو اپنے شہزادے شوہر کی طرح اب برائے نام شہزادی تھی کسی عید سے پہلے شوہر سے کہا کہ بچیوں کے پاس عید کے کپڑے نہیں ہیں، میرے پاس تو اب کچھ نہیں رہا آپ کچھ بندوبست کیجیے۔
اپنے وقت کا سب سے بڑا بادشاہ بیت المال کے خزانچی کے پاس گیا اور اپنی ایک ماہ کی تنخواہ ایڈوانس مانگی۔ خزانچی نے عرض کیا آپ مالک ہیں سب کچھ حاضر ہے اور بیت المال بھرا ہوا ہے لیکن میں ایک بات کی ضمانت مانگتا ہوں کہ کیا آپ آیندہ ماہ ادائیگی تک زندہ رہیں گے کہ ہم ایڈوانس وصول کر سکیں۔ یہ سن کر امیر المومنین چپ ہو گیا اپنے وقت کا بادشاہ لاجواب ہو گیا اور چپ کر کے گھر لوٹ آیا اور بیوی سے کہا کہ پرانے کپڑے دھو کر بچیوں کو پہناؤ اور انھیں راضی کرنے کی کوشش کرو۔ آج یہاں پاکستان میں عید سر پر ہے اور نہ جانے کتنے گھروں کی بچیاں خصوصاً سیلاب زدگان کی بچیاں عید کیسے منائیں گی۔ مجھے اندازہ نہیں۔ نہ کسی کی ماں شہزادی فاطمہ ہے نہ کسی کا باپ شہزادہ امیر المومنین عمر ہے۔ لاکھوں بے گھر ہو گئے ہیں اور ان کی بحالی کی ذمے داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔
جن میں میاں شہباز شریف بھی شامل ہے۔ میاں صاحب کی پرانی فرمائش پر میں نے عمل کر دیا ہے لیکن آج کے حکمران اگر بے سہارا عوام کی بنیادی دیکھ بھال کر رہے ہیں تو یہ بھی بہت بڑی غنیمت ہے، پاکستان کی تاریخ میں چھوٹے بڑے سیلاب بھی آئے اور کئی زلزلے بھی مگر عوام کی مصیبت کے ان دنوں میں کوئی شہباز دکھائی نہ دیا۔ مدرسوں کے چند طلبہ دکھائی دیے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی حکمران اپنی حکمرانی کا حق ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے یوں اپنے بعد آنے والوں کے لیے مشکل پیدا کر رہا ہے لیکن ہماری اشرافیہ اس قدر بے حس ہو چکی ہے کہ وہ اپنے محکوم عوام کی کوئی پروا نہیں کرتی، حال ہی میں پارلیمنٹ کے اجلاس میں جو کچھ ہوا وہ اس کا ایک تازہ ثبوت ہے اور کون پاکستانی نہیں جانتا کہ ووٹنگ کے بعد ان کے نمایندے انھیں دکھائی بھی نہیں دیتے اور وہ ان کی ناکام تلاش میں رہتے ہیں۔ دوسرے الیکشن تک۔
مجھے نہیں معلوم میاں شہباز شریف نے خدمت خلق اور اپنی حکمرانی کی یہ رسم کیوں نکالی ہے جب کہ ان کے بھائی نے ایسی زحمت کبھی نہیں کی ہاں ان دنوں وہ ٹی وی کیمروں کے سامنے دکھائی دیتے ہیں، بات میاں شہباز کی ہو رہی تھی، ایک بات یاد آ گئی کہ پہلی بار جب میاں نواز شریف صاحب وزیراعظم بنے تو سوال پیدا ہوا کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنے چھوٹے بھائی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیں ۔ لیکن وزیر اعظم میاں صاحب نے کہا کہ اس پر لوگ اعتراض کریں گے کہ بڑا بھائی وزیر اعظم ہے تو چھوٹا وزیر اعلی پنجاب بن گیا ہے۔ یہ سن کر ان کے والد ماجد نے کہا کہ تم نہیں رہو گے تو شہباز کی باری آئے گی۔ والدین کے فرمانبردار بیٹے نے یہ بات مان لی۔
میاں شہباز کے اقتدار میں آزمائش کا مرحلہ پہلی بار آیا ہے اور انھوں نے پوری جرات ہمت اور بہادری کے ساتھ اس آزمائش کا مقابلہ کیا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں اور تعجب کے ساتھ دیکھ رہے ہیں یقین نہیں آتا کہ کوئی پاکستانی حکمران اس قدر درد دل رکھنے والا بھی ہوتا ہے جس کی کمر اس کا ساتھ نہیں دیتی مگر وہ سیلاب کے جواب میں اس کا مقابلہ بھی کر رہا ہے اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ بے حس اور بے دل انتظامیہ اور اس کے افسران بالا کو پہلی بار آرام دہ گھروں اور دفتروں سے زبردستی نکالا ہے ان کے ٹائی سمیت سوٹ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس پر تکلف حال میں تھے کہ باہر گھسیٹ لائے گئے اور یہ تب ممکن ہوا جب ان کا افسر خود ان سے پہلے میدان کار زار میں موجود تھا اور سیلاب زدگان کے ساتھ مل کر سیلاب کی تباہ کاریوں سے لڑ رہا تھا۔
دن رات یہی حالت ہے اور ہر طرف سیلاب اور سیلاب زدگان دکھائی دیتے ہیں جن کی بے کس اور مظلومیت ناقابل بیان ہے۔ ان کے گھر گرے نہیں ان کی پوری آبادیاں سیلابی پانی میں غائب ہو گئی ہیں کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں اور مال مویشی ختم ہو گئے ہیں۔ کسی کاشتکار اور دیہی زندگی گزارنے والے سے کوئی پوچھے تو یہی جواب ہے کہ وہ ختم ہو چکا ہے۔ جن بچیوں کے جہیز بہہ گئے کوئی ان سے پوچھے اور جن کے پھول جیسے بچے ان کے ہاتھوں سے پھسل کر ڈوب گئے ان کے دلوں کا حال نہ جانے کیا ہے۔ سیلاب کیا ہے یہ صرف دیکھا جا سکتا ہے بیان نہیں کیا جا سکتا صرف شہباز شریف ہی دیکھنے اور اس کا علاج کرنے کی ذمے داری کو برداشت کر سکتا ہے۔ اس رئیس طبقے میں سے بھی کوئی ایسا ہو سکتا ہے یہ سب خواب و خیال کی باتیں ہیں مگر خوش نصیب پاکستان کے ایک حصے میں یہ حقیقت بھی ہیں اور یہ حقیقت پھیلتی جا رہی ہے ممکن ہے یہ پاکستان کی روائت بن جائے۔ شاید!
شہباز شریف ایک محاذ پر کچھ کامیاب ہوتا ہے کہ دوسرا کھل جاتا ہے۔ آج ایک شہر کو کسی بند کو توڑ کر بچایا جاتا ہے تو کل دوسرے شہر کو بھی اس کا کوئی بند توڑ کر۔بند بنانا ایک بہت مشکل مشقت بھرا اور مہنگا عمل ہے لیکن انسان کی جان سے زیادہ مہنگا نہیں۔ یوں کہیں کہ ایک طرف بپھرا ہوا بے رحم سیلاب ہے تو دوسری طرف اس کے شکار انسانوں کو بچانے کی کوشش میں مصروف ایک بیمار انسان جس کی کمر میں درد کا مرض ہے جو انسان کو بے بس کر دیتا ہے لیکن یہ بے بس بیمار گاڑیوں میں لیٹ کر سفر کرتا ہے یوں کچھ دیر کے لیے کمر سیدھی کر لیتا ہے تو پھر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔
میاں شہباز شریف جب قید میں تھا تو اس کے پیغام آتے تھے کہ میں اپنے کالموں میں امیر المومنین حضرت عمر بن عبدالعزیز کی زندگی کے واقعات کا زیادہ ذکر کیا کروں۔ شاید وہ ان واقعات کا ذخیرہ کرتا رہا جسے اب وہ خرچ کر رہا ہے۔ ہماری تاریخ کے اس پانچویں خلیفہ راشد کو مورخوں نے یہ خطاب دیا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا عید کے حوالے سے ایک سرسری سا ذکر، یہ میں کئی بار پہلے بھی لکھ چکا ہوں مگر پھر ضرورت پڑ گئی ہے۔ اہلیہ شہزادی فاطمہ نے جو اپنے شہزادے شوہر کی طرح اب برائے نام شہزادی تھی کسی عید سے پہلے شوہر سے کہا کہ بچیوں کے پاس عید کے کپڑے نہیں ہیں، میرے پاس تو اب کچھ نہیں رہا آپ کچھ بندوبست کیجیے۔
اپنے وقت کا سب سے بڑا بادشاہ بیت المال کے خزانچی کے پاس گیا اور اپنی ایک ماہ کی تنخواہ ایڈوانس مانگی۔ خزانچی نے عرض کیا آپ مالک ہیں سب کچھ حاضر ہے اور بیت المال بھرا ہوا ہے لیکن میں ایک بات کی ضمانت مانگتا ہوں کہ کیا آپ آیندہ ماہ ادائیگی تک زندہ رہیں گے کہ ہم ایڈوانس وصول کر سکیں۔ یہ سن کر امیر المومنین چپ ہو گیا اپنے وقت کا بادشاہ لاجواب ہو گیا اور چپ کر کے گھر لوٹ آیا اور بیوی سے کہا کہ پرانے کپڑے دھو کر بچیوں کو پہناؤ اور انھیں راضی کرنے کی کوشش کرو۔ آج یہاں پاکستان میں عید سر پر ہے اور نہ جانے کتنے گھروں کی بچیاں خصوصاً سیلاب زدگان کی بچیاں عید کیسے منائیں گی۔ مجھے اندازہ نہیں۔ نہ کسی کی ماں شہزادی فاطمہ ہے نہ کسی کا باپ شہزادہ امیر المومنین عمر ہے۔ لاکھوں بے گھر ہو گئے ہیں اور ان کی بحالی کی ذمے داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔
جن میں میاں شہباز شریف بھی شامل ہے۔ میاں صاحب کی پرانی فرمائش پر میں نے عمل کر دیا ہے لیکن آج کے حکمران اگر بے سہارا عوام کی بنیادی دیکھ بھال کر رہے ہیں تو یہ بھی بہت بڑی غنیمت ہے، پاکستان کی تاریخ میں چھوٹے بڑے سیلاب بھی آئے اور کئی زلزلے بھی مگر عوام کی مصیبت کے ان دنوں میں کوئی شہباز دکھائی نہ دیا۔ مدرسوں کے چند طلبہ دکھائی دیے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی حکمران اپنی حکمرانی کا حق ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے یوں اپنے بعد آنے والوں کے لیے مشکل پیدا کر رہا ہے لیکن ہماری اشرافیہ اس قدر بے حس ہو چکی ہے کہ وہ اپنے محکوم عوام کی کوئی پروا نہیں کرتی، حال ہی میں پارلیمنٹ کے اجلاس میں جو کچھ ہوا وہ اس کا ایک تازہ ثبوت ہے اور کون پاکستانی نہیں جانتا کہ ووٹنگ کے بعد ان کے نمایندے انھیں دکھائی بھی نہیں دیتے اور وہ ان کی ناکام تلاش میں رہتے ہیں۔ دوسرے الیکشن تک۔
مجھے نہیں معلوم میاں شہباز شریف نے خدمت خلق اور اپنی حکمرانی کی یہ رسم کیوں نکالی ہے جب کہ ان کے بھائی نے ایسی زحمت کبھی نہیں کی ہاں ان دنوں وہ ٹی وی کیمروں کے سامنے دکھائی دیتے ہیں، بات میاں شہباز کی ہو رہی تھی، ایک بات یاد آ گئی کہ پہلی بار جب میاں نواز شریف صاحب وزیراعظم بنے تو سوال پیدا ہوا کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنے چھوٹے بھائی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیں ۔ لیکن وزیر اعظم میاں صاحب نے کہا کہ اس پر لوگ اعتراض کریں گے کہ بڑا بھائی وزیر اعظم ہے تو چھوٹا وزیر اعلی پنجاب بن گیا ہے۔ یہ سن کر ان کے والد ماجد نے کہا کہ تم نہیں رہو گے تو شہباز کی باری آئے گی۔ والدین کے فرمانبردار بیٹے نے یہ بات مان لی۔
میاں شہباز کے اقتدار میں آزمائش کا مرحلہ پہلی بار آیا ہے اور انھوں نے پوری جرات ہمت اور بہادری کے ساتھ اس آزمائش کا مقابلہ کیا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں اور تعجب کے ساتھ دیکھ رہے ہیں یقین نہیں آتا کہ کوئی پاکستانی حکمران اس قدر درد دل رکھنے والا بھی ہوتا ہے جس کی کمر اس کا ساتھ نہیں دیتی مگر وہ سیلاب کے جواب میں اس کا مقابلہ بھی کر رہا ہے اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ بے حس اور بے دل انتظامیہ اور اس کے افسران بالا کو پہلی بار آرام دہ گھروں اور دفتروں سے زبردستی نکالا ہے ان کے ٹائی سمیت سوٹ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس پر تکلف حال میں تھے کہ باہر گھسیٹ لائے گئے اور یہ تب ممکن ہوا جب ان کا افسر خود ان سے پہلے میدان کار زار میں موجود تھا اور سیلاب زدگان کے ساتھ مل کر سیلاب کی تباہ کاریوں سے لڑ رہا تھا۔
دن رات یہی حالت ہے اور ہر طرف سیلاب اور سیلاب زدگان دکھائی دیتے ہیں جن کی بے کس اور مظلومیت ناقابل بیان ہے۔ ان کے گھر گرے نہیں ان کی پوری آبادیاں سیلابی پانی میں غائب ہو گئی ہیں کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں اور مال مویشی ختم ہو گئے ہیں۔ کسی کاشتکار اور دیہی زندگی گزارنے والے سے کوئی پوچھے تو یہی جواب ہے کہ وہ ختم ہو چکا ہے۔ جن بچیوں کے جہیز بہہ گئے کوئی ان سے پوچھے اور جن کے پھول جیسے بچے ان کے ہاتھوں سے پھسل کر ڈوب گئے ان کے دلوں کا حال نہ جانے کیا ہے۔ سیلاب کیا ہے یہ صرف دیکھا جا سکتا ہے بیان نہیں کیا جا سکتا صرف شہباز شریف ہی دیکھنے اور اس کا علاج کرنے کی ذمے داری کو برداشت کر سکتا ہے۔ اس رئیس طبقے میں سے بھی کوئی ایسا ہو سکتا ہے یہ سب خواب و خیال کی باتیں ہیں مگر خوش نصیب پاکستان کے ایک حصے میں یہ حقیقت بھی ہیں اور یہ حقیقت پھیلتی جا رہی ہے ممکن ہے یہ پاکستان کی روائت بن جائے۔ شاید!