قانون

اہل قلم اور اہل دانش بھی اب تقسیم کا نشانہ بنتے نظر آتے ہیں۔۔۔


راؤ منظر حیات September 16, 2014
[email protected]

KARACHI: ہر جانب قیامت کا انتشار ہے! ہم قومی سطح پر کسی بھی نکتہ پر اتفاق کرنے کی اہلیت سے محروم ہو چکے ہیں! سیاستدانوں پر کیا دل دکھانا! وہ تو عدم سے وجود میں آئے ہی، سادہ لوح لوگوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہیں۔ اب تو ملک کا ہر ادارہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہو چکا ہے۔ بیورو کریسی جو کسی بھی نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔

آج وہ مختلف سیاسی پارٹیوں کے ذیلی ادارے سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں! اب تو سینئر سرکاری ملازم فخر سے اظہار کرتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم سے ان کا ذاتی تعلق ہے۔ کون سا میرٹ اور کون سی ایمانداری! سب عبث ہے۔ ایسی ایسی سچی حکایتیں ہیں کہ بیان نہ کرنے پر دل پھٹتا ہے اور بیان کرنے کو جائیں تو انگلیاں لہو میں ڈبونی پڑتی ہیں۔

اہل قلم اور اہل دانش بھی اب تقسیم کا نشانہ بنتے نظر آتے ہیں۔ آپ کسی بھی کالم کے لکھنے والے کا نام پڑھ لیجیے۔ آپکو معلوم ہو جائے گا کہ تحریر کس کی تعریف کریگی اور کس کی مخالفت! الیکٹرونک میڈیا پر اکثریت اپنی غیر جانبدار حیثیت کو خیرباد کہہ چکی ہے۔ ہر دانشور کا اپنا سچ ہے۔ وہ لوگ جو قوم کو اجتماعی شعور دیتے ہیں۔ اب گروہی اور پیسے کی سیاست کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ ہر جانب لوگوں نے ماتھے پر قیمت لکھ کر لگا رکھی ہے۔ جو فریق بھی ادا کریگا، اس کے انصاف اور عظمت کا ڈنکا بجایا جائے گا۔ ایسے ایسے برگزیدہ لوگ بکے ہیں جو دیانت اور اصول کی نایاب قدروں کے نشان تھے! اب کسی سے کوئی شکوہ اور گلہ نہیں۔ ہاں! نقصان ہمارے نظام، عام آدمی اور پاکستان کے نام کو پہنچا ہے۔

مجھے طوفان تھمتا ہوا نظر نہیں آ رہا! میں نے حکومتی حلقوں کے انتہائی ذمے دار لوگوں کو آرمی چیف کے متعلق کہتے سنا ہے کہ حکومت سے ان کے تعلقات بہت خوشگوار ہیں۔ یہ سوچ انتہائی خطرناک ہے! لے دیکر، ہمارے پاس صرف ایک ادارہ بچ گیا ہے۔ اب اس میں بھی تفریق کے بیج بونے کی انتھک کوشش کی جا رہی ہے۔

اس بات کا مطلب یہ ہے کہ فوج کے چیف تو ہمارے ساتھ بالکل ٹھیک ہیں۔ اگر کوئی مسئلہ ہے تو یہ مخالفت دراصل نیچے سے کی جا رہی ہے؟ یہ باتیں کسی دشمن کی زبان سے بھی اچھی نہیں لگتیں مگر یہاں تو اب یہ پتہ نہیں چل رہا کہ کون کس کی زبان بول رہا ہے! خدارا! بولنے سے پہلے الفاظ کو تولیے! میں آنے والے چند ماہ میں بے انتہا بگاڑ دیکھ رہا ہوں۔ اور یہ سب کچھ میرٹ، ایمانداری اور جمہوریت کے نام پر ہو گا۔ لوگ1977ء کو بھول جائینگے! ایک بہت مشکل حکایتِ غم رقم ہونے والی ہے۔ ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا! معاملے کو سنبھالا جا سکتا ہے۔ آپ تسلیم کیجیے یا نہ مانیے! ایک وقت آئیگا جب وزیر اعظم کو بذات خود مذاکرات میں حصہ لینا پڑیگا۔ یہ ایک باعزت حل بھی ہو سکتا ہے۔

کیونکہ سیاسی تجربہ میں ان کے قد کاٹھ کے سیاسی قائدین تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔ براہ راست مذاکرات وہ مضبوط حل ہے جس سے کوئی فریق بھی انکار نہیں کر سکتا۔ مگر ہر فریق کی کشتی میں ایسے بھاری بھر کم پتھر ہیں جو کشتی تو کیا بڑے سے بڑے بحری جہاز کو ڈبونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بخدا! ہر لمحہ قیمتی ہے! ہر منٹ واپسی کے دروازے بند کر رہا ہے! آپ حقیقت کی آنکھ سے ہمارے معاملات کو پرکھیے۔ ہم ہر سطح پر پیہم جھوٹ کے سوداگر ہیں۔ انصاف وہ بنیاد ہوتی ہے جس سے آپ قوموں کے مردہ جسموں میں روح پھونک سکتے ہیں۔ ہمارا نظام انصاف خطرناک حد تک بگاڑ اور التواء کا شکار ہے۔ اس نظام میں ہر عنصر موجود ہے۔

اگر نہیں ہے تو بس انصاف نہیں ہے! غرضیکہ ملک کے تمام ادارے تنزل کی تصویر نظر آتے ہیں۔ مگر زندہ قومیں ہر وقت جاگتی رہتی ہیں۔ ان کے نظام بے خوف اور نڈر ہوتے ہیں۔ بوب میکڈونل(Bob Mcdonnel) 2010ء سے امریکا کی ورجینیا (Virginia) ریاست کا گورنر تھا۔ اس کا تعلق ری پبلکن پارٹی سے تھا۔ اس نے ورجینیا میں بے مثال محنت کی۔ وہ جہاں بھی جاتا تھا، سیکڑوں لوگ اس کی جھلک دیکھنے کے لیے جمع ہو جاتے تھے۔ جنوری 2014ء میں اس کے متعلق حکومتی اداروں کو یہ معلوم ہوا کہ بوب ایک تجارتی کمپنی پر خصوصی مہربانی کر رہا ہے۔ اس کمپنی کے مالک کا نام جونی ولیمز (Johnie Williams) تھا۔ یہ ایک معمولی درجہ کی ادویات اور وٹامنز بنانے کی کمپنی تھی۔ وہ تحقیقاتی ادارہ جو گورنر کے مکمل ماتحت تھا، اس نے بوب اور اس کی اہلیہ کے خلاف تحقیقات کرنا شروع کر دیں۔

گورنر کے پاس کوئی ایسا اختیار نہیں تھا کہ وہ اپنی ریاست کے تحقیقاتی ادارے پر کسی بھی طریقے سے اثر انداز ہو سکتا۔ چار ماہ کی تحقیقات میں ثابت ہو گیا کہ بوب نے جونی ولیمز سے مالی فائدہ اٹھایا ہے۔ پورے امریکا میں قیامت آ گئی۔ اخبارات، ٹی وی چینلز اور عوام میں گورنر کے خلاف ایک طوفان برپا ہو گیا۔ گورنر اور اس کی اہلیہ مورین(Maureen) دونوں کا کیس عدالت میں پیش کر دیا گیا۔ الزام تھا کہ بوب اور مورین نے تجارتی کمپنی کے مالک سے ایک لاکھ ستر ہزار ڈالر کے فائدے حاصل کیے ہیں۔ یہ پاکستانی کرنسی کے حساب سے پونے دو کروڑ روپے بنتے ہیں۔ جب یہ مقدمہ عدالت میں پیش ہوا تو صرف چھ ہفتوں میں جیوری نے اس کا فیصلہ کر ڈالا۔ گورنر اور اس کی اہلیہ پر تحفے لینے اور کرپشن کے الزامات ثابت ہو گئے۔

ستمبر کی چار تاریخ کو اس کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ بوب اور اس کی اہلیہ کو تیس سال قید کا حکم سنایا گیا۔ ورجینیا کے قانون کے مطابق یہ سزا جنوری 2015 میں شروع ہو گی۔ پونے دو کروڑ کی کرپشن، تحفے اور قرضوں نے بوب کا مستقبل برباد کر دیا۔ اب وہ اور اس کی اہلیہ اپنی زندگی کا بقیہ حصہ جیل میں گزارینگے۔ کیا پاکستان میں کسی اہم کیس کا فیصلہ چھ ہفتوں میں ہو سکتا ہے؟ کیا یہاں کسی طاقتور کو سزا ہو سکتی ہے! جواب آپکے پاس موجود ہے! پیٹرک مرسر (Patrick Mercer) 2001ء سے لندن میں نیورک (Newark) علاقہ سے M.P تھا۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کا فارغ التحصیل تھا۔ اس کے علاوہ وہ دنیا کی بہترین فوج اکیڈمی سینڈھرسٹ(Royal Military Acadamy of Sandhurst) میں بھی پڑھتا رہا تھا۔ اس نے 25 سال فوج میں گزارنے کے بعد سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔

ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد وہ کنزرویٹو پارٹی کے ٹکٹ پر نیو رک سے ایم پی منتخب ہو گیا۔ اپنے سیاسی کیریئر میں اس نے بے شمار اہم مناصب حاصل کیے۔ وہ مسلسل تین سیاسی ادوار میں Shadow minister رہا جس میں ڈیوڈ کیمران کا دور بھی شامل تھا۔2013ء میں بی بی سی کے رپورٹر نے اس کے خلاف اپنے چینل پر ایک اسٹوری چلائی۔ خبر کے مطابق مرسر نے برطانیہ کی پارلیمنٹ(House of Commons) میں فجی کی حکومت کو کامن ویلتھ (Common Wealth) میں واپس لانے کے متعلق پانچ سوالات پوچھے تھے۔ ان سوالات میں کوئی بھی قابل اعتراض بات نہیں تھی۔ یہ تمام سوالات بالکل روٹین کے سوالات تھے۔ اصل مسئلہ یہ ہوا، کہ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق مرسر نے سوالات پوچھنے کے عوض چار ہزار پاؤنڈ وصول کیے تھے جو پاکستانی چھ لاکھ روپے کے برابر ہیں۔

رپورٹ کے مطابق الزام یہ تھا کہ اس نے چار ہزار پاؤنڈ کا مالی فائدہ حاصل کرنے کے بعد یہ تمام سوالات پوچھے ہیں۔ پارلیمنٹ میں اس خبر کے نشر ہونے کے بعد ایک انکوائری کمیٹی بنا دی گئی۔ اس انکوائری کمیٹی نے چند ہفتوں میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر ڈالا۔ مرسر اپنا جرم قبول کرتے ہوئے پارلیمنٹ کی سیٹ سے مستعفی ہو گیا۔ اس کا سیاسی مستقبل ختم ہو گیا۔ اس نے اپنے غیر ذمے دارانہ روپے کی پوری قوم سے معافی مانگی مگر برطانوی سیاست کے کڑے اصولوں کے مطابق اس کی معافی کی کوئی حیثیت نہیں تھی اور وہ قبول نہیں کی گئی۔ آپ نظام کی قوت اور طاقت کا اندازہ لگائیے۔

صرف چھ لاکھ روپے وصول کرنے پر اس کا سیاسی مستقبل ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔میں اب یہی سوال آپکے سامنے رکھتا ہوں کہ کیا پاکستان کے سیاسی، انتظامی اور نظام عدل میں ایمانداری اور اس کے بعد بے لاگ احتساب کی کوئی مثال ملتی ہے؟ ہمارے ایک سابقہ امپورٹڈ وزیر اعظم نے جو پیشہ کے اعتبار سے بینکر تھے، اسٹاک ایکسچینج میں اربوں روپے کا فراڈ کیا۔ ! دو چار دن اخبارات میں شور رہا۔ پھر وہ معاملہ بالکل ٹھنڈا پڑ گیا! اب تو شائد یہ واقعہ لوگوں کی یادداشت سے بھی محو ہو چکا ہو گا۔

ہمارے ہر فوجی یا سیاسی دور میں اس طرح کے سیکڑوں واقعات موجود ہیں! مگر ہم کسی بھی طاقتور شخص سے کچھ نہیں پوچھ سکتے! ہمارے کسی ریاستی ادارے میں ہمت نہیں ہے کہ وہ کسی مضبوط شخص کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکے! ہاں اگر کوئی کمزور یا حکومت وقت کا ناپسندیدہ شخص جال میں پھنس جائے، تو اس وقت کے بادشاہ کو خوش کرنے کے لیے ہر حکومتی ادارہ اپنی بے لوث خدمات پیش کرنے کے لیے پیش پیش ہوتا ہے! کون کہتا ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے! ہمارے ملک میں اصل جرم کرپشن یا کسی قسم کی بے ضابطگی نہیں! بلکہ اصل جرم صرف اور صرف کمزور ہونا ہے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں