اقوام متحدہ کا کردار
جس میں بیٹھ کر وہ دنیا بھر کے وسائل کی بندربانٹ کرتے ہیں۔۔۔۔
KARACHI:
دوسری جنگ عظیم کی تباہی کے بعد نئے ابھرتے ہوئے امریکی سامراج کو ایک ایسے بڑے اسٹیج کی ضرورت ہوئی جس پر وہ اپنا عالمی ڈراما چلاسکے۔ چنانچہ فروری1945 کو مالٹا کے مقام پر اقوام متحدہ کے خاکے کو عملی جامہ پہنایا گیا اور 25 اپریل کو سان فرانسسکو میں لیگ آف نیشنز کے کھنڈر پر اقوام متحدہ کا ادارہ قائم کیا گیا جسے مستقبل میں سامراجی طاقتوں کے مفاداتی منصوبوں پر کام کرنا تھا۔یہ ادارہ دراصل عالمی بالادستوں کا وہ مسکن ہے۔
جس میں بیٹھ کر وہ دنیا بھر کے وسائل کی بندربانٹ کرتے ہیں۔ اگر کوئی سرکش(کمزور ملک) ان کی راہ میں روڑے اٹکاتا دکھائی دے تو یہ انھیں قواعد و ضوابط کی زنجیروں میں جکڑ لیتے ہیں۔ قوانین کی ایسی تعبیر کی جاتی ہے کہ وہ چکرا کر رہ جاتے ہیں اور انھیں اپنے آپ کو ان کے پنجوں سے چھڑانا دوبھر ہوجاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے قوانین بڑی طاقتوں کے مفادات کا گورکھ دھندا ہے جو تیسری دنیا کی سمجھ سے بالاتر ہے جو قانون ایک حالت میں ایک ملک پر لاگو ہوتا ہے وہی قانون بالکل اسی حالت میں سپرپاور کے چہیتے ملک پر لاگو نہیں ہوتا ۔ اس کی واضح مثال اسرائیل و فلسطین تنازعہ ہے۔ اسرائیل کی فلسطین پر جارحیت کے خلاف اب تک ڈھائی سو (250) کے قریب قراردادیں پیش کی گئی ہیں۔ ان میں کچھ جنرل اسمبلی نے منظور بھی کیں مگر ان میں سے کسی ایک قرارداد پر بھی اسرائیلی حکمرانوں نے عمل نہیں کیا بلکہ اس کو ڈھٹائی کے ساتھ مسترد کردیا۔
سلامتی کونسل، اقوام متحدہ کا ایک ادارہ ہے جس کے پانچ مستقل اور دس غیر مستقبل نمایندے ہوتے ہیں۔ غیر مستقل ممبر دو سال کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں جب کہ پانچ مستقل اراکین میں امریکا، روس، چین، برطانیہ اور فرانس شامل ہیں۔ ان پانچ اراکین کو یہ حق حاصل ہے کہ سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی کسی بھی قرارداد کے خلاف رائے دے دے تو وہ قرارداد مسترد ہوجاتی ہے، چاہے کونسل کے دس غیر مستقل اور باقی چار مستقل اراکین اس قرارداد کے حامی ہی کیوں نہ ہوں، ان کی اس پاور کو عرف عام میں ویٹو پاور یا حق استبداد کہتے ہیں۔ اس طرح یہ ایک انتہائی ظالمانہ حق ہے جو ان پانچ ناخداؤں کو حاصل ہے۔
یعنی ویٹو پاور جمہوریت کا قاتل ہے دوسرے معنوں میں اقوام متحدہ جمہوریت کی نفی کرتا ہے۔ آسان لفظوں میں یہ کہ جو قراردادیں ویٹو پاور ممالک کے مفادات کا ضامن ہوتی ہیں انھیں منظور کرلیا جاتا ہے اور جن قراردادوں سے ان کے نظریات اور مفادات پر زک لگنے کا اندیشہ ہوتا ہے انھیں مسترد کردیا جاتا ہے۔یہ ہے عالمی ادارہ اقوام متحدہ کی حقیقت جس پر دنیا تکیہ کر بیٹھی ہے کہ یہ دادرسی کا ادارہ ہے۔
یہ بھی المیہ ہے کہ دنیا میں 52 مسلم ممالک کی موجودگی کے باوجود سلامتی کونسل میں ایک بھی مسلمان ملک کی بطور مستقل رکن کے رکنیت نہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلم ممالک منتشر ہیں وہ آپس میں الجھے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے سے شاکی ہیں۔ اور یہی بات مغرب کے مفاد میں ہے اور مسلم ممالک اقوام متحدہ کے دست نگر ہیں۔ اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم) کے دور حکومت میں عالمی سطح پر یہ بات اٹھائی گئی تھی کہ سلامتی کونسل میں ایک مستقل رکن اسلامی دنیا سے بھی لیا جائے گا مگر وقت نے ان کے ساتھ وفا نہ کی اور وہ راستے سے ہٹا دیے گئے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 59 واں اجلاس بڑی اہمیت کا حامل رہا کہ دوران اجلاس سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کی تعداد میں اضافے اور بعض اصلاحات کی تجاویز بھی زیر بحث آئیں اور سلامتی کونسل کے لیے بھارت، جاپان، جرمنی اور برازیل کی مستقل رکنیت کا معاملہ بھی زوروں سے اٹھا تھا۔ اور ان چاروں ممالک نے ایک مشترکہ گروپ تشکیل دیا اور لابنگ کرتے رہے کہ وہ سلامتی کونسل کی نشست کے قانونی امید وار ہیں اور یہ بھی کہا گیا کہ دنیا کے غریب ترین براعظم افریقہ کو بھی سلامتی کونسل کی ایک نشست ملنی چاہیے۔ برطانیہ سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے لیے بھارت کا حمایتی ہے۔
اس مقصد کے لیے برطانیہ بھارت کے ساتھ تعاون کر رہا ہے تاکہ اسے زیادہ سے زیادہ حمایت مل سکے۔ برطانیہ کا کہنا ہے کہ بھارت 1.2بلین آبادی والا ملک ہے اور اس کی سیکیورٹی کونسل میں نمایندگی نہ ہونا جدید دنیا سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اس طرح جاپان کو برطانیہ کی حمایت نظر نہیں آرہی، بھارت خلیجی ممالک کی حمایت حاصل کرنے کا دعویٰ کر رہا ہے، چین جاپان کی مخالفت کر رہا ہے۔
الغرض سلامتی کونسل میں اصلاحات سے کئی ممالک کے مفادات وابستہ ہیں اور ان میں بہت سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ سلامتی کونسل میں توسیع کے خواہش مند ہیں تاکہ ان کی طاقت کو جلابخشی ملے۔ پاکستان اور اٹلی اختیارات کے نئے مراکز قائم کرنے کے مخالف ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان کا موقف ہے کہ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کے بجائے غیر مستقل ارکان کی تعداد میں اضافہ کیا جانا چاہیے تاکہ ہر ملک کے لیے اس کی رکنیت کا حصول ممکن ہوسکے۔ پاکستان کی جائز کوشش ہے کہ بھارت کو سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت نہ مل سکے۔ خیال رہے کہ اقوام متحدہ کے45 رکن ممالک کا اصولی موقف ہے کہ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کے بجائے غیر مستقل ارکان کی تعداد میں اضافہ کیا جانا چاہیے تاکہ ہر ملک کے لیے اس کی رکنیت کا حصول ممکن ہوسکے۔
واضح ہو کہ اقوام متحدہ کی جانب سے نومبر 2003 میں نامزد کردہ 16 رکنی اعلیٰ سطحی پینل سلامتی کونسل کے رکن ممالک کی تعداد 15 سے بڑھاکر24 کرنے کی تجویز پر غور کر رہا ہے جس کے مطابق سلامتی کونسل 3 درجوں پر مشتمل ہوگی۔ اول درجہ ''سلامتی کونسل کے 5 مستقل ارکان پر مشتمل ہوگا۔ جنھیں ''ویٹو پاور'' حاصل رہے گا۔ دوم درجہ ''اس میں 7 یا 8 نیم مستقل علاقائی ارکان ہوں گے جن کا انتخاب 4 یا 5 سال کی قابل تجدید مدت کے لیے ہوگا تاہم ان کو ''ویٹو'' کا حق حاصل نہیں ہوگا۔ سوم درجہ ''11 یا 12 ارکان شامل ہوں گے جن کا انتخاب 2 سال کی ناقابل تجدید مدت کے لیے ہوگا۔
واضح یہ ہوا کہ غیر مستقل ارکان ویٹوپاور کے اختیار سے محروم ہیں اور عالمی انصاف ویٹو پاور کے حامل ممالک کے رحم و کرم پر ہے جو اکثریتی فیصلے کو بلڈوز کرتے رہتے ہیں۔ اس تناظر میں اقوام متحدہ بھی حقیقی انصاف و جمہوریت سے محروم ہے۔ اس غیر منصفانہ صورت میں مستقل رکنیت میں اضافہ اور درجہ بندی کسی لحاظ سے عالمی انصاف اور عالمی جمہوریت کے تقاضے پورے نہیں کرتی اور نہ ہی اقوام عالم کو متحد کرنے کا جواز فراہم کرتی ہے، اگر غور کیا جائے تو درجہ بندی سے اقوام عالم کو گروہ بندی میں تقسیم کرنے کا باعث بنے گا۔ اس طرح عالمی سطح پر رسہ کشی کا دور شروع ہونے کا واضح امکان ہے۔
اگر دیگر ممالک سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کا قانونی حق رکھتے ہیں تو یہ حق مسلم ممالک بھی رکھتے ہیں۔ پاکستان مسلم امہ کی قیادت کا اہل ہے۔ پاکستان کو بھی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت سے مسلم امہ ایک مستقل نشست دی جائے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں صرف مسلم ممالک میں انسان اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کیوں نظر آتی ہیں؟ اقوام متحدہ کے بینر تلے سلامتی کونسل کی مستقل نشستوں میں توسیع اور درجہ بندی وہ عوامل ہیں جن سے مسلم امہ کو بلاکوں کی صورت میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
دنیا کو آج مشترکہ مسائل کے مشترکہ حل کے لیے زیادہ موثر طریقہ کار اختیار کرنے کی ضرورت ہے، دنیا آج ایک دوراہے پر پہنچ گئی ہے اور اگر دنیا بھر کے رہنما آج ایک سمجھوتے پر نہ پہنچ سکے تو تاریخ ان کے بارے میں انتہائی سخت فیصلہ صادر کرے گی، کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ اقوام متحدہ کا کردار ویٹو پاور کے حامل پانچ مغربی ممالک کی حاشیہ برداری کے سوا اور کچھ نہیں رہ گیا ہے۔ اقوام متحدہ اپنی افادیت کھو چکی ہے اور اس کا وجود ترقی پذیر ممالک پر بوجھ ہے اور اس بوجھ کا اتارا جانا ضروری ہے تاکہ عالمی امتیازی عصبیت سے نجات مل سکے۔
سلامتی کونسل کی تحلیل اور اقوام متحدہ کے جمہوری کردار کا تعین اس لیے ضروری ہے کہ فاتح اور مفتوح کا تاثر ختم ہوسکے، اقوام متحدہ کی عزت و حرمت بحال ہوسکے، جو امتیازی طرز عمل اور حکمت عملی کے سبب مجروح ہوچکی ہے، اقوام عالم میں آزادی، خودمختاری اور وقار کے ساتھ زندہ رہنے کا حوصلہ پیدا ہوسکے، ویٹو کے خاتمے سے آمریت کو ختم کرکے جمہوریت قائم کی جاسکے تاکہ اقوام متحدہ جمہوری انداز سے عدل و انصاف پر مبنی نظام قائم کرسکے، مفادات کے حصول کے لیے جابرانہ عمل کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔ جنگ برائے امن کے استحصالی نعرے کو ختم کرکے عالمی ادارے کے زیر سایہ جارحیت کے عمل کو ختم کیا جاسکے۔