دہشت گردی کے خلاف عوام کا کردار
’’ہماری حکمت عملی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ایک مختلف زاویے سے دیکھتی ہے،۔۔۔
تقریباً30000 شہریوں اور سیکیورٹی فورسز کی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے بعد آخرکار قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک پیج پر پہنچی تاکہ جبرواستبداد کی قوتوں سے برسر پیکار ہوکر اپنے ملک کو محفوظ بنایا جاسکے اور بنیاد پرستی، انتہا پسندی اور عدم برداشت کی فضا کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا جائے کیوں کہ یہ وہ ناسور ہیں جس کا اس وقت پوری مسلم دنیا سامنا کر رہی ہے۔
ان تمام چیزوں نے ہمارے مذہب اسلام جو کہ امن، سلامتی اور محبت کا داعی ہے کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اور غیر مسلم طاقتیں اس سے بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ آج پوری مسلم امہ دنیا بھر میں اپنی جگ ہنسائی کا سبب بن رہی ہے جس میں اس کے اپنے اعمال اور نادانیاں شامل ہیں اور مسلمانوں کا یہ امیج اب ہر جگہ پیش کیا جا رہا ہے کہ ان کو فرقہ واریت کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خلاف آسانی سے برسر پیکار کرایا جاسکتا ہے اور یہ کہ وہ مبینہ طور پر اپنی بات دہشت گردی کے زور سے منوانا چاہتے ہیں۔ جب کہ حقیقتاً اسلام اس بات کا قطعی درس نہیں دیتا بلکہ یہ تو ہر طرف محبت اور امن و سلامتی کا پرچار کرتا ہے۔
دو مہینے پہلے 16 اور 17 جولائی کی درمیانی شب سیکیورٹی فورسز نے ایک طویل اور جرات مندانہ مقابلے کے بعد دو مبینہ دہشت گردوں کو ہلاک کردیا، اس جھڑپ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ایک جوان نے جام شہادت نوش کیا جب کہ کئی زخمی بھی ہوئے۔ ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کے بارے میں تحقیقات سے پتہ چلا کہ وہ ہائی ویلیو ٹارگٹ تھے جو کہ وزیر اعظم کی رائے ونڈ کی رہائش گاہ پر حملہ کرنا چاہتے تھے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ان میں سے ایک دہشت گرد کئی دہشت گرد حملوں میں ملوث نکلا جن میں سے ایک بابا فرید گنج شکر کے مزار پر ہونے والے حملوں میں بھی ملوث تھا۔ گاؤں کے لوگوں نے اس دہشت گرد کو اس کی آبائی رہائش گاہ پاک پتن اور آباؤ اجداد کی جگہ اوکاڑہ میں دفن کرنے کی اجازت نہ دی۔ اس کے علاوہ کسی مذہبی لیڈر نے اس کی نماز جنازہ پڑھانے سے بھی انکار کردیا۔ بعد ازاں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس کی آخری رسومات ادا کرنے کے بعد اس کو نامعلوم مقام پر دفن کردیا۔
یہ نفرت اور ذلت کی وہ علامت تھی جو ان دیہاتیوں نے رقم کی تاکہ پوری قوم کے لیے ایک شاندار روایت قائم کرسکے اور سب کو متحد کرنے کا پیغام دے سکیں اور اس قوم کی اس کنفیوژن کو دور کرنے میں مدد مل سکے جو طویل عرصے سے اس مخمصے کا شکار ہے کہ کیا یہ جنگ ان کی اپنی جنگ ہے یا ان پر مسلط کی گئی ہے۔
اس مخمصے اور کنفیوژن نے ساری سیاسی جماعتوں اور قوم کو منقسم رکھا کہ کیا واقعی ان دہشت گردوں کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے یا پھر ان سے مذاکرات کرکے حکومت کی رٹ بحال کی جائے، سب کو یہ کنفیوژن تھی کہ ان گروپوں کو من مانا مذہبی نظام نافذ کرنے کی اجازت دے دی جائے تاکہ سب کو جبراً اپنی من مانی تشریح ماننے پر مجبور کیا جاسکے۔ اب جب کہ ہماری بہادر افواج نے اپنی جد وجہد کا آغاز کردیا تو محب وطن پاکستانی اس ایکشن کی حمایت کرتا نظر آرہا ہے جس کی یقینا ہماری افواج کو ضرورت ہے تاکہ عوام کی مورل سپورٹ کے ذریعے اس مسئلے کو اپنی منطقی منزل تک پہنچایا جاسکے۔ امریکی ڈپارٹمنٹ آف اسٹیٹ دہشت گردی کے خلاف اپنی حکمت عملی کے بارے میں پالیسی ڈرافٹ میں لکھتا ہے۔
''ہماری حکمت عملی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ایک مختلف زاویے سے دیکھتی ہے، شروع ہی سے یہ ہتھیاروں اور آئیڈیاز کی جنگ ہے۔ صرف یہی نہیں کہ ہم اپنے دہشت گرد دشمنوں کے خلاف جنگ کرنے میں مصروف ہیں بلکہ ہم آزادی اور انسانی عظمت کو تقویت دینے کی بھی کوشش کرتے ہیں تاکہ دہشت گردوں کے اپنے مسلط کردہ عزائم کو ناکام بنایا جاسکے۔ دہشت گردی کو ناکام بنانے کے لیے ملکی طاقت اور سیاست کا کردار بہت اہم ہے۔
نہ صرف یہ کہ ہم اپنی فوجی اور عسکری طاقت کا استعمال کریں بلکہ ہمیں ذہانت کے ساتھ سفارتی اور قانون نافذ کرنے والی سرگرمیوں سے اپنے ملک کا دفاع کرنا اور اپنے ڈیفنس کو مضبوط کرنا ہے تاکہ دہشت گردوں کی کارروائیوںکو ختم کردیا جائے اور اپنے دشمنوں کے لیے دیر تک بچتے رہنا ناممکن بنایا جائے۔ ہم نے اپنی پرانی روایتی حکمت عملی جس میں صرف عسکری طاقت کا استعمال واحد آپشن تھا اب تبدیل کرلی ہے۔''
یہ پالیسی ساز بیان واضح طور پر عوام کی مورل سپورٹ کی اہمیت پر دلالت کرتا ہے، یہ مدد اور حوصلہ افزائی کسی بھی سیکیورٹی فورس کے کامیاب ہونے کے لیے انتہائی ضروری ہے کیوں کہ یہ جنگ عام مجرمانہ سرگرمیوں سے نمٹنے کی روایتی جنگ سے بالکل مختلف ہے۔ لہٰذا ہر ملکی شہری پر یہ فرض ہے کہ ہماری سیکیورٹی فورسز کو مضبوط کرنے کے لیے ان دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے بارے میں معلومات فراہم کرے اور ایسے دہشت گردوں کے لیے اپنی نفرت کا اظہار کرے تاکہ ایسے لوگوں اور ان کے قابل نفرت اور شرانگیز اعمال جن سے ملک اور مذہب دونوں ہی بدنام ہوتے ہیں کا محاسبہ کیا جا سکے اور ان کو اکیلا کیاجا سکے۔ ہم سب مل کر جبر و استبداد کی قوتوں، عدم برداشت اور جرم کی طاقتوں کے خلاف متحد ہوجائیں، چاہے یہ قوتیں سیاست میں ہوں یا پہاڑوں کی غاروں میں۔
یہ چاہے وزیرستان کا آپریشن ہو یا کراچی آپریشن ہمارے سیکیورٹی ادارے ہمارے تعاون کے منتظر ہیں تاکہ قوم کو یرغمال بنانے والے گروہوں سے حقیقی آزادی مل سکے اور ہم اپنے ملک کی کمزور ہوتی ہوئی بنیادوں کو دوبارہ مضبوط کرسکیں۔ ان تمام دیہاتیوں کو خراج تحسین جنھوں نے قوم کے لیے ایک قابل تقلید مثال قائم کی ایک ایسی مثال جس پر عمل کرکے ہم سب اپنے شہر، دیہاتوں اور محلوں کو محفوظ بناسکیں اور اپنے ملک اور مذہب کو امن سے محبت کرنے والی طاقت کے طور پر باور کراسکیں۔ یہ طویل جنگ پوری قوم کے اتحاد کے بغیر قطعی طور پر نہیں جیتی جاسکتی اور یہ اتحاد و یگانگت ہر جگہ نظر آنا انتہائی ضروری ہے۔