ایک بابا…بڑا پیارا

اب جو میزبان تشریف لائے تو بچہ جلدی سے دبک کر میزبان کے پاس جاکر بیٹھ گیا۔۔۔


Shehla Aijaz September 16, 2014
[email protected]

اشفاق احمد ایک بڑے مصنف اور ڈرامہ نگار تھے لیکن جس حیثیت سے مجھے وہ ہمیشہ پسند رہے ہیں وہ ہے ان کا محبت کا وہ انداز جس میں وہ مزے مزے سے بڑے کام کی باتیں کر جاتے تھے۔ ان کا سمجھانے کا انداز اتنا آسان اور میٹھا ہوتا تھا کہ سننے والے کو اس پیغام کی سختی کا پتا ہی نہ چلتا تھا اور وہ شیرینی کی طرح جیسے حلق سے اتر جاتی تھی۔ ان کا ایک واقعہ کچھ اس طرح سے ہے کہ غالباً وہ فرانس کے کسی بڑے نواب کے یہاں مدعو تھے۔

وہ بڑے تپاک سے ان سے ملے بڑی عزت دی انھیں لیکن ان کا ایک بچہ جو یقیناً خاصا خود سر اور ضدی تھا شاید لاڈ پیار اور دولت نے اسے منہ زور کردیا تھا۔ اشفاق صاحب کو تنگ کرتا رہا وہ اخلاقاً بچے کو پیار سے چمکارتے رہے لیکن جناب بچہ تو کھلتا ہی گیا۔ میزبان صاحب اسے اپنے بچے کی محبت اور مہمان کا اخلاق سمجھ کر نظرانداز کرتے رہے خیر کسی کام سے یا فون سننے وہ جوں ہی کمرے سے باہر نکلے۔ اشفاق احمد نے بچے کو ذرا آنکھیں دکھائیں اور اپنے انداز میں اسے تنبیہ کی جس سے بچہ فوراً صحیح ہوگیا۔

اب جو میزبان تشریف لائے تو بچہ جلدی سے دبک کر میزبان کے پاس جاکر بیٹھ گیا۔ ان کا اس واقعے کو بیان کرنے کے بعد کہنا تھا کہ بچہ بچہ ہوتا ہے یہ درست ہے کہ ہر کسی کو اپنے بچے سے بہت محبت ہوتی ہے اور کرنا بھی چاہیے لیکن پیار محبت کے ساتھ ساتھ بچے کے ساتھ ذرا سختی سے بھی پیش آنا چاہیے غلط بات پر اسے سرزنش بھی کرنی چاہیے تاکہ اسے اس بات کا احساس ہوکہ یہ غلط ہے اور اگر میں نے غلط بات کی تو اس پر میری پکڑ بھی ہوسکتی ہے اور پٹائی بھی لگ سکتی ہے، اشفاق صاحب کا یہ واقعہ محض ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ ہم سب کے لیے سبق ہے کہ نہ صرف بچے بلکہ بڑوں کو بھی غلط بات پر ایک دوسرے کی سرزنش نہیں تو کم ازکم احساس ضرور دلانا چاہیے ورنہ ایک غلط بات روایت بھی بن سکتی ہے۔

ہم بہت سی باتیں نظرانداز کردینے کے عادی ہیں، اور فطرتاً اب ہم اس عادت کے ایسے پکے ہوگئے ہیں کہ ہمارے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی یا یوں کہہ لیں کہ ہماری کھال کچھوے جیسی ہوگئی ہے جتنا جی چاہے زور لگا لے۔ ہم تو ان کے خول میں ایسے بند ہوگئے ہیں کہ اب کسی کی نہیں سننی۔ اس برس 14 اگست ہمارے ملک کے خصوصاً بچوں کی ایسی گزری کہ یہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ 14 اگست کے دن سے ہی یوم انقلاب کی ابتدا کیوں کی گئی تھی۔

بچپن سے 14 اگست کے حوالے سے سبز جھنڈیاں دھاگے میں پرو کر بڑے جوش و خروش سے گھر سجایا کرتے تھے مجھے یاد ہے کہ میرے والد مرحوم نے بھی ایک بار ہمارے ساتھ یہ کام خاصی دلچسپی سے انجام دیا تھا۔ ہم رات کو دیے بھی روشن کرتے تھے بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی گئیں لیکن بچے ہر دور میں ایک جیسے ہی رہے ۔کمپیوٹر کے اس تیز دور میں بھی 14 اگست کے حوالے سے جھنڈیاں، بینر، ٹوپیاں، بیجز وغیرہ کی خریداری اور سجاوٹ برقرار ہے لیکن 2014 کا 14 اگست تو جیسے اشفاق احمد کے اس نواب کے ضدی اور ناراض بچے کی وجہ سے پھیکا سا رہا۔

یہ پھیکا پن بہت سے لوگوں کے لیے ایک گرم بازار بھی ثابت ہوا جہاں روز بھاؤ تاؤ میں چڑھاؤ ہی دیکھنے کو ملا۔ الزامات کا ایک بڑا ریلا تھا جس نے بہت سے اجلے لباس والوں پر داغ بھی ڈال دیے، اسلام آباد والوں کو مفت میں کنسرٹس دیکھنے کو ملے اور پولیس والوں کے پیچھے بھاگنے والوں کو بھی خوب تفریح ملی، ایک جانب ڈاکٹر طاہر القادری جو مذہبی لحاظ سے نمبر ون قرار دیے جاتے ہیں تو دوسری جانب عمران خان اپنی جوشیلی تقریروں اور میوزک کے رلے ملے رنگ کے ساتھ بھرپور انداز میں دکھائی دیے۔ یہ دو مختلف سمتوں کے مسافر ہیں ایک مذہبی جوش و جنون سے بھرے تو دوسرے جمہوریت کے ماڈرن رنگ سے جڑے۔ کہنے کو تو ان دونوں حضرات کی جماعتیں کزن جماعتیں ٹھہرائی گئی ہیں۔

کزنز کو ایک دوسرے کو سرزنش تو ضرور کرنی چاہیے مثلاً ایک کزن دوسرے کزن کو میوزک بجانے اور گانوں سے پرہیز کرنے کو کہے کیونکہ اس کزن کا تعلق مذہب سے جڑا ہے تو دوسرے کزن کو بھی پہلے کزن سے درخواست کرنی چاہیے کہ اتنے دنوں تک کارکنان اور خاص کر خواتین کارکنان بارش اور دھوپ میں برقعوں میں ملبوس اتنی صعوبتیں برداشت کر رہی ہیں ان کو کچھ عرصے کے لیے چھٹی پر بھیج دیا جائے۔ سننے میں بہت کچھ آیا ہے لیکن پھر بھی اخلاقاً ہی سہی ایک دوسرے کو احساس تو ضرور دلانا چاہیے آخر اتنے عرصے ایک ساتھ گزارا کیا ہے۔ یا ہم سب کو سرزنش کے لیے ایک بابے کی ضرورت ہے۔

اشفاق احمد کی برسی بھی گزر گئی 2004 میں وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے ان کی بہت سی باتیں بہت سی نصیحتیں آج بھی دل پر نقش ہیں۔ ہماری قوم کو ایسے شفیق اور پیارے سمجھانے والے بابوں کی بہت ضرورت ہے۔ وہ نئی تہذیب کے خلاف نہ تھے لیکن اپنی روایات کو بھلا دینے کے خلاف تھے۔ ہمیں نئی راہوں پر چلنے کی ضرورت ہے یا نہیں لیکن ہماری پرانی راہیں اب بھی کچی اور ناپختہ ہیں، آنے والا کل یہ پیغام تو دے رہا ہے کہ ہمیں ہمیشہ محنت کرنے کی ضرورت ہے بغیر محنت کیے نہ تو ملک مضبوط ہوتے ہیں اور نہ ہی قومیں سنورتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں