سیلاب زدگان کی مدد کیجیے
بھارت ایک طرف تو پاکستان کو صحرا بنانے پر تلا ہوا ہے تو دوسری طرف مون سون کی بارشوں سے۔۔۔
بھارت نے بغیر اطلاع کے پاکستان کے دریاؤں میں اپنے ڈیمز سے اضافی پانی چھوڑ دیا جس کی وجہ سے ملک میں سیلاب آچکا ہے جانی ومالی نقصانات کا تسلسل جاری ہے ، سیلاب پنجاب میں تباہی پھیلانے کے بعد اب سندھ کی جانب بڑھ رہا ہے مگر ایک ہم ہیں کہ آموں کے تحائف بھیج کر خیرسگالی جذبات کا اظہارکر رہے ہیں کیونکہ ہمارے نزدیک تو سیلاب ہر سال آجاتا ہے، ہم تو سیلاب کے عادی ہوچکے ہیں مگر ہمیں تو بھارت کو ہر صورت منانا ہے۔
ہماری جمہوریت کے چیمپئن حکمران ہوں یا اپوزیشن، بھارتی حکمرانوں کے دل جیتنا چاہتی ہے مگر بھارت کی جانب سے مسلسل میں نہ مانوں والی کیفیت ہی نظر آتی ہے۔ بھارت سندھ طاس معاہدے کے مطابق اس بات کا پابند ہے کہ اگر وہ سیلابی کیفیت پیدا ہونے پر پانی کے رخ کو پاکستانی علاقے کی طرف موڑے گا تو اس کی پیشگی اطلاع کم ازکم ایک ہفتے پہلے دیگا تاکہ پاکستانی حکام اپنے بچاؤ کی تراکیب کرلیں مگر آج تک بھارت کی طرف سے اس معاہدے کی پاسداری نہ ہوسکی اور نہ ہی ہم موثر طریقے سے اپنے مقدمے کو دنیا کے سامنے اور عالمی عدالت میں پیش کرسکے ہمارے کمزور موقف کی وجہ سے ہی بھارت کشن گنگا ڈیم بنانے میں کامیاب ہوا ہے۔
بھارت ایک طرف تو پاکستان کو صحرا بنانے پر تلا ہوا ہے تو دوسری طرف مون سون کی بارشوں سے جب پانی کی مقدار بڑھ جاتی ہے تو اس کا رخ بغیر اطلاع کے پاکستانی علاقے کی طرف کردیتا ہے جس کی وجہ سے کھڑی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں عمارتیں گر جاتی ہیں لاکھوں لوگ بے گھر ہوجاتے ہیں غرض یہ کہ سیلابی ریلا خس و خاشاک کی طرح ہر چیز کو بہا کر لے جاتا ہے جس کی وجہ سے ملک کی معیشت کو اربوں کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے مگر ہم آج تک اس ایشو کو عالمی سطح پر اٹھانے سے قاصر ہیں اس وقت پنجاب بدترین سیلابی کیفیت سے گزر رہا ہے تین چار سالوں سے متواتر سیلابوں سے متاثر ہو رہا ہے۔
2008 میں مون سون بارشوں سے آنیوالا سیلاب ہو یا 2010 کا تاریخی بدترین سیلاب جس نے ملک کے بیشتر علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2010 کے سیلاب سے اتنے لوگ متاثر ہوئے تھے کہ ان کی تعداد 2004 کے بحرہند کے سونامی 2005 کے بالا کوٹ کے زلزلے اور 2006 کے ہیٹی زلزلے کے مجموعی متاثرین سے بھی زیادہ تھی اور اس وقت بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے تقریباً پورا پنجاب متاثر ہوا ہے اور اب یہ آفت سندھ کی طرف بڑھ رہی ہے مگر ان قدرتی آفتوں میں انسانی کوتاہی کا عمل دخل زیادہ ہے کیونکہ ہمارے پاس پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ذرایع نہیں ہیں ہم نے ڈیموں کی تعمیر کو بھی سیاست کی نذر کردیا ہے ڈیم نہ بننے سے اور دریاؤں، نہروں کی بروقت صفائی نہ کرنے سے لاکھوں لوگ متاثر ہوتے ہیں۔
ویسے تو پاکستان میں وفاق کی سطح پر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی موجود ہے اور ہر صوبے میں PDMA موجود ہے مگر جب ملک اور صوبے ان قدرتی آفات سے کم اور اپنے ہاتھوں تباہی سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں تو ان اداروں کی کارکردگی صفر نظر آتی ہے۔ گزشتہ تین چار برسوں سے متواتر بھارت کی طرف سے پانی چھوڑا جا رہا ہے مون سون کی بارشیں بھی زیادہ ہو رہی ہیں مگر ہم نے ان آفتوں سے نمٹنے کے لیے کوئی سدباب نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ اس سیلاب نے پورے ملک کو متاثر کیا ہے ۔
سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا زمینی رابطہ منقطع ہے ہزاروں مویشی پانی میں بہہ گئے ہیں سیکڑوں جانیں تلف ہوگئیں مکانات تباہ ہوگئے ہمارے وزیر اعظم اس صورتحال میں جگہ جگہ دوروں پر ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نام نہاد ہمدردی کرنے بڑے بڑے بیانات دینے ایک دوسرے پر رسہ کشی کرنے اور الزامات کی بوچھاڑ کرنے کی بجائے عملی طور پر ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے بحالی کے کام جلد از جلد مکمل ہوں۔
آزمائش کے وقت میں پاک فوج جس جانفشانی اور تندہی سے اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے ۔اس نے پاکستانیوں کے دل موہ لیے ہیں نہ صلے کی تمنا نہ ستائش کی پرواہ نہ بلند بانگ دعوے نہ ہی فضول باتیں صرف اور صرف کام۔ پاک فوج کے پیش نظر اس وقت صرف اور صرف متاثرہ لوگوں کی بحالی ہے جس کے لیے وہ دن رات لگے ہوئے ہیں۔ پاک فوج کے سپاہی جس طرح ہر موڑ پر لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں یہ ان لوگوں کے لیے مثال ہے جو پارلیمنٹ کے اندر باتیں بناتے ہیں۔ جمہوری اداروں کی پاسداری کا دعویٰ کرنیوالے اس صورتحال میں کتنا عوام سے قریب ہیں یہ سب کے سامنے ہے۔
میڈیا پر ہر جگہ متاثرہ افراد اپنی شکایتیں دہرا رہے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن میں سے کوئی رکن اکثر جگہوں پر دکھ کا درماں کرنے نہیں آیا ہاں بیان بازیوں میں سب ایک دوسرے پر بازی لے جانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس سیلاب کے ذمے داران پہلے بھی حکومت کے منظور نظر تھے اور آج بھی ہیں کیونکہ سیلاب کی بے انتہا تباہی کا اصل ذمے دار محکمہ آب پاشی ہے۔
ان کی نااہلی بلکہ اس سے زیادہ بددیانتی ہے ملک کو اس صورتحال میں مبتلا کیا ہے اگر 2010 کے ذمے داروں کو کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سزا دے دی جاتی تو آج ہم 2014 میں ہونے والی تباہی کو کم کرسکتے تھے ناقص میٹریل کا استعمال عام سی بات ہے۔ دریاؤں کے کناروں پر بنے حفاظتی بندوں کی ہر سال تعمیر کی جاتی ہے مگر ہر سال سیلاب کا پانی اسے بہا کر لے جاتا ہے اگر اس کی جگہ ہم نئے ڈیم بنا لیتے تو سیلاب کا پانی ذخیرہ کیا جاسکتا تھا اور ہم بہت سے فوائد اٹھاسکتے تھے مگر وہ فوائد ملک و قوم کے لیے ہوتے مگر ذاتی نہیں ہوتے اور یہی وجہ ہے کہ ہم لاکھوں کیوسک پانی سمندر کی نذر کردیتے ہیں اور دوسری طرف میدانی علاقے صحرا بنتے جا رہے ہیں۔
اس وقت ملک دہری آزمائش میں گھرا ہوا ہے ایک طرف سیلابی ریلے نے ملک کو متاثر کیا ہے تو دوسری طرف احتجاجی دھرنوں نے بھی سیلابی کیفیت پیدا کی ہوئی ہے۔ قدرت نے ایک موقعہ دیا ہے کہ دھرنوں اور انقلابی مارچوں سے نکل کر عوام کے سامنے اپنی کارکردگی پیش کریں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے مگر افسوس عمران اور طاہر القادری ایسے نازک حالات میں بھی دھرنوں کو ختم نہیں کر رہے بلکہ مزید اپنے موقف پر ڈٹ گئے ہیں۔
یاد رکھیں یہ ملک اور عوام میں تو سیاست چلتی رہے گی اس لیے سب سے پہلے پاکستان کا سوچیں قدرت نے جس آزمائش میں پنجاب کے عوام کو ڈالا ہے اس سے نکلنے کے لیے تمام سیاسی پارٹیاں سول سوسائٹی این جی اوز سب کو ایک ہوکر بحالی کے کام کو دیکھنا پڑے گا اس لیے ہماری عرض ہے کہ اس آفت کو سیاست کے لیے استعمال نہ کریں بلکہ جس طرح جمہوریت کے لیے پارلیمنٹ میں سب ایک ہوئے ہیں اسی طرح سیلاب سے متاثر ہونے والے عوام کی بحالی کے لیے بھی سب اختلافات بھلاکر ایک ہوجائیں۔ دھرنے ختم کریں اور اپنے اپنے علاقوں میں جاکر عوام کے لیے کام کریں۔
ہماری جمہوریت کے چیمپئن حکمران ہوں یا اپوزیشن، بھارتی حکمرانوں کے دل جیتنا چاہتی ہے مگر بھارت کی جانب سے مسلسل میں نہ مانوں والی کیفیت ہی نظر آتی ہے۔ بھارت سندھ طاس معاہدے کے مطابق اس بات کا پابند ہے کہ اگر وہ سیلابی کیفیت پیدا ہونے پر پانی کے رخ کو پاکستانی علاقے کی طرف موڑے گا تو اس کی پیشگی اطلاع کم ازکم ایک ہفتے پہلے دیگا تاکہ پاکستانی حکام اپنے بچاؤ کی تراکیب کرلیں مگر آج تک بھارت کی طرف سے اس معاہدے کی پاسداری نہ ہوسکی اور نہ ہی ہم موثر طریقے سے اپنے مقدمے کو دنیا کے سامنے اور عالمی عدالت میں پیش کرسکے ہمارے کمزور موقف کی وجہ سے ہی بھارت کشن گنگا ڈیم بنانے میں کامیاب ہوا ہے۔
بھارت ایک طرف تو پاکستان کو صحرا بنانے پر تلا ہوا ہے تو دوسری طرف مون سون کی بارشوں سے جب پانی کی مقدار بڑھ جاتی ہے تو اس کا رخ بغیر اطلاع کے پاکستانی علاقے کی طرف کردیتا ہے جس کی وجہ سے کھڑی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں عمارتیں گر جاتی ہیں لاکھوں لوگ بے گھر ہوجاتے ہیں غرض یہ کہ سیلابی ریلا خس و خاشاک کی طرح ہر چیز کو بہا کر لے جاتا ہے جس کی وجہ سے ملک کی معیشت کو اربوں کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے مگر ہم آج تک اس ایشو کو عالمی سطح پر اٹھانے سے قاصر ہیں اس وقت پنجاب بدترین سیلابی کیفیت سے گزر رہا ہے تین چار سالوں سے متواتر سیلابوں سے متاثر ہو رہا ہے۔
2008 میں مون سون بارشوں سے آنیوالا سیلاب ہو یا 2010 کا تاریخی بدترین سیلاب جس نے ملک کے بیشتر علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2010 کے سیلاب سے اتنے لوگ متاثر ہوئے تھے کہ ان کی تعداد 2004 کے بحرہند کے سونامی 2005 کے بالا کوٹ کے زلزلے اور 2006 کے ہیٹی زلزلے کے مجموعی متاثرین سے بھی زیادہ تھی اور اس وقت بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے تقریباً پورا پنجاب متاثر ہوا ہے اور اب یہ آفت سندھ کی طرف بڑھ رہی ہے مگر ان قدرتی آفتوں میں انسانی کوتاہی کا عمل دخل زیادہ ہے کیونکہ ہمارے پاس پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ذرایع نہیں ہیں ہم نے ڈیموں کی تعمیر کو بھی سیاست کی نذر کردیا ہے ڈیم نہ بننے سے اور دریاؤں، نہروں کی بروقت صفائی نہ کرنے سے لاکھوں لوگ متاثر ہوتے ہیں۔
ویسے تو پاکستان میں وفاق کی سطح پر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی موجود ہے اور ہر صوبے میں PDMA موجود ہے مگر جب ملک اور صوبے ان قدرتی آفات سے کم اور اپنے ہاتھوں تباہی سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں تو ان اداروں کی کارکردگی صفر نظر آتی ہے۔ گزشتہ تین چار برسوں سے متواتر بھارت کی طرف سے پانی چھوڑا جا رہا ہے مون سون کی بارشیں بھی زیادہ ہو رہی ہیں مگر ہم نے ان آفتوں سے نمٹنے کے لیے کوئی سدباب نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ اس سیلاب نے پورے ملک کو متاثر کیا ہے ۔
سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا زمینی رابطہ منقطع ہے ہزاروں مویشی پانی میں بہہ گئے ہیں سیکڑوں جانیں تلف ہوگئیں مکانات تباہ ہوگئے ہمارے وزیر اعظم اس صورتحال میں جگہ جگہ دوروں پر ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نام نہاد ہمدردی کرنے بڑے بڑے بیانات دینے ایک دوسرے پر رسہ کشی کرنے اور الزامات کی بوچھاڑ کرنے کی بجائے عملی طور پر ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے بحالی کے کام جلد از جلد مکمل ہوں۔
آزمائش کے وقت میں پاک فوج جس جانفشانی اور تندہی سے اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے ۔اس نے پاکستانیوں کے دل موہ لیے ہیں نہ صلے کی تمنا نہ ستائش کی پرواہ نہ بلند بانگ دعوے نہ ہی فضول باتیں صرف اور صرف کام۔ پاک فوج کے پیش نظر اس وقت صرف اور صرف متاثرہ لوگوں کی بحالی ہے جس کے لیے وہ دن رات لگے ہوئے ہیں۔ پاک فوج کے سپاہی جس طرح ہر موڑ پر لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں یہ ان لوگوں کے لیے مثال ہے جو پارلیمنٹ کے اندر باتیں بناتے ہیں۔ جمہوری اداروں کی پاسداری کا دعویٰ کرنیوالے اس صورتحال میں کتنا عوام سے قریب ہیں یہ سب کے سامنے ہے۔
میڈیا پر ہر جگہ متاثرہ افراد اپنی شکایتیں دہرا رہے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن میں سے کوئی رکن اکثر جگہوں پر دکھ کا درماں کرنے نہیں آیا ہاں بیان بازیوں میں سب ایک دوسرے پر بازی لے جانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس سیلاب کے ذمے داران پہلے بھی حکومت کے منظور نظر تھے اور آج بھی ہیں کیونکہ سیلاب کی بے انتہا تباہی کا اصل ذمے دار محکمہ آب پاشی ہے۔
ان کی نااہلی بلکہ اس سے زیادہ بددیانتی ہے ملک کو اس صورتحال میں مبتلا کیا ہے اگر 2010 کے ذمے داروں کو کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سزا دے دی جاتی تو آج ہم 2014 میں ہونے والی تباہی کو کم کرسکتے تھے ناقص میٹریل کا استعمال عام سی بات ہے۔ دریاؤں کے کناروں پر بنے حفاظتی بندوں کی ہر سال تعمیر کی جاتی ہے مگر ہر سال سیلاب کا پانی اسے بہا کر لے جاتا ہے اگر اس کی جگہ ہم نئے ڈیم بنا لیتے تو سیلاب کا پانی ذخیرہ کیا جاسکتا تھا اور ہم بہت سے فوائد اٹھاسکتے تھے مگر وہ فوائد ملک و قوم کے لیے ہوتے مگر ذاتی نہیں ہوتے اور یہی وجہ ہے کہ ہم لاکھوں کیوسک پانی سمندر کی نذر کردیتے ہیں اور دوسری طرف میدانی علاقے صحرا بنتے جا رہے ہیں۔
اس وقت ملک دہری آزمائش میں گھرا ہوا ہے ایک طرف سیلابی ریلے نے ملک کو متاثر کیا ہے تو دوسری طرف احتجاجی دھرنوں نے بھی سیلابی کیفیت پیدا کی ہوئی ہے۔ قدرت نے ایک موقعہ دیا ہے کہ دھرنوں اور انقلابی مارچوں سے نکل کر عوام کے سامنے اپنی کارکردگی پیش کریں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے مگر افسوس عمران اور طاہر القادری ایسے نازک حالات میں بھی دھرنوں کو ختم نہیں کر رہے بلکہ مزید اپنے موقف پر ڈٹ گئے ہیں۔
یاد رکھیں یہ ملک اور عوام میں تو سیاست چلتی رہے گی اس لیے سب سے پہلے پاکستان کا سوچیں قدرت نے جس آزمائش میں پنجاب کے عوام کو ڈالا ہے اس سے نکلنے کے لیے تمام سیاسی پارٹیاں سول سوسائٹی این جی اوز سب کو ایک ہوکر بحالی کے کام کو دیکھنا پڑے گا اس لیے ہماری عرض ہے کہ اس آفت کو سیاست کے لیے استعمال نہ کریں بلکہ جس طرح جمہوریت کے لیے پارلیمنٹ میں سب ایک ہوئے ہیں اسی طرح سیلاب سے متاثر ہونے والے عوام کی بحالی کے لیے بھی سب اختلافات بھلاکر ایک ہوجائیں۔ دھرنے ختم کریں اور اپنے اپنے علاقوں میں جاکر عوام کے لیے کام کریں۔