بات کچھ اِدھر اُدھر کی ظالم صحرا کے شتربان
اب بھی کم و بیش 40 ہزار کے قریب بچے اس مقصد کے لیے پوری دنیا میں استعمال ہو رہے ہیں۔
اونٹوں کی دوڑ سے لطف اندوز ہونا ہمیشہ سے صحرانشینوں کا وتیرہ رہا ہے۔سعودی عرب ، پاکستان ، بحرین ،شام ،پاکستان ،دوبئی ،مصر ، جورڈن،آسٹریلیا ،منگولیااور دوسرے ممالک جہاں صحرا کا بے رحم علاقہ پایا جاتا ہے وہاں آج بھی یہ کھیل پورے اہتمام کے ساتھ کھیلا اور دیکھا جاتا ہے۔ اس کھیل کو کھیل ہی سمجھا جاتا تو کوئی مضائقہ نہ تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں بھی رعونیت اور ظلم کی ملاوٹ ہوتی چلی گئی۔
اونٹوں کی دوڑ کے کا طریقہ کار یہ ہے کہ ہر اونٹ پر ایک سوار کو بٹھایا جاتا ہے جو مسلسل اونٹ کو پیٹتا اور بلند آواز سے چیختا ہے۔نتیجہ یہ کہ اونٹ بدک کر اور تیز بھاگتا چلا جاتا ہے۔اس اونٹ سوار کو ''جوکی'' کہا جاتا ہے۔ ہر وہ شخص جو اونٹوں پر پیسہ لگاتا ہے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ جوکی کا وزن کم سے کم ہو تاکہ ان کے لاڈلے اونٹ پر ''بارِ گراں'' نہ گزرے۔اس مقصد کے لیے معصوم بچوں پر وہ وہ ظلم کئے جاتے ہیں جیسے یقیناًایک عام ذہن تسلیم کرنے سے انکار کردے گا۔
ننھے جوکیوں کے لیے سب سے پہلے پاکستان، بھارت ، بنگلہ دیش اور اسی طرح کو دوسرے ممالک جہاں بردہ فروش پائے جاتے ہیں ان سے رابطے کئے جاتے ہیں۔ ان ممالک میں بعض اوقات جرائم پیشہ اور کبھی خود والدین بھی اپنے بچے پیسے کی خاطر ان کے حوالے کر دیتے ہیں۔بچے کی دستیابی کے بعد اسے اونٹ کی سواری کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اس تیاری کے دوران معصوم جوکی کواونٹ پر کس کر باندھ دیا جاتاہے اور پھر اونٹ کو صحرا کی تپتی دھوپ میں بھگایا جاتا ہے۔ شتر بان جانتے ہیں کہ اونٹ کی سواری اچھے خاصے طاقت ور انسان کے انجر پنجر ڈھیلے کر دیتی ہے۔کیونکہ اونٹ بھاگنے اور چلنے کے دوران مسلسل ہچکولے کھاتا رہتا ہے۔لہذا س ٹریننگ کے دوران بہت سارے بچے حرکتِ قلب بند ہونے اور گر جانے کے باعث مر جاتے ہیں، جبکہ بیشتر اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتے ہیں۔ ان حادثات سے ٹرینرز اوراس کے ''صحرائی بدو'' کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔کیونکہ یہ بچے انتہائی ارزاں ریٹ پردستیاب ہوتے ہیں۔اس پر ستم یہ کہ بچوں کا ڈر کے مارے چیخنا چلانا مزید سود مند ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس سے اونٹ مزید بد ک کر تیز بھاگتا ہے۔
بچہ جب سواری کے لیے تیار ہوجائے تو اونٹ کے مالک کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ یہ بچہ اب وزن نہ بڑھائے ۔جوکی بچے کو کبھی بھی پوری خوراک نہیں دی جاتی۔اونٹ کے کیے تو ہر قسم کے اسپتال اور ڈاکٹروں کی فوج موجود ہوتی ہے لیکن بچے کی سردی گرمی کا جان بوجھ کر خیال نہیں رکھا جاتا کیونکہ صحرا کے سوداگر جانتے ہیں کہ پرسکون نیند سے وزن بھی بڑھتا ہے اور اگر بچے کا ذہن پر سکون ہوا تو وہ کبھی بھی نفسیاتی مریض بن کر اونٹ کو دیوانہ وار پیٹ نہیں پائے گا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کو صحراؤں میں بنے ان کیمپوں کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیا جاتاکی کہیں کوئی کلپ نہ لیک ہوجائے۔ اس سارے جرم کے کرتا دھرتا عام طور پر بہت امیر اور اثر و رسوخ والے لوگ ہوتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے جولائی 2002 ء میں اس مقصد کے لیے، پندرہ سال سے کم عمر بچوں کے استعمال پر پابندی لگائی تھی،لیکن اب بھی کم و بیش 40 ہزار کے قریب بچے اس مقصد کے لیے پوری دنیا میں استعمال ہو رہے ہیں۔
اس سلسلے میں ایک خوش آئندہ قدم یہ ہے کہ دوبئی میں ایک ایسا روبوٹ در آمد کیا گیا ہے جو صرف اسی مقصد کے لیے بنایا گیا ہے۔اس کے عام ہونے کے بعد ممکن ہے کہ اس گھناؤنے جرم میں کوئی کمی آسکے اور شتر بان اپنی تسکین کے لیے انسان کی بجائے مشین کو استعمال کر سکیں۔ جو بھی ہو صرف ان صحرا کے سوداگروں کو تنقید کا نشانہ بنانا مسئلے کا حل نہیں، ان کی بھی ذمہ داری حکومت وقت پر عائد ہوتی ہے جو عوام کی ضرورتیں پوری کرنے کے بجائے انہیں غربت کے ہاتھوں انہیں اتنا مجبور کردیا ہے کہ وہ صحراؤں میں بھی اپنے بچوں کو بیچنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ کاش کہ ہمارے حکمران ہوش کے ناخن لیں اور مستقبل کے معماروں کو موت کے اندھے کونیں میں جانے سے بچالیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اونٹوں کی دوڑ کے کا طریقہ کار یہ ہے کہ ہر اونٹ پر ایک سوار کو بٹھایا جاتا ہے جو مسلسل اونٹ کو پیٹتا اور بلند آواز سے چیختا ہے۔نتیجہ یہ کہ اونٹ بدک کر اور تیز بھاگتا چلا جاتا ہے۔اس اونٹ سوار کو ''جوکی'' کہا جاتا ہے۔ ہر وہ شخص جو اونٹوں پر پیسہ لگاتا ہے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ جوکی کا وزن کم سے کم ہو تاکہ ان کے لاڈلے اونٹ پر ''بارِ گراں'' نہ گزرے۔اس مقصد کے لیے معصوم بچوں پر وہ وہ ظلم کئے جاتے ہیں جیسے یقیناًایک عام ذہن تسلیم کرنے سے انکار کردے گا۔
ننھے جوکیوں کے لیے سب سے پہلے پاکستان، بھارت ، بنگلہ دیش اور اسی طرح کو دوسرے ممالک جہاں بردہ فروش پائے جاتے ہیں ان سے رابطے کئے جاتے ہیں۔ ان ممالک میں بعض اوقات جرائم پیشہ اور کبھی خود والدین بھی اپنے بچے پیسے کی خاطر ان کے حوالے کر دیتے ہیں۔بچے کی دستیابی کے بعد اسے اونٹ کی سواری کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اس تیاری کے دوران معصوم جوکی کواونٹ پر کس کر باندھ دیا جاتاہے اور پھر اونٹ کو صحرا کی تپتی دھوپ میں بھگایا جاتا ہے۔ شتر بان جانتے ہیں کہ اونٹ کی سواری اچھے خاصے طاقت ور انسان کے انجر پنجر ڈھیلے کر دیتی ہے۔کیونکہ اونٹ بھاگنے اور چلنے کے دوران مسلسل ہچکولے کھاتا رہتا ہے۔لہذا س ٹریننگ کے دوران بہت سارے بچے حرکتِ قلب بند ہونے اور گر جانے کے باعث مر جاتے ہیں، جبکہ بیشتر اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتے ہیں۔ ان حادثات سے ٹرینرز اوراس کے ''صحرائی بدو'' کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔کیونکہ یہ بچے انتہائی ارزاں ریٹ پردستیاب ہوتے ہیں۔اس پر ستم یہ کہ بچوں کا ڈر کے مارے چیخنا چلانا مزید سود مند ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس سے اونٹ مزید بد ک کر تیز بھاگتا ہے۔
بچہ جب سواری کے لیے تیار ہوجائے تو اونٹ کے مالک کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ یہ بچہ اب وزن نہ بڑھائے ۔جوکی بچے کو کبھی بھی پوری خوراک نہیں دی جاتی۔اونٹ کے کیے تو ہر قسم کے اسپتال اور ڈاکٹروں کی فوج موجود ہوتی ہے لیکن بچے کی سردی گرمی کا جان بوجھ کر خیال نہیں رکھا جاتا کیونکہ صحرا کے سوداگر جانتے ہیں کہ پرسکون نیند سے وزن بھی بڑھتا ہے اور اگر بچے کا ذہن پر سکون ہوا تو وہ کبھی بھی نفسیاتی مریض بن کر اونٹ کو دیوانہ وار پیٹ نہیں پائے گا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کو صحراؤں میں بنے ان کیمپوں کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیا جاتاکی کہیں کوئی کلپ نہ لیک ہوجائے۔ اس سارے جرم کے کرتا دھرتا عام طور پر بہت امیر اور اثر و رسوخ والے لوگ ہوتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے جولائی 2002 ء میں اس مقصد کے لیے، پندرہ سال سے کم عمر بچوں کے استعمال پر پابندی لگائی تھی،لیکن اب بھی کم و بیش 40 ہزار کے قریب بچے اس مقصد کے لیے پوری دنیا میں استعمال ہو رہے ہیں۔
اس سلسلے میں ایک خوش آئندہ قدم یہ ہے کہ دوبئی میں ایک ایسا روبوٹ در آمد کیا گیا ہے جو صرف اسی مقصد کے لیے بنایا گیا ہے۔اس کے عام ہونے کے بعد ممکن ہے کہ اس گھناؤنے جرم میں کوئی کمی آسکے اور شتر بان اپنی تسکین کے لیے انسان کی بجائے مشین کو استعمال کر سکیں۔ جو بھی ہو صرف ان صحرا کے سوداگروں کو تنقید کا نشانہ بنانا مسئلے کا حل نہیں، ان کی بھی ذمہ داری حکومت وقت پر عائد ہوتی ہے جو عوام کی ضرورتیں پوری کرنے کے بجائے انہیں غربت کے ہاتھوں انہیں اتنا مجبور کردیا ہے کہ وہ صحراؤں میں بھی اپنے بچوں کو بیچنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ کاش کہ ہمارے حکمران ہوش کے ناخن لیں اور مستقبل کے معماروں کو موت کے اندھے کونیں میں جانے سے بچالیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔