جھوٹ کی سیاست کی ہنڈیا ٹکڑے ٹکڑے ہونے پر اب خانہ جنگی کی دھمکیاں دی جارہی ہیں پرویز رشید
عمران خان نےخود کو آزادی کے علمبردارکے طو رپر پیش کیا لیکن وہ الزام خان اور طاہرالقادری علامہ انتشارمیں تبدیل ہوچکے
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ عمران خان دوسرے کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے اپنے گریبان میں بھی جھانک لیں کیونکہ جھوٹ کی سیاست کی ہنڈیا اب ڈی چوک پر ٹکڑے ٹکڑے ہوچکی ہے جس کے بعد اب یہ لوگ خانہ جنگی کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ گزشتہ ایک ماہ سے دو افراد کنٹینر پر چڑھ کر دن میں کئی مرتبہ جھوٹ بولتے ہیں، 14 اگست کو عمران خان نے اپنے آپ کو آزادی کے علمبردار کے طو رپر پیش کیا لیکن اب وہ الزام خان بن چکے ہیں جبکہ ان کے کزن طاہرالقادری انقلاب سے علامہ انتشارمیں تبدیل ہوچکے ہیں،ان لوگوں کو الزام لگانے کے لیے کسی ثبوت کی نہیں بلکہ لائیو کیمرے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ لوگ الزام لگا کر بھول جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے زہرہ شاہد اور ہینڈری مسیح کے قاتلوں کے نام بتانے کا اعلان کیا تھا لیکن وہ ہفتہ بھی گزر چکا ہے انہوں نے قاتلوں کے نام نہیں بتائے کیونکہ وہ جھوٹ بولتے ہیں اور ان کو اپنا ہی جھوٹ یاد نہیں رہتا۔
پرویز رشید نے کہا کہ حکومت پر الزام لگایا گیا کہ اس نے 17 لاشیں غائب کردی ہیں اور طاہرالقادری نے تین لاشوں پر جھوٹا مقدمہ بھی درج کرادیا ہے جبکہ جو باقی 14 لوگ ہیں ان کے ورثا کا بھی کچھ پتا نہیں تو پھر عمران خان ان لوگوں کے ناموں کی فہرست جاری کریں تاکہ حکومت ان کی تلاش میں مدد کرسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان ماضی کے الزامات بھی بھول چکے ہیں اب وہ اپنی تقریر میں قوم کو ایک نیا الزام سنا کر اپنا کوٹہ پورا کرتے ہیں جبکہ اس ایڈونچر کی بنیاد انہوں نے الیکشن میں دھاندلی کو جواز بنا کر رکھی تھی لیکن وہ اپنے کسی الزام کو بھی ثابت نہیں کرسکے، انہوں نے اردو بازار سے بیلٹ پیپر چھپوانے کا الزام لگایا جس کے بعد وہ پرنٹر جھوٹے الزام پر عدالت میں جاچکا ہے اب عمران خان کے لیے بھی سنہری موقع ہے کہ وہ اس کا عدالت میں مقابلہ کریں اور اپنے الزامات کو درست ثابت کریں۔
وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ عمران خان نے جتنے بھی الزام لگائے ان کو ان ہی کی مذاکراتی ٹیم نے جوڈیشل کمیشن کے ریفرنس میں ڈالنے سے انکار کردیا کیونکہ انہیں علم ہے کہ یہ الزامات سچائی نہیں بلکہ انتخابات کو بدنام کرنے کے لیے لگائے گئے ہیں اگر اس میں سچائی ہوتی تو تحریک انصاف کی ٹیم انہیں ریفرنس میں شامل کرنے پر رضا مندی ظاہر کرتی اور سب قوم کے سامنے آجاتا۔ پرویز رشید نے کہا کہ عمران خان نے سرکاری عمارتوں پر حملے میں ملوث ملزمان کو پولیس کی تحویل سے چھڑا کر لاقانونیت کا مظاہرہ کیا جبکہ حملے کے وقت طاہرالقادری اور عمران ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے اور جشن منارہے تھے لیکن جب مقدمات درج کیے گئے تو انہوں نے اس سے لاتعلقی کا اعلان کردیا اور جب ملوث افراد کی گرفتاریاں کی گئیں تو عمران خان غنڈوں کی قیادت کرتے ہوئے انہیں چھڑا کر لے گئے۔
پرویز رشید نے کہا کہ جوعدالت ملزم کو مجرم میں تبدیل کردے تو عمران خان اسے دھمکیاں دیتے ہیں جبکہ عمران خان چاہتے ہیں کہ ان کے الزامات کی بنیاد پر منتخب حکومتوں کو برطرف کردیا جائے لیکن اس کے لیے آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی کہ کون بڑا جھوٹ بول رہا ہے اور پھر اس کی بنیاد پر حکومت بیلٹ کے بجائے جھوٹ بولنے اور الزام لگانے والوں کے حوالے کی جائے کیونکہ یہ دونوں 33 دن سے مسلسل جھوٹ بول کر ایک دوسرے کا مقابلہ کررہے ہیں اور ہم ان کے جواب دے کر تھک چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے کسی صحافی کو کوئی پلاٹ نہیں دیا ، عمران خان نے صحافیوں پر لفافے کا الزام لگایا جس پر بے حد افسوس ہوا اگر ان کے پاس یہ ثبوت ہیں کہ حکومت نے کسی صحافی کو ایک کپ چائے بھی پلائی تو سامنے لائیں میں خود اس کی ذمہ بھگتنے کو تیار ہوں ورنہ عمران خان اپنے الزمات کو واپس لیں۔
وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ عمران خان ساری دنیا پر الزامات لگاتے ہیں لیکن ان کی جماعت کے صدر جاوید ہاشمی نے ان پر الزامات لگائے مگر وہ اس کا جواب کیوں نہیں دیتے اور کیوں ان الزامات پر خاموشی اختیار کررکھی ہے، وہ اپنے صدر کو الزامات لگانے پر شوکاز نوٹس جاری کیوں نہیں کررہے، عمران خان دوسرے کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے اپنے گریبان میں بھی جھانک لیں کیونکہ جھوٹ کی سیاست کی ہنڈیا اب ڈی چوک پر ٹکڑے ٹکڑے ہوچکی ہے جس کے بعد اب یہ لوگ خانہ جنگی کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
پرویز رشید نے کہا کہ حکومت کے پاس اب کوئی سیکرٹ فنڈ نہیں جس کے ذریعے ہم کوئی ایسا کام کرسکیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ عمران خان ہر ایک کی پگڑی اچھالیں، انہوں نے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی پگڑیاں اچھالیں، پارلیمنٹ اور اپوزیشن لیڈر کےبارے میں نازیبا الفاظ کہے لیکن ہم نے اس لیے ان کو برداشت کیا تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ ہم نے تنقید برداشت نہیں کی جبکہ تنقید اور گالیوں میں فرق ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان اور طاہرالقادری کے درمیان لندن میں اگر کوئی ملاقات ہوئی تو وہ اسے سامنے کیوں نہیں لاتے اس ملاقات میں پاکستان میں انتشار پھیلانے، معیشت کو تباہ کرنے کا جو منصوبہ بنایا گیا اس کو کیوں خفیہ رکھا گیا ہے جبکہ یہ لوگ بتائیں کہ ان کے درمیان پہلے اسلام آباد پہنچنے کا مقابلہ کیوں ہوا، ہمیں یہ سب معلوم ہے اور اس کی تفصیل وقت آنے پر بتائیں گے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ گزشتہ ایک ماہ سے دو افراد کنٹینر پر چڑھ کر دن میں کئی مرتبہ جھوٹ بولتے ہیں، 14 اگست کو عمران خان نے اپنے آپ کو آزادی کے علمبردار کے طو رپر پیش کیا لیکن اب وہ الزام خان بن چکے ہیں جبکہ ان کے کزن طاہرالقادری انقلاب سے علامہ انتشارمیں تبدیل ہوچکے ہیں،ان لوگوں کو الزام لگانے کے لیے کسی ثبوت کی نہیں بلکہ لائیو کیمرے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ لوگ الزام لگا کر بھول جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے زہرہ شاہد اور ہینڈری مسیح کے قاتلوں کے نام بتانے کا اعلان کیا تھا لیکن وہ ہفتہ بھی گزر چکا ہے انہوں نے قاتلوں کے نام نہیں بتائے کیونکہ وہ جھوٹ بولتے ہیں اور ان کو اپنا ہی جھوٹ یاد نہیں رہتا۔
پرویز رشید نے کہا کہ حکومت پر الزام لگایا گیا کہ اس نے 17 لاشیں غائب کردی ہیں اور طاہرالقادری نے تین لاشوں پر جھوٹا مقدمہ بھی درج کرادیا ہے جبکہ جو باقی 14 لوگ ہیں ان کے ورثا کا بھی کچھ پتا نہیں تو پھر عمران خان ان لوگوں کے ناموں کی فہرست جاری کریں تاکہ حکومت ان کی تلاش میں مدد کرسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان ماضی کے الزامات بھی بھول چکے ہیں اب وہ اپنی تقریر میں قوم کو ایک نیا الزام سنا کر اپنا کوٹہ پورا کرتے ہیں جبکہ اس ایڈونچر کی بنیاد انہوں نے الیکشن میں دھاندلی کو جواز بنا کر رکھی تھی لیکن وہ اپنے کسی الزام کو بھی ثابت نہیں کرسکے، انہوں نے اردو بازار سے بیلٹ پیپر چھپوانے کا الزام لگایا جس کے بعد وہ پرنٹر جھوٹے الزام پر عدالت میں جاچکا ہے اب عمران خان کے لیے بھی سنہری موقع ہے کہ وہ اس کا عدالت میں مقابلہ کریں اور اپنے الزامات کو درست ثابت کریں۔
وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ عمران خان نے جتنے بھی الزام لگائے ان کو ان ہی کی مذاکراتی ٹیم نے جوڈیشل کمیشن کے ریفرنس میں ڈالنے سے انکار کردیا کیونکہ انہیں علم ہے کہ یہ الزامات سچائی نہیں بلکہ انتخابات کو بدنام کرنے کے لیے لگائے گئے ہیں اگر اس میں سچائی ہوتی تو تحریک انصاف کی ٹیم انہیں ریفرنس میں شامل کرنے پر رضا مندی ظاہر کرتی اور سب قوم کے سامنے آجاتا۔ پرویز رشید نے کہا کہ عمران خان نے سرکاری عمارتوں پر حملے میں ملوث ملزمان کو پولیس کی تحویل سے چھڑا کر لاقانونیت کا مظاہرہ کیا جبکہ حملے کے وقت طاہرالقادری اور عمران ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے اور جشن منارہے تھے لیکن جب مقدمات درج کیے گئے تو انہوں نے اس سے لاتعلقی کا اعلان کردیا اور جب ملوث افراد کی گرفتاریاں کی گئیں تو عمران خان غنڈوں کی قیادت کرتے ہوئے انہیں چھڑا کر لے گئے۔
پرویز رشید نے کہا کہ جوعدالت ملزم کو مجرم میں تبدیل کردے تو عمران خان اسے دھمکیاں دیتے ہیں جبکہ عمران خان چاہتے ہیں کہ ان کے الزامات کی بنیاد پر منتخب حکومتوں کو برطرف کردیا جائے لیکن اس کے لیے آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی کہ کون بڑا جھوٹ بول رہا ہے اور پھر اس کی بنیاد پر حکومت بیلٹ کے بجائے جھوٹ بولنے اور الزام لگانے والوں کے حوالے کی جائے کیونکہ یہ دونوں 33 دن سے مسلسل جھوٹ بول کر ایک دوسرے کا مقابلہ کررہے ہیں اور ہم ان کے جواب دے کر تھک چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے کسی صحافی کو کوئی پلاٹ نہیں دیا ، عمران خان نے صحافیوں پر لفافے کا الزام لگایا جس پر بے حد افسوس ہوا اگر ان کے پاس یہ ثبوت ہیں کہ حکومت نے کسی صحافی کو ایک کپ چائے بھی پلائی تو سامنے لائیں میں خود اس کی ذمہ بھگتنے کو تیار ہوں ورنہ عمران خان اپنے الزمات کو واپس لیں۔
وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ عمران خان ساری دنیا پر الزامات لگاتے ہیں لیکن ان کی جماعت کے صدر جاوید ہاشمی نے ان پر الزامات لگائے مگر وہ اس کا جواب کیوں نہیں دیتے اور کیوں ان الزامات پر خاموشی اختیار کررکھی ہے، وہ اپنے صدر کو الزامات لگانے پر شوکاز نوٹس جاری کیوں نہیں کررہے، عمران خان دوسرے کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے اپنے گریبان میں بھی جھانک لیں کیونکہ جھوٹ کی سیاست کی ہنڈیا اب ڈی چوک پر ٹکڑے ٹکڑے ہوچکی ہے جس کے بعد اب یہ لوگ خانہ جنگی کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
پرویز رشید نے کہا کہ حکومت کے پاس اب کوئی سیکرٹ فنڈ نہیں جس کے ذریعے ہم کوئی ایسا کام کرسکیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ عمران خان ہر ایک کی پگڑی اچھالیں، انہوں نے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی پگڑیاں اچھالیں، پارلیمنٹ اور اپوزیشن لیڈر کےبارے میں نازیبا الفاظ کہے لیکن ہم نے اس لیے ان کو برداشت کیا تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ ہم نے تنقید برداشت نہیں کی جبکہ تنقید اور گالیوں میں فرق ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان اور طاہرالقادری کے درمیان لندن میں اگر کوئی ملاقات ہوئی تو وہ اسے سامنے کیوں نہیں لاتے اس ملاقات میں پاکستان میں انتشار پھیلانے، معیشت کو تباہ کرنے کا جو منصوبہ بنایا گیا اس کو کیوں خفیہ رکھا گیا ہے جبکہ یہ لوگ بتائیں کہ ان کے درمیان پہلے اسلام آباد پہنچنے کا مقابلہ کیوں ہوا، ہمیں یہ سب معلوم ہے اور اس کی تفصیل وقت آنے پر بتائیں گے۔