شہید مزدور رہنما عثمان غنی
عثمان غنی شہید قومیائے گئے بینکوں کی نجکاری کے شدید مخالف تھے....
GUJRANWALA:
ستمبر کا مہینہ بعض واقعات کے حوالے سے پاکستان میں ہمیشہ ہی دکھ اور غم کے ساتھ یاد رکھا جاتا ہے۔ 11 ستمبر 1948ء کو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے اور مسلم دنیا ایک عظیم مفکر، دانشور اور ایک معتبر رہبر سے محروم ہو گئی۔
ابھی 2 سال قبل ہی 11 ستمبر 2012ء کو کراچی میں واقع ایک گارمنٹس فیکٹری میں آتش زدگی کا بھیانک واقعہ پیش آیا جس کے نتیجے میں 259 محنت کش اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 17 ستمبر 1995ء کو بھی ایک ایسی شہادت واقع ہوئی کہ جس نے ملک کے طول و ارض میں لاکھوں محنت کشوں بالخصوص بینکنگ انڈسٹری کے سوا لاکھ ملازمین کو سوگوار کر دیا۔ یہ شہادت بینکنگ انڈسٹری کی ٹریڈ یونین تحریک کے ایک قد آور رہنما عثمان غنی کی تھی جو کہ مسلم کمرشل بینک آف پاکستان اسٹاف یونین (سی بی اے) کے مرکزی جنرل سیکریٹری تھے اور اس طرح ستمبر کے مہینے کے بعض سانحات ناقابل فراموش رہیں گے۔
آج ہم عثمان غنی شہید کی جد و جہد اور محنت کش طبقے کے حقوق کے تحفظ کے لیے ان کی جد وجہد، قربانیوں اور زندگی کا مختصر احاطہ کرینگے۔ عثمان غنی 1948ء میں کراچی میں پیدا ہوئے، میٹرک NJV ہائی اسکول جب کہ گریجویشن کی ڈگری کراچی یونیورسٹی سے حاصل کی عثمان غنی نے اپنی ملازمت کا آغاز 1970ء میں مسلم کمرشل بینک میں بحیثیت کیشئر کیا اور اپنی سوچ، ترقی پسند نظریات اور محنت کشوں کے دکھ درد کے مواقعے پر ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑے رہنے کی وجہ سے بہت جلد ادارے کی ایک محترم شخصیت بن گئے اور 1972ء میں محنت کشوں نے انھیں اپنے ووٹوں کے ذریعے ادارے کی سی بی اے یونین کا صدر منتخب کر لیا اور اس اعزاز کو انھوں نے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک برقرار رکھا۔
بینکنگ انڈسٹری کی ٹریڈ یونین تحریک میں عثمان غنی کو ہمیشہ ایک فائٹر رہنما کے طور پر یاد رکھا جائے گا کہ جنھوں نے محنت کشوں کے حقوق کے لیے ایک مرتبہ نہیں بلکہ متعدد مرتبہ جیل اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ یہ 1973ء کا واقعہ ہے جب عثمان غنی ملازمین کے لیے مذکورہ بینک کی CBA یونین کی جانب سے پرافٹ بونس کی ادائیگی کے لیے بینک کے ہیڈ آفس کے مرکزی ہال میں منعقد کیے گئے احتجاجی جلسے سے خطاب کر رہے تھے، پولیس کی بھاری نفری جلسہ گاہ میں لاٹھی چارج کرتے ہوئے داخل ہوئی اور عثمان غنی کو گرفتار کر کے راتوں رات کراچی سینٹرل جیل منتقل کر دیا گیا، اس تحریک کے ساتھ ہی عثمان غنی کی محنت کش طبقے کے لیے قربانیوں کا آغاز ہوتا ہے اور 1973ء سے لے کر 1991ء تک انھیں متعدد مرتبہ گرفتار کیا گیا لیکن ہر بار سرخرو ہوئے اور محنت کشوں کے ہیرو بن کر ابھرے۔ عثمان غنی نے ٹریڈ یونین تحریک کو منظم کرنے کے لیے اپنی جوانی کے شب و روز اسی میں لگا دیے۔
کراچی سے خیبر تک یہ ان ہی کا کارنامہ تھا کہ انھوں نے محنت کشوں کو طویل کاوشوں اور جد وجہد کے بعد ایک ہی پلیٹ فارم پر متحد اور منظم کر لیا اور جب انھیں شہید کیا گیا تو اس بینک کے محنت کش پاکستان کی ٹریڈ یونین تحریک میں ایک انتہائی نمایاں اور طاقتور مقام رکھتے تھے، شہید عثمان غنی نے دیگر اداروں میں بھی ملازمین کو ٹریڈ یونین کے پرچم تلے منظم کرنے کے لیے انتہائی سرگرم کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں تمام بینکوں اور صنعتی و تجارتی اداروں کے ملازمین میں بھی انتہائی عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ عثمان غنی کی زندگی کا یہ ایک پہلو تھا اور دوسرا پہلو یہ کہ وہ ایک زبردست سیاسی کارکن تھے۔
وہ پیپلز پارٹی کے مختلف عہدوں پر فائز رہے اور ان کی خدمات کے اعتراف میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے انھیں پارٹی کے کراچی کے صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ سے بھی نوازا تھا۔ عثمان غنی ان ٹریڈ یونین رہنماوں میں شامل ہیں جن کی خدمات اور جد وجہد کو شہید محترمہ بینظیر بھٹو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھیں اور مزدوروں کے حوالے سے ان کی رائے اور مشوروں کو بہت اہمیت دیتی تھیں۔ عثمان غنی پی پی پی کے زبردست جیالے تھے اور جہاں ایک طرف انھوں نے محنت کشوں کے حقوق کے لیے جد وجہد کی تو دوسری جانب انھوں نے پیپلز پارٹی کے پرچم تلے ہر ڈکٹیٹر کے دور میں آمریت کے خلاف بھرپور کردار ادا کیا اور یہاں بھی جیلیں اور گرفتاریاں ان کا مقدر رہیں لیکن وہ ہمیشہ اصولوں پر ڈٹے رہے اور پارٹی کے پرچم کو مضبوطی سے تھامے رکھا۔
عثمان غنی شہید قومیائے گئے بینکوں کی نجکاری کے شدید مخالف تھے اور فروری 1991ء میں جب اس وقت کی حکومت نے اہم قومی ملکیتی اداروں کی پرائیویٹائزیشن کی پالیسی کا اعلان کیا تو اس وقت پاکستان کی ٹریڈ یونین تحریک کی جانب سے ان کی مخالفت میں آل پاکستان اسٹیٹ انٹر پرائزز ورکرز ایکشن کمیٹی ''APSEWAC'' کے بینر تلے ایک منظم تحریک کا آغاز کیا گیا جس میں شہید عثمان غنی نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس کی پاداش میں حکومت نے انھیں پابند سلاسل کر دیا۔ یہ شہید عثمان غنی کی زندگی کی آخری گرفتاری تھی۔ رہائی کے فوراً بعد انھوں نے بہت مختصر عرصے میں اپنے ادارے کے محنت کشوں کو دوبارہ منظم کر کے ایک بڑی طاقت میں تبدیل کر دیا۔
وہ پاکستان کی ٹریڈ یونین تحریک اور قومی سیاست کے ایک محترم رہنما کے طور پر ابھر چکے تھے لیکن عوام د شمن، مزدور دشمن، جمہوریت دشمن اور سیاہ قوتیں ان کے تعاقب میں تھیں اور ایک ایسا شخص کہ جس کی اس معاشرے کو اس وقت اور آج بھی شدید ضرورت تھی اور ہے اسے 17 ستمبر 1995ء کو چنیسر گوٹھ کے قریب واقع کالا پل کے وسط میں نامعلوم سفاک قاتلوں کے ذریعے شہید کروا دیا گیا۔ عثمان غنی کو ہم سے بچھڑے 19 سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے مگر ان کی یاد کی شمع آج بھی دلوں میں روشن ہے، ان کی جد وجہد کے ساتھی آج بھی محنت کشوں کے حقوق کے حصول کے لیے میدان عمل میں موجود ہیں جب کہ ان کے ہونہار، تعلیمیافتہ اور روشن خیال فرزند ارجمند سعید غنی اپنے عظیم والد کے عظیم مشن کی مشعل کو آج بھی روشن رکھے ہوئے ہیں۔
عثمان غنی کے صاحبزادے سعید غنی نے نہ صرف یہ کہ انتہائی مختصر عرصے میں ٹریڈ یونین تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا بلکہ اپنی قابلیت اور صلاحیت کے بل بوتے پر وہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے مزدور رہنما ہیں کہ جنھیں پی پی پی نے اپنے ٹکٹ پر سینیٹ میں منتخب کروایا ہے۔ سینیٹر سعید غنی ان دنوں اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ سینیٹ میں الیکٹرانک میڈیا اور پارٹی کے صوبائی میڈیا سیل کے انچارج کی حیثیت سے عوام، محنت کشوں اور پارٹی کی خدمت میں مصروف ہیں۔ یہ درست ہے کہ گزشتہ 19 سالوں میں پاکستان بینکنگ انڈسٹری کی ٹریڈ یونین تحریک شدید بحرانوں اور مد و جزر سے گزری ہے۔
اس وقت بینکنگ انڈسٹری میں ٹریڈ یونین تحریک کا مستقبل غیر واضح ہے اور اس امر کا بھرپور خطرہ موجود ہے کہ اگر حکومت نے مزدور قوانین میں ضروری ترامیم کر کے اس تحریک پر ہونیوالے حملوں سے محفوظ کرنے کی کوشش نہ کی تو بڑی حد تک اس کا وجود مستقبل میں ایک سوالیہ نشان ہے۔ یہ وہ حالات ہیں کہ جب ہمیں شہید عثمان غنی اور ان ہی کی طرح حوصلہ اور عزم رکھنے والے متعدد ٹریڈ یونین رہنما یاد آتے ہیں کہ جو آج ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن تاریخ کا سفر ہمیشہ جاری رہتا اور آگے بڑھتا ہے اور ہم شہید کی روح کو بھی یقین دلاتے ہیں کہ وہ دن ضرور آئیگا کہ جب محنت کش طبقہ اپنے حقوق کے پرچم کو پوری قوت سے سر بلند کریگا اور اپنے آئینی اور قانونی حقوق کو پر امن جد و جہد کے ذریعے حاصل کر کے بینکنگ انڈسٹری میں دوبارہ ایک مضبوط ٹریڈ یونین کو جنم دیگا۔