کس بات کی مبارکباد

ضیاء الحق کی آمریت نے مذہبی جنونیوں اور دہشت گردوں کی سرپرستی کر کے، عوام کو متنفر کیا


Raees Fatima September 27, 2012
رئیس فاطمہ

جلائو، گھیرائو، تشدد، دکانیں لوٹنا، شٹر توڑنا، چیخ و پکار... کیا یہی عشقِ رسول ہے؟

بے شک سرکارِ دو عالم، مولائے کائنات، نبی آخر الزماںؐ کے بارے میں کوئی بھی مسلمان، وہ مسلمان جو نہ صرف حضورِ اکرمؐ سے محبت کرتا ہے بلکہ خدا کے بعد صرف اور صرف حضرت محمدؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھتا ہے۔

کبھی بھی ان کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کر سکتا۔ لیکن سچّا مسلمان کبھی کسی کو بلا وجہ نقصان پہنچانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔

جمعے کو جو کچھ ہم سب نے ٹیلی ویژن اسکرین پر دیکھا، کیا وہ عشقِ رسولؐ ہے؟ کیا یہ گستاخانہ فلم حکومتِ پاکستان نے بنائی ہے؟ مظاہرین جس منصوبہ بندی سے دکانوں کے شیشے توڑ رہے تھے، سی این جی اسٹیشن تباہ کر رہے تھے، باقاعدہ کرکٹ کے بیٹ لے کر اپنے ہی لوگوں کی املاک تباہ کر رہے تھے، وہ بہت معنی خیز ہے۔ یہ کس کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ حکومت بالکل بے بس ہو چکی ہے۔

ضیاء الحق کی آمریت نے مذہبی جنونیوں اور دہشت گردوں کی سرپرستی کر کے، عوام کو متنفر کیا۔ پرویز مشرف نے ابتدائی برسوں میں روشن خیالی کا پرچم لہرایا۔

اور کمال اتاترک کو اپنا آئیڈیل بتایا، لیکن جلد ہی انھوں نے انتہا پسندوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ عشقِ رسولؐ ﷺکے نام پر جو بے حرمتی اس پاک شخصیت کی کی گئی، ایسی صورت میں کون ہے جو ہمیں اس صورتِ حال سے نجات دِلائے؟ مبارک ہو! حکومت نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ ملک میں جنگل کا قانون رقص میں ہے۔

اب اگر موجودہ صورتِ حال میں فوج اپنا کردار ادا کرنے کے لیے آگے بڑھتی ہے تو آپ اسے کیا کہیں گے؟ فوج نے تب ہی اقتدار سنبھالا ہے جب سویلین نے عوام کو مایوس کیا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ فوج انتظامی اور دفاعی امور چھوڑ کر ایک بار پھر حکومتی تاج و تخت پر قبضہ کر لے۔

جو مظاہرے عشقِ رسو ل ؐ کے نام پر کیے گئے، ان کے بعد تمام دنیا میں ہمارا کیا امیج بنے گا؟ کہ ہم وحشی، جاہل اور تشدد پسند ہیں۔

غیر ملکی میڈیا نے جب تمام صورت حال کو اپنے اپنے ملکوں میں دِکھایا ہو گا تو انھوں نے ہماری عقلوں پر ماتم بھی کیا ہوگا کہ جس فلم سے کسی پاکستانی کا کوئی واسطہ نہیں اس کی مذمت کرنے کے لیے پر امن مظاہروں کی جگہ باقاعدہ ڈنڈا بردار، ماچس بردار، کرکٹ بیٹ بردار جتھے کہاں سے اور کس طرح نکل آئے، جو باقاعدہ پلاننگ سے آگ لگا رہے تھے۔

عشقِ رسولؐ کی توہین جس طرح 21 ستمبر کی ہڑتال میں کی گئی، اس سے ہر پاکستانی کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ اگر یہی عشقِ رسول تھا تو پھر توہین کسے کہتے ہیں۔

افسوس صد افسوس کہ پرتشدد مظاہروں کے بعد علمائے کرام ایک دوسرے کو ٹی وی چینلز پر مبارک باد دیتے نظر آئے۔ کس بات کی مبارک باد؟ کیا نجی اور سرکاری املاک جلانے کی؟ بینک اور اے ٹی ایم لوٹنے کی؟ کئی لوگوں نے ذاتی طور پر آنکھوں دیکھا حال یہ بھی بتایا کہ راہ چلتے لوگوں سے لوٹ مار کی گئی، موبائل فون اور نقدی چھینی گئی، ایک شہر میں چند ڈنڈا بردار عورتیں بھی نظر آئیں۔

انھیں کون لایا تھا؟ عشقِ رسولؐ کے نام پر نکالی جانے والی ریلی میں اسلحہ بردار لوگوں کو کیوں شامل کیا گیا؟ اس موقعے پر بڑے شہروں میں مذہبی رہنماؤں کو جلوس کی قیادت کرنی چاہیے تھی، اگر وہ ہمراہ ہوتے تو بھیڑ بے قابو نہ ہوتی، لیکن وہ تو پہلے ہی تمام ضروری باتیں سمجھا چکے تھے اور ٹی وی پر اپنے ایجنڈے کو پھلتے پھولتے دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔

لینڈ لائن سروس تو بحال تھی۔ مبارک بادیں تو اس پر بھی دی جا سکتی تھیں۔ بڑے بڑے نورانی چہرے خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے کہ قومی یک جہتی کا ایسا مظاہرہ پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ بالکل سچ فرمایا عزت مآب رہنمائوں اور قائدین نے کہ تشدد، لوٹ مار، نجی اور سرکاری املاک کو مذہب کے نام پر لوٹنے کا یہ پہلا بھرپور مظاہرہ تھا۔

کیا ہمارے علمائے کرام کو اس بات کا دکھ نہیں کہ ناموسِ رسولؐ کا نام لے کر بے شمار بے گناہوں کو مار دیا گیا، ان کا قصور کیا تھا؟ مغرب کے بعد سرکردہ قائدین نے یہ کہہ کر اپنا فرض پورا کر دیا کہ پرامن مظاہروں میں شر پسند حکومتی عناصر گھس آئے! لیکن جب انھیں پتہ تھا کہ ہڑتالوں، مذہبی مجالس اور جلوسوں میں شر پسند عناصر کہیں نہ کہیں سے شامل ہو جاتے ہیں تو انھوں نے اپنا فرض نہ سمجھا کہ خود ان جلوسوں کی قیادت کریں؟ اور اگر ان کی بات مان بھی لی جائے تو جب ماضی میں دوسری جماعتیں ہڑتالوں کے دوران لوٹ مار کرنے والوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتی رہیں اور اس حرکت کو شرپسندوں اور مخالفین کے کھاتے میں ڈالتی رہیں تو آپ نے کیوں نہ مانا؟

مولانا فضل الرحمن اور دیگر مذہبی جماعتوں کے قائدین بتانا پسند کریں گے کہ عشقِ رسول کے نام پر جو لوٹ مار کی گئی، املاک جلائی گئیں، شہروں کا امن دائو پر لگا، بے گناہ افراد مارے گئے۔ اس سے ان کے ووٹ بینک میں کتنا اضافہ ہوا؟ اسلام کی کون سی شکل غیر مسلموں کے سامنے آئی؟

ہمارے واجب الاحترام علمائے کرام اگر اس ہلڑ اور دہشت گردی کو قومی یک جہتی کہہ رہے ہیں، جس کے ذریعے وہ امریکا کو سبق سِکھانا چاہتے ہیں (اس امریکا کو جس سے وزارتِ عظمیٰ کی بھیک مانگتے ہیں) تو امریکا کا یا اس مذہبی جنونی اور خبطی کا کیا نقصان ہوا جس نے فلم بنائی تھی؟ لیکن اگر ایسی ہی طاقت اور یک جہتی کا مظاہرہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، سی این جی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے ہفتہ واری اضافے ہی کے خلاف کر لیں تو حکمرانوں کو بھاگتے ہی بن پڑے گی۔

لیکن میں نے پہلے بھی کئی بار کہا ہے کہ ہماری دینی جماعتوں اور ان کے رہنمائوں کا مسئلہ بھی مہنگائی نہیں ہے۔ لوگ اتنے سادہ نہیں ہیں کہ وہ ان ایجنڈوں کو نہ سمجھ سکیں جس کے گٹھ جوڑ سے کبھی ہڑتالیں کروائی جاتی ہیں، کبھی ڈنڈا بردار ریلیاں نکلوائی جاتی ہیں۔

اب یہی ڈنڈا بردار مجاہد 31 دسمبر کی رات کراچی، لاہور اور اسلام آباد کی سڑکوں پر نکلیں گے۔ ہمارے بیشتر تجزیہ کار اب بھی اس قوم کے لیے جمہوریت کی دعا کرتے ہیں، جس ملک کی مساجد میں جمعے کے خطبوں کے بعد منافرت، تعصب اور ذاتی عناد کے فروغ کی باتیں کی جائیں، وہاں جمہوریت کیسے آ سکتی ہے؟ جمہوریت کا داعی ہونے کے لیے کم از کم 70 فیصد عوام کا تعلیم یافتہ ہونا لازمی ہے جب کہ ہمارے ہاں تو جہالت کا بازار پوری طرح گرم ہے۔

پڑھے لکھے جاہلوں کی بھی کمی نہیں اور ایسے کوتاہ بینوں کی بھی جو ایک قبائلی سوچ رکھنے والے ملک میں جمہوریت کا پودا لگانا چاہتے ہیں۔ ہنسی آتی ہے ان پر۔ آج ایک بات مجھے اور کہنے دیجیے، وہ یہ کہ اس ملک میں بالخصوص کراچی میں آئے دن ٹارگٹ کلنگ ہوتی ہے،4 سگے بھائی بیدردی سے قتل کر دیے گئے۔ بے شمار لوگ مرتے ہیں، لیکن نہ ان کے سوگ میں کاروبار بند ہوتا ہے۔

نہ ہڑتال ہوتی ہے، لیکن جوں ہی کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کا کوئی کارکن یا لیڈر مارا جاتا ہے تو ملک کے بیشتر شہروں میں ہڑتال کی اپیل کر کے شہریوں کو مشکل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ کاروبار بند، ٹرانسپورٹ بند، کوئی نہ ایئرپورٹ جا سکتا ہے نہ اسپتال، کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں سوائے موت کا انتظار کرنے کے کوئی چارہ نہیں۔

کیا صرف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے لیڈر ہی انسان ہیں، باقی سب گھاس کوڑا ہیں؟ اس لیے میں حکومت سے پر زور اپیل کرتی ہوں کہ ان جلسے جلوسوں اور ہڑتالوں پر مکمل پابندی عاید کی جائے۔ آخر کب تک شہری ان جماعتوں کی ہڑتالوں کے یرغمالی بنتے رہیں گے۔

یہ سب ایک ایسی امربیل ہیں جو اپنے ہی شہریوں کا خون چوس رہی ہے، کیونکہ انھیں غذا بے گناہ عوام کے خون ہی سے ملتی ہے کہ ڈنڈا بردار جتھے اس خدمت کے عوض اپنا ٹھیک ٹھاک معاوضہ بھی تو وصول کرتے ہیں۔ کیا یہ جمہوریت کے مستحق ہیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں