پاکستان ایک نظر میں نوٹ نہیں چلے گا

نوٹ پر گو نواز گو لکھنے سے معیشت کو جتنا بھی نقصان پہنچا ہے اُس کا ازالہ عوام کو کرنا ہوگا یا میاں صاحب کو؟


کرنسی پر گو نواز گو لکھنے سے معیشت کو کس قدر نقصان پہنچا ہے۔ اب اسٹیٹ بینک کو نئے نوٹ چھاپنے ہونگے اور ظاہر ہے اُس کے پیسے میاں صاحب کی جیب سے تو نہٰں جائیں گے ہمارے اور آپکے پیسوں سے ریاست ہی دے گی۔ فوٹو: فائل

یہ نادر ونایاب خیالات نادر قسم کے لوگوں کے ذہنوں میں ہی سماتے ہیں ۔وہی ہوا ناں۔۔۔ جس کا تھا ڈر۔۔۔جب میں نے کچھ نوٹوں پر گو نواز گو کے نعرے لکھے دیکھے تو ماتھا اسی وقت ٹھنک گیا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ اب آئے گا اسٹیٹ بینک کا بیان کہ سیاسی نعرے بازی والے نوٹ قبل قبول نہیں ہوں گے۔ اور پھر آگیا ۔۔۔گبر نہیں۔۔۔ بلکہ اسٹیٹ بینک کا بیان۔ اگرچہ علامہ صاحب اپنی تحریک کے مضمرات سے آگاہ تھے۔ اس لیے جلد ہی یہ تحریک لپیٹ دی گئی کہ لینے کے دینے پڑ رہے ہیں۔

تاریخ میں کچھ لوگوں کے فیصلے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ یہ فیصلے حقیقتاً احمقانہ تھے ۔ جس کے احمقانہ ہی نتائج برآمد ہوئے۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب اس قسم کے فیصلے لیڈران کرتے ہیں۔ اس قسم کے لیڈران کے لیے ہی ایک محاورہ ایجاد ہوا ہے۔خدا گنجے کو نا خن نہ دے۔۔۔

گو نواز گو نعرے والے نوٹ اسٹیٹ بینک کے بیان کے بعد دکانداروں نے لینا بند کردیے تھے۔ اس سے ان لوگوں کو جو نقصان پہنچا سو وہ تو پہنچا۔۔۔اس سے ملکی معیشت پر بھی ایک گہرا اثر پڑا۔ اس کا ذمہ کون لے گا۔ جس نے بھی یہ بچکانہ حرکت کی ہے اس نے شاید خمیازہ بھگتا ہو۔ لیکن اب ریاست کو بھی خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ یقیناًان نوٹوں کو ضائع کر کے نئے نوٹ چھاپے جائیں گے۔ چھپائی کے یہ اخراجات اگر نواز شریف کی جیب سے ہوتے تو یقیناًعمران خان اور طاہر القادری کا یہ وار کارگر ہوتا۔ لیکن سب ہی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان نئے نوٹوں کی چھپائی میں ریاست کا پیسہ خرچ ہوگا اور ریاست یہ پیسہ مجھ اور آپ سے نکالے گی۔

اس معاملے کی سنگینی کا اگر ذرا برابر اندازہ لگائیں تو سینے سے درد بھری آہ ہی نکلتی ہے۔ ہاے ہماری ستم ظریفی کہ ہمارے ملک میں ایسے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ سوچتا کہ دنیا میں بھی کیا کچھ ہوتا ہے۔ سنجیدہ انداز تو اب ہماری صفوں سے غائب ہوچکا ہے۔ اس میں ہمارے عوام کا قصور سب سے زیادہ ہے۔ انہوں نے ہی بندر کے ہاتھ میں چاقو تھمادیا ہے۔ ( خبردار! یاد رہے۔ اس بندر والی بات کو کسی سے منسوب نہ کریں اور نہ سمجھیں)

بندر والا قصہ تو آپ لوگوں نے سنا ہوگا۔ ایک تاجر اپنے بندر کے ساتھ محو سفر تھا۔ راستے میں آرام کی غرض سے درخت کے نیچے محو استراحت ہوا۔ خنجر بندر نے پکڑ لیا کہ مالک کی حفاظت کی جائے۔ مالک کو نیند میں مکھی تنگ کرنے لگی۔ بندر کچھ دیر دیکھتا رہا اور جب حد برداشت سے باہر ہوگئی تو مکھی کو مارنے کے لیے چاقو کا استعمال کیا۔ مکھی کا پر بھی بیکا نہیں ہوا لیکن تاجر کا ناس ہوگیا۔ بالکل اسی طرح ہمارے عوام نے بھی بندر کے ہاتھ میں خنجر دیکر اپنا ستیا ہی ناس کرلیا ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں