پاکستان ایک نظر میں سول نافرمان

خاکی وردی والے صاحب اگلے ڈبے کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے اچانک رک کر مڑے اور یوں اس نوجوان کا راز فاش ہوگیا۔


مرزا یاسر رمضان September 17, 2014
خاکی وردی والے صاحب اگلے ڈبے کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے اچانک رک کر مڑے اور یوں اس نوجوان کا راز فاش ہوگیا۔ فوٹو گیٹی امیجز

KARACHI: چند روز قبل ایک دوست کے ہمراه لا ہور کا غیر متوقع سفر گوجرانوالا ریلوے اسٹیشن سے شروع کیا۔ کیونکہ سفر غیر متوقع تھا اس لئے معاشی حالت کو مد نظر رکھتے ہوئے سول نافرمانی کی تحریک پر عمل پیرا ہونے کا اراده کیا مگر جذبہ حب الوطنی اورمحکمہ ریلوے کی شکستہ حالت کے پیش نظر ترک کردیا۔اکانومی کلاس کا ٹکٹ لے کر پلیٹ فارم پر کھڑے ہو گے جہاں چند منٹوں کے اضافی انتظار کے بعد ریل گاڑی غراٹے بھرتی آرکی۔ آنے اور جانے والوں کا ہجوم ڈبوں کے دروازوں پر امڈ آیا۔

ادھر میں نے اور میرے دوست نے گرمی اور مسافروں کے رش کو مد نظر رکھتے ہوئے بزنس کلاس کے ڈبوں کا رخ کیا اور چند معمولی نویت کے سول نافرمانوں کے ساتھ جن میں ہم بھی شامل تھے۔ٹھنڈی ہوا اور نفیس ماحول میں سفر جاری تھا ۔ کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ریل گاڑی کے کچن میں معمور ایک بھائی صاحب سے ہمارا سکون برداشت نہیں ہوا اور ان کی شکایت پر پنجاب پولیس کا ایک جوان ڈبے میں آگیا۔ ویسے تو پنجاب پولیس کا نام ہی کافی ہے مگر موصوف چال ڈھال اور چہرے سے بھی کافی بارعب نظر آرہے تھے۔ پنجاب پولیس کا اکیلا جوان بھی پوری پنجاب پولیس ہوتا ہے یہ تو سب ہی جانتے ہیں۔

کالی شرٹ اور خاکی پینٹ میں موجود دبنگ جوان سے ہونے والی پل دو پل کی ملاقات کو سنسر شپ کی نظر کر کے اتنا بتانے پر ہی اتفاق کروں گا کہ جلد ہی تمام سول نافرمانوں کو اکانومی کلاس میں دھکیل دیا گیا۔جہاں پہلے ہی تل ڈھرنے کو جگہ نا تھی وہاں چند مسافروں کا اضافہ اورکر دیاگیا۔کھڑے ہو کر ایک گھنٹے کا سفر کرنے کے لیے میں نے اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کر لیا اور اپنے دوست سے محو گفتگو ہو گیا مگر جلد ہی میرا دوست موبائل پر پیغامات بھیج کر آنے والے ییغامات پر مسکرانے میں مشغول ہو گیا ۔ صورتحال کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے اور بوریت کے احساس سے بچنے کے لئے میں ڈبے کے دروازے کی طرف لپکا اور ریلوے لائن کے آس پاس کے علاقے میں سیلاب سے ہونے والی تباه کاریوں کا جائزه لینا شروع کر دیا۔

حالات کافی حد تک خطرناک تھے میں امید کر رہا تھا کے یہ پانی جلد خشک ہوجائے گا اور حالات معمول پر آ جائیں گے۔ متاثرین کے لیے نیک تمنائیں میرے دل میں موجود تھی۔ ویسے سیلاب سے متاثر علاقوں کی بحالی کا( پانی کے خود بخود خشک ہونے اور حالات کے معمول پر آنے کا) میرا یہ منصوبہ نیا نہیں تھا۔ حکومت ہر بار اسی منصوبہ پر عمل پیرا ہو کر سیلاب سے متاثر دکھی انسانیت کی خدمت کر کے اپنا فرض منصبی پورا کرنے کا دعوٰی کرتی ہے۔ خیر آفسروں کے کام وہی جانے ہم تو اتنا ہی کر سکتے ہیں سو کر رہے ہیں ۔ اچانک تسلسل ٹوٹتا ہے جب خاکی وردی میں ملبوس ایک شخص ہمارے درمیان آ کھڑا ہوتاہے۔وہ شخص اجنبی تھا مگراس کے باوجود سب اسے جانتے تھے ۔ مجھ سمیت وہاں موجود تمام مسافروں نے ان موصوف سے اپنے اپنے سفری ٹکٹ پر نیلی پینسل سے کچھ آڑی ترچھی لکریں ڈلوائی ۔ سوائے ایک نوجوان کے جو مسلسل ٹرین کی کھڑکی سے باہر پانی اور اس کے درمیان موجود درختوں کو تاڑ رہا تھا اور اندر کے ماحول اور کاروائی کو اہمیت نا دیتے ہوے مستقل نظر انداز کر رہا تھا۔

خاکی وردی والے صاحب اگلے ڈبے کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے اچانک رک کر مڑے اور یوں اس نوجوان کا راز فاش ہوگیا۔ وہ کوئی عام نوجوان نہیں تھا ۔موجودہ ملکی سیاسی ماحول کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں پتا چلا کے وہ ایک سول نا فرمان ہے۔ پھر کیا تھا وہاں موجود تمام مسافروں کی نظر یں ان دونوں کرداروں پر جم گئیں ۔ کافی بحث اور منت سماجت کے بعد معاملہ رفع دفع ہوگیا مگر یہ کیا سول نافرمانی کا خطاب خاکی وردی والے صاحب نے اپنے کھاتے میں ڈال لیا ۔ اور یوں ہمارے دیکھتے دیکھتے وہ نوجوان سے 100 روپے لے کر اور اس سے اسٹیشن کی حدود پار کرانے کا وعدہ کرکے اگلے ڈبے میں چلا گیا۔جہاں اس کے جانے کے کچھ دیر بعد کچھ اس طرح کی آوازیں آرہی تھی۔
" ہائے وئے چار سو لے گیا تے ٹکٹا وی نی دیتیاں جا کاکا اڈھے پیچھے جا۔"

تقریبا اور چار سول نافرمانوں سے سول نافرمانی کا خطاب اپنے نام کروا کر وہ موصوف آگے چلے گے۔ وہاں انہوں نے مزید کیا کیا اللہ بہتر جانتا ہے۔ اسی معاملے پر نظر رکھتے اور اس کا جائزہ لیتے لیتے میرا سٹاپ آچکا تھا۔ مگر میں افسردہ تھا اور اب بھی ہو۔ ان صاحب کی حرکت پر جو اپنے ادارے کوتباہ کررہے تھے اس کی کھوکھلی بنیاد اور اسی کی خستہ حالی کے باوجود اس پر رحم کھانے کو تیار نہیں تھے اور انفرادی مفاد کو ترجیح دے رہے تھے۔ ان کے لیے محاورہ صادق آتا ہے کہ "جس تھالی میں کھانا اسی میں چھید کرنا۔" اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت دے اور ملک پاکستان اور ا س کے اداروں کو مستحکم کرے۔ آمین۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں