بدلتی صورتحال کا تقاضہ


Muqtida Mansoor September 18, 2014
[email protected]

اس وقت ملک خوفناک بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ مسئلہ ایک نہیں،بلکہ مسائل کا انبار ہے ، جو بحرانی شکل اختیار کرچکے ہیں۔حالیہ دنوں ہی کا جائزہ لیں تو،ایک طرف مہینے بھر سے زیادہ شہر اقتدار میں دوجماعتوں کے دھرنے جاری ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ گزشتہ برس انتخابات میں دھاندلی ہوئی۔

دوسری طرف ایک بار پھر سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے۔اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ نظم حکمرانی کے بدترین بحران اور انتظامی ڈھانچے کی فرسودگی کی علامت ہے۔ دھرنے دینے والی جماعتوں کے طریقہ کار سے شدید اختلاف کے باوجود ہر متوشش شہری یہ جانتا ہے کہ ملک کا پورا انتظامی نظام زمین بوس ہوچکا ہے ۔اسی طرح حالیہ سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریاں بھی اسی انتظامی ڈھانچہ کی فرسودگی اورحکمران اشرافیہ کی نااہلیوںکا کھلا اظہار ہیں ۔

اب جہاں تک سیلاب کا تعلق ہے ، تو ایک معمولی علم رکھنے والا شخص بھی یہ جانتا ہے کہ اس خطے میں مون سون 15جون سے شروع ہوکر31اگست تک جاری رہتا ہے ۔ کبھی اس کا دورانیہ طویل ہوکر ستمبرکے وسط تک پھیل جاتا ہے ۔ یہ آج کی بات نہیں بلکہ صدیوں کا قصہ ہے ۔ مگر جب حکمران اُس ویژن سے عاری ہوں جو ایسی آفتوں سے نمٹنے کی پائیدار حکمت عملی تیار کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔یہی سبب ہے کہ ہر سال دو سال بعد سیلاب سے تباہی آتی ہے۔

سیکڑوں افراد لقمہ اجل بنتے ہیں،لاکھوں گھر برباد ہوتے ہیں اور اربوں کا نقصان ہوتا ہے۔ مگر جیسے ہی سیلاب کا پانی اترتا ہے تو ذہن سے اس کی تباہ کاریاں بھی محوہوجاتی ہیں ۔کیونکہ اس خطے کے عوام کو یہ باور کرا دیا گیا ہے کہ ہرقدرتی آفت منجانب اللہ ہوتی ہے، جسے برداشت کرنا اور اس پر شکر کرنا عام انسانوں کا اولین فریضہ ہے ۔اس سوچ نے عام آدمی کے مزاج کو غلامانہ بنا دیا ہے اور ڈھائی ہزار برس سے اس کے جینیات(Genes) میں حملہ آوروں کی خوشامد کا عنصر شامل ہوگیا،جو ایک باوقار اورآزادانہ حکمرانی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ۔لہٰذا وہ حکمرانوں کا گریبان پکڑنے کے بجائے توکل من اللہ بیٹھے رہتے ہیں ۔

یہ تسلیم نہ کرنا بہت بڑی زیادتی ہوگی کہ اس خطے میں زراعت اورکاشتکاری کا حالیہ نظام انگریز کی بصیرت کا نتیجہ ہے جس نے 1888ء میں پنجاب میں نہری نظام قائم کیا اور 1932ء میں سکھربیراج تعمیر کرکے سندھ اور پنجاب کے بیشتربنجر علاقوں کو قابلِ کاشت بنایا ۔اوکاڑہ سے خانیوال تک پھیلی زرخیزی اسی نہری نظام کی بدولت ہے ، جس پر آج ملٹری فارم قائم ہیں ۔قیام پاکستان کے بعد ایوب خان کے دور میں بعض اہم ڈیم تعمیر ہوئے ۔لیکن اس کے بعد پانی ذخیرہ کرنے، سستی پن بجلی بنانے اور سیلابوں کی روک تھام کے اقدامات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

ایوب خان پر تین دریا بیچنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ مگر کوئی دانشور یہ سوچنے پر آمادہ نہیں کہ پنجاب کی تقسیم صرف قطعہ ارض یا انسانوں کی تقسیم نہیں تھی ، بلکہ وسائل بھی اسی انداز میں تقسیم ہونا تھے ۔ یہی سبب ہے کہ عالمی بینک کی مداخلت اور سہولت کاری کے نتیجے میںتین دریاؤں کا پانی بھارت کودینے کا معاہدہ 19 ستمبر1960ء طے ہوا۔ جس کی رو سے پنجاب کے مشرق میں بہنے والے تین دریاؤں (بیاس، ستلج اور راوی) کے پانی پر بھارت کا حق ہوگا۔ جب کہ مغربی تین دریا، چناب، جہلم اور سندھ پاکستان کے تصرف میں رہیں گے۔ تاہم یہ بھی طے کیا گیا کہ بھارت اگلے دس برس تک (1970) راوی کے پانی کے پاکستان میں بہائو کو نہیں روکے گا۔ لیکن پاکستان اگلے دس برس تو کجا ، آج تک پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی نظام تربیت نہیں دے سکا ۔چونکہ عوام کی حقائق تک رسائی نہیں،اس لیے کچھ لوگ بھارت کوکوستے ہیں، جب کہ کچھ ایوب خان کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔

ہم ہر بات میں بھارت کی مثال دیتے ہیں۔ لیکن وہاں نظم حکمرانی کو بہتر بنانے کے لیے انھوں نے جو اقدامات کیے ان کا سنجیدگی سے مطالعہ ومشاہدہ کرنے اور انھیں سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ سیاسی وفکری اختلافات اپنی جگہ،مگر پنڈت جواہر لعل نہرو بھارت کو ایک آزاد ملک بنانے کے لیے جو اقدامات کیے انھیں سمجھنا ضروری ہے ۔ پہلا کام تو انھوں نے یہ کیا کہ ملک کو آئین دینے کے علاوہ زرعی اصلاحات کا آغاز کیا ۔ساتھ ہی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اصلاحات لانے کے لیے کمیشن قائم کیے۔ جن میں دو کمیشن انتہائی اہم ہیں۔ایک مولانا ابوالکلام آزاد کی قیادت میں قائم تعلیمی کمیشن اور دوسرا ولبھ بھائی پٹیل کی قیادت میں سول سروس کی اصلاح کے لیے قائم کیا گیا کمیشن شامل ہیں۔

ولبھ بھائی پٹیل کا دسمبر 1950ء میں انتقال ہوگیا،جس کی وجہ سے سول انتظامیہ کے شعبہ میں زیادہ تبدیلیاں نہ آسکیں۔لیکن مرنے سے پہلے انھوں نے سول سروس کو نوآبادیاتی نفسیات کی کیفیت سے نکال کر ہندوستانی قومیت کے قالب میں ڈھالنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے سول سروس کے انتخاب کے طریقہ کو تبدیل کرنے کے بجائے ان کے تربیتی ماڈیول (Modules) کو تبدیل کیا۔ اس کے برعکس ہمارے یہاں امیدواروں کا انتخاب میرٹ کے بجائے کوٹہ سسٹم کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ جب کہ تربیتی Modules آج بھی نوآبادیاتی ہیں۔جس کی وجہ سے ایک کم ذہنی استعداد کا افسر زیادہ بڑا فرعون بن جاتا ہے۔

بھارت نے دوسرا اقدام تعلیم کوقومی تصورات اور ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے مولانا ابوالکلام آزاد کی سربراہی میں تعلیمی کمیشن قائم کیا ۔جس کی تیار کردہ تعلیمی پالیسی نے بھارت میں تعلیم کی سمت کا واضح تعین کردیا ۔ تعلیم کے فروغ کی دلچسپی کی ایک مثال یہ ہے کہ انڈیا ایکٹ1935ء کی منظوری کے بعد1937ء میں پورے ہندوستان میں انتخابات ہوئے اور کانگریس کی حکومت قائم ہوئی۔اپنی حکومت کے دوران پنڈت جی نے حیدرآباد(دکن) کا دورہ کیا اور وہاں 8ایکٹر کے ایک قطعہ اراضی کا انتخاب کرکے ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ کے قیام کے لیے تعمیر کا حکم دیا۔

ابھی چہاردیواری اور دو کمرے ہی تعمیر ہوسکے تھے کہ 1939ء میں دوسری عالمی جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی ان کی حکومت ختم کردی گئی۔1947ء میں آزادی اور1950ء میں حیدرآباد کی بھارت میں شمولیت کے بعد پنڈت جی وہاں دوبارہ گئے توانھوں نے اس کالج کے بارے میں استفسار کیا جس کا افتتاح انھوں نے 12 برس قبل کیا تھا۔جب انھیں پتہ چلا کہ 12 برس سے کام رکا ہوا ہے ، تو انھوں نے ترجیحی بنیادوں پر فوری تعمیراور جلد تکمیل کا حکم دیا ۔ یہ ٹیکنیکل کالج آج ہر سال کمپیوٹر سائنس کے مختلف شعبہ جات میں 4 ہزار گریجویٹ پیدا کر رہا ہے۔

اس کے علاوہ انڈیا انسٹیٹیوف آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے 26 کیمپس پورے ہندوستان میں تعلیم فراہم کر رہے ہیں ۔جن کی ڈگری عالمی سطح پر تسلیم کی جاتی ہے۔ اس ادارے میں داخلے کے لیے وزیر اعظم کو بھی سفارش کرنے کا اختیار نہیں ہے ۔ مگر ہم 67 برسوں کے دوران اعلیٰ سطح کا ایسا کوئی ادارہ قائم نہیں کرسکے ہیں ۔ ایک بار پھر آتے ہیں سیلابوں کی طرف۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران تین انتہائی خطرناک سیلاب آچکے ہیں۔

2010ء کے سیلاب کے بعد کمیشن قائم کیا گیا تھا، جس کی رپورٹ میں ذمے داروں کے تعین کے علاوہ کئی اہم تجاویزدی گئی ہیں ۔مگر نہ تو ذمے داروں کو عدالت کے کٹہرے میں لایا گیا اور نہ کسی ایک تجویز پر عمل کرنے کی زحمت گوارا کی گئی۔یہی کچھ معاملہ 2005ء کے زلزلہ کا بھی ہے۔ جس نے پختونخواہ، مغربی پنجاب اور کشمیر میں تاریخ کی بدترین تباہی پھیلائی تھی ۔ بعض شہر اور گاؤں صفحہ ہستی سے مکمل طورپر مٹ گئے۔ مگر حکومت زلزلوں کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات تو دور کی بات آج 9 برس گذرجانے کے باوجود متاثرین کی مکمل طور پر آبادکاری نہیں کرسکی ہے۔یہ رویے اس بات کے غماز ہیں کہ حکمران اشرافیہ اور انتظامی ادارے اس عزم و صلاحیت اور اہلیت سے عاری ہیں جوکسی ملک کو مختلف نوعیت کی آفات سے محفوظ رکھنے اور ان کے نقصانات کو کم سے کم کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔

وقت و حالات کا تقاضہ ہے کہ انتظامی ڈھانچے میں مناسب تبدیلی صرف انتظامی نظام بہتر بنانے کے لیے ہی ضروری نہیں ہے، بلکہ قدرتی آفات سے نمٹنے اور ان سے ہونے والے نقصانات میں کمی لانے کے لیے بھی ضروری ہے۔ اب جب کہ انتخابی نظام کی فرسودگیاں بھی کھل کرسامنے آگئی ہیں اوردو جماعتیں ایک ماہ سے وفاقی دارالحکومت کا گھیرائوکیے بیٹھی ہیں،انتخابی نظام میں تبدیلی کے لیے صائب اقدامات کیے جائیں۔یہ وقت کا تقاضہ ہے اور یہی ضرورت بھی ہے ۔اس لیے اس پر ترجیحی بنیادوں پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں