میر مرتضیٰ بھٹو زندگی اور موت ساتھ ساتھ
محترمہ بینظیر بھٹو جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتی تھیں جب کہ مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو جنرل ضیاء سے اپنے والد کے۔۔۔
ISLAMABAD:
شہید ذوالفقار علی بھٹو کے بڑے بیٹے اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے چھوٹے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کی زندگی میں 18 ستمبر اور 20 ستمبر دو اہم ترین تاریخیں ہیں کہ 18 ستمبر ان کا یوم ولادت اور 20 ستمبر یوم شہادت ہے۔ ان کی زندگی کی کہانی ایک دن میں سمٹ آئی۔ یہ کیسا ستم ہے کہ 18 ستمبر کو سالگرہ منانے کے ایک دن بعد یوم شہادت کا سوگ منانا پڑے۔
وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے 18 ستمبر 1996ء کو اپنے چھوٹے بھائی کی سالگرہ کے روز انھیں70 کلفٹن میں کیک اور پھول بھیج کر مبارکباد دی تھی۔ اسی شام میں نے بھی اسلام آباد سے میر مرتضیٰ بھٹو کو مبارکباد کے لیے فون کیا تو انھوں نے کہا کہ آپ کی لیڈر نے مجھے کیک بھیجا ہے۔ جس پر میں نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کیونکہ بی بی نے مجھے خود بتا یا تھا کہ انھوں نے میر مرتضیٰ کی سالگرہ پر پھول اور کیک بھیجے ہیں۔ اس دن بی بی بہت خوش تھیں اور میر مرتضیٰ بھٹو بھی۔
بیس ستمبر کی شام جب بی بی کو یہ خوفناک اطلاع ملی کہ ان کا بھائی پولیس فائرنگ سے شدید زخمی ہو کر موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا ہے تو وہ اسی رات شدید پریشانی کے عالم میں کراچی پہنچیں جہاں ان کا بھائی ان سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو چکا تھا۔ بی بی کے لیے یہ صدمہ ناقابل برداشت تھا اور اسپتال میں ایک بہن اپنے پیارے بھائی کے لیے زار و قطار رو رہی تھی۔ بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ وہ اس سانحہ عظیم پر اندر سے ٹوٹ چکی تھیں۔ بھٹو خاندان کا کوئی بھی مرد بقید حیات نہیں رہا تھا۔
اگلے دن میر مرتضیٰ بھٹو کے جنازہ کے بعد بی بی رات کے 12 بجے نوڈیرو سے المرتضیٰ گئیں جہاں بیگم نصرت بھٹو اپنے پیارے بیٹے کے صدمہ سے تصویر غم بنی بیٹھی تھیں۔ وہاں بی بی کی ہمشیرہ صنم بھٹو' مرتضیٰ کی بیٹی فاطمہ بھٹو بھی تھیں۔ بی بی سب سے گلے مل کر روئیں۔ المرتضیٰ میں بالکل سناٹا تھا۔ بی بی جب پہنچیں تو تمام لوگ احتراماً کھڑے ہوئے اور یہ اندیشہ کہ میر مرتضیٰ بھٹو کے حامی شدید مخالفانہ ردعمل کا اظہار کریں گے' بے بنیاد نکلا۔
مرتضیٰ بھٹو کے حامیوں نے بھی محترمہ بینظیر بھٹو کے وقار اور احترام کا پورا خیال رکھا۔ دیگر خاندان کے افراد کے ہمراہ غم بانٹنے سے ان کا بوجھ قدرے کم ہوا اور جب ہم المرتضیٰ سے رخصت ہوئے تو بی بی نے اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا کہ ''میں نے المرتضیٰ آ کر بہت اچھا کیا اس سے میرے دل کا بوجھ کم ہوا ہے جب کہ بعض لوگوں کا یہ خیال تھا کہ سکیورٹی کے پیش نظر مجھے وہاں نہیں جانا چاہیے۔'' بی بی کے ہمراہ یاسمین نیازی' رخسانہ بنگش اور میں تھے۔
میر مرتضیٰ بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید میں سیاسی اختلافات کی ایک وجہ یہ تھی کہ میر مرتضیٰ بھٹو نے 4 اپریل 1979ء کو اپنے والد کی شہادت کے بعد جنرل ضیاء الحق کے خلاف مسلح راہ اپنانے کا فیصلہ کیا۔ 18 مارچ 1978ء کو مولوی مشتاق کی عدالت سے پھانسی کے فیصلہ کے بعد میر مرتضیٰ بھٹو نے اپنے والد کی زندگی بچانے کے لیے عالمی سطح پر پرامن جدوجہد شروع کی۔ انھوں نے لندن میں بڑے بڑے مظاہروں کی قیادت کی۔
دنیا کے اہم رہنماؤں سے ملاقات کر کے عالمی ضمیر کو جھنجوڑا۔ اس سلسلے میں ان کی انتھک جدوجہد اس لحاظ سے قابل تعریف ہے کہ دونوں بھائیوں کی کوششوں سے برطانوی عوام' پارلیمنٹ' میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھٹو صاحب کے حق میں آواز بلند کی اور مختلف سیمینار و اجتماعات میں ضیاء آمریت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ میر مرتضیٰ بھٹو کا یہ کردار بالکل جمہوری تھا لیکن4 اپریل 1979ء نے سب کچھ تبدیل کر دیا۔
محترمہ بینظیر بھٹو جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتی تھیں جب کہ مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو جنرل ضیاء سے اپنے والد کے قتل کا انتقام لینا چاہتے تھے اس لیے انھوں نے طویل جلاوطنی میں مشکلات بھی برداشت کیں۔ میر مرتضیٰ بھٹو کی مسلح جدوجہد کے نتیجے میں بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کو اندرون ملک شدید مسائل برداشت کرنا پڑے۔
اپنی طویل جلاوطنی کے دوران میر مرتضیٰ بھٹو سندھ اسمبلی کا الیکشن لڑ کر ایم پی اے منتخب ہوئے اور واپس آنے کے بعد انھوں نے چند ماہ جیل میں گزارے جس سے بہن بھائی میں رنجش بڑھی اور بالآخر جولائی 1996ء میں دونوں بہن بھائیوں کی وزیر اعظم ہائوس میں ملاقات ہوئی۔ خیال تھا کہ مزید ملاقاتیں ہوں گی اور دونوں بہن بھائی اپنے والد کے مشن کی تکمیل کرینگے مگر بعض عناصر کی سازش جاری رہی۔ مزید ملاقاتیں ان کے مقدر میں نہ تھیں۔ مرتضیٰ بھٹو کی جدائی کے اسی غم کا اظہار بی بی نے اپنے بھائی کی تیسری برسی کے موقع پر میرے نام 19 ستمبر 1999ء کواپنے ای میل پیغام میں یوں کیا کہ
''ڈیئربیش' میر مرتضیٰ کی سالگرہ پر آپ کے پیغام کا شکریہ' یہ ایک المیہ ہے کہ ایک بیش قیمت زندگی اپنے شباب میں ختم ہو جائے۔ ایک خوبرو جوان سے زندگی کا حسن چھین لیا جائے' ایک شفیق باپ کی شفقت سے اس کے بچوں کو محروم کر دیا جائے۔ میر مرتضیٰ بھٹو کا خیال آتے ہی میرا دل رونے لگتا ہے۔ خدا تعالیٰ انھیں جنت میں ابدی سکون عطا کرے اور زمین پر انھیں جن مشکلات سے نبرد آزما ہونا پڑا ان کے بدلے سیکڑوں گنا اجر عطا فرمائے۔ مجھے جولائی سے پہلے ان سے مصالحت نہ ہونے کا قلق رہے گا۔
مجھے یہ دکھ رہے گا کہ انتہائی مصروفیات نے مجھے اپنے بھائی تک سے ملنے کی مہلت نہ دی' وہ بھائی جو میرا خون تھا۔ آپ کو یہ پیغام تحریر کرتے ہوئے بھی میری آنکھیں اشکبار ہیں۔ پیغام کا شکریہ۔ میں بھی دعاگو ہوں کہ قدرت ضرور انصاف کرے گی۔ میری دعائوں میں میر مرتضیٰ کے بچے بھی شامل ہیں۔ خدا تعالیٰ انھیں زندگی کی مسرتوں سے نوازے اور وہ اپنے خاندان کی غیر مشروط محبت والی بانہوں میں ایک بار پھر لوٹ آئیں۔ بینظیر بھٹو 19-9-99'' بی بی کا اپنے بھائی کے لیے پیار اس ایک جملے میں جھلکتا ہے کہ ''کاش میں اپنے بھائی کو زیادہ وقت دے پاتی۔''