روس سے دوستی عالمی تعلقات میں توازن لائے گی
روسی صدر ولا دیمیر پیوٹن کے آمدہ دورئہ پاکستان پر دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال
روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن 2 اکتوبر کو پاکستان کے دورے پر آرہے ہیں۔
ان کا یہ دورہ کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔ صدر پیوٹن کا ملک بساطِ عالم کے ان شاطروں میں شامل ہے، جن کی چالیں اور فیصلے ''مہروں'' کی چالوں اور خانوں کا تعین کرتے ہیں۔
سوویت یونین کے دیوہیل قلعے کے ملبے پر پوری قامت کے ساتھ کھڑا روس اپنی پیش رو سرخ ریاست سا حجم اور قوت تو نہیں رکھتا، مگر اس میں امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی تاب ہے، جس کا استعمال وہ بارہا کر چکا ہے۔
کہیں اقوام متحدہ کے ایوانوں میں حاصل استردادی قوت (ویٹو پاور) کی صورت اس نے امریکا کی ہم سری کا مظاہرہ کیا تو کہیں کسی اور محاذ پر اپنا وجود ثابت کیا ہے۔
دور حاضر میں دنیا کی فضا کو باردو سے بھرتی ''واشنگٹن گردی'' کے سدباب کے لیے کم زور ممالک کی آنکھیں جن ریاستوں کی طرف اٹھتی ہیں، ان میں چین کے ساتھ روس سرفہرست ہے، جو چین کے برخلاف امریکا سے پنجہ آزمائی کی ایک تاریخ رکھتا ہے۔
روس کی یہ حیثیت اور کردار پاکستان کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے، کیوں کہ ہمیں ڈرون حملوں اور دھمکی آمیز بیانات اور مطالبات پر مشتمل جو امریکی ''دوستی'' بھوگنا پڑ رہی ہے، اسے نبھانے کی وجہ ہماری زبوں حال معیشت کے لیے امریکی ڈالر کی اہمیت اور ہماری دفاعی کم زوری کے سامنے پنجے کھولے کھڑی امریکی طاقت، بتائی جاتی ہے۔
سو پاکستان کو ایک ایسی زور آور قوم کی دوستی کی ضرورت ہے، جو اس کے شانے سے شانہ ملائے اور اس کی طرف معاشی تعاون کا بریف کیس لیے ہاتھ بڑھائے۔ دوسری طرف ماسکو عسکریت پسندی اور متعلقہ مسائل سے نمٹنے کے لیے پاکستان کا تعاون ناگزیر سمجھتا ہے۔ دونوں ملکوں کی جغرافیائی قربت بھی باہمی تعاون کی راہ دکھاتی ہے۔
روس اور پاکستان کے تعلقات نشیب وفراز اور عداوت واعانت کی اپنی ہی دل چسپ تاریخ رکھتے ہیں، جس کا سلسلہ سوویت یونین کی جانب سے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو دورے کی دعوت سے شروع ہوا۔
ان کے سرُخ سرزمین کا رُخ کرنے کے بہ جائے امریکا کی سمت عازم سفر ہوجانے کے بعد ان تعلقات نے کئی موڑ کاٹے۔
ہماری دھرتی سے روس کی جاسوسی کے لیے اُڑتے امریکی طیاروں کے سبب ایک وقت وہ آیا کہ دنیا کی پہلی کمیونسٹ ریاست نے نقشے پر پشاور کے گرد سرخ دائرہ کھینچ دیا۔
سوویت یونین سے ہماری راہیں کچھ ایسی جُدا رہیں کہ ایک طرف ہم سرمایہ داری اور کمیونزم کی آویزش میں سرمایہ دارانہ نظام کے سرخیل امریکا کا دست وبازو بنے اور دوسری طرف کمیونزم کی اندرونی محاذ آرائی میں روس کے مقابل صف آراء چین ہمارا قریب ترین حلیف قرار پایا۔
اور جب افغانستان کی سرزمین پر سوویت یونین کی بربادی کا نقشہ مرتب ہوا، تو اس کی لکیریں کھینچنے میں ہم آگے آگے تھے۔ اس سب کے ساتھ روس اور پاکستان کی فضاؤں میں باہمی خوش گوار تعلقات کے جھونکے بھی چلتے رہے۔ چناںچہ پاکستان اسٹیل ملز کی صورت ہمیں روس کا تحفہ ملا۔
اس تمام پس منظر میں روسی صدر کا دورۂ پاکستان اپنے ساتھ کئی سوالات لے کر آرہا ہے، جن میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کوئی بنیادی تبدیلی آنے کو ہے؟ یہ اور اس جیسے دوسرے سوالوں کے جواب کی تلاش میں ہم نے اہم قومی دانشوروں اور تجزیہ نگاروں سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ صدرولادیمیر پیوٹن کا دورہ ہمارے حال اور مستقبل پر کیا اثرات مرتب کرسکتا ہے۔
جنرل حمید گل
(سینئر دفاعی تجزیہ نگار)
روس کے صدر کا پاکستان کا پہلا دورہ ہے۔ ا س کے ہماری خارجہ پالیسی پر یقینا مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ روس کے ساتھ ہمارے تعلقات کبھی بھی خراب نہیں رہے۔
پاکستان میں سٹیل مل کا منصوبہ ان کی دوستی کی واضح مثال ہے۔ امریکی دوستی میں ہم کافی آگے جا چکے ہیں مگر وہ ہمارے آپشنز محدود کرتا جا رہا ہے جس سے ہمارے لیے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
امریکی کمپنیوں کا پاکستان کے ساتھ رویہ دیکھیں کہ وہ جان بوجھ کر پاکستان سے تیل نہیں نکال رہیں کہ پاکستان اس میں خودکفیل نہ ہو جائے۔
اسی طرح بھاشا ڈیم بنانے میں انہوں نے رکاوٹیں ڈالیں حتیٰ کہ بنانے سے انکار کر دیا تو روسی کمپنیوں نے ڈیم بنانے کا عندیہ دیا۔ دوسری طرف بھارت نے اپنی پٹڑی بدلی ہوئی ہے اور وہ امریکا کی جھولی میں جا بیٹھا ہے۔
ایسی صورتحال میں بھی روس کا ہماری طرف جھکائو فطری ہے۔ روسی صدر کے دورے سے قبل آرمی چیف جنرل کیانی بھی روس کا مختصر دو رہ کرنے جا رہے ہیں۔ اس سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی بہت اہم تبدیلی آنے والی ہے جو پورے خطے پر اثرانداز ہوگی۔
ان سارے معاملات کو آگے بڑھانے والا چین ہے، وہ ہمارا انتہائی مخلص دوست ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس کے مشورے پر من و عن عمل کریں کیونکہ اسی میں ہمارا فائدہ ہے۔ اللہ کے فضل سے ہم نیوکلیئر پاور ہیں۔ دفاعی معاملات کافی بہتر ہیں، ہمارا اصل مسئلہ معاشی ہے اور معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے روسی صدر کا یہ دورہ بڑا اہم ثابت ہوگا۔
اس سے ہمارے لیے نئے راستے کھلیں گے۔ امریکا نے ہمارے لیے جو آپشنز میں کمی کی ہے، وہ ختم ہو جائے گی۔ میں تو پہلے ہی کہا کرتا ہوں مشرق کی طرف دیکھو، مغرب کو چھوڑو۔ اسی میں ہمارے ملک و قوم کی بہتری ہے۔
رسول بخش رئیس
(تجزیہ نگار)
تاریخی طور پر روس (سوویت یونین) اور پاکستان کے تعلقات کچھ زیادہ بہتر نہیں رہے۔
جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو ہمارے پاس دو آپشن تھے۔ ایک تو خاموش بیٹھے رہیں، دوسرا یہ کہ انہیں وہاں پائوں نہ جمانے دیں۔ یہ دونوں آپشن ناقابل قبول تھے کیونکہ روس کی اُس دور کی پالیسیز ہمارے لیے کچھ زیادہ بہتر نہیں تھیں۔
ایک تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں روس کا ہاتھ تھا، دوسرے وہ بھارت کو ہر حوالے سے سپورٹ کرتا تھا۔ روس بھارت کے جائز و ناجائز ہر معاملے پر حمایت کرتا تھا۔ اس نے بھارت کو دفاعی طور پر مضبوط بنانے کے لیے ہر قسم کا اسلحہ فراہم کیا۔ اس کی فوج کی تربیت کی، تو یہ وہ معاملات تھے جس کی وجہ سے پاکستان سوویت یونین سے دور اور امریکا کے قریب ہو گیا۔
خاص طور پر روس افغانستان جنگ میں جب پاکستان نے مزاحمت کاروں کا ساتھ دیا تو امریکا روسی دشمنی کی وجہ سے جنگ میں کود پڑا۔ یوں پاکستان اور امریکا مزید قریب ہو گئے۔
یہ تو تھے سرد جنگ کے دور کے حالات۔ جب سوویت یونین ٹوٹا تو عالمی سطح پر سرد جنگ کا خاتمہ ہو گیا۔ ایسی صورت میں پوری دنیا کی خارجہ پالیسیز میں تبدیلیاںآئیں۔ پاکستان نے بھی نئے آپشنز تلاش کیے۔ اب جب کہ روسی صدر پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں تو یہ بالکل ایک نئی صورتحال بن رہی ہے۔ ہم روس کو خوش آمدید کہتے ہیں، اب روس اور پاکستان کے مشترکہ مفادات ہیں۔
روس کے پاس جدید ٹیکنالوجی بھی ہے اور وسائل بھی جس سے پاکستان کو معاشی طور پر بہت فوائد پہنچیں گے۔ خاص طور پر سٹیل مل جو پاکستان کے لیے سفید ہاتھی بن چکا ہے، اس کی اَپ گریڈنگ ہوگی۔ روسی صدر کے دورے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ایک پڑوسی ملک کے دوست بننے سے نئے راستے کھلیں گے۔
ڈاکٹر حسن عسکری
(تجزیہ نگار)
روسی صدر کے پاکستان کے دورے سے سفارتی اور معاشی روابط بڑھیں گے۔ خاص طور پر تجارت میں بہت فائدہ ہوگا۔ روس پاکستان کے ساتھ ٹیکنالوجی ٹرانسفر، تجارت اور ٹیکنیکل اسسٹنٹس کے معاہدے کرے گا جس کے پاکستان کی معیشت پر مثبت اثرات ہوں گے۔
چونکہ روس اور پاکستان کے درمیان معاہدوں پر فوری عمل درآمد ہونا ہے، اس لیے پانچ چھ ماہ میں ہی سب کچھ سامنے آجائے گا۔ روس پاکستان کا پڑوسی ملک ہے۔ اس سے سفارتی تعلقات تو بڑھیں گے ہی مگر اس کا دفاعی فائدہ بھی ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف امریکا بھی ہمارا دوست ہے۔
اس سے ہمارے تعلقات میں کوئی رخنہ پیدا نہیں ہوگا۔ ان کے ساتھ ہمارے معاملات حسب معمول رہیں گے۔ یوں دیکھا جائے تو روسی صدر کے دورے سے پاکستان کو بہت فائدہ ہوگا۔ ہمیں ایک مضبوط اور طاقتور دوست مل رہا ہے۔
ڈاکٹر مہدی حسن
(دانشور)
ابھی تک تو پاکستان ہر معاملے میں امریکا کے ساتھ ہے اور اس کے لیے ہمارے اوپر دبائو بھی ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ روس اور چین سے تعلقات استوار کیے جائیں۔
جس سے سفارتی سطح پر توازن قائم ہوگا۔ ممکن ہو تو ہمیں بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے چاہئیں۔ یہ سب کرنے سے امریکا کو یہ پیغام جائے گا کہ اس سے تعلقات کے لیے ہم مجبور نہیں ہیں۔ یوں امریکی دبائو کم ہوگا۔
اسے یہ معلوم ہوگا کہ پاکستان کے پاس دیگر آپشنز بھی ہیں۔ بدقسمتی سے عالمی سطح پر ہمارا امیج کافی برا ہے جس کی وجہ سے سفارتی سطح پر ہم تنہائی کا شکار ہیں۔ روس معاشی اور دفاعی لحاظ سے ایک طاقتور ملک ہے۔
اس سے تعلقات بہتر ہونے سے یقینا ہمیں فائدہ ہوگا۔ سوائے ذوالفقار علی بھٹو کے کسی بھی حکمران نے روس سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش نہیں کی سٹیل مل اس دور کی یادگار سب کے سامنے ہے۔ روس اور پاکستان کی دوستی سے صرف پاکستان کو نہیں بلکہ روس کو بھی فائدہ ہوگا۔
امید ہے ڈپلومیٹک چینلز میں بھی اہم تبدیلیاں ہوں گے۔ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ پڑوسی ممالک ہونے کی وجہ سے دونوں کے لیے سفارتی معاشی اور دفاعی معاملات کو آگے بڑھانا بہت آسان ہے۔
وجاہت مسعود
(صحافی/ کالم نگار)
پاکستان اور روس کے تعلقات کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ چھ عشروں کے دوران دونوں ممالک کے تعلقات کچھ زیادہ خوشگوار نہیں رہے۔
اس خرابی میں افغانستان روس جنگ اور عالمی سطح پر سپر پاورز کے درمیان سرد جنگ نے زیادہ کردار ادا کیا۔ اب جبکہ صورتحال بدل چکی ہے تو ضروری ہے کہ سفارتی اور ڈپلومیٹک سطح پر اہم تبدیلیاں لائی جائیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تبدیلیاں لائی بھی گئی ہیں۔ اس وقت ہم جس طرح سے دبائو کا شکار ہیں تو اس دبائو کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ چین اور روس سے تعلقات کو مضبوط کیا جائے۔
چین کے ساتھ تو خیر ہمارے تعلقات پہلے سی دوستی کی بنیاد پر استوار ہیں۔ اب روس کے ساتھ بھی تعلقات میں بہتری رہی ہے۔ یہ ہمارے لیے بہت خوش آئند ہے مگر ہمیں ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا ہوگی کہ ملکوں کے تعلقات ہمیشہ مفادات کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔
جب تک کسی ملک کا دوسرے سے مفاد ہوگا تو تعلقات بہترین سطح پر ہوں گے۔ ہمارے ملک کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے تعلقات مغربی ممالک سے چند مسائل اور مشکلات کی وجہ سے بہترین سطح تک نہیں پہنچ پاتے۔ اگر یہی مسائل پاک روس تعلقات میں بھی رہے تو تعلقات بہترین سطح تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ اس لیے ہمیں اپنا امیج بہتر کرنے کی کوشش کرنا ہوگی تاکہ ہمارے لیے ہر طرف دوستی کے دروازے کھلے رہیں۔
طارق فاطمی
(سابق سفیر)
خطے میں یہ نئی صدی کا ایک اہم ایونٹ ثابت ہو گا جو پاکستان کو موقع فراہم کرے گا کہ روس کے ساتھ باہمی تعلقات کو نئے سرے سے استوار کیا جا سکے۔
پاک روس تعلقات میں یہ پہلا موقع آ رہا ہے کہ جب دونوں ممالک ماضی کی غلط فہمیوں کو میز پر بیٹھ کر دور کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں روسی صدر کی موجودگی اِس بات کی غماز ہے کہ روس پاکستان میں گہری دل چسپی رکھتا ہے.
خاص طور پر پاکستان کے انرجی سیکٹر میں روس ایک بنیادی اور اہم رول ادا کر سکتا ہے، اس دورے سے دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعلقات کی نئی راہیں پیدا ہونے کے بہت زیادہ امکانات ہیں، اِس لحاظ سے اِس دورے کو ایک خاص طرح کی اہمیت حاصل ہو گی۔
پاکستانی حکومت کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ روسی صدر کی آمد سے پہلے اپنی پیشہ ورانہ سفارتی تیاریوں کو ہر سطح پر مکمل کریں، خاص طور پر روس کی عالمی سطح پر معروف گیس کمپنی ''گیزپرام'' کو پاکستان میں اپنے تکنیکی آپریشن کی دعوت دینی چاہیے تاکہ ملک سے انرجی کے بحران کو ختم کرنے میں ہمسایہ ممالک کے تجربے اور مہارت سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔
روس آج بھی اِس پوزیشن میں ہے کہ وہ پاکستان کے بہت سے معاشی بحرانوں کو حل کرنے میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔ روس کی دل چسپی کو ہماری حکومت کس طرح کیش کراتی ہے یہ اُن کی آمد کے موقع پر ہماری مہارت سامنے آئے گی۔
سعید صدیقی
(سابق فارن سیکرٹری)
یہ صرف خیرسگالی دورہ نہیں ہو گا بل کہ اِس دورے کے دیگر پہلو بھی نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے لیے یہ دورہ ایک سنگِ میل ثابت ہو گا.
کیوں کہ ہندوستان کی طرف روس کے جھکائو کی داستان اب قصۂ پارینہ بن چکا ہے اور اِس داستان کے ختم ہونے کے بعد روسی صدر پیوٹن پہلی دفعہ پاکستان آ رہے ہیں اور اُن کے ذہن میں ہمارے متعلق اب شاید کوئی مخالفت یا مخاصمت نہیں ہوگی بل کہ یہ دورہ ایک خوش آئند تبدیلی کی نوید ہے وہ اپنے ملک میں دو بار وزیراعظم رہ چکے ہیں.
جب کہ تیسری مرتبہ اب روس کے صدر ہیں اور اُن کی اِس حیثیت کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے وہ صدر کی حیثیت کے علاوہ اپنی خفیہ ایجنسی ''کے جی بی'' کے بھی چیف ہیں، اِس لیے اُن کی خطے پر بہت گہری نظر ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جو ممالک اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی نہیں کرتے یا زمانے کے تغیرات سے خود کو ہم آہنگ نہیں کرتے وہ قوموں کی برادری میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
سرد جنگ کے بعد پاکستان اور روس کے درمیان جو تعلقات اب استوار ہونے جا رہے ہیں وہ سرد جنگ سے پہلے جیسے نہیں ہوں گے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ایک مثبت سمت کا تعین ہونے والا ہے۔
اِس سمت میں معاشی تعلقات کو نہایت بنیادی اہمیت حاصل ہو گی، پاکستان میں ٹیکنالوجی کو فروغ ملے گا اور پاکستان ٹیکنالوجی کے اُن شعبوں میں اپنے آپ کو خود کفیل کر سکے گا جو ابھی تک خود کفالت کے زمرے میں نہیں آئے۔ پاکستان نے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا جو منصوبہ شروع کرنے کا پروگرام بنا رکھا ہے اُس کو میرے خیال میں روس کی گیس کمپنی ''گیزپرام'' بہت احسن طریقے سے مکمل کر سکتی ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہو گی۔
اگر اِس دورے کے دوران ہمارے حکمرانوں نے زبانی کلامی باتوں سے گزارا کرنے کی کوشش کی تو ایک اہم موقع ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ پبلک پرائیویٹ انٹرن شپ کے ذریعے اپنی پالیسی کو اُن جدید خطوط پر استوار کریں، جس کا فائدہ ہمیں آئندہ کئی دہائیوں تک ہوتا رہے۔
پروفیسر راجہ محمد اسلم خان
(تاریخ داں)
اِس وقت دُنیا میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ چند روز قبل چین کے آرمی چیف نے پاکستان کا دورہ کیا، پاکستان کے اعلیٰ فوجی و سول حکام سے مذاکرات کیے جن میں دونوں ممالک کے درمیان موجود تعاون کو مزید بہتر کرنے کا عزم کیا۔
گزشتہ دنوں صدرِ پاکستان نے جنرل اسمبلی میں جو خطاب کیا اُس کے لب و لہجے سے واضح ہو رہا تھا کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں کر رہا ہے۔
کچھ عرصہ سے امریکی سیاست دانوں کی جانب سے پاکستان مخالف بیانات یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ پاک امریکا تعلقات میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ یہ بات پاکستان کے اعلیٰ حکام کے علاوہ عوام پر بھی واضح ہو چکی ہے کہ امریکا ہمارے ازلی دشمن بھارت کی بعض اہم معاملات میں بے جا پشت پناہی کر رہا ہے۔
یہ بات بھی میڈیا پر آ چکی ہے کہ بھارت پاکستان کے اہم صوبے بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے، یاد رہے کہ بھارت کے اِس عمل میں اسرائیل کی پشت پناہی بھی شامل ہے۔ اہلِ فکر و نظر جانتے ہیں کہ کچھ عرصہ سے افغانستان سے پاکستان کی سرحد پر حملے ہو رہے ہیں.
اِن حملوں میں واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ امریکی حمایت شامل ہے ورنہ کون نہیں جانتا کہ امریکا کی ملی بھگت کے بغیر افغان یہ حملے نہیں کر سکتے۔ پاکستان اِس سلسلہ میں سفارتی سطح پر شدید احتجاج کرتا رہتا ہے لیکن امریکا نے آج تک اِس سلسلے میں کوئی اہم قدم نہیں اٹھایا، جس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ اِن حملوں میں امریکا کی مرضی شامل ہے۔
بین الاقوامی سطح پر یہ تبدیلی بھی اچھی نظر سے دیکھی جا رہی ہے کہ ماضی کے مقابلے میں چین اور روس قریب ہو رہے ہیں۔
چین اور روس کی حالیہ قربت وقت کا تقاضا ہے کہ امریکا اِس خطہ میں بھارت کو ایک بڑی طاقت دیکھنا چاہتا ہے کہ اُس کی نظر میں چین اور روس پر دبائو کے لیے بھارت کا طاقت ور ہونا ضروری ہے یہ بات چین اور روس پر بھی واضح ہو چکی ہے کہ امریکا کن پہلوئوں پر نظر رکھے ہوئے ہے.
بین الاقوامی تعلقات میں نہ دشمنی پائیدار ہوتی ہے نہ دوستی۔ صرف قومی مفادات دیکھے جاتے ہیں۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستانی حکام بھی یقینا اپنے ملکی اور قومی مفادات کو عزیز رکھیں گے۔
ان کا یہ دورہ کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔ صدر پیوٹن کا ملک بساطِ عالم کے ان شاطروں میں شامل ہے، جن کی چالیں اور فیصلے ''مہروں'' کی چالوں اور خانوں کا تعین کرتے ہیں۔
سوویت یونین کے دیوہیل قلعے کے ملبے پر پوری قامت کے ساتھ کھڑا روس اپنی پیش رو سرخ ریاست سا حجم اور قوت تو نہیں رکھتا، مگر اس میں امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی تاب ہے، جس کا استعمال وہ بارہا کر چکا ہے۔
کہیں اقوام متحدہ کے ایوانوں میں حاصل استردادی قوت (ویٹو پاور) کی صورت اس نے امریکا کی ہم سری کا مظاہرہ کیا تو کہیں کسی اور محاذ پر اپنا وجود ثابت کیا ہے۔
دور حاضر میں دنیا کی فضا کو باردو سے بھرتی ''واشنگٹن گردی'' کے سدباب کے لیے کم زور ممالک کی آنکھیں جن ریاستوں کی طرف اٹھتی ہیں، ان میں چین کے ساتھ روس سرفہرست ہے، جو چین کے برخلاف امریکا سے پنجہ آزمائی کی ایک تاریخ رکھتا ہے۔
روس کی یہ حیثیت اور کردار پاکستان کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے، کیوں کہ ہمیں ڈرون حملوں اور دھمکی آمیز بیانات اور مطالبات پر مشتمل جو امریکی ''دوستی'' بھوگنا پڑ رہی ہے، اسے نبھانے کی وجہ ہماری زبوں حال معیشت کے لیے امریکی ڈالر کی اہمیت اور ہماری دفاعی کم زوری کے سامنے پنجے کھولے کھڑی امریکی طاقت، بتائی جاتی ہے۔
سو پاکستان کو ایک ایسی زور آور قوم کی دوستی کی ضرورت ہے، جو اس کے شانے سے شانہ ملائے اور اس کی طرف معاشی تعاون کا بریف کیس لیے ہاتھ بڑھائے۔ دوسری طرف ماسکو عسکریت پسندی اور متعلقہ مسائل سے نمٹنے کے لیے پاکستان کا تعاون ناگزیر سمجھتا ہے۔ دونوں ملکوں کی جغرافیائی قربت بھی باہمی تعاون کی راہ دکھاتی ہے۔
روس اور پاکستان کے تعلقات نشیب وفراز اور عداوت واعانت کی اپنی ہی دل چسپ تاریخ رکھتے ہیں، جس کا سلسلہ سوویت یونین کی جانب سے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو دورے کی دعوت سے شروع ہوا۔
ان کے سرُخ سرزمین کا رُخ کرنے کے بہ جائے امریکا کی سمت عازم سفر ہوجانے کے بعد ان تعلقات نے کئی موڑ کاٹے۔
ہماری دھرتی سے روس کی جاسوسی کے لیے اُڑتے امریکی طیاروں کے سبب ایک وقت وہ آیا کہ دنیا کی پہلی کمیونسٹ ریاست نے نقشے پر پشاور کے گرد سرخ دائرہ کھینچ دیا۔
سوویت یونین سے ہماری راہیں کچھ ایسی جُدا رہیں کہ ایک طرف ہم سرمایہ داری اور کمیونزم کی آویزش میں سرمایہ دارانہ نظام کے سرخیل امریکا کا دست وبازو بنے اور دوسری طرف کمیونزم کی اندرونی محاذ آرائی میں روس کے مقابل صف آراء چین ہمارا قریب ترین حلیف قرار پایا۔
اور جب افغانستان کی سرزمین پر سوویت یونین کی بربادی کا نقشہ مرتب ہوا، تو اس کی لکیریں کھینچنے میں ہم آگے آگے تھے۔ اس سب کے ساتھ روس اور پاکستان کی فضاؤں میں باہمی خوش گوار تعلقات کے جھونکے بھی چلتے رہے۔ چناںچہ پاکستان اسٹیل ملز کی صورت ہمیں روس کا تحفہ ملا۔
اس تمام پس منظر میں روسی صدر کا دورۂ پاکستان اپنے ساتھ کئی سوالات لے کر آرہا ہے، جن میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کوئی بنیادی تبدیلی آنے کو ہے؟ یہ اور اس جیسے دوسرے سوالوں کے جواب کی تلاش میں ہم نے اہم قومی دانشوروں اور تجزیہ نگاروں سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ صدرولادیمیر پیوٹن کا دورہ ہمارے حال اور مستقبل پر کیا اثرات مرتب کرسکتا ہے۔
جنرل حمید گل
(سینئر دفاعی تجزیہ نگار)
روس کے صدر کا پاکستان کا پہلا دورہ ہے۔ ا س کے ہماری خارجہ پالیسی پر یقینا مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ روس کے ساتھ ہمارے تعلقات کبھی بھی خراب نہیں رہے۔
پاکستان میں سٹیل مل کا منصوبہ ان کی دوستی کی واضح مثال ہے۔ امریکی دوستی میں ہم کافی آگے جا چکے ہیں مگر وہ ہمارے آپشنز محدود کرتا جا رہا ہے جس سے ہمارے لیے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
امریکی کمپنیوں کا پاکستان کے ساتھ رویہ دیکھیں کہ وہ جان بوجھ کر پاکستان سے تیل نہیں نکال رہیں کہ پاکستان اس میں خودکفیل نہ ہو جائے۔
اسی طرح بھاشا ڈیم بنانے میں انہوں نے رکاوٹیں ڈالیں حتیٰ کہ بنانے سے انکار کر دیا تو روسی کمپنیوں نے ڈیم بنانے کا عندیہ دیا۔ دوسری طرف بھارت نے اپنی پٹڑی بدلی ہوئی ہے اور وہ امریکا کی جھولی میں جا بیٹھا ہے۔
ایسی صورتحال میں بھی روس کا ہماری طرف جھکائو فطری ہے۔ روسی صدر کے دورے سے قبل آرمی چیف جنرل کیانی بھی روس کا مختصر دو رہ کرنے جا رہے ہیں۔ اس سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی بہت اہم تبدیلی آنے والی ہے جو پورے خطے پر اثرانداز ہوگی۔
ان سارے معاملات کو آگے بڑھانے والا چین ہے، وہ ہمارا انتہائی مخلص دوست ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس کے مشورے پر من و عن عمل کریں کیونکہ اسی میں ہمارا فائدہ ہے۔ اللہ کے فضل سے ہم نیوکلیئر پاور ہیں۔ دفاعی معاملات کافی بہتر ہیں، ہمارا اصل مسئلہ معاشی ہے اور معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے روسی صدر کا یہ دورہ بڑا اہم ثابت ہوگا۔
اس سے ہمارے لیے نئے راستے کھلیں گے۔ امریکا نے ہمارے لیے جو آپشنز میں کمی کی ہے، وہ ختم ہو جائے گی۔ میں تو پہلے ہی کہا کرتا ہوں مشرق کی طرف دیکھو، مغرب کو چھوڑو۔ اسی میں ہمارے ملک و قوم کی بہتری ہے۔
رسول بخش رئیس
(تجزیہ نگار)
تاریخی طور پر روس (سوویت یونین) اور پاکستان کے تعلقات کچھ زیادہ بہتر نہیں رہے۔
جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو ہمارے پاس دو آپشن تھے۔ ایک تو خاموش بیٹھے رہیں، دوسرا یہ کہ انہیں وہاں پائوں نہ جمانے دیں۔ یہ دونوں آپشن ناقابل قبول تھے کیونکہ روس کی اُس دور کی پالیسیز ہمارے لیے کچھ زیادہ بہتر نہیں تھیں۔
ایک تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں روس کا ہاتھ تھا، دوسرے وہ بھارت کو ہر حوالے سے سپورٹ کرتا تھا۔ روس بھارت کے جائز و ناجائز ہر معاملے پر حمایت کرتا تھا۔ اس نے بھارت کو دفاعی طور پر مضبوط بنانے کے لیے ہر قسم کا اسلحہ فراہم کیا۔ اس کی فوج کی تربیت کی، تو یہ وہ معاملات تھے جس کی وجہ سے پاکستان سوویت یونین سے دور اور امریکا کے قریب ہو گیا۔
خاص طور پر روس افغانستان جنگ میں جب پاکستان نے مزاحمت کاروں کا ساتھ دیا تو امریکا روسی دشمنی کی وجہ سے جنگ میں کود پڑا۔ یوں پاکستان اور امریکا مزید قریب ہو گئے۔
یہ تو تھے سرد جنگ کے دور کے حالات۔ جب سوویت یونین ٹوٹا تو عالمی سطح پر سرد جنگ کا خاتمہ ہو گیا۔ ایسی صورت میں پوری دنیا کی خارجہ پالیسیز میں تبدیلیاںآئیں۔ پاکستان نے بھی نئے آپشنز تلاش کیے۔ اب جب کہ روسی صدر پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں تو یہ بالکل ایک نئی صورتحال بن رہی ہے۔ ہم روس کو خوش آمدید کہتے ہیں، اب روس اور پاکستان کے مشترکہ مفادات ہیں۔
روس کے پاس جدید ٹیکنالوجی بھی ہے اور وسائل بھی جس سے پاکستان کو معاشی طور پر بہت فوائد پہنچیں گے۔ خاص طور پر سٹیل مل جو پاکستان کے لیے سفید ہاتھی بن چکا ہے، اس کی اَپ گریڈنگ ہوگی۔ روسی صدر کے دورے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ایک پڑوسی ملک کے دوست بننے سے نئے راستے کھلیں گے۔
ڈاکٹر حسن عسکری
(تجزیہ نگار)
روسی صدر کے پاکستان کے دورے سے سفارتی اور معاشی روابط بڑھیں گے۔ خاص طور پر تجارت میں بہت فائدہ ہوگا۔ روس پاکستان کے ساتھ ٹیکنالوجی ٹرانسفر، تجارت اور ٹیکنیکل اسسٹنٹس کے معاہدے کرے گا جس کے پاکستان کی معیشت پر مثبت اثرات ہوں گے۔
چونکہ روس اور پاکستان کے درمیان معاہدوں پر فوری عمل درآمد ہونا ہے، اس لیے پانچ چھ ماہ میں ہی سب کچھ سامنے آجائے گا۔ روس پاکستان کا پڑوسی ملک ہے۔ اس سے سفارتی تعلقات تو بڑھیں گے ہی مگر اس کا دفاعی فائدہ بھی ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف امریکا بھی ہمارا دوست ہے۔
اس سے ہمارے تعلقات میں کوئی رخنہ پیدا نہیں ہوگا۔ ان کے ساتھ ہمارے معاملات حسب معمول رہیں گے۔ یوں دیکھا جائے تو روسی صدر کے دورے سے پاکستان کو بہت فائدہ ہوگا۔ ہمیں ایک مضبوط اور طاقتور دوست مل رہا ہے۔
ڈاکٹر مہدی حسن
(دانشور)
ابھی تک تو پاکستان ہر معاملے میں امریکا کے ساتھ ہے اور اس کے لیے ہمارے اوپر دبائو بھی ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ روس اور چین سے تعلقات استوار کیے جائیں۔
جس سے سفارتی سطح پر توازن قائم ہوگا۔ ممکن ہو تو ہمیں بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے چاہئیں۔ یہ سب کرنے سے امریکا کو یہ پیغام جائے گا کہ اس سے تعلقات کے لیے ہم مجبور نہیں ہیں۔ یوں امریکی دبائو کم ہوگا۔
اسے یہ معلوم ہوگا کہ پاکستان کے پاس دیگر آپشنز بھی ہیں۔ بدقسمتی سے عالمی سطح پر ہمارا امیج کافی برا ہے جس کی وجہ سے سفارتی سطح پر ہم تنہائی کا شکار ہیں۔ روس معاشی اور دفاعی لحاظ سے ایک طاقتور ملک ہے۔
اس سے تعلقات بہتر ہونے سے یقینا ہمیں فائدہ ہوگا۔ سوائے ذوالفقار علی بھٹو کے کسی بھی حکمران نے روس سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش نہیں کی سٹیل مل اس دور کی یادگار سب کے سامنے ہے۔ روس اور پاکستان کی دوستی سے صرف پاکستان کو نہیں بلکہ روس کو بھی فائدہ ہوگا۔
امید ہے ڈپلومیٹک چینلز میں بھی اہم تبدیلیاں ہوں گے۔ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ پڑوسی ممالک ہونے کی وجہ سے دونوں کے لیے سفارتی معاشی اور دفاعی معاملات کو آگے بڑھانا بہت آسان ہے۔
وجاہت مسعود
(صحافی/ کالم نگار)
پاکستان اور روس کے تعلقات کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ چھ عشروں کے دوران دونوں ممالک کے تعلقات کچھ زیادہ خوشگوار نہیں رہے۔
اس خرابی میں افغانستان روس جنگ اور عالمی سطح پر سپر پاورز کے درمیان سرد جنگ نے زیادہ کردار ادا کیا۔ اب جبکہ صورتحال بدل چکی ہے تو ضروری ہے کہ سفارتی اور ڈپلومیٹک سطح پر اہم تبدیلیاں لائی جائیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تبدیلیاں لائی بھی گئی ہیں۔ اس وقت ہم جس طرح سے دبائو کا شکار ہیں تو اس دبائو کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ چین اور روس سے تعلقات کو مضبوط کیا جائے۔
چین کے ساتھ تو خیر ہمارے تعلقات پہلے سی دوستی کی بنیاد پر استوار ہیں۔ اب روس کے ساتھ بھی تعلقات میں بہتری رہی ہے۔ یہ ہمارے لیے بہت خوش آئند ہے مگر ہمیں ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا ہوگی کہ ملکوں کے تعلقات ہمیشہ مفادات کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔
جب تک کسی ملک کا دوسرے سے مفاد ہوگا تو تعلقات بہترین سطح پر ہوں گے۔ ہمارے ملک کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے تعلقات مغربی ممالک سے چند مسائل اور مشکلات کی وجہ سے بہترین سطح تک نہیں پہنچ پاتے۔ اگر یہی مسائل پاک روس تعلقات میں بھی رہے تو تعلقات بہترین سطح تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ اس لیے ہمیں اپنا امیج بہتر کرنے کی کوشش کرنا ہوگی تاکہ ہمارے لیے ہر طرف دوستی کے دروازے کھلے رہیں۔
طارق فاطمی
(سابق سفیر)
خطے میں یہ نئی صدی کا ایک اہم ایونٹ ثابت ہو گا جو پاکستان کو موقع فراہم کرے گا کہ روس کے ساتھ باہمی تعلقات کو نئے سرے سے استوار کیا جا سکے۔
پاک روس تعلقات میں یہ پہلا موقع آ رہا ہے کہ جب دونوں ممالک ماضی کی غلط فہمیوں کو میز پر بیٹھ کر دور کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں روسی صدر کی موجودگی اِس بات کی غماز ہے کہ روس پاکستان میں گہری دل چسپی رکھتا ہے.
خاص طور پر پاکستان کے انرجی سیکٹر میں روس ایک بنیادی اور اہم رول ادا کر سکتا ہے، اس دورے سے دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعلقات کی نئی راہیں پیدا ہونے کے بہت زیادہ امکانات ہیں، اِس لحاظ سے اِس دورے کو ایک خاص طرح کی اہمیت حاصل ہو گی۔
پاکستانی حکومت کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ روسی صدر کی آمد سے پہلے اپنی پیشہ ورانہ سفارتی تیاریوں کو ہر سطح پر مکمل کریں، خاص طور پر روس کی عالمی سطح پر معروف گیس کمپنی ''گیزپرام'' کو پاکستان میں اپنے تکنیکی آپریشن کی دعوت دینی چاہیے تاکہ ملک سے انرجی کے بحران کو ختم کرنے میں ہمسایہ ممالک کے تجربے اور مہارت سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔
روس آج بھی اِس پوزیشن میں ہے کہ وہ پاکستان کے بہت سے معاشی بحرانوں کو حل کرنے میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔ روس کی دل چسپی کو ہماری حکومت کس طرح کیش کراتی ہے یہ اُن کی آمد کے موقع پر ہماری مہارت سامنے آئے گی۔
سعید صدیقی
(سابق فارن سیکرٹری)
یہ صرف خیرسگالی دورہ نہیں ہو گا بل کہ اِس دورے کے دیگر پہلو بھی نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے لیے یہ دورہ ایک سنگِ میل ثابت ہو گا.
کیوں کہ ہندوستان کی طرف روس کے جھکائو کی داستان اب قصۂ پارینہ بن چکا ہے اور اِس داستان کے ختم ہونے کے بعد روسی صدر پیوٹن پہلی دفعہ پاکستان آ رہے ہیں اور اُن کے ذہن میں ہمارے متعلق اب شاید کوئی مخالفت یا مخاصمت نہیں ہوگی بل کہ یہ دورہ ایک خوش آئند تبدیلی کی نوید ہے وہ اپنے ملک میں دو بار وزیراعظم رہ چکے ہیں.
جب کہ تیسری مرتبہ اب روس کے صدر ہیں اور اُن کی اِس حیثیت کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے وہ صدر کی حیثیت کے علاوہ اپنی خفیہ ایجنسی ''کے جی بی'' کے بھی چیف ہیں، اِس لیے اُن کی خطے پر بہت گہری نظر ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جو ممالک اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی نہیں کرتے یا زمانے کے تغیرات سے خود کو ہم آہنگ نہیں کرتے وہ قوموں کی برادری میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
سرد جنگ کے بعد پاکستان اور روس کے درمیان جو تعلقات اب استوار ہونے جا رہے ہیں وہ سرد جنگ سے پہلے جیسے نہیں ہوں گے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ایک مثبت سمت کا تعین ہونے والا ہے۔
اِس سمت میں معاشی تعلقات کو نہایت بنیادی اہمیت حاصل ہو گی، پاکستان میں ٹیکنالوجی کو فروغ ملے گا اور پاکستان ٹیکنالوجی کے اُن شعبوں میں اپنے آپ کو خود کفیل کر سکے گا جو ابھی تک خود کفالت کے زمرے میں نہیں آئے۔ پاکستان نے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا جو منصوبہ شروع کرنے کا پروگرام بنا رکھا ہے اُس کو میرے خیال میں روس کی گیس کمپنی ''گیزپرام'' بہت احسن طریقے سے مکمل کر سکتی ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہو گی۔
اگر اِس دورے کے دوران ہمارے حکمرانوں نے زبانی کلامی باتوں سے گزارا کرنے کی کوشش کی تو ایک اہم موقع ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ پبلک پرائیویٹ انٹرن شپ کے ذریعے اپنی پالیسی کو اُن جدید خطوط پر استوار کریں، جس کا فائدہ ہمیں آئندہ کئی دہائیوں تک ہوتا رہے۔
پروفیسر راجہ محمد اسلم خان
(تاریخ داں)
اِس وقت دُنیا میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ چند روز قبل چین کے آرمی چیف نے پاکستان کا دورہ کیا، پاکستان کے اعلیٰ فوجی و سول حکام سے مذاکرات کیے جن میں دونوں ممالک کے درمیان موجود تعاون کو مزید بہتر کرنے کا عزم کیا۔
گزشتہ دنوں صدرِ پاکستان نے جنرل اسمبلی میں جو خطاب کیا اُس کے لب و لہجے سے واضح ہو رہا تھا کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں کر رہا ہے۔
کچھ عرصہ سے امریکی سیاست دانوں کی جانب سے پاکستان مخالف بیانات یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ پاک امریکا تعلقات میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ یہ بات پاکستان کے اعلیٰ حکام کے علاوہ عوام پر بھی واضح ہو چکی ہے کہ امریکا ہمارے ازلی دشمن بھارت کی بعض اہم معاملات میں بے جا پشت پناہی کر رہا ہے۔
یہ بات بھی میڈیا پر آ چکی ہے کہ بھارت پاکستان کے اہم صوبے بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے، یاد رہے کہ بھارت کے اِس عمل میں اسرائیل کی پشت پناہی بھی شامل ہے۔ اہلِ فکر و نظر جانتے ہیں کہ کچھ عرصہ سے افغانستان سے پاکستان کی سرحد پر حملے ہو رہے ہیں.
اِن حملوں میں واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ امریکی حمایت شامل ہے ورنہ کون نہیں جانتا کہ امریکا کی ملی بھگت کے بغیر افغان یہ حملے نہیں کر سکتے۔ پاکستان اِس سلسلہ میں سفارتی سطح پر شدید احتجاج کرتا رہتا ہے لیکن امریکا نے آج تک اِس سلسلے میں کوئی اہم قدم نہیں اٹھایا، جس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ اِن حملوں میں امریکا کی مرضی شامل ہے۔
بین الاقوامی سطح پر یہ تبدیلی بھی اچھی نظر سے دیکھی جا رہی ہے کہ ماضی کے مقابلے میں چین اور روس قریب ہو رہے ہیں۔
چین اور روس کی حالیہ قربت وقت کا تقاضا ہے کہ امریکا اِس خطہ میں بھارت کو ایک بڑی طاقت دیکھنا چاہتا ہے کہ اُس کی نظر میں چین اور روس پر دبائو کے لیے بھارت کا طاقت ور ہونا ضروری ہے یہ بات چین اور روس پر بھی واضح ہو چکی ہے کہ امریکا کن پہلوئوں پر نظر رکھے ہوئے ہے.
بین الاقوامی تعلقات میں نہ دشمنی پائیدار ہوتی ہے نہ دوستی۔ صرف قومی مفادات دیکھے جاتے ہیں۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستانی حکام بھی یقینا اپنے ملکی اور قومی مفادات کو عزیز رکھیں گے۔