پردیسی پرندے کی کہانی

مکھی کے چھوٹے سے جزیرے پر ایک خستہ حال عمارت موجود ہے جسے Hunting Lodge بھی کہا جاتا ہے۔

shabnumg@yahoo.com

لاہور:
ضلع سانگھڑ میں واقع مکھی جھیل فطری ماحول کی وجہ سے خوبصورت ہے۔ خالص ہوا جنگلی پودوں کو چھو کر اور بھی معطر ہو جاتی ہے۔ اس کی مہک کے اثر سے حواس ڈگمگانے لگتے ہیں۔ مکھی کی لہروں میں آسمان کا رنگ رقص کرتا ہے۔ مکھی کی خوبصورتی سرد ترین علاقوں سے آنے والے پرندے ہیں۔ جنگلات کے انحطاط کے باعث پودے، درخت اور پرندے کمیاب ہوتے جا رہے ہیں۔ جس کی ایک بڑی وجہ ماحولیاتی آلودگی بتائی جاتی ہے۔ مکھی کے ارد گرد کسی زمانے میں گھنا جنگل پھیلا ہوا تھا۔

یہاں مختلف قسم کے درخت پائے جاتے ہیں جن میں لئی، اسری لئو، ببر، بھن، کندی، کھبڑ اور بائر وغیرہ شامل ہیں۔ مکھی جھیل حُر تحریک کا مرکز تھی، اس کا گھنا جنگل گوریلا جنگ کا مرکز تھا۔ یہ علاقہ تھا جہاں انگریزوں کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ حر تحریک کے دوران حروں نے قریب ہی بہتے ہوئے نارا کینال کو کٹ دے کر، پانی کے بہاؤ کا رخ مکھی کے جنگل کی طرف موڑ دیا تا کہ انگریز فوج اور ان کے حامی جنگل میں پناہ لینے والے گوریلوں تک رسائی نہ حاصل کر سکیں۔ یوں مکھی کا جنگل آگے چل کر جھیل کی صورت اختیار کر گیا۔

ہر سال لاتعداد پردیسی پرندے مکھی کے درختوں کو اپنی پناہ گاہ بناتے۔ ان ہی پرندوں میں ایک پرندہ فش ایگل بھی تھا۔ نایاب نسل کے اس پرندے کو (Haliaeetus Leucoryphus) Pallas Fish Eagle کہا جاتا ہے۔ محقق اشتیاق انصاری لکھتے ہیں:

''اس پرندے کو مقامی لوگ کڑل بولتے ہیں۔ جب پہاڑوں پر برف پگھلنے لگتی ہے تو یہ پرندہ مکھی کا رخ کرتا ہے۔ مقامی لوگ بہت خوش ہوتے ہیں کہ اب دریا اور جھیلیں پانی سے بھر جائیں گی۔ اس پرندے کی آمد اس علاقے میں خوشحالی کا پیغام لے کر آتی ہے۔''

مکھی کے چھوٹے سے جزیرے پر ایک خستہ حال عمارت موجود ہے جسے Hunting Lodge بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن مقامی لوگ اس عمارت کو ''جونیجن جی ماڑی'' کے نام سے پکارتے ہیں۔ یہ ایک صدی پرانی عمارت ہے۔ جس کی چھتیں گر چکی ہیں۔ لیکن کاشی کے ٹائیلز ابھی تک برقرار ہیں۔ اس جگہ پر پہنچ کر ایک خاموش اور پراسرار سا تاثر ذہن کو چھو جاتا ہے۔

اسی ماڑی کی بلند چوٹی پر فش ایگل کا گھونسلا تھا۔ یہ گھونسلے اکثر وزن میں ایک ٹن سے بھی زیادہ پائے گئے ہیں۔ ماڑی کے اوپر واقع اس گھونسلے میں موٹی لکڑیوں کے اوپر پتوں اور گھاس کی چار انچ تہہ چڑھی ہوئی تھی۔ باز یہ گھونسلے تیس پینتیس سال تک استعمال کرتے ہیں۔ یہ فش ایگل بھی سالوں سے مکھی کی محبت میں اس سرزمین پر کھنچا چلا آتا ہے۔ گھونسلے میں رکھے دو انڈے ان پرندوں کی کل کائنات ہوتے ہیں۔


پچاس دن محبت کی گرمی سے سینچتے ہیں۔ پھر بچوں کو پیار سے سنبھالتے اور ان کی خوراک کا بندوبست کرنے نکل جاتے ہیں۔ چار مہینے بعد یہ چھوٹے پرندے اڑنے لگتے ہیں۔ یہ پرندہ Monogamous (یک زوجی) ہے۔ یعنی یہ مرتے دم تک ایک دوسرے کا ساتھ نبھاتے ہیں۔ ایک ساتھی کے ہوتے ہوئے کبھی کسی دوسرے سے رابطہ نہیں رکھتے۔ وفا کا جوہر جس قدر پرندوں میں ہے، اس سے انسان دن بدن محروم ہوتے جا رہے ہیں۔

پھر ہوا یوں کہ اس زمانے میں ماحولیات کی ٹیم چوٹیاری ڈیم کے وزٹ پر پہنچی۔ ان دنوں چوٹیاری ریزر وائر بن رہا تھا۔ جس کے مکمل ہو جانے کے بعد خدشہ یہ تھا کہ ماڑی زمین دوز ہو جاتی اور ایک نایاب پرندے کا گھونسلا بھی تباہ ہو جاتا۔ ماحولیات کی ٹیم نے سینئر انجینئر اشتیاق انصاری سے تجاویز مانگی کہ کیا لائحہ عمل تیار کیا جائے تا کہ یہ گھونسلا محفوظ رہے۔

بقار اور دوسری جھیلوں کے سروے اور لیولنگ کرنے کے بعد یہ طے پایا کہ ماڑی کے اردگرد پتھروں کا بند باندھ دیا جائے تاکہ چوٹیاری ڈیم بننے کی صورت پانی کی سطح میں اضافہ ہونے کے بعد، ماڑی کی بنیادوں کو نقصان پہنچنے سے بچایا جا سکے۔ چوٹیاری ڈیم بننے کی وجہ سے، مقامی لوگوں کی زمینیں ان کے ہاتھوں سے نکل گئیں۔ حالانکہ ان زمینوں کی رقم کی ادائیگی کی جا چکی تھی، جو حق داروں تک نہ پہنچ پائی۔ اوپر سے جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ ایک باز کے گھونسلے کو بچانے کے لیے، ماحولیات کے غیر ملکی ارکان لاکھوں روپے دینے کو تیار ہیں تو وہ مشتعل ہو گئے۔ ان سے بھی تو جائے پناہ چھین لی گئی تھی۔ پھر آخر پرندے میں ایسی کیا بات تھی کہ اس کا گھونسلا بچانے کے لیے کام شروع ہو رہا تھا۔

لوگ یہ بات نہیں جانتے تھے کہ پرندے محبتوں کے سفیر ہیں۔ وہ اجنبی سرزمین کو اپنا گھر بنا لیتے ہیں۔ سالہا سال تک اس دھرتی کی کشش میں کھنچے چلے جاتے ہیں۔ وہ کبھی اس زمین پر قبضہ کرنے کے لیے نہیں سوچتے۔ نہ حق چھینتے ہیں اور نہ ہی دنگا فساد کرتے ہیں۔ وہ جس زمین پر اپنا گھر بناتے ہیں اسے اپنا اصلی وطن سمجھتے ہیں۔ پرندے تفریق نہیں کرتے۔ ان کے پاس نہ تخریبی ذہن ہے اور نہ ہی نفرت کرنے والا دل۔

باز، جو آسمانوں کا بے تاج بادشاہ ہے۔ چھ سے آٹھ فٹ لمبے پر پھیلائے جب اونچائی پر پرواز کرتا تو دیکھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ یہ پرندہ چالیس سال سے زیادہ زندہ رہ سکتا ہے۔ یہ دور سے اپنا شکار دیکھ لیتا ہے۔ جب لہروں میں تیرتی مچھلی پر آسمانوں سے آ کر جھپٹتا ہے تو پانی میں بھونچال برپا ہو جاتا۔ یہ پرندہ روز شکار نہیں کرتا بلکہ پیٹ بھرنے کے بعد باقی کھانا گلے میں واقع تھیلی میں بچا رکھتا، اس کے بعد سوتے یا جاگتے میں وہ غذا ہضم کرتا رہتا ہے۔ فش ایگل جب مکھی کے اوپر اڑتا تو تمام پرندے اس کے خوف سے چھپ جاتے اور ایک جگہ جمع ہو جاتے۔ شکاری جو گھات لگائے بیٹھا ہوتا، اس کے لیے آسانی ہو جاتی۔ اس کے ایک فائر سے ایک ہی وقت میں بہت سے پرندے ڈھیر ہو جاتے۔

ماحولیات کے ماہر اور انجینئرز ماڑی کے قریب کام کا جائزہ لے رہے تھے۔ آسمان کی نیلگوں وسعتوں میں دو پریمی پرندے اڑتے بادلوں کے قریب پہنچ جاتے۔ کبھی وہ شفق کے رنگوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنے لگتے۔ پھر دونوں اڑتے اڑتے آ کر ماڑی پر آ کر بیٹھے۔ کشتی میں دو لوگ وہاں سے گزرے۔ وہاں موجود لوگوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب کشتی میں سوار ایک شخص نے بندوق نکال کر باز کی طرف فائر کر دیا۔ ماڑی پر بیٹھے ہوئے دو پردیسی پرندوں میں سے ایک زخمی ہو کر مکھی کی لہروں میں گر گیا۔ لہروں میں اس کا وجود تڑپتا رہا اور پھر ساکن ہوگیا۔
Load Next Story