امریکا کی چینی
جیسے ہر کمپنی کا نمک الگ الگ ہوتا ہے کوئی جیلی تو کوئی متولی ذائقہ دیتی ہے اسی طرح اُس کا اثر بھی الگ ہوتا ہے۔
KARACHI:
ہمیں ہمیشہ سے کہا گیا کہ زیادہ نمک مت کھائو، خون جوش مارنے لگ جائے گا۔ اس نمک کے چکر میں ہم اکثر نمک حلال ہوتے ہوتے رہ گئے اور ڈرنے لگے کہ اگر کسی کا نمک کھا لیا اور اُسی کے سامنے خون جوش مارنے لگ گیا تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔
اسی لیے خاص طور پر کسی سیاسی، سفارتی، گلابی، جلیبی، مذاکراتی، سہولت کاری اور جرگہ جاتی کا نمک ہم نے نہیں چکھا کہ کہیں خون اور جوش میں آگیا تو ہم بھی دائیں، بائیں کی آوازیں نکالتے ہوئے کسی مارچ میں نہ دھکیل دیے جائیں۔ اچھی خاصی چال بگڑ جائے گی اور گلی کے چھوکرے آوازیں کسنے لگیں گے۔ چلتے پھرتے جہاں سے گزریں گے میوزیکل شو ہو جائے گا۔ امن و امان کی صورتحال بگڑ جائے گی اور دفعہ ایک سو چوالیس لگانی پڑ جائے گی ۔
یہ دفعہ 144 کا نسخہ بھی نمک حلالوں کے لیے انگریز ڈھونڈھ کر لائے تھے اس لیے آج تک مکھیاں جتنا بھنبھنائیں کہ برصغیر تقسیم ہو گیا ۔ مگر 144 ہر قسم کے نمک حلالوں کے لیے انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش میں جوں کی توں ہے جو اپنے اوپر مکھی تک نہیں بیٹھنے دیتی۔ اس کے ذریعے آپ ہر کام کو ڈبل ہے کی آواز مار کر اپنی منی بس میں بٹھا سکتے ہیں۔
جیسے ہر کمپنی کا نمک الگ الگ ہوتا ہے کوئی جیلی تو کوئی متولی ذائقہ دیتی ہے اسی طرح اُس کا اثر بھی الگ ہوتا ہے۔ جیسے ایک پنڈی میں ڈبل سواری کیا بند ہوئی سب چلانے لگے اور اسے نمک خواروں کے خلاف سازش قرار دیا جانے لگا۔ آپ خود بتائے کراچی میں تو آنکھ بند کرو تو پابندی آنکھ کھولو تو آزادی ہوتی ہے لیکن قسم کھا کر بتائیں کہ آج تک کسی ٹارگٹی، لشکری، انقلابی، سپاہی، متوالی نے چوں چاں کی؟ انھوں نے کبھی کہا کہ یہ ظلم آپ نے ہم جیسے نمک حلالوں پر کیوں ڈھایا ہے ۔۔؟
انھوں نے کبھی چوں چرا نہیں کی اور نہ ہی کر سکتے ہیں کیوں کہ ہمیں تو یہ ہی بتایا گیا ہے کہ نمک حلال کبھی آواز نہیں نکالتا۔ وہ جتنا بڑبڑاتا ہو، چلاتا ہو، دانت دکھاتا ہو، گاتا ہو لیکن ہوتا سب مالک کی مرضی سے ہے، تو پھر یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ نمک جوش بڑھا دیتا ہے۔ دل کے مریضوں کے لیے مشکل ہو جاتی ہے اور خون جوش میں موت تک لے جاتا ہے۔
سیانے بابا کہتے ہیں کہ یہ نمک بھی خاص ذائقے کا ہوتا ہے یہ صرف وہاں جوش مارتا ہے جہاں دم ہلانے کی ضرورت نہ ہو۔ چاہے جتنا اونچا جوش نمک دلا دے لیکن ایک فون پر، سیدھا دوڑنے لگ جاتا ہے۔ ہمارے یہاں جتنی تیزی سے الزام آتا ہے سائنس اتنی تیزی سے نئی چیز ایجاد کر لیتی ہے۔ ہمارے یہاں ہر وقت الزامات کی بریکنگ ہوتی ہے اتنی ہی تیزی سے کوئی نئی دنیا دریافت ہوتی ہے۔
اب کیوں کہ کچھ لوگ سب کچھ نیا کرنے جا رہے ہیں لیکن دریافتیں ساری پرانی ہو رہی ہیں۔ مگر سائنس بھی مکھی پر مکھی مارنے کی بجائے مکھی پر آلو رکھ کر مار رہی ہے۔ ہم یہاں نمک حلالوں اور نمک کے جوش پر اپنا پرائم ٹائم ختم کر رہے تھے کہ یہ سفید کوٹوں والوں نے ہمیں چونکا دیا کہ جناب پرانے پاکستان کی پرانی کہاوتوں اور روایتوں سے باہر نکل آئیں۔ کوئی نمک خون کا جوش نہیں بڑھاتا اور اُس سے کوئی دل کی دھڑکن تیز نہیں ہوتی۔ میں تو چونک گیا۔ یہ کیسی نئی سائنس ہے؟ اس نے مجھے ایسے چونکا دیا جیسے مجھے جہاز سے باہر نکال دیا ہو ... خالی جگہ آپ خود پُر کر کے نئے پاکستان کے شہری بن جائیں ۔
خیر سائنس دانوں نے انکشاف کیا ہے آپ نمک سے نہیں چینی سے ڈریں۔ میں چینی سے کیوں ڈروں؟ ۔ مانا کہ نئے پاکستان میں ہم سے بھول ہو گئی ہے لیکن چین اپنا دوست ہے اور بقول جالبؔ کے اُس کے نظام کو دور سے ہی سلام ۔ ہمارا دوست ہے اور کوئی بھلا چین ایسا دوست تو نہیں ہے جو عین موقعہ پر باغی بن جائے۔ جب ہمارا نمک جوش مارنے لگا تو ہمارے سائنسی دوست نے کہا ہے یہ پڑوس والا چینی نہیں بلکہ کھانے والی چینی کی بات ہو رہی ہے۔ یعنی جن کا دل زیادہ تیز دھڑکتا ہے انھیں نمک حلال ہونے میں کوئی زیادہ مسئلہ نہیں ہے بلکہ انھیں چینی سے دور رہنا چاہیے۔
مجھے اس سارے چکر کے پیچھے ایک گہری سازش لگ رہی ہے جو چینی کو بدنام کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ یہ ساری کھچڑی معذرت کے ساتھ تحقیق امریکا میں ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نمک نہیں چینی آپ کے دل کی دشمن ہے۔ لیکن یہ بھی ڈٹے ہوئے ہیں کہ ہم دھرنا دیں گے لیکن اپنی بات سے منہ نہیں پھیریں گے کہ چینی ہی اصل مسئلہ ہے اس لیے تو اُس کو آنے نہیں دیا۔ اب اگر آ جاتے تو آپ خود سوچیں کہ خون اور کتنا جوش مارتا اس لیے ہم نے چینی صدر کو نہیں آنے دیا۔
اس تحقیق کو سامنے لانے والے ڈاکٹر نکولا کا کہنا ہے کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ کوئی نمک حلال، نمک کم کر دے، ہم تو بس یہ کہنا چاہتے ہیں کہ چینی سے دور رہا جائے۔ اور اس کے لیے انھوں نے تجربہ بھی بالغوں پر کیا ہے یعنی جو جوان ہو چکے۔ یا جن کو جوان کیا جا چکا ہے۔ کیونکہ کچھ لوگ عمر سے بوڑھے ہوتے ہیں لیکن دل سے جوان ہوتے ہیں اور نئی تحقیق اور نئی تخلیق کہ ساتھ نئے پاکستان میں بھی یہ ہو سکتا ہے۔ میرا کی پیشکش اس کی ابتدا ہے۔
ہمیں چینی کے خدمات سے کبھی کوئی شکوہ نہیں رہا۔ وہ نقصان دے یا فائدہ۔ قرض دے یا سرمایہ ہم نے اُسے اپنی روایت کے مطابق ہر کھانے کے بعد ضرور استعمال کیا ہے۔ یہ تو کبھی نہیں ہو سکتا کہ چینی اور امریکی دونوں ایک ساتھ نقصان دے۔ مجھے بھی بعد میں پتہ چلا کہ نوٹوں اور خاص طور پر ڈالر پر کچھ لکھنا منع ہے۔ اسی لیے ایک ہی کنٹینر سے دونوں پر حملہ سمجھ نہیں آیا۔ میں تو یہ کہہ رہا تھا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ نمک بھی نہ کھائیں اور چینی سے بھی دور رہیں۔ اگر دونوں کو برا کہہ دیا تو پھر کیا صرف روسی دو بوتل واڈکا استعمال کریں گے۔ کیونکہ سینسر کا مسئلہ ہے اس لیے میں دو بوتل واڈکا کے گلوکار کا نام نہیں لکھ سکا۔ ویسے سُنا ہے کہ یوکرین کے مسئلے کے بعد داعش والوں کو بھی کہہ دیا گیا ہے کہ آپ امریکی نمک اور چینی کی بجائے روسی واڈکا ضرور چکھیں۔
پہلے کہا جاتا تھا کہ جہاں امریکا ہو وہاں روس نہ ہو ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ اسی طرح کہا جاتا ہے جہاں دھرنا ہو وہاں الزام نہ ہو ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ جہاں نئی تحقیق ہو گی الزام تو آئے گا۔ یہ نئی تحقیق میں تو ہو سکتا ہے نئے پاکستان میں نہیں۔ ۔ خیر ہم تو نمک اور چینی کی لڑائی کا تڑکا لگا رہے ہیں۔ جیسے ہی امریکی ڈاکٹر نکولا نے چینی پر الزام لگایا کہ اصل میں خون کا جوش بڑھانے میں اُن کا کردار ہے تو فورا ہی دوسری پارٹی میدان میں آگئی۔
لوگ کہتے ہیں کہ چینی خود تو میٹھی ہوتی ہے زبان پر اچھی لگتی ہے لیکن اندر جا کر بہت نقصان دیتی ہے۔ اس لیے دوسری پارٹی نے نمک حلال ہونے کا ثبوت دے دیا۔ لندن والے کہتے ہیں کہ ثبوت انتہائی ناقص ہیں اور صدیوں سے ہم یہ مانتے ہوئے آ رہے ہیں کہ جوش بڑھانے کے لیے نمک ضروری ہے۔ اس لیے ہم چینی کی مخالفت نہیں کر سکتے۔ ہم بھی امریکا کی چینی اور لندن کے نمک کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔ سیاسی خون کو جوش کون دے رہا ہے نمک یا چینی ؟ یہ آپ سوچیں میں تھوڑی ورزش کر لوں...