ماحولیاتی تبدیلیاں…
فرنیچر اور ایندھن کے لیے یہاں سے بے دریغ درخت کاٹے جاتے ہیں۔ کچے کی لکڑی فرنیچر سازی کے لیے بہترین سمجھی جاتی ہے۔
QUETTA:
جہاں زندگی بقاء کے مسئلے سے دوچار ہو، وہاں ماحول کے تحفظ، جان داروں کے بچائو، گلوبل وارمنگ، گرین ہائوس گیسز وغیرہ کی بات شاید نامناسب اور بے محل لگے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ جب تک کرۂ ارض پر فطری توازن برقرار نہیں ہو گا یہاں قدرتی آفات آتی اور زندگی کی سانسیں ٹوٹتی رہیں گی۔ لہذا بات تو کرنی ہو گی۔ آواز تو اٹھانی ہوگی۔ کوئی سنے یا نہ سنے، اپنے حصے کا چراغ تو جلانا ہی ہو گا۔
تصور اور خیال کی گرفت میں نہ آنیوالی کائنات کی لامحدودیت کے بارے میں انسان تحقیق کر رہا ہے کہ اس کا ازل کیا ہے اور اس کا ابد کیا ہو گا؟ اس کا پھیلائو کتنا وسیع ہے؟ انسان نے یہ علم بہرحال حاصل کر لیا ہے کہ ہمارے نظام شمسی جیسے اربوں نظام شمسی خلاء میں اپنے اپنے مداروں پر گردش کر رہے ہیں تاہم انسان ابھی تک یہ نہیں جان سکا کہ اس لامحدود کائنات میں بننے اور بگڑنے کا عمل کس طرح جاری ہے اور اب تک کیا کچھ بنتا بگڑتا رہا ہے۔
انسان اپنے نظام شمسی کے سیاروں میں زندگی تلاش کرنے کی تگ و دو کر رہا ہے۔ ''چاند پر اس کا پہنچنا، مریخ اور دوسرے سیاروں تک اس کی رسائی'' اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اشرف المخلوقات کی حیثیت سے ہم کائناتی تحقیق کے جس سفر پر چل پڑے ہیں وہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔
ستاروں پر کمند ڈالتا، خلاؤں کو مسخر کرتا اور جدید ٹیکنالوجی سے دنیا کو سمیٹ کر کمپیوٹر کے بٹن میں مقید کرتا شاداں و فرحاں انسان، جب 21 ویں صدی کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے تو اس کے رنگ میں بھنگ پڑ جاتا ہے۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ وہ ترقی، جو اس نے دن رات محنت کر کے حاصل کی تھی آج اسی کی تباہی کا باعث بن رہی ہے۔ دھواں اگلتی صنعتیں خود اس کی سانسوں کے درپے ہیں، فطرت کو تسخیر کرنے کا دعویٰ آج کرۂ ارض کی تباہی کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ وہ اس شکستہ آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے۔
تو ایسے میں اب یہ حضرت انساں کرے تو کیا کرے؟ بس ایک ہی صورت ہے بچائو کی، ایک ہی جائے امان ہے اور وہ ہے صرف اور صرف فطرت کے تشکیل کردہ اصولوں کے تحت زندگی بسر کرنا، اگرچہ یہ آج کے دور میں اتنا آسان نہیں رہا لیکن کوشش تو کی جا سکتی ہے نا! جلد یا بہ دیر ہم حالات کو پھر اپنے حق میں کر سکتے ہیں۔
زلزلے، سمندری طوفان اور سونامی انسانی زندگی کے لیے بہت بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں، جس کی تازہ ترین مثال پاکستان میں حالیہ دنوں میں آنے والا سیلاب اور طوفانی بارشیں ہیں جن میں اب تک سیکڑوں افراد کی زندگیوں کا چراغ گل ہو چکا ہے، ہزاروں دیہات زیر آب آ چکے ہیں، 500 ملی میٹر کی غیر معمولی طوفانی بارشوں کے نتیجے میں بپھرے ہوئے دریائوں کے سیلابی ریلے بدترین تباہی مچاتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں اور محکمہ موسمیات نے آیندہ چند روز میں صوبہ سندھ میں طوفانی بارشوں اور انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کی پیش گوئی بھی کر دی ہے۔
یہ بات مسلسل دہرائی جا رہی ہے کہ دنیا کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت کرۂ ارض پر موجود ہر قسم کے ماحولیاتی نظاموں کو خطرے میں ڈال دے گا۔ بڑھتی ہوئی حدت براہ راست گلیشئرز پر اثر انداز ہو گی، جس سے سیلاب اور طغیانی کے خطرات بڑھیں گے اور پھر پانی کی کمی، خشک سالی کو دعوت دے گی۔ یہ 2 مظاہر دنیا کو ہلا کر رکھ دیں گے، زمین پر موجود ہر قسم کی حیات خطرے میں پڑ جائے گی، وہ انسان ہو یا کوئی اور جاندار۔
پچھلے کئی برسوں سے دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے دن رات کام جاری ہے اور ایسی کئی رپورٹس منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں ایشیائی ممالک کو براہ راست خطرے کی زد میں شامل کیا گیا ہے۔ یکے بعد دیگرے پاکستان میں آنے والے تین سیلاب (2010۔ 2011۔ 2012ء) اس حوالے سے دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن چکے ہیں۔ 2013ء کا سال اگرچہ سیلاب کے حوالے سے خیریت سے گزر گیا لیکن دنیا بھر میں سمندری طوفانوں نے زندگی تہ و بالا کر رکھی ہے۔
ماہرین عرصہ دراز سے پاکستان کے شمالی علاقوں میں موجود گلیشئرز کو بڑھتے ہوئے درجہ حرارت میں پاکستان کے لیے براہ راست خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ اس حوالے سے شمالی علاقوں میں 52 ایسی جھیلوں کی نشاندہی ہو چکی ہے جو گلیشئرز کے پانی سے لبالب بھر چکی ہیں اور مزید پانی کی آمد کے سبب پاکستان کے پہاڑی علاقوں ہمالیہ، قراقرم اور ہندو کش کے علاقوں میں سیلاب لا سکتی ہیں۔
گلیشیرز سے رستے اور بہتے پانی نے اس علاقے میں چھوٹی بڑی کئی جھیلیں بنا دی ہیں، جن میں پانی کی روانی کا یہ سلسلہ گلیشیرز پر مسلسل برف باری اور پانی کے جمنے اور پھر پگھلنے کا یہ عمل ہزار ہا سال سے فطری انداز میں جاری ہے۔ مگر اب گلوبل وارمنگ یعنی بڑھتی ہوئی حدت ان گلیشیرز پر بھی اثر انداز ہونا شروع ہوچکی ہے۔ بڑھتے ہوئے پانی کا یہ زور بعض اوقات ان جھیلوں کے کناروں میں شگاف ڈالنے لگا ہے اور یہ جھیلیں چھلکنے لگی ہیں اور اگر پانی کا بہائو تیز ہو تو اس پانی کے ساتھ برفانی تودے اور پتھر بھی لڑھکنے لگتے ہیں جو نشیب کے علاقوں کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس عمل کو گلیشیائی جھیلوں میں سیلاب (Glacial flood outburst lake) یا GLOF کہا جاتا ہے۔
اس تمام صورتحال سے بچنے کے لیے دنیا بھر کے سائنس داں دن رات محنت کر رہے ہیں اور آئے دن ان کے تجربات اور تجاویز سامنے آتی رہتی ہیں۔ لیکن سردست ہم کسی سائنسی تجربے یا اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں پر بات کرنے کے بجائے صرف ایک آسان بات پر زور دیں گے اور وہ یہ کہ ہمیں صرف اور صرف درخت لگانے چاہئیں اور اگر ہمارے پاس جگہ نہیں ہے تو ہم پودوں سے بھی کام چلا سکتے ہیں۔ اس سے ہم موسم کے بے قابو ہوتے جن کو خاصی حد تک قابو میں لا سکتے ہیں۔
مگر یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کے ہر شعبے کی طرح جنگلات کے شعبے کو بھی کرپشن کی دیمک چاٹ گئی ہے۔ یہ قیمتی وسیلہ سیاسی اثر و رسوخ اور مجرموں کی سرعام سرپرستی کے باعث ہمیشہ غیر محفوظ رہا ہے۔ اس قیمتی دولت سے فائدہ نہ اٹھانے والے کو عرف عام میں بے وقوف سمجھا جاتا ہے۔ سندھ کے دریائی جنگلات جنھیں کچے کے جنگلات بھی کہا جاتا ہے، شدید خطرات سے دوچار ہیں، یہ جنگلات دریائے سندھ کی گزرگاہ کے کنارے اور نواحی علاقوں میں واقع ہیں، اور دریائے سندھ کے سیلابی پانی سے سیراب ہوتے ہیں اور یہ ٹمبر مافیا کے لیے خزانہ کی مانند ہیں۔
فرنیچر اور ایندھن کے لیے یہاں سے بے دریغ درخت کاٹے جاتے ہیں۔ کچے کی لکڑی فرنیچر سازی کے لیے بہترین سمجھی جاتی ہے۔ ان علاقوں میں ٹمبر مافیا کا بہت اثر و رسوخ ہے اور بغیر کسی نئی شجرکاری کے، درختوں کی کٹائی زور و شور سے جاری ہے۔ بہت پرانی بات نہیں جب سندھ کے یہ جنگلات ڈاکوئوں کی پناہ گاہ بنے ہوئے تھے (ہنوز ہیں) گھنے جنگلات کے باعث ان ڈاکوئوں تک پہنچنا اور ان پر قابو پانا، قانون کے محافظوں کے لیے مشکل تھا، لہذا حکومت نے یہ بہترین حل ڈھونڈا کہ ان جنگلات کا ہی صفایا کر دیا جائے، تا کہ نہ جنگل ہو گا اور نہ ہی ڈاکو چھپیں گے۔ ایسے بہترین فیصلے ملک و قوم کے مفاد میں آئے روز کیے جاتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت میں موسمیاتی تبدیلیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ قدرتی آفات سے بچائو کی موثر حکمت عملی تیار کر کے متعلقہ اداروں کو فعال کیا جائے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ قدرتی آفات سے بچائو کی موثر حکمت عملی کی تیاری اور بحالی کے قومی اور علاقائی سطح کے منصوبوں اور حکمت عملیوں میں ماحولیاتی اثرات کا جائزہ (EIA) اور ہمہ گیر ماحولیاتی اثرات کا تجزیہ (SEA) جیسے اہم قوانین بھی شامل کر لیے جائیں۔
ایس ای اے کے ذریعے ہم بہ آسانی پائیدار ماحولیاتی ترقی اور ناپائیداری میں فرق کر سکتے ہیں۔ جب کہ ماحولیاتی اثرات کا جائزہ ڈیم، دریا کے پشتے، بند اور زمین کے استعمال کے حوالے سے ایک واضح تصویر فراہم کرتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ای آئی اے لوگوں اور ایکو سسٹم کی بحالی، ذرایع روزگار میں اضافے، معیاری طرز حیات، اور مستقبل میں قدرتی آفات سے بچائو میں بھی مدد دیتا ہے۔
ہمیں بلاتاخیر ان قوانین کو اپنے منصوبوں میں شامل کر لینا چاہیے۔ ہم کسی بھی قدرتی آفت کو مکمل طور پر روک نہیں سکتے لیکن وقت سے پہلے بروقت منصوبہ بندی اور موثر کارکردگی سے نقصان کی شدت کم سے کم کر سکتے ہیں۔
جہاں زندگی بقاء کے مسئلے سے دوچار ہو، وہاں ماحول کے تحفظ، جان داروں کے بچائو، گلوبل وارمنگ، گرین ہائوس گیسز وغیرہ کی بات شاید نامناسب اور بے محل لگے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ جب تک کرۂ ارض پر فطری توازن برقرار نہیں ہو گا یہاں قدرتی آفات آتی اور زندگی کی سانسیں ٹوٹتی رہیں گی۔ لہذا بات تو کرنی ہو گی۔ آواز تو اٹھانی ہوگی۔ کوئی سنے یا نہ سنے، اپنے حصے کا چراغ تو جلانا ہی ہو گا۔
تصور اور خیال کی گرفت میں نہ آنیوالی کائنات کی لامحدودیت کے بارے میں انسان تحقیق کر رہا ہے کہ اس کا ازل کیا ہے اور اس کا ابد کیا ہو گا؟ اس کا پھیلائو کتنا وسیع ہے؟ انسان نے یہ علم بہرحال حاصل کر لیا ہے کہ ہمارے نظام شمسی جیسے اربوں نظام شمسی خلاء میں اپنے اپنے مداروں پر گردش کر رہے ہیں تاہم انسان ابھی تک یہ نہیں جان سکا کہ اس لامحدود کائنات میں بننے اور بگڑنے کا عمل کس طرح جاری ہے اور اب تک کیا کچھ بنتا بگڑتا رہا ہے۔
انسان اپنے نظام شمسی کے سیاروں میں زندگی تلاش کرنے کی تگ و دو کر رہا ہے۔ ''چاند پر اس کا پہنچنا، مریخ اور دوسرے سیاروں تک اس کی رسائی'' اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اشرف المخلوقات کی حیثیت سے ہم کائناتی تحقیق کے جس سفر پر چل پڑے ہیں وہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔
ستاروں پر کمند ڈالتا، خلاؤں کو مسخر کرتا اور جدید ٹیکنالوجی سے دنیا کو سمیٹ کر کمپیوٹر کے بٹن میں مقید کرتا شاداں و فرحاں انسان، جب 21 ویں صدی کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے تو اس کے رنگ میں بھنگ پڑ جاتا ہے۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ وہ ترقی، جو اس نے دن رات محنت کر کے حاصل کی تھی آج اسی کی تباہی کا باعث بن رہی ہے۔ دھواں اگلتی صنعتیں خود اس کی سانسوں کے درپے ہیں، فطرت کو تسخیر کرنے کا دعویٰ آج کرۂ ارض کی تباہی کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ وہ اس شکستہ آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے۔
تو ایسے میں اب یہ حضرت انساں کرے تو کیا کرے؟ بس ایک ہی صورت ہے بچائو کی، ایک ہی جائے امان ہے اور وہ ہے صرف اور صرف فطرت کے تشکیل کردہ اصولوں کے تحت زندگی بسر کرنا، اگرچہ یہ آج کے دور میں اتنا آسان نہیں رہا لیکن کوشش تو کی جا سکتی ہے نا! جلد یا بہ دیر ہم حالات کو پھر اپنے حق میں کر سکتے ہیں۔
زلزلے، سمندری طوفان اور سونامی انسانی زندگی کے لیے بہت بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں، جس کی تازہ ترین مثال پاکستان میں حالیہ دنوں میں آنے والا سیلاب اور طوفانی بارشیں ہیں جن میں اب تک سیکڑوں افراد کی زندگیوں کا چراغ گل ہو چکا ہے، ہزاروں دیہات زیر آب آ چکے ہیں، 500 ملی میٹر کی غیر معمولی طوفانی بارشوں کے نتیجے میں بپھرے ہوئے دریائوں کے سیلابی ریلے بدترین تباہی مچاتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں اور محکمہ موسمیات نے آیندہ چند روز میں صوبہ سندھ میں طوفانی بارشوں اور انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کی پیش گوئی بھی کر دی ہے۔
یہ بات مسلسل دہرائی جا رہی ہے کہ دنیا کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت کرۂ ارض پر موجود ہر قسم کے ماحولیاتی نظاموں کو خطرے میں ڈال دے گا۔ بڑھتی ہوئی حدت براہ راست گلیشئرز پر اثر انداز ہو گی، جس سے سیلاب اور طغیانی کے خطرات بڑھیں گے اور پھر پانی کی کمی، خشک سالی کو دعوت دے گی۔ یہ 2 مظاہر دنیا کو ہلا کر رکھ دیں گے، زمین پر موجود ہر قسم کی حیات خطرے میں پڑ جائے گی، وہ انسان ہو یا کوئی اور جاندار۔
پچھلے کئی برسوں سے دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے دن رات کام جاری ہے اور ایسی کئی رپورٹس منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں ایشیائی ممالک کو براہ راست خطرے کی زد میں شامل کیا گیا ہے۔ یکے بعد دیگرے پاکستان میں آنے والے تین سیلاب (2010۔ 2011۔ 2012ء) اس حوالے سے دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن چکے ہیں۔ 2013ء کا سال اگرچہ سیلاب کے حوالے سے خیریت سے گزر گیا لیکن دنیا بھر میں سمندری طوفانوں نے زندگی تہ و بالا کر رکھی ہے۔
ماہرین عرصہ دراز سے پاکستان کے شمالی علاقوں میں موجود گلیشئرز کو بڑھتے ہوئے درجہ حرارت میں پاکستان کے لیے براہ راست خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ اس حوالے سے شمالی علاقوں میں 52 ایسی جھیلوں کی نشاندہی ہو چکی ہے جو گلیشئرز کے پانی سے لبالب بھر چکی ہیں اور مزید پانی کی آمد کے سبب پاکستان کے پہاڑی علاقوں ہمالیہ، قراقرم اور ہندو کش کے علاقوں میں سیلاب لا سکتی ہیں۔
گلیشیرز سے رستے اور بہتے پانی نے اس علاقے میں چھوٹی بڑی کئی جھیلیں بنا دی ہیں، جن میں پانی کی روانی کا یہ سلسلہ گلیشیرز پر مسلسل برف باری اور پانی کے جمنے اور پھر پگھلنے کا یہ عمل ہزار ہا سال سے فطری انداز میں جاری ہے۔ مگر اب گلوبل وارمنگ یعنی بڑھتی ہوئی حدت ان گلیشیرز پر بھی اثر انداز ہونا شروع ہوچکی ہے۔ بڑھتے ہوئے پانی کا یہ زور بعض اوقات ان جھیلوں کے کناروں میں شگاف ڈالنے لگا ہے اور یہ جھیلیں چھلکنے لگی ہیں اور اگر پانی کا بہائو تیز ہو تو اس پانی کے ساتھ برفانی تودے اور پتھر بھی لڑھکنے لگتے ہیں جو نشیب کے علاقوں کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس عمل کو گلیشیائی جھیلوں میں سیلاب (Glacial flood outburst lake) یا GLOF کہا جاتا ہے۔
اس تمام صورتحال سے بچنے کے لیے دنیا بھر کے سائنس داں دن رات محنت کر رہے ہیں اور آئے دن ان کے تجربات اور تجاویز سامنے آتی رہتی ہیں۔ لیکن سردست ہم کسی سائنسی تجربے یا اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں پر بات کرنے کے بجائے صرف ایک آسان بات پر زور دیں گے اور وہ یہ کہ ہمیں صرف اور صرف درخت لگانے چاہئیں اور اگر ہمارے پاس جگہ نہیں ہے تو ہم پودوں سے بھی کام چلا سکتے ہیں۔ اس سے ہم موسم کے بے قابو ہوتے جن کو خاصی حد تک قابو میں لا سکتے ہیں۔
مگر یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کے ہر شعبے کی طرح جنگلات کے شعبے کو بھی کرپشن کی دیمک چاٹ گئی ہے۔ یہ قیمتی وسیلہ سیاسی اثر و رسوخ اور مجرموں کی سرعام سرپرستی کے باعث ہمیشہ غیر محفوظ رہا ہے۔ اس قیمتی دولت سے فائدہ نہ اٹھانے والے کو عرف عام میں بے وقوف سمجھا جاتا ہے۔ سندھ کے دریائی جنگلات جنھیں کچے کے جنگلات بھی کہا جاتا ہے، شدید خطرات سے دوچار ہیں، یہ جنگلات دریائے سندھ کی گزرگاہ کے کنارے اور نواحی علاقوں میں واقع ہیں، اور دریائے سندھ کے سیلابی پانی سے سیراب ہوتے ہیں اور یہ ٹمبر مافیا کے لیے خزانہ کی مانند ہیں۔
فرنیچر اور ایندھن کے لیے یہاں سے بے دریغ درخت کاٹے جاتے ہیں۔ کچے کی لکڑی فرنیچر سازی کے لیے بہترین سمجھی جاتی ہے۔ ان علاقوں میں ٹمبر مافیا کا بہت اثر و رسوخ ہے اور بغیر کسی نئی شجرکاری کے، درختوں کی کٹائی زور و شور سے جاری ہے۔ بہت پرانی بات نہیں جب سندھ کے یہ جنگلات ڈاکوئوں کی پناہ گاہ بنے ہوئے تھے (ہنوز ہیں) گھنے جنگلات کے باعث ان ڈاکوئوں تک پہنچنا اور ان پر قابو پانا، قانون کے محافظوں کے لیے مشکل تھا، لہذا حکومت نے یہ بہترین حل ڈھونڈا کہ ان جنگلات کا ہی صفایا کر دیا جائے، تا کہ نہ جنگل ہو گا اور نہ ہی ڈاکو چھپیں گے۔ ایسے بہترین فیصلے ملک و قوم کے مفاد میں آئے روز کیے جاتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت میں موسمیاتی تبدیلیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ قدرتی آفات سے بچائو کی موثر حکمت عملی تیار کر کے متعلقہ اداروں کو فعال کیا جائے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ قدرتی آفات سے بچائو کی موثر حکمت عملی کی تیاری اور بحالی کے قومی اور علاقائی سطح کے منصوبوں اور حکمت عملیوں میں ماحولیاتی اثرات کا جائزہ (EIA) اور ہمہ گیر ماحولیاتی اثرات کا تجزیہ (SEA) جیسے اہم قوانین بھی شامل کر لیے جائیں۔
ایس ای اے کے ذریعے ہم بہ آسانی پائیدار ماحولیاتی ترقی اور ناپائیداری میں فرق کر سکتے ہیں۔ جب کہ ماحولیاتی اثرات کا جائزہ ڈیم، دریا کے پشتے، بند اور زمین کے استعمال کے حوالے سے ایک واضح تصویر فراہم کرتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ای آئی اے لوگوں اور ایکو سسٹم کی بحالی، ذرایع روزگار میں اضافے، معیاری طرز حیات، اور مستقبل میں قدرتی آفات سے بچائو میں بھی مدد دیتا ہے۔
ہمیں بلاتاخیر ان قوانین کو اپنے منصوبوں میں شامل کر لینا چاہیے۔ ہم کسی بھی قدرتی آفت کو مکمل طور پر روک نہیں سکتے لیکن وقت سے پہلے بروقت منصوبہ بندی اور موثر کارکردگی سے نقصان کی شدت کم سے کم کر سکتے ہیں۔