پاکستان ایک نظر میں خدارا ڈیم بنائیے

ہمارے سیاستدان نہ توقدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے کوئی انتظامات کرتے ہیں اورنہ ہی توانائی بحران کے حل کیلئے ڈیم بناتے ہیں۔

جتنا نقصان ہمیں ہر سال آنے والے سیلاب کی وجہ سے ہوتا ہے شاید اس سے گئی گناہ کم لاگت میں گئی ڈیم تعمیرہو جائیں،لیکن اِس کے لیے ضروری ہے کہ سیاستدان اپنے مفادات،اختلافات کو بھلا کر ملک کا سوچیں جو بدقسمتی سے اب تک نہیں ہوا۔ فوٹو: فائل

آج کل پاکستان میں ہر طرف سیلاب نے اپنی تباہ کاریاں مچا رکھی ہیں۔ ہرجانب پانی ہی پانی نظر آتا ہے،جہاں کبھی بستیاں نظر آتی تھیں آج ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا اورسیلاب جہاں جہاں سے بھی گزر رہا ہے وہاں سے ہر چیز اپنے ساتھ بہا کر لے جا رہا ہے۔

پاکستان اس وقت مشکل ترین حالات سے گزر رہا ہے اگر چہ یہ ایک روایتی سا جملہ بن گیا ہےاور ہر سیاستدان اپنی بات کا آغاز اِسی جملے سے کرتا ہے مگر میرا خیال ہے کہ شاید اب یہ حقیقت بھی ہے۔ ایک جانب تو ملک کے اندر دہشت گردی کے خلاف جنگ اور سیاسی بحران کا سامنا ہےتو دوسری جانب حالیہ آنے والے سیلاب نے ملک کو مزید مشکلات میں گھیر لیا ہے۔ایسے وقت میں لاکھوں افراد بے گھر،بے سروسا مانی کی صورت میں کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں جو اپنے پاکستانی بھائیوں کی جانب آس لگائے بیٹھے ہیں۔ شہروں کو بچانے کے لئے جس طرح دریائی بند توڑے گئے اس سے دیہاتوں کے دیہات ویران ہو گئے اور یقینی طور پر یہ مناظر دل کو ہلا دینے والے ہیں۔تمام صورت حال ایک جانب لیکن اس تباہی کے پیچھے کچھ وجوہا ت بھی ہیں۔کچھ نہ کچھ کمزوریاں اورنااہلی ہماری بھی ہیں۔ مجھے وزیراعظم کے منہ سے یہ سن کر بہت حیرانگی ہوئی کہ محکمہ موسمیات نے حکومت کو سیلاب کی آمد کی خبر پہلے نہیں دی تھی۔

وزیراعظم کے اِس انکشاف نے بہت سے سوالات کو بھی جہنم دے دیا ہے۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ انہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس نوعیت کا سیلاب اس بار آئے گااور اس وقت آئے گا۔لیکن میں سوچتا ہوں کہ بھلا کیا آج کے دور میں یہ ممکن ہے کہ کوئی ایسا ملک ہو جہاں یہ معلوم نہ ہو سکے کہ سیلاب کب ،کہاں اور کتنا آ رہا ہے۔اگر آج کے جدید سائنسی دور میں کسی ملک میں یہ نہیں معلوم ہو سکتا تو وہ ملک پھر سائنس،تحقیق سے بہت دور ہے،کیونکہ آج کے اس سائنسی دور میں یہ پتہ لگانا کوئی نئی بات نہیں کہ سیلاب کب آ رہا ہے،بارش کب،کتنی اور کس علاقے میں ہونی ہے۔محکمہ موسمیات کے پاس آج کے دور میں مکمل سیٹلائیٹ سہولیات موجود ہوتی ہے جس سے ہر ایک منٹ کی موسمی معلومات محکمے تک پہنچ رہی ہوتی ہیں۔ان تما م سہولیات کے ہونے کے باوجود اگر کوئی یہ کہہ کر اپنے سر سے بوجھ اتار دے کہ ہمیں یہ معلوم نہیں تھاتو یہ ہمارے لئے شرمندگی کا باعث ہے اور اِس طرح ہم دنیا کو خود بتا رہے ہیں کہ ہم کس قدر نالائق ہیں۔

مجھے آج تاریخ یاد آ رہی ہے۔انگریز جب برصغیر پاک و ہند پر قابض تھے تو ان کی حکمت عملی اتنی مضبوط ہوتی تھی کہ وہ موسم سرما میں ہی مون سون کے موسم کےحوالے سے اپنے انتظام مکمل کر لیا کرتے تھے۔انگریز موسم سرما میں دریاوں کو مزید گھیرا،ان کی صفائی،بندوں کی بلندی اور نہروں کی صفائی جیسے انتظامات مکمل کر لیا کرتے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ انگریز سیلاب کی صورت حال نے نمٹنے کے لئے دریاوں پر چھوٹے چھوٹے ڈیم بھی تعمیر کروایا کرتے تھےتاکہ سیلاب کے پانی کو استعمال میں لایا جاسکے۔اگر اُس دور میں جب سائنس نے اتنی ترقی بھی نہیں کی تھی،مگر پھر بھی وہ اپنے انتظامات مکمل کرلیتے تھے تو آخر وہ کونسی وجہ ہے آج کے اِس جدید دور میں منظم انظامات نہ کیے جاسکیں۔


ہمارے سیاستدان نہ تو قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے کوئی بروقت انتظامات کرتے ہیں،نہ ہی توانائی بحران کے حل کے لئے ڈیم بناتے ہیں اور نہ ہی بھارت سے سیلاب کا پانی پاکستان کی جانب چھوڑے جانے پر احتجاج کرتے ہیں،تو پھر ہمارے حکمران کر کیا رہے ہیں؟ کبھی تو کوئی حکومت بھارت سے ہر سال سیلابی پانی پاکستان کا رخ کرنے پر جواب طلب کرے،کبھی تو بین الاقوامی سطح پر بھارت کی اس لاقانونیت پر احتجاج کیا جائے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ قدرتی آفات کو روکنا انسان کے بس کی بات تو نہیں،لیکن ان کے لئے بروقت انتظامات کرنا ہماری زمہ داری ہے۔اگر ہمارے سیاستدان آپس کے اختلافات بھلا کر ڈیم تعمیر کر لیتے تو آج پاکستان پر توانائی جیسا بحران نہ بھی ہوتا اور سیلاب بھی اس قدر تباہی نہ مچاتا۔ ترقی یافتہ ممالک توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے سالوں پہلے ڈیم بنا کر بیٹھے ہیں اور دوسری جانب ہم ہیں جہاں توانائی بحران بھی ہے اور پانی کی قلت بھی مگر مجال ہے کہ عقل اور ہوشمندی سے کام لیتے ہوئے چھوٹے چھوٹے ڈیم کی تعمیر کا کام شروع کرلیا جائے کیونکہ جتنا نقصان ہمیں ہر سال آنے والے سیلاب کی وجہ سے ہوتا ہے شاید اس سے گئی گناہ کم لاگت میں گئی ڈیم تعمیرہو جائیں،لیکن بات پھر وہاں ہی یہ سب تب ہو سکتا ہے جب ہمارے سیاستدان اپنے مفادات،اختلافات کو بھلا کر ملک اور اس کی قوم کے مفاد کا سوچیں،جو بدقسمتی سے آج تک کوئی نہیں سوچ سکا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story