اسلام پاکستان اور اقلیتیں
کسی بھی ریاست میں قانون کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ اس کی بنیاد پر افراد کو یکساں حقوق و انصاف ملتا ہے
ACCRA, GHANA:
دنیا بھر میںجہاں کہیں بھی انسانی حقوق کی حق تلفی ہو رہی ہو تو پھر اس کے خلاف قانون حرکت میں آجاتا ہے اور قانون نافذ کرنیوالے ادارے بڑی سرعت کے ساتھ متحرک ہو کر انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بناتے ہیں۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی جہاں ایک جانب معمول بنتی جارہی ہے ، وہیںدوسری جانب انسانی حقوق کے نام پر مخصوص لابیاں پاکستان کے اسلامی تشخص اور نظریاتی شناخت کو پامال کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتی ہیں۔
گزشتہ کئی روز سے ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کی شہ سرخیوں میں جگہ پانے والا رمشا کیس ایک جانب جہاں انسانی حقوق کی پامالی کا منہ بولتا ثبوت ہے تو دوسری جانب یہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان بھی ہے ۔
مملکت خداداد پاکستان کے متفقہ آئین پاکستان کے تمام شہریوں کو بلا امتیاز ، رنگ، نسل، زبان، علاقہ، مذہب ، قومیت، فرقہ، عقیدہ اور نظریات کے یکساں حقوق کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔
چنانچہ 1973کے آئین کی دفعہ 4کے مطابق تمام شہریوں کو یکساں قانونی تحفظ کی ضمانت تو دی گئی ہے نیز قانونی جواز کے بغیر حکومت کوئی ایسا اقدام کرنے کی مجاز بھی نہ ہوگی جو شخصی آزادی ،تحفظ اور عزت و شہرت کے لیے ضرر رساں ہو ۔
اسی طرح کسی شخص کو کسی بھی ایسے اقدام سے جو قانون کی رو سے غلط یا غیرقانونی نہ ہو اس سے بھی اسے نہیں روکا جاسکتا۔ گویا باالفاظ دیگر قانون کی حاکمیت کو یقینی بنائے جانے پر زوردیا گیا۔اس آئین کے ابتدائیے میں ہی مذہبی اقلیتوں کے حقوق و مفادات کے تحفظ کا بھی ذکر کیا گیا۔
کسی بھی ریاست میں قانون کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ اس کی بنیاد پر افراد کو یکساں حقوق و انصاف ملتا ہے وہیں اس کی بنیاد پر ریاستی امور اور معاملات میں ایک نظم قائم کرکے اس کا اطلاق ریاست کے تمام باسیوں کے لیے ترقی خوشحالی اور فلاح کا سبب بنتا ہے ۔
نسل و زبان،رنگ اور مذہب اور نظریات کے تمام تر اختلافات کے باوجود ریاست کے تمام افراد امن وسلامتی اور یگانگت کے ساتھ قانون پر عمل پیرا ہونا اپنے لیے مفید خیال کرتے ہیں جب کہ اس کے بالکل برعکس قانون کی عدم موجودگی یا قانون پر عمل پیر ا نہ ہونے کی صورت میں لا قانونیت ، بربریت، استحصال اور ناانصافی ظلم کا وہ ماحول جنم لے لیتا ہے کہ جو ریاست کو انارکی۔
انتشار اور بربادی سے دوچارکردیتا ہے اور پھر معاشرہ میں 'جس کی لاٹھی اس کی بھینس ' کی عملی تصویر دکھائی دینے لگتا ہے۔
' ڈاون سنڈروم 'نامی بیماری کا شکار رمشا مسیح کو 16اگست کو میرا جعفر سے پولیس نے اس وقت اپنی تحویل میں لے لیا تھا جب اہل علاقہ نے مقدس اوراق کی بے حرمتی کے الزام پر اس کے گھر کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ بعد ازاں رمشا مسیح کی ضمانت بھی ہوگئی اور وہ رہا ہو گئی۔
اس پورے واقعے کی روئیداد نہ صر ف قومی بلکہ عالمی میڈیا اور خصوصا سوشل میڈیا پرکئی روز سے جاری ہے اور آئے روز نئے انکشافات اور نئی معلومات کی بنیاد پر یہ معاملہ پاکستان ہی نہیں اسلام اور ملک کی مذہبی قیادت اور مثبت سوچ رکھنے والوں کے لیے ندامت کاسبب بنتا جارہا ہے۔
قطع نظر اس کے رمشاء نے اوارق مقدسات کی بے حرمتی کی یا نہیں سب سے اہم بات یہ ہے کہ گرفتاری کے بعد رمشاء کے حوالے سے متعلقہ پولیس حکام نے جو اقدامات کیے کیا وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قانون اور آئین کے مطابق تھے ۔
اسے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں منتقل کردیا گیا اور اس کے بعد اس معاملے کو جس انداز میں سامنے لایا گیا اس نے اس تاثر کو مزید فروغ دیاکہ پاکستان وہ ملک ہے کہ جہاں اقلیتوںکے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے اور آج جب بہت سے حقائق سامنے آچکے ہیں تو ایسے میں باوجود اس کے رمشاء کی ضمانت پر رہائی عمل میں آچکی ہے کیا اس کے گھر والوں کے لیے اب یہ معاملہ ہر لمحہ سر پر موت کی تلو ار کی مانند نہیں لٹکتا رہے گا۔ کیا اب یہ بات بڑی حد تک واضح نہیں ہو چکی کہ ذہنی معذور رمشاء سے جو عمل سر زد ہوا در حقیقت اس کو ایک خاص اندازمیں سوچے سمجھے منصوبے کے ساتھ عام کیا گیا ۔
رمشا ء کم عمر قراردی جارہی ہے اور ذہنی معذور بھی ثابت ہو چکی ہے اور مصدقہ اطلاعات کے مطابق اس کے اہل خانہ کو اب اس ساری صورتحال کے سامنے آنے کے بھی اندھی حمایت بھی حاصل ہو چکی ہے خود حکومت پاکستان اور پاکستان کی ذمے دار مذہبی قیادت اس معاملے میں مضطرب ہے جب کہ رمشاء کو حاصل ہونے والی مغربی اور سیکولر لبرل افراد کی حمایت کے بعد قوی امکان ہے کہ نہ صرف اسے بلکہ اس کے اہل خانہ کوجلد ہی کسی بھی مغربی ملک میں پناہ بھی مل جائے گی۔
رمشاء مسیح جیسے کیسز ان سیکولر اور پاکستان مخالف قوتوں کے لیے سنہری مواقع ہوتے ہیں کہ جن کو جواز بنا کر پاکستان کو ساری دنیا میں بدنام کیا جاتا ہے اور بدقسمتی سے اس میں ان لوگوں کا بڑا حصہ ہے جو علم کی کمی کا شکار ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو علماء حق کے ساتھ نہیں ہوتے نہ ان کی محافل میں جاتے ہیں نہ اس سے قربت رکھتے ہیں یہ لوگ اپنے تئیں کسی بھی اقدام کو اسلامی فعل سمجھتے ہیں اور اس کے نقصانات پوری امت مسلمہ بھگتی ہے۔
اگر اس سلسلے کو روکنا ہے تو قانون پر عمل درآمد کرانے کی ضرورت ہے۔ ناکہ قانون کو ختم کرنے کی سازشوں کا سہرا بن کر ملک کی سالمیت ، وقار اور اپنے دین کامل مذہب اسلام کی اصل تعلیمات کو روندنے کی۔
اسلامی معاشرہ ایک متوازن معاشرہ ہے اسلام نہ صرف ریاست کے مسلمان شہریوں کے لیے حقوق کا تعین کرتا ہے بلکہ غیر مسلم شہریوں کے لیے بھی یکساں حقوق رکھتا ہے۔
اگر ہر شخص قانون بنائے اور اسے چلانے کی کوشش کرے تو افراتفری پھیل جائے گی ایسے حالات کے لیے 'جنگل کا قانون' کی اصطلاح ہے۔ ایسے حالات پیدا کرنے والے کو حکومت گرفتار کرتی ہے۔ اور قانون کے مطابق سزا دیتی ہے ناکہ سزا دینے کے بجائے قانون ہی ختم کر دیا جائے۔ یہ کیسی مضحکہ خیز بات ہے کہ تمام عالمی برادری سزا نہیں قانون کے ختم کرنے پر زور دے رہی ہے۔
عدلیہ کے ذریعے قانون پر عمل درآمد کیا جانا ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں اکثریت کا تعلق اسلام سے ہے ۔ درحقیقت قرآن وسنت کی روشنی میں وضع کیے گئے قوانین سب انسانوں کے حقوق کا بھرپور تحفظ کرتے ہیں۔ مغرب میں ان قوانین کو انسانی حقوق کے خلاف بتایا جاتا ہے اور اسلام کو جابرانہ نظام زندگی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
ایک اسلامی حکومت غیر مسلم رعایا کے حقوق کے تحفظ کی ذمے دار ہوتی ہے۔ غیر مسلم رعایا کی جان و مال اس کی عزت و آبرو کی حفاظت اسی طرح سے ہوتی ہے جس طرح مسلمان کی اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو کاروبار ، تجارت اور ہر قسم کا پیشہ اختیار کرنے کا حق ہے۔ غیر مسلم رعایا سے کیے گئے معاہدوں کی پاسداری اور اس کے ساتھ ساتھ ان کو اپنے مذہب اور عقیدے پر عمل کی آزادی دی جاتی ہے۔
سبحان اللہ یہ ہے میرا دین کامل ، مدعا فقط سمجھنے اور سمجھانے کا ہے۔