کون ہے تارکِ آئین رسول مختار
ڈنمارک میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو اس کا آزادی اظہار کے نام پر بھرپور دفاع کیا جاتا ہے
ایک سزا یافتہ 21 ماہ قید کاٹنے اور کئی جرائم میں ملوث رہنے والے 55 سالہ امریکی شہری نکولا بیسلے کی گستاخانہ فلم نے ساری مسلم دنیا میں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ برپا کردیا ہے۔
دنیا بھر میں امریکی سفارت خانے احتجاج اور سنگ باری کی زد میں ہیں، کئی جانیں تلف ہوئیں اور اربوں کی املاک تباہ کردی گئیں۔ امریکا پہلے بھی دنیا بھر میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
موجودہ حرکت پر جس طرح قریہ قریہ کوچہ کوچہ اس کے پرچموں کو نذرِ آتش کیا گیا، اس کے سفارتی عملے کو مختلف ملکوں سے حفاظتی طور پر نکلنا پڑا، وہ ایک عالمی ریکارڈ ہے جسے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں درج ہونا چاہیے۔
امریکا کے بارے میں یہ احساسات صرف مسلمانوں یا اسلامی دنیا میں ہی نہیں پائے جاتے بلکہ دنیا کے دیگر مذاہب، اقوام اور ممالک میں بھی اس کے خلاف اسی قسم کے تاثرات و جذبات پائے جاتے ہیں جو اس کی سرکشی اور دو رخی پالیسی کا نتیجہ ہیں۔
ایک پاکستانی مسلمان کی حیثیت سے اسلام، قرآن اور رسولؐ کی توہین کے لامتناہی سلسلے میں ہمیں امریکا اور مغربی ممالک، اپنے حکمرانوں اور خود اپنی ذات کا جائزہ لینا اور محاسبہ کرنا چاہیے۔
جہاں تک امریکا اور مغربی ممالک کا تعلق ہے، اس سلسلے میں ان کا کردار سب پر عیاں ہے۔ سلمان رشدی گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کو ملکہ برطانیہ شاہی مہمان بناتی ہے اور نائٹ ہڈ کے خطاب سے نوازتی ہے۔
وائٹ ہائوس مدعو کرکے عزّت و توقیر بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ تسلیمہ نسرین حکومت کی مدد سے بنگالیوں کے غیظ و غضب سے بچ کر نکل جانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو قرآن اور رسولؐ کی اس گستاخ کو بھرپور پذیرائی اور تحفظ و انعام و اکرام سے نوازا جاتا ہے۔
ڈنمارک کے اخبار سے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو اس کا آزادی اظہار کے نام پر بھرپور دفاع کیا جاتا ہے اور اس کے خلاف احتجاج کرنے کی پاداش میں پاکستانی نوجوان عامر چیمہ کو جرمن پولیس تشدد کرکے ہلاک کردیتی ہے، سات دن کے بعد لاش دی جاتی ہے، جس کو لواحقین کی مرضی کے خلاف اور ان کی غیر موجودگی میں سرکاری ہیلی کاپٹر سے وزیر آباد کے دور دراز علاقے میں چند افراد کی موجودگی میں دفن کردیا جاتا ہے۔
فلوریڈا کا پادری اعلان کرکے قرآن پاک نذر آتش کردیتا ہے اور اس سلسلے میں خود اپنی بیٹی اور وائٹ ہائوس کی درخواستوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا، اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا جاتا ہے۔ نکولا بیسلے کی فلم کی ہیروئن امریکی عدالت میں اس فلم پر پابندی کے لیے درخواست دائر کرکے موقف اختیار کرتی ہے کہ فلم کے اسکرپٹ میں پیغمبرِ اسلام کا ذکر نہیں تھا بلکہ ایڈونچر فلم بتائی گئی تھی تو اس کو مسترد کردیا جاتا ہے۔
جب کہ فلم بنانے والا ڈھٹائی سے کہتا ہے کہ عربوں کو احتجاج کا حق حاصل ہے مگر انھیں اس کی تمیز بھی سیکھنی چاہیے۔ امریکی صدر اس مذمومانہ حرکت کی مذمت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امریکا تمام مذاہب کا دل سے احترام کرتا ہے، دوسرے مذاہب کی بے حرمتی کی ہر کوشش کی مذمت کرتا ہے۔
لیکن اس کے برعکس اس مذموم حرکت کا محاسبہ اور تدارک کرنے کے بجائے اس پر ردّعمل کا اظہار کرنے والوں کو کٹہرے میں لانے اور مظاہروں سے نمٹنے کے لیے امریکی فوج بھیجنے کی بات کرتے ہیں۔ امریکی میرین یونٹس اور بحری جنگی جہاز لیبیا، یمن اور سوڈان کی سرحدوں میں تعینات کردیے گئے ہیں۔
امریکا کا یہ متضاد کردار اس کی سوچی سمجھی سازش اور منصوبے کو ظاہر کرتا ہے۔
پاکستان نے اس گستاخانہ فلم اور اسلام مخالف اور توہین آمیز مواد کو ہٹانے کے لیے انٹرپول کو خط تحریر کیا ہے اور اس سلسلے میں قانون سازی اور یو این او کے اجلاس میں مجوزہ قانون کا مسودہ پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ مطالبہ سادہ لوح افراد کو مطمئن کرنے کے لیے تو کافی ہے لیکن اس کی قانونی اور اخلاقی حیثیت کیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ گوگل توہین آمیز فلم ہٹانے کے سلسلے میں امریکی درخواست بھی مسترد کرچکا ہے۔ قومی اسمبلی نے بھی قرارداد مذمت پاس کرتے ہوئے امریکی سفیر کو طلب کرنے اور اس معاملے کو یو این او میں اٹھانے کا مطالبہ کیا تھا لیکن اتنے دن گزر جانے کے باوجود حکومت نے نہ تو امریکی سفیر کو طلب کرکے کوئی احتجاج کیا۔
نہ ہی یو این او کے اجلاس کے موقعے پر اس مسئلے کو بھرپور احتجاج کیا، حالانکہ دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم میں امریکا کی شریک ہونے کے ناتے حکومت اپنے تعاون اور ترجیحات کا از سرنو تعین کرنے کی دھمکی بھی دے سکتی تھی، لیکن سیاسی و سفارتی سطح کی کوششوں کے بجائے 21 ستمبر کو یومِ عشق رسولؐؐ منانے اور عام تعطیل کا اعلان کردیا گیا۔
عشقِ رسولؐ جو ہر لمحہ مومن کے دل کی دھڑکن اور سانسوں کے ساتھ ہے۔ کسی ایک دن سے مشروط کرکے اور عام تعطیل سے اربوں کا نقصان کرکے عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کچھ نہ کرتے ہوئے بھی بہت کچھ کرتا دِکھانے کی کوشش ہے۔ انٹرنیٹ پر توہینِ رسالت پر مبنی گستاخانہ فلم اور سائٹس بند کرنے کا حکم بھی سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس پر چیئرمین پی ٹی اے کو دیا تھا۔ عام تعطیل کے اعلان اور بلوائیوں کو کھلی چھٹی دینے سے اقوامِ عالم میں اسلام سے متعلق بہت غلط تاثر اور پیغام دیا جو ملک میں سیکولر ازم کی طرف لے جانے کی کوشش ہے۔
کون ہے تارکِ آئین رسول مختار
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار
ہوگئی کس کی نگہ طرزِ سلف سے بے زار
فتنوں کے اس دور میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بہ حیثیت مسلمان اپنے عمل اور کردار کا اسلامی تعلیمات کے تحت محاسبہ کریں۔ اپنی ان خامیوں، کوتاہیوں اور بداعمالیوں کو دور کریں۔ محض نعرہ بازی کے مقام رسول اور اسوۂ حسنہ کا صحیح شعور بیدار کریں۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ''اے پیغمبر! یہ اﷲ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔
ورنہ اگر کہیں تم تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گرد و پیش سے چھٹ جاتے، ان کا قصور معاف کردو اور ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو۔'' نبیؐ کی عملی تعلیم تو یہ ہے کہ کافر کی بیٹی کے سر پر بھی چادر پہناتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کافر کی سہی بیٹی تو ہے۔ حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبائے جانے پر آبدیدہ ہو کر سیّد الشہداء کا خطاب دیتے ہیں۔
لیکن فتح مکہ کے وقت سب کو امان دیتے ہیں۔ سب سے پہلے اپنا خون معاف کرتے ہیں۔ عورتوں، بچّوں اور ضعیفوں کو مارنے، بھاگتے ہوؤں کا پیچھا کرنے اور املاک و زراعت کو تباہ کرنے سے منع فرماتے ہیں۔
احتجاج کے دوران رسولﷺ کی ان تعلیمات کو مدنظر رکھنا چاہیے اور اپنے درمیان موجود نادان اور کم فہم لوگوں اور شرپسند عناصر پر نظر رکھنی چاہیے۔ دودھ پینے والے اور خون دینے والے مجنوں میں امتیاز کرنا چاہیے جو اسلام اور امت مسلمہ کی بدنامی اور شرمندگی کا سبب بنتے ہیں جس کا مظاہرہ یوم عشق رسول پر کیا گیا۔
علامہ اقبال نے اس مرض کی تشخیص جوابِ شکوہ میں اس طرح کی ہے کہ:
ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعثِ رسوائی پیغمبرؐ ہیں
بت شکن اٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا ابراہیم پدر اور پسر آزاد ہیں
دنیا بھر میں امریکی سفارت خانے احتجاج اور سنگ باری کی زد میں ہیں، کئی جانیں تلف ہوئیں اور اربوں کی املاک تباہ کردی گئیں۔ امریکا پہلے بھی دنیا بھر میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
موجودہ حرکت پر جس طرح قریہ قریہ کوچہ کوچہ اس کے پرچموں کو نذرِ آتش کیا گیا، اس کے سفارتی عملے کو مختلف ملکوں سے حفاظتی طور پر نکلنا پڑا، وہ ایک عالمی ریکارڈ ہے جسے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں درج ہونا چاہیے۔
امریکا کے بارے میں یہ احساسات صرف مسلمانوں یا اسلامی دنیا میں ہی نہیں پائے جاتے بلکہ دنیا کے دیگر مذاہب، اقوام اور ممالک میں بھی اس کے خلاف اسی قسم کے تاثرات و جذبات پائے جاتے ہیں جو اس کی سرکشی اور دو رخی پالیسی کا نتیجہ ہیں۔
ایک پاکستانی مسلمان کی حیثیت سے اسلام، قرآن اور رسولؐ کی توہین کے لامتناہی سلسلے میں ہمیں امریکا اور مغربی ممالک، اپنے حکمرانوں اور خود اپنی ذات کا جائزہ لینا اور محاسبہ کرنا چاہیے۔
جہاں تک امریکا اور مغربی ممالک کا تعلق ہے، اس سلسلے میں ان کا کردار سب پر عیاں ہے۔ سلمان رشدی گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کو ملکہ برطانیہ شاہی مہمان بناتی ہے اور نائٹ ہڈ کے خطاب سے نوازتی ہے۔
وائٹ ہائوس مدعو کرکے عزّت و توقیر بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ تسلیمہ نسرین حکومت کی مدد سے بنگالیوں کے غیظ و غضب سے بچ کر نکل جانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو قرآن اور رسولؐ کی اس گستاخ کو بھرپور پذیرائی اور تحفظ و انعام و اکرام سے نوازا جاتا ہے۔
ڈنمارک کے اخبار سے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو اس کا آزادی اظہار کے نام پر بھرپور دفاع کیا جاتا ہے اور اس کے خلاف احتجاج کرنے کی پاداش میں پاکستانی نوجوان عامر چیمہ کو جرمن پولیس تشدد کرکے ہلاک کردیتی ہے، سات دن کے بعد لاش دی جاتی ہے، جس کو لواحقین کی مرضی کے خلاف اور ان کی غیر موجودگی میں سرکاری ہیلی کاپٹر سے وزیر آباد کے دور دراز علاقے میں چند افراد کی موجودگی میں دفن کردیا جاتا ہے۔
فلوریڈا کا پادری اعلان کرکے قرآن پاک نذر آتش کردیتا ہے اور اس سلسلے میں خود اپنی بیٹی اور وائٹ ہائوس کی درخواستوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا، اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا جاتا ہے۔ نکولا بیسلے کی فلم کی ہیروئن امریکی عدالت میں اس فلم پر پابندی کے لیے درخواست دائر کرکے موقف اختیار کرتی ہے کہ فلم کے اسکرپٹ میں پیغمبرِ اسلام کا ذکر نہیں تھا بلکہ ایڈونچر فلم بتائی گئی تھی تو اس کو مسترد کردیا جاتا ہے۔
جب کہ فلم بنانے والا ڈھٹائی سے کہتا ہے کہ عربوں کو احتجاج کا حق حاصل ہے مگر انھیں اس کی تمیز بھی سیکھنی چاہیے۔ امریکی صدر اس مذمومانہ حرکت کی مذمت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امریکا تمام مذاہب کا دل سے احترام کرتا ہے، دوسرے مذاہب کی بے حرمتی کی ہر کوشش کی مذمت کرتا ہے۔
لیکن اس کے برعکس اس مذموم حرکت کا محاسبہ اور تدارک کرنے کے بجائے اس پر ردّعمل کا اظہار کرنے والوں کو کٹہرے میں لانے اور مظاہروں سے نمٹنے کے لیے امریکی فوج بھیجنے کی بات کرتے ہیں۔ امریکی میرین یونٹس اور بحری جنگی جہاز لیبیا، یمن اور سوڈان کی سرحدوں میں تعینات کردیے گئے ہیں۔
امریکا کا یہ متضاد کردار اس کی سوچی سمجھی سازش اور منصوبے کو ظاہر کرتا ہے۔
پاکستان نے اس گستاخانہ فلم اور اسلام مخالف اور توہین آمیز مواد کو ہٹانے کے لیے انٹرپول کو خط تحریر کیا ہے اور اس سلسلے میں قانون سازی اور یو این او کے اجلاس میں مجوزہ قانون کا مسودہ پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ مطالبہ سادہ لوح افراد کو مطمئن کرنے کے لیے تو کافی ہے لیکن اس کی قانونی اور اخلاقی حیثیت کیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ گوگل توہین آمیز فلم ہٹانے کے سلسلے میں امریکی درخواست بھی مسترد کرچکا ہے۔ قومی اسمبلی نے بھی قرارداد مذمت پاس کرتے ہوئے امریکی سفیر کو طلب کرنے اور اس معاملے کو یو این او میں اٹھانے کا مطالبہ کیا تھا لیکن اتنے دن گزر جانے کے باوجود حکومت نے نہ تو امریکی سفیر کو طلب کرکے کوئی احتجاج کیا۔
نہ ہی یو این او کے اجلاس کے موقعے پر اس مسئلے کو بھرپور احتجاج کیا، حالانکہ دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم میں امریکا کی شریک ہونے کے ناتے حکومت اپنے تعاون اور ترجیحات کا از سرنو تعین کرنے کی دھمکی بھی دے سکتی تھی، لیکن سیاسی و سفارتی سطح کی کوششوں کے بجائے 21 ستمبر کو یومِ عشق رسولؐؐ منانے اور عام تعطیل کا اعلان کردیا گیا۔
عشقِ رسولؐ جو ہر لمحہ مومن کے دل کی دھڑکن اور سانسوں کے ساتھ ہے۔ کسی ایک دن سے مشروط کرکے اور عام تعطیل سے اربوں کا نقصان کرکے عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کچھ نہ کرتے ہوئے بھی بہت کچھ کرتا دِکھانے کی کوشش ہے۔ انٹرنیٹ پر توہینِ رسالت پر مبنی گستاخانہ فلم اور سائٹس بند کرنے کا حکم بھی سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس پر چیئرمین پی ٹی اے کو دیا تھا۔ عام تعطیل کے اعلان اور بلوائیوں کو کھلی چھٹی دینے سے اقوامِ عالم میں اسلام سے متعلق بہت غلط تاثر اور پیغام دیا جو ملک میں سیکولر ازم کی طرف لے جانے کی کوشش ہے۔
کون ہے تارکِ آئین رسول مختار
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار
ہوگئی کس کی نگہ طرزِ سلف سے بے زار
فتنوں کے اس دور میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بہ حیثیت مسلمان اپنے عمل اور کردار کا اسلامی تعلیمات کے تحت محاسبہ کریں۔ اپنی ان خامیوں، کوتاہیوں اور بداعمالیوں کو دور کریں۔ محض نعرہ بازی کے مقام رسول اور اسوۂ حسنہ کا صحیح شعور بیدار کریں۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ''اے پیغمبر! یہ اﷲ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔
ورنہ اگر کہیں تم تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گرد و پیش سے چھٹ جاتے، ان کا قصور معاف کردو اور ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو۔'' نبیؐ کی عملی تعلیم تو یہ ہے کہ کافر کی بیٹی کے سر پر بھی چادر پہناتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کافر کی سہی بیٹی تو ہے۔ حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبائے جانے پر آبدیدہ ہو کر سیّد الشہداء کا خطاب دیتے ہیں۔
لیکن فتح مکہ کے وقت سب کو امان دیتے ہیں۔ سب سے پہلے اپنا خون معاف کرتے ہیں۔ عورتوں، بچّوں اور ضعیفوں کو مارنے، بھاگتے ہوؤں کا پیچھا کرنے اور املاک و زراعت کو تباہ کرنے سے منع فرماتے ہیں۔
احتجاج کے دوران رسولﷺ کی ان تعلیمات کو مدنظر رکھنا چاہیے اور اپنے درمیان موجود نادان اور کم فہم لوگوں اور شرپسند عناصر پر نظر رکھنی چاہیے۔ دودھ پینے والے اور خون دینے والے مجنوں میں امتیاز کرنا چاہیے جو اسلام اور امت مسلمہ کی بدنامی اور شرمندگی کا سبب بنتے ہیں جس کا مظاہرہ یوم عشق رسول پر کیا گیا۔
علامہ اقبال نے اس مرض کی تشخیص جوابِ شکوہ میں اس طرح کی ہے کہ:
ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعثِ رسوائی پیغمبرؐ ہیں
بت شکن اٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا ابراہیم پدر اور پسر آزاد ہیں