اتحاد کا آشیانہ
آج کل ڈاکٹر صاحب ملک و قوم کی موجودہ صورتِ حال کو دیکھ کر بہت غم زدہ اور رنجیدہ ہیں
ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہماری قوم کے عظیم سپوت ہیں، وہ محسن پاکستان ہیں۔
انھوں نے اس دیس کو ناقابلِ تسخیر بنانے کا معجزہ تخلیق کیا اور نہایت ہی کم خرچ پر بے سروسامانی کے عالم میں دشمنوں کی آنکھوں سے بچ بچا کر ایٹم بم بنا کر پاکستان کا نام چار دانگِ عالم میں روشن کیا۔
نیز عالمی برادری میں اپنے وطنِ عزیز کو ایک اعلیٰ و ارفع مقام دِلایا، ان کے اس محیر العقول کارنامے پر پوری قوم ان کی ممنون و احسان مند ہے اور ڈاکٹر صاحب کو اپنے سر اور آنکھوں پر بٹھاتی ہے۔
اس کارنامے سے پہلے پڑوسی دشمن ملک انڈیا نے جب سے ایٹم بم بنا کر ہمیں مرعوب کیا تو پاکستان اس کے سامنے بھیگی بلی بنا ہوا تھا لیکن ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے بعد پاکستانی قوم کا سرفخر سے بلند ہوگیا، جس کا سہرا اس قوم نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم کے سر باندھا۔
آج کل ڈاکٹر صاحب ملک و قوم کی موجودہ صورتِ حال کو دیکھ کر بہت غم زدہ اور رنجیدہ ہیں، خاص کر موجودہ حکمران اس قوم کے ساتھ جو کچھ کررہے ہیں۔
اسے دیکھ کر کڑھتے ہیں اور خون کے آنسو بہاتے ہیں، کبھی کبھی اپنے جذبات کا اظہار قومی پریس میں بھی کرتے رہتے ہیں، ایک جگہ کہتے ہیں۔''موجودہ نام نہاد جمہوری حکومت کے ساڑھے چار سال کا دور خرید و فروخت، بلیک میلنگ، سپریم کورٹ کے احکام کی عدولی، رشوت ستانی،بے روزگاری، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، سرکاری اور غیر سرکاری زمینوں پر ناجائز قبضہ، مہنگائی، گھوسٹ اسکولز غرض یہ کہ ہر برائی اس دور نے ہم کو دِکھائی ہے۔
جس طرح کھلے عام فرقہ وارانہ دہشت گردی اور قتل و غارت ہورہی ہے۔ اس کی مثال اس ملک کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ پورا ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ خودمختاری بیچی جاچکی ہے۔''
مزید فرماتے ہیں، ''اس وقت ملک جس بدانتظامی اور رشوت ستانی کا شکار ہے وہ زبانِ زدعام ہے۔ اخبارات، ٹی وی پروگرام حکومت کی رشوت ستانی اور نااہلی پر روشنی ڈالتے ہیں۔
رشوت ستانی امن وامان کا فقدان، اقلیتوں کا اغوا اور قتل، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، مہنگائی، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ، فرقہ وارانہ قتل و غارت گری وغیرہ اس حکومت کے عوام کو تحفے ہیں، عوام اس حکومت سے مایوس ہیں ۔''
ڈاکٹر صاحب نے جو نقشہ اور صورتِ حال بیان کی ہے، اس سے اس ملک کا درد رکھنے والی دو اہم سیاسی جماعتیں مسلم لیگ اور جماعتِ اسلامی 100 فیصد متفق نظر آتی ہیں۔
ان کے علاوہ باشعور سول سوسائٹی، و کلاحضرات، غیر جانبدار سیاست دان، ٹریڈ یونین لیڈرز، طلبا، مزدور، کسان، غریب اورمتوسط طبقے کے افراد بالکل ایسے ہی جذبات کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور پورا ملک رب رحیم و کریم سے رحمت کی دعائیں مانگ رہا ہے لیکن حکمرانوں نے بھی قسم کھا رکھی ہے کہ اپنے حکمرانی کے طور طریقے ٹھیک نہیں کرنے ہیں ۔
حیلے بہانوں، چکربازیوں اور منفی سیاست سے آیندہ الیکشن لوٹنا چاہتے ہیں اور انھوں نے اپنے مہرے اور کھونٹے عمران خان، فضل الرحمن اور چوہدری پرویز الٰہی کی شکل میں مضبوط کرلیے ہیں۔بدقسمتی ہے کہ ہماری قوم مختلف سیاسی پارٹیوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ جب تک تبدیلی لانے والی یہ سیاسی جماعتیں اکٹھی نہیں ہوتی ہیں اور متحد ہو کر آیندہ انتخابات میں ایک جھنڈے تلے الیکشن نہیں لڑتی ہیں تو ان کے ووٹ تقسیم ہوجائیں گے۔
''اگر موجودہ حکمران دوبارہ آگئے تو یاد رکھیے کہ آپ کو روٹی، کپڑا اور مکان تو کیا اب گھاس کھانے کو بھی نہیں ملے گی، خدارا متحد ہوجائیے۔''مخالف سیاسی پارٹیاں متحد ہوں گی تو ساری قوم اکٹھی ہوجائے گی۔ ان سیاسی پارٹیوں میں سب سے بڑی مسلم لیگ ہے جو ملک کے کونے کونے اور ہر حصّے میں مقبول ہے۔
اس کا ایک مضبوط نیٹ ورک اور انتظامی ڈھانچہ موجود ہے۔ ان کے پاس ہر شعبے کے لیے ماہرین کی ٹیم موجود ہے۔ قیادت نہایت بااصول، نرم گرم، چشیدہ ٹھوکریں کھاکر اور جیلوں کی سزائیں کاٹ کر گراں قدر تجربے کی حامل ہے۔ نیز اندرون ملک سیاست اور بین الاقوامی سیاست کو بھی خوب سمجھتی ہے۔ دوسرے نمبر پر جماعت اسلامی آتی ہے۔
یہ بھی ملک کے کونے کونے میں گراس روٹ تک منظم ہے۔ حزب اختلاف کی ایک توانا پارٹی ہے۔ اسٹریٹ پاور رکھتی ہے اور قابل اعتماد ہے۔
آپ مسلم لیگ، جماعت اسلامی اور دفاع پاکستان کونسل جیسی پارٹیوں سے رابطہ کرکے ان کا اور اپنی پارٹی تحریکِ تحفظ پاکستان اتحاد بنائیں تو آپ کو بہت بڑی کامیابی ملے گی۔ اگر آپ اپنی پارٹی کے ساتھ سولو فلائٹ کریں گے تو بالکل ناکام ہوجائیں گے۔ اس سلسلے میں 1993 میں قاضی حسین احمد نے سولو فلائٹ کے زعم میں اسلامک فرنٹ بنا کر جو کچھ حاصل کیا، وہ ناقابلِ بیان ہے۔
اس اتحاد کو دیکھ کر (ق) لیگ اور تحریکِ انصاف میں مچی ہوئی بھگدڑ اور تیز ہوجائے گی، کیونکہ (ق) لیگ تو آخری دموں پر ہے اور تحریکِ انصاف میں بہت سے اہم سیاست دان غیر مطمئن ہیں، وہ سب اس اتحاد کی طرف دوڑیں گے۔ آپ ان سب کو باعزّت طور پر اپنے اتحاد میں مناسب مقام دیں۔
عمران خان اور مولانا فضل الرحمن کے ایجنڈوں سے آپ بخوبی واقف ہیں، باخبر حضرات نے آپ کو اچھی طرح بتادیا ہے، پھر بھی آپ ان کو اپنے اتحاد میں شمولیت کی دعوت دیں، ہوسکتا ہے آپ کے اثرورسوخ سے صبح کے بھولے شام کو واپس آجائیں۔ یاد رہے اس سے پہلے قاضی حسین احمد نے بھی اپوزیشن پارٹیوں کا اتحاد بنانے کی کوشش کی تھی۔
لیکن عمران خان کے غیر سیاسی رویے اور مولانا فضل الرحمن کی موجودہ حکمرانوں سے نیازمندی کے تعلقات کو دیکھ کر پیچھے ہٹ گئے ہیں۔الیکشن میں آپ صرف صدارتی امیدوار بنیں اور وزیراعظم میاں نواز شریف کو بنوائیں، انشاء اﷲ یہ جوڑی بہت کامیاب رہے گی اور ملک و قوم کی ڈبکیاں کھاتی ہوئی کشتی کو پار لگادے گی۔
اس وقت مسلم لیگ سے بہتر سیاسی پارٹی اور میاں نواز شریف سے بہتر ساتھی سیاست دان نہیں ملے گا۔ اب تک آپ نے سیاسی پارٹیوں پر جو تنقید کی ہے۔ اس بارے میں یاد رہے کہ انسان غلطی کا پتلا ہے۔
سیاسی پارٹیوں سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں، ہم سب گناہ گار ہیں، آپ کی تنقید کا انھوں نے خاص نوٹس نہیں لیا ہے، بلکہ آپ کی باتوں کو گھی شکر یا شیریں رس گلے سمجھ کر ہضم کرلیا ہے۔
آپ سے بھی گزارش ہے کہ آیندہ آپ ان پر تنقید کرکے فاصلے نہ بڑھائیں، کیونکہ یہی پارٹیاں آپ کے کام آئیں گی۔ ان تنکوں کو جوڑ کر آپ سیاسی پارٹیوں کے اتحاد کا آشیانہ بنائیں، انشاء اﷲ کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔
آخر میں ایک گزارش ہے کہ حکومتی حلقے کے افراد نہایت ادب اور خوشامدانہ انداز سے آپ کو 3 مہینے کا نگراں وزیراعظم بنا کر آیندہ صدارتی انتخابات سے باہر رکھنا چاہتے ہیں تاکہ آپ موجودہ حکمرانوں کے لیے کوئی چیلنج نہ بن سکیں۔ اس سازش سے بچیں۔