آمرانہ زمانوں میں صحافت پر کیا گزری
اردو صحافت کی تاریخ بھی کوئی آسانی سے مرتب نہیں ہوئی۔۔۔۔
یہ ایک کتاب ہمیں موصول ہوئی ہے...
'اقبال زبیری' یادیں اور باتیں'۔ اس مرحوم کے بھائی رفیع الزماں زبیری نے یہ کتاب مرتب کی ہے۔
اس کتاب کو دیکھ کر ہمیں تھوڑا عبرت کا احساس بھی ہوا۔ اردو صحافت کا عجب احوال رہا ہے۔ صحافت کے جو دور گزر گئے وہ گزر گئے۔ کونسے اخباروں نے کونسے صحافیوں نے کیا کارنامے انجام دیے، اخبار کیسے جاری ہوئے، چمکے دھومیں مچائیں اور پھر بند ہو گئے۔ کیسے، کیوں، گزشتہ راہ صلوۃ، آگے بڑھو اور دیکھو اب کونسے اخباروں کا ستارہ عروج پر ہے اور کس صحافی کا نام کس کس اعتبار سے چمکا ہوا ہے۔
اردو صحافت کی تاریخ بھی کوئی آسانی سے مرتب نہیں ہوئی۔ پاکستان میں شاید سب سے پہلے ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے یہ کام انجام دیا تھا۔ اس کے بعد بھی اردو ادب اور صحافت کے طلبا میں سے کسی کسی نے اس پر حتی المقدور تحقیق کی اور زیادہ تفصیل سے دیکھا۔ ان تاریخوں سے اردو صحافت کے ماضی کے متعلق تو ہم بہت کچھ جان لیتے ہیں۔ مگر پاکستان میں اردو صحافت نے کس کس رنگ سے ترقی کی اور ترقی کرتے کرتے کس طرح دور زوال سے گزری۔ اس کا ذکر بہت کم ملے گا۔ اکا دکا کوئی ایسی کتاب جیسے ''Press in Chains'' جس میں ضمیر نیازی نے کتنا کچھ کہہ دیا ہے۔ مگر آگے پیچھے کیا کچھ ہوا اور ہوتا رہا، اس کے بارے میں ہم کتنا جانتے ہیں۔
یہ باقاعدہ ایک موضوع ہے جو تحقیق کا متقاضی ہے کہ پاکستان کے آغاز کے ساتھ صحافت میں بالخصوص اردو صحافت میں ترقی کے آثار نظر آنے لگے تھے۔ اردو صحافت جو اب تک بکھری بکھری تھی ایک نئی ترقی یافتہ شکل نکالتی نظر آ رہی تھی۔ مگر اچانک آ گیا ایوب خاں کا مارشل لا۔ جن اداروں پر سب سے بڑھ کر اس کی زد پڑی ان میں ایک پاکستانی صحافت بھی تھی۔ چھوٹتے ہی پروگریسو پیپرز پر ہلہ بولا گیا اور بیک جنبش قلم، امروز اور ہفت روزہ لیل و نہار پر قبضہ کر لیا گیا۔ اس جنبش قلم میں وہ اداریہ بھی شامل ہے جو تصرف کے بعد امروز میں ''نیا ورق'' کے عنوان سے شایع ہوا اور جسے اس اعتبار سے بہت شہرت ملی کہ وہ قدرت اللہ شہاب کی تحریر دل پذیر تھی۔
پھر چل سو چل۔ صحافت کے تابوت میں آخری کیل جنرل ضیاء الحق نے گاڑی۔ ایوب خاں نے تو صرف اخباروں پر قبضہ کیا تھا اور پھر پریس ٹرسٹ قائم کر کے کچھ اور اخباروں کو اپنے سایہ عاطفت میں لے لیا۔ ضیاء الحق کے سائے میں آ کر یہ سارے اخبار دم توڑتے چلے گئے۔ جو صحافی اس حوالے سے کشتگان میں شامل تھے ان میں اقبال زبیری بھی تھے۔ روزنامہ مشرق کے چیف ایڈیٹر اور چیف ایگزیکٹو۔
مشرق سے ان کی علیحدگی کے بعد اس اخبار نے تنزلی کے مراحل بڑی تیزی سے طے کیے۔ اب حالت یہ تھی کہ روزانہ اس اخبار کے صفحۂ اول پر ایک کالم چھپتا جس نے جرنیل کے قصیدے کے طور پر نام پیدا کیا۔ پھر باقی کیا رہ گیا۔
آخر اجاڑ دینا اس کا قرار پایا
ٹرسٹ سے وابستہ ہونے کے باوجود مشرق کو جس سلیقہ سے چلایا گیا اس کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہوں نے وہ دور دیکھا ہے۔ مشرق، کا معاملہ اس زمانہ میں عجب تھا جب آمر کے خلاف کوئی ہنگامہ بپا ہوتا تھا تو یورش مشرق پر بھی ہوتی تھی۔ تھوڑی اینٹوں کی بارش بھی ہو جاتی تھی۔ ہم سمجھتے کہ اب اس اخبار کو ڈوبنے سے کون بچا سکتا ہے۔ مگر وہ ہنگامی دن گزرنے کے بعد اخبار کی حیثیت پھر بحال ہو جاتی۔ اس میں عنایت اللہ مرحوم جو اس اخبار کے نفس ناطقہ تھے ان کا اور ان کے ساتھ اقبال زبیری کا کمال سمجھنا چاہیے۔ اس اخبار کا رنگ اتنا منفرد تھا اور اس میں قارئین کو وہ کچھ پڑھنے کے لیے ملتا تھا جو دوسرے اخباروں میں نہیں ہوتا تھا۔ اصل میں ان حضرات نے یہ سمجھ لیا تھا کہ سیاست تو ہمارے ہاتھ سے گئی۔ اس حوالے سے تو مشرق میں کچھ کمال نہیں دکھایا جا سکتا مگر ؎
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
آخر زندگی اتنی محدود تو نہیں ہے کہ سیاست سے عبارت بن کر رہ جائے۔ انسانی زندگی کے اور کتنے پہلو ہیں جو اپنے بیان کے لیے ترس رہے ہیں۔ بس اس حساب سے اس اخبار میں نئے کلی پھندنے ٹانکے گئے۔ ایک نیا رنگ اس اخبار میں اس حساب سے بھی نظر آیا کہ اب تک تو ہماری صحافت مردانہ صحافت تھی۔ اب اس میں نسوانی رنگ بھی جھلکنے لگا۔ خاتون رپورٹروں اور کالم نگاروں کی ایک اچھی خاصی ٹیم جمع ہو گئی تھی۔ اس حساب سے کتنے نئے موضوعات اور کتنے نئے نئے معاملات و مسائل جن کا عام زندگی سے تعلق تھا اس میں اپنی جھلک دکھانے لگے۔
مگر ڈکٹیٹر کو ان باتوں سے کیا غرض۔ وہ تو ہر باب میں ہر درو دیوار پر اپنا چہرہ دیکھنے کا خواہاں ہوتا ہے۔
اس مجموعہ میں کچھ ایسے مضامین ہیں جو مشرق کے ایسے کارکنوں نے لکھے ہیں جن کا اقبال زبیری سے بڑا گہرا تعلق تھا۔ یعنی اخباری سطح سے گزر کر نجی سطح پر بھی ان کا تعلق قائم ہو گیا تھا۔ انھوں نے بڑی خوبی سے زبیری صاحب کی ذاتی خوبیوں کو اجاگر کیا ہے اور ان کی اس صلاحیت پر بہت زور دیا ہے کہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ دفتری سے بڑھ کر نجی سطح پر رشتہ قائم کر کے دل جیت لیتے تھے۔ اس میں اخبار کی بھی جیت تھی۔ کس خلوص سے وہ اخبار میں اپنا سر کھپاتے تھے۔ نذیر حق، رئوف ظفر اور سعادت خیالی کے مضامین اس اخبار کے متعلق اور زبیری صاحب کی ذات و صفات اور صحافیانہ اہلیت کے بارے میں بہت کچھ بتاتے ہیں۔
مشرق سے الگ ہونے کے بعد زبیری صاحب تھوڑے عرصے کے لیے 'نوائے وقت' سے بھی وابستہ رہے۔ اس اخبار میں انھوں نے اپنی صحافیانہ لیاقت سے جو رنگ بھرے اور خوبیاں پیدا کیں اس کا مجید نظامی مرحوم نے اپنے مضمون میں کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔
لیکن زیادہ مضامین اہل خاندان کے ہیں۔ بیٹیوں اور بھتیجوں بھانجیوں نے جس طرح انھیں بیان کیا ہے اس سے ان کی زندگی کا وہ پہلو سامنے آتا ہے جو ان کی گھریلو زندگی سے متعلق ہے۔ یہاں وہ ایک باغ و بہار شخصیت کے طور پر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ پورے خاندان کے بیچ وہ سب کے ساتھ اتنے گھلے ملے نظر آتے ہیں۔
ویسے اچھا ہوتا کہ مشرق کے عملہ میں سے بھی چند ایک اور لوگ اس مجموعہ میں اپنے تاثرات کے ساتھ شامل ہوتے۔ خاص طور پر خاتون لکھنے والیوں میں سے۔ مثلاً مسرت جبیں، ش فرخ، نثار فاطمہ۔ مگر مسئلہ یہ بھی تو تھا کہ جو فرد عنایت صاحب کی نظروں سے گر جاتا اسے زبیری صاحب کا قرب حاصل کرنا بھی دشوار نظر آتا۔
'اقبال زبیری' یادیں اور باتیں'۔ اس مرحوم کے بھائی رفیع الزماں زبیری نے یہ کتاب مرتب کی ہے۔
اس کتاب کو دیکھ کر ہمیں تھوڑا عبرت کا احساس بھی ہوا۔ اردو صحافت کا عجب احوال رہا ہے۔ صحافت کے جو دور گزر گئے وہ گزر گئے۔ کونسے اخباروں نے کونسے صحافیوں نے کیا کارنامے انجام دیے، اخبار کیسے جاری ہوئے، چمکے دھومیں مچائیں اور پھر بند ہو گئے۔ کیسے، کیوں، گزشتہ راہ صلوۃ، آگے بڑھو اور دیکھو اب کونسے اخباروں کا ستارہ عروج پر ہے اور کس صحافی کا نام کس کس اعتبار سے چمکا ہوا ہے۔
اردو صحافت کی تاریخ بھی کوئی آسانی سے مرتب نہیں ہوئی۔ پاکستان میں شاید سب سے پہلے ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے یہ کام انجام دیا تھا۔ اس کے بعد بھی اردو ادب اور صحافت کے طلبا میں سے کسی کسی نے اس پر حتی المقدور تحقیق کی اور زیادہ تفصیل سے دیکھا۔ ان تاریخوں سے اردو صحافت کے ماضی کے متعلق تو ہم بہت کچھ جان لیتے ہیں۔ مگر پاکستان میں اردو صحافت نے کس کس رنگ سے ترقی کی اور ترقی کرتے کرتے کس طرح دور زوال سے گزری۔ اس کا ذکر بہت کم ملے گا۔ اکا دکا کوئی ایسی کتاب جیسے ''Press in Chains'' جس میں ضمیر نیازی نے کتنا کچھ کہہ دیا ہے۔ مگر آگے پیچھے کیا کچھ ہوا اور ہوتا رہا، اس کے بارے میں ہم کتنا جانتے ہیں۔
یہ باقاعدہ ایک موضوع ہے جو تحقیق کا متقاضی ہے کہ پاکستان کے آغاز کے ساتھ صحافت میں بالخصوص اردو صحافت میں ترقی کے آثار نظر آنے لگے تھے۔ اردو صحافت جو اب تک بکھری بکھری تھی ایک نئی ترقی یافتہ شکل نکالتی نظر آ رہی تھی۔ مگر اچانک آ گیا ایوب خاں کا مارشل لا۔ جن اداروں پر سب سے بڑھ کر اس کی زد پڑی ان میں ایک پاکستانی صحافت بھی تھی۔ چھوٹتے ہی پروگریسو پیپرز پر ہلہ بولا گیا اور بیک جنبش قلم، امروز اور ہفت روزہ لیل و نہار پر قبضہ کر لیا گیا۔ اس جنبش قلم میں وہ اداریہ بھی شامل ہے جو تصرف کے بعد امروز میں ''نیا ورق'' کے عنوان سے شایع ہوا اور جسے اس اعتبار سے بہت شہرت ملی کہ وہ قدرت اللہ شہاب کی تحریر دل پذیر تھی۔
پھر چل سو چل۔ صحافت کے تابوت میں آخری کیل جنرل ضیاء الحق نے گاڑی۔ ایوب خاں نے تو صرف اخباروں پر قبضہ کیا تھا اور پھر پریس ٹرسٹ قائم کر کے کچھ اور اخباروں کو اپنے سایہ عاطفت میں لے لیا۔ ضیاء الحق کے سائے میں آ کر یہ سارے اخبار دم توڑتے چلے گئے۔ جو صحافی اس حوالے سے کشتگان میں شامل تھے ان میں اقبال زبیری بھی تھے۔ روزنامہ مشرق کے چیف ایڈیٹر اور چیف ایگزیکٹو۔
مشرق سے ان کی علیحدگی کے بعد اس اخبار نے تنزلی کے مراحل بڑی تیزی سے طے کیے۔ اب حالت یہ تھی کہ روزانہ اس اخبار کے صفحۂ اول پر ایک کالم چھپتا جس نے جرنیل کے قصیدے کے طور پر نام پیدا کیا۔ پھر باقی کیا رہ گیا۔
آخر اجاڑ دینا اس کا قرار پایا
ٹرسٹ سے وابستہ ہونے کے باوجود مشرق کو جس سلیقہ سے چلایا گیا اس کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہوں نے وہ دور دیکھا ہے۔ مشرق، کا معاملہ اس زمانہ میں عجب تھا جب آمر کے خلاف کوئی ہنگامہ بپا ہوتا تھا تو یورش مشرق پر بھی ہوتی تھی۔ تھوڑی اینٹوں کی بارش بھی ہو جاتی تھی۔ ہم سمجھتے کہ اب اس اخبار کو ڈوبنے سے کون بچا سکتا ہے۔ مگر وہ ہنگامی دن گزرنے کے بعد اخبار کی حیثیت پھر بحال ہو جاتی۔ اس میں عنایت اللہ مرحوم جو اس اخبار کے نفس ناطقہ تھے ان کا اور ان کے ساتھ اقبال زبیری کا کمال سمجھنا چاہیے۔ اس اخبار کا رنگ اتنا منفرد تھا اور اس میں قارئین کو وہ کچھ پڑھنے کے لیے ملتا تھا جو دوسرے اخباروں میں نہیں ہوتا تھا۔ اصل میں ان حضرات نے یہ سمجھ لیا تھا کہ سیاست تو ہمارے ہاتھ سے گئی۔ اس حوالے سے تو مشرق میں کچھ کمال نہیں دکھایا جا سکتا مگر ؎
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
آخر زندگی اتنی محدود تو نہیں ہے کہ سیاست سے عبارت بن کر رہ جائے۔ انسانی زندگی کے اور کتنے پہلو ہیں جو اپنے بیان کے لیے ترس رہے ہیں۔ بس اس حساب سے اس اخبار میں نئے کلی پھندنے ٹانکے گئے۔ ایک نیا رنگ اس اخبار میں اس حساب سے بھی نظر آیا کہ اب تک تو ہماری صحافت مردانہ صحافت تھی۔ اب اس میں نسوانی رنگ بھی جھلکنے لگا۔ خاتون رپورٹروں اور کالم نگاروں کی ایک اچھی خاصی ٹیم جمع ہو گئی تھی۔ اس حساب سے کتنے نئے موضوعات اور کتنے نئے نئے معاملات و مسائل جن کا عام زندگی سے تعلق تھا اس میں اپنی جھلک دکھانے لگے۔
مگر ڈکٹیٹر کو ان باتوں سے کیا غرض۔ وہ تو ہر باب میں ہر درو دیوار پر اپنا چہرہ دیکھنے کا خواہاں ہوتا ہے۔
اس مجموعہ میں کچھ ایسے مضامین ہیں جو مشرق کے ایسے کارکنوں نے لکھے ہیں جن کا اقبال زبیری سے بڑا گہرا تعلق تھا۔ یعنی اخباری سطح سے گزر کر نجی سطح پر بھی ان کا تعلق قائم ہو گیا تھا۔ انھوں نے بڑی خوبی سے زبیری صاحب کی ذاتی خوبیوں کو اجاگر کیا ہے اور ان کی اس صلاحیت پر بہت زور دیا ہے کہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ دفتری سے بڑھ کر نجی سطح پر رشتہ قائم کر کے دل جیت لیتے تھے۔ اس میں اخبار کی بھی جیت تھی۔ کس خلوص سے وہ اخبار میں اپنا سر کھپاتے تھے۔ نذیر حق، رئوف ظفر اور سعادت خیالی کے مضامین اس اخبار کے متعلق اور زبیری صاحب کی ذات و صفات اور صحافیانہ اہلیت کے بارے میں بہت کچھ بتاتے ہیں۔
مشرق سے الگ ہونے کے بعد زبیری صاحب تھوڑے عرصے کے لیے 'نوائے وقت' سے بھی وابستہ رہے۔ اس اخبار میں انھوں نے اپنی صحافیانہ لیاقت سے جو رنگ بھرے اور خوبیاں پیدا کیں اس کا مجید نظامی مرحوم نے اپنے مضمون میں کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔
لیکن زیادہ مضامین اہل خاندان کے ہیں۔ بیٹیوں اور بھتیجوں بھانجیوں نے جس طرح انھیں بیان کیا ہے اس سے ان کی زندگی کا وہ پہلو سامنے آتا ہے جو ان کی گھریلو زندگی سے متعلق ہے۔ یہاں وہ ایک باغ و بہار شخصیت کے طور پر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ پورے خاندان کے بیچ وہ سب کے ساتھ اتنے گھلے ملے نظر آتے ہیں۔
ویسے اچھا ہوتا کہ مشرق کے عملہ میں سے بھی چند ایک اور لوگ اس مجموعہ میں اپنے تاثرات کے ساتھ شامل ہوتے۔ خاص طور پر خاتون لکھنے والیوں میں سے۔ مثلاً مسرت جبیں، ش فرخ، نثار فاطمہ۔ مگر مسئلہ یہ بھی تو تھا کہ جو فرد عنایت صاحب کی نظروں سے گر جاتا اسے زبیری صاحب کا قرب حاصل کرنا بھی دشوار نظر آتا۔