عمران خان کی سیاست
ظاہر ہے معراج محمد خان این ایس ایف میں میرے سینئر تھے اس لیے مجھے کئی بار ان سے پوچھنے کا موقع ۔۔۔۔
عمران خان سیاست کی سیڑھیوں پر جب چڑھ رہے تھے تو اکثر ان ہی سیڑھیوں سے پھسل کر نیچے آجاتے تھے کیونکہ کھیل اور سیاست کے انداز تو جدا ہیں مگر ان کا استعمال ایک ہی جیسا ہے، ذرا سی غلطی ہونے پر لوڈو کے کھیل میں سانپ کے ڈسنے سے بلندی پستی میں تبدیل ہوجاتی ہے، بالکل ایسے ہی مخالفین سیاست اگر کسی پوائنٹ پر ڈس لیں تو بلندی پاتال میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ شروع میں عمران خان کے جنرل سیکریٹری معراج محمد خان تھے مگر چند برسوں کے بعد وہ سیاست چھوڑ بیٹھے۔
ظاہر ہے معراج محمد خان این ایس ایف میں میرے سینئر تھے اس لیے مجھے کئی بار ان سے پوچھنے کا موقع ملا کہ آپ نے عمران کی پارٹی کیوں چھوڑ دی مگر معراج ہر مرتبہ ٹال جاتے تھے۔ ایک مرتبہ سوچا کہ آج تو ہر صورت میں راز فاش کروا کے چھوڑوں گا مگر کوئی راز ہوتا تو فاش ہوتا، محض زاویہ نگاہ میں کچھ تبدیلی کا مسئلہ تھا۔ میرا خیال ہے معراج محمد اس وقت ان سے وہ سیاست کرانا چاہتے تھے جو آج عمران خان کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے عمران خان آسودہ حال گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، پاکستان سے لے کر امریکا تک ان کے عزیز و اقارب آسودگی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
امریکا میں ان کے قریبی عزیز و اقارب بلند پایہ ڈاکٹر ہیں اور ان کی پارٹی کے لیے کام کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں عمران خان کا مزاج بھی اشرافیہ کا تھا، ان کا انداز بھی پاکستانی اشرافیہ جیسا تھا مگر ان کے خاندان کے ذرایع آمدنی وڈیرہ شاہی نہ تھے اور ان کی پارٹی کے لیے فنڈ جمع کرنے والے امریکی رہائش پذیر روشن خیال، تعلیم یافتہ، ہنرمند لوگ نیویارک، شکاگو میں پارٹی کے لیے سرگرداں ہیں یہانتک کہ ممتاز ہارٹ اسپیشلسٹ ان کے ہمنوا ہیں جب کہ پیپلزپارٹی میں وڈیرہ شاہی اور ایسے ہی مسلم لیگ میں ان کی اکثریت ہے اس لیے انقلابی اقدامات کی توقع نہیں ہے۔
افسوس صد افسوس پولیس جیسا محکمہ جو انصاف کی پہلی سیڑھی ہے اور تعلیم جس پر ملک کی آیندہ نسلوں کا انحصار ہے پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کا یکساں انداز ہے۔ کرپشن کی تمام سیڑھیاں انھوں نے پار کر رکھی ہیں اس لیے دونوں پارٹیوں میں اتفاق رائے ہے۔ بیرونی دنیا خصوصاً مغربی ممالک کو کرپٹ حکومتیں زیادہ پسند ہیں کیونکہ غریب ممالک کی کرپشن کی رقوم وہاں جمع ہوتی ہیں، پھر وہیں سے قرض لیا جاتا ہے، اس طرح ان ممالک کا دہرا فائدہ ہے۔
آخر اس وقت ان ممالک کے سفرا کا ہمارے سیاست دانوں کے گھروں پر گھبراہٹ میں آنا کس چیز کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان حکمرانوں کے دیس نکالا کے بعد کون سی حکمت عملی اپنائی جائے گی۔ دراصل عمران خان کی ابتدائی سیاست بورژوا سیاست تھی جس کے ساتھ معراج محمد نہ چل سکے اور جلد ہراساں ہوگئے، کیونکہ پیپلز پارٹی کے لگائے ہوئے زخم ابھی تازہ تھے مگر تقریباً دو دہائیوں بعد پارٹی نے شکل بدلی، اب یہ پارٹی مزدوروں، کسانوں اور طالب علموں کے لیے نعرہ زن ہے، عوامی مطالبات میں سرگرم غربا، متوسط طبقات کی معاشی اور سماجی آزادی کے لیے سرگرم ہے۔
اگر آپ ذرا غور فرمائیں کہ موجودہ حکومت کے ساتھ کون لوگ ہیں، وہ مراعات یافتہ طبقہ جو پاک بھارت ریکھا ختم کرنا چاہتا ہے اور اس کے عوض اس کو خصوصی فائدے حاصل ہیں کیونکہ موجودہ حکومت طالبان کی زبردست حامی تھی اور شراکت اقتدار کے لیے کوشاں تھی مگر جب ان پر آپریشن کیا گیا تو پھر ان کی زبان بدل گئی اور پھر یہ طالبان مخالفت کے چیمپئن بن گئے، نہ طالبان کے ہی وفادار ثابت ہوئے اور نہ اپنے موقف پر ڈٹے رہنے والے رہے۔
بعض ترقی پسند گروہ ابھی بھی نواز حکومت کے ہمراہ نظر آتے ہیں مگر آپ ان کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ سے خودغرض اور موقع پرست عناصر ہیں، نہ ایوب خان، نہ یحییٰ خان اور نہ ہی ضیا الحق کی مخالفت کی، بلکہ ضیا الحق کا دور تو سب سے زیادہ تاریک دور تھا، موجودہ حکومت ضیا الحق کے دور کی یادگار ہے، لہٰذا اس کو ترقی پسندی کا آئینہ دار کہنا ترقی کے گلے میں خاردار طوق کے مترادف ہے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت بھارت اور پاکستان میں تعلقات بہتر کردے گی۔
کیا سیاست کی ناؤ پر سوار لوگوں کو یہ علم نہیں کہ یہ ایک خاندانی سیاست ہے جس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ ہر دو ماہ کے بعد بجلی کی قیمت، شکر کی قیمت، خوردنی تیل اور ایندھن کا تیل نئے نرخ پر۔ پھر بھی اس کو ہم امید کا چراغ سمجھیں؟ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ عوامی دھرنا چل رہا ہے ایسے میں ڈی ایس ایف اور این ایس ایف کیوں خاموش ہے جب کہ عمران خان نے غیر طبقاتی نظام تعلیم کو مسترد کردیا ہے، تحریک چلے اور طالب علم خاموش رہے کیا طلبہ کو یاد نہیں محض چینی کے ریٹ میں ایک روپیہ فی کلو کے اضافے پر طلبہ نے کیا کچھ نہ کیا، جب کہ پورے گھر کے معاملات زندگی الٹ چکے ہیں۔
یہ کون سی سیاست ہے کہ ملک کے پرانے، بوسیدہ، نوچ کھسوٹ کے نظام کو بدلنے میں بایاں بازو خاموش ہے۔ جاکے دیکھو تو سہی دونوں دھرنوں میں کون بیٹھا ہے اور کون سے نعرے لگ رہے ہیں اور کس نظام حکومت کے نفاذ کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یقینا یہ 1970 کے نظام حکومت کے قیام سے بہتر نظام کی باتیں ہو رہی ہیں۔ کیا پاکستان کا محنت کش اور ترقی پسند گروپ خاموش رہے گا؟
ایک ماہ سے زیادہ گزر چکے ہیں اور دھرنا چل رہا ہے، بس اب زیادہ دیر نہیں حکومت مفلوج ہونے جا رہی ہے، اگر آپ کو اب بھی جمہوریت نظر آرہی ہے تو پھر پرویز مشرف کی جمہوریت کو داد دیں جنھوں نے آزاد چینل کی پالیسی کو جاری رکھا، جو آج تک رواں ہے۔ رہ گیا انتخاب 2013 تو اس انتخاب کی حقیقت سب پر عیاں ہے، جو چند پولنگ اسٹیشنوں کا آڈٹ کرانے پر تیار نہیں۔
یہ کیسی جمہوریت ہے جہاں اب تک پینے کا صاف پانی میسر نہیں، جہاں دریا کے پیٹ مٹی سے بھرے ہوئے ہیں، نہروں کا نظام فرسودہ ہے، کوئی ترقی نہیں، ہر سال آدمی دریا برد ہوتے ہیں، زرعی ملک میں زرعی انقلاب کی رمق نہیں اور بہنے والے سب کے سب کمی یا چھوٹے کاشتکار ہیں، وڈیرہ شاہی کے نظام کا خاتمہ چاہنے والے اپنے گھروں میں بیٹھے سرخ انقلاب کی باتیں کرنے والے کنفیوز ہیں اور موجودہ تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے تیار ہیں مگر عوام ان کے ساتھ نہیں۔ اسلام آباد میں آج ڈی چوک محروم طبقات کا اجتماع ہے۔ دیکھو تو سہی یہ کون لوگ ہیں جو انقلاب اور آزادی مارچ کے نقیب ہیں۔
میں 14 اکتوبر 1968 کی یاد دلاتا چلوں جب ہم نے ملک گیر تحریک کا اعلان کیا اور مارشل لا کو للکارا مگر آج تو وہ لاٹھیاں اور وہ سختیاں بھی نرم ہوچکی ہیں۔ اب بہت سے ساجھے دار بن چکے ہیں، تعلیم مہنگی، ڈیڑھ کروڑ بچے چائلڈ لیبر میں مبتلا مگر اسٹوڈنٹس یونین جمہور کے بچوں پر ہونے والے مظالم سے ناواقف اور اگر ان بچوں کو نوکری نہ ملے تو بھوک اور موت ان کی منتظر۔ یہ ہمارے دوست عالمی افق پر نریندر مودی کی چھاؤں میں پناہ لینے کو تیار ہیں، بھارت سے دوستی کی آڑ میں تھرڈ پارٹی ٹریڈنگ ہو رہی ہے اور یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہے کہ دو ملکوں کی دوستی کے نام پر جاسوسی کا نظام چل رہا ہے۔ ذرا غور فرمائیں انتہا پسند بھارتی تنظیمیں شیوسینا اپنے مظاہروں میں طاہر القادری اور عمران خان کے پتلے جلا رہی ہیں۔ ان دونوں کا جرم کیا ہے، ان سے کیا خطا ہوئی ہے۔
آخر کوئی تو اٹھا ان مفلوک الحال لوگوں کی حمایت کے لیے، غیر طبقاتی تعلیمی نظام، میرٹ پر ملازمت نہ کہ نوکری برائے فروخت، علاج سرکار کی ذمے داری۔ اٹھو اور معاشرے کو بدل ڈالو۔