سانحہ در سانحہ
259 مرنے والوں کے لواحقین میں سے اب تک 45 لواحقین کو کسی قسم کا معاوضہ ہی نہیں ملا ...
ہمارے حکمران پاکستان میں ماضی کے سانحات سے سبق سیکھنے کے بجائے سانحات سے پیسے بٹورتے ہیں، اس لیے سانحات ہوتے رہتے ہیں۔ 11 ستمبر 2012ء کو رونما ہونے والا سانحہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین صنعتی واقعہ تھا۔ اس واقعہ میں بلدیہ ٹائون کراچی میںگارمنٹ فیکٹری کی تین منزلہ عمارت میں آگ لگنے سے 259 محنت کش ہلاک ہوئے اور تقریباً 55 افراد زخمی ہوئے۔ مگر دو سال بیتنے کے بعد بھی حکومت، مالکان اور نہ ہی مخیئر حضرات نے اپنے وعدوں پر مکمل پورا اترتے ہوئے ان کی داد رسی کی اور نہ معاوضہ دیا۔
259 مرنے والوں کے لواحقین میں سے اب تک 45 لواحقین کو کسی قسم کا معاوضہ ہی نہیں ملا بلکہ کچھ نام نہاد مزدور رہنما چالیس، چالیس ہزار روپے تقریباً 80 لواحقین سے جھانسہ دے کر وصول کر چکے ہیں کہ انھیں لاکھوں کروڑوں روپے دیے جائیں گے۔ دوسری جانب ان مزدوروں کے لواحقین کے لیے کام کرنے والوں کے بچے ان مزدوروں کے بچوں کے ساتھ سرکاری اسکولوں میں پڑھنے کے بجائے او لیول اور بیرون ملک میں پڑھتے ہیں۔
اسی طرح 2014ء کے وسط میں کراچی ائر پورٹ پر دہشت گردوں کے حملے کے دوران جیری داناتا کے 7 مزدور اسٹور میں پھنسے رہے اور آگ میں جھلس کر جان سے جاتے رہے۔ ان کے لواحقین کو بھی حکومت سندھ یا وفاقی حکومت نے کوئی معاوضہ نہیں دیا۔ ورکرز یونین اور لواحقین کی جانب سے ایک ایک کروڑ روپے دینے کا مطالبہ تھا، لیکن صرف بیس بیس لاکھ روپے لواحقین کو تھما دیے گئے۔ صرف گزشتہ ماہ اگست میں کراچی میں 157 محنت کش جان سے جاتے رہے۔
حالیہ سیلاب میں سیکڑوں کسان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہم بم تو بنا لیتے ہیں لیکن بند نہیں بناتے، نہ مرمت کرتے ہیں اور نہ ہی اس کی مضبوطی پر توجہ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور اور ملتان کے قرب میں بند ٹوٹے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امیروں کے محلات بچانے کے لیے لاکھوں غریبوں کے مکانات کو زیر آب کر دیا گیا۔ اسی طرح کئی سال قبل کشمیر اور ہزارہ کے علاقوں میں زلزلہ آیا تھا، جس میں 5 بلین ڈالر کی امداد بیرون ملک سے آئی تھی مگر نجانے وہ امداد کہاں چلی گئی؟
سانحہ بڑا ہو یا چھوٹا، سانحہ ہوتا ہے۔ ہمارے لیے پاکستان کی 3 اہم شخصیات کے ہم سے بچھڑنے کے سانحات بھی ہوئے۔ مشہور و معروف اور جرأت مند خاتون رہنما کامریڈ شانتہ کا گزشتہ دنوں 95 برس کی عمر میں لاڑکانہ میں انتقال ہو گیا۔ یہ عظیم خاتون ساری زندگی مزدوروں، ہاریوں اور کارکنوں کی خدمت کرتی رہیں اور ان کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتی رہیں۔ تادم مرگ کارکنوں کو لیکچر دیتی رہیں۔ اب وہ ہم سے جسما نی طور پر جدا ہو گئیں لیکن ان کے نظریات اور رہنمائی ہمیشہ تابندہ رہے گی۔
بلوچی زبان کے معروف و مشہور انقلابی شاعر جی آر ملا بھی ہم سے بچھڑ گئے۔ وہ ساری زندگی محنت کشوں کے لیے لکھتے، نغمہ نگاری کرتے اور گیت گاتے رہے۔ ان کی ایک نظم کے دو شعر آج بھی یاد آتے ہیں جن میں وہ گورکن کی زبان سے یہ شعر کہلواتے ہیں کہ ''صبح گزر گئی، دن گزر گیا اور اب رات ہو گئی، لیکن اے خدا، ابھی تک قبرستان میں کوئی میت نہیں آئی۔'' یعنی بھوک ایسی چیز ہے کہ گورکن لوگوں کے مرنے کی دعا کر رہا ہے کہ کوئی مرے تو دفنانے کے پیسے ملیں گے، پھر ان پیسوں سے بیوی بچوں کے لیے دال روٹی خریدے گا۔
ایک اور بزرگ کمیونسٹ رہنما کامریڈ ایس ایم مناظر بھی ہمیں چھوڑ گئے۔ وہ شاہ فیصل کالونی میں رہتے تھے، پھر شانتی نگر چلے گئے۔ وہ پہلے پیپلز پارٹی پھر معراج محمد خان کی قومی محاذ آزادی اور بعد ازاں کمیونسٹ پارٹی میں سرگرم عمل رہے۔ ساری زندگی خلوص اور ایمانداری سے جدوجہد کرتے رہے۔ ایس ایم مناظر اسٹیٹ لائف میں میرے استاد بھی رہے ہیں۔ ابھی چند دنوں پہلے ایک اور مزدور رہنما اور وکیل کمیونسٹ دانشور کامریڈ ریاض حسین جان سے جاتے جاتے رہ گئے۔ انھیں گولی لگنے پر افسوس کے ساتھ بچ جانے کی زیادہ خوشی ہے۔
وہ شہید ذالفقار علی بھٹو لا کالج، میمن گوٹھ ملیر کراچی کے پرنسپل ہیں اور انھوں نے حال ہی میں لا کالج کے ملازمین کی فلاح و بہبود کے لیے پرویڈنٹ فنڈ، تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ، انکریمینٹ کی منظوری اور تمام ملازمین کا اسٹیٹ لائف انشورنس کے ذریعے انشورنس کروایا۔ ایک ایسے عوام دوست انسان کے ساتھ کیسا بہیمانہ برتائو کیا گیا۔ انھیں 13 ستمبر 2014ء کو نیشنل ہائی وے کے ایک پٹرول پمپ پر گھات لگا کر چار گولیاں سینے اور پیٹ میں ماری گئیں۔ کامریڈ ریاض گھر (گلشن حدید) سے ملیر کی عدالت میں آ رہے تھے۔ جناح اسپتال میں ان کا گھنٹوں آپریشن کے بعد آئی سی یو میں منتقل کر دیا گیا ہے، جہاں ان کی حالت بہتر بتائی گئی ہے۔ 15 ستمبر بروز پیر وکلا نے ان سے یکجہتی کے لیے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا۔
ان تمام واقعات کے خاتمے اور مسائل کا واحد حل ایک غیر طبقاتی معاشرے کا قیام ہے، جہاں کوئی ریاستی جبر نہ ہو، سب ہر ایک کا اور ہر ایک سب کا۔ سارے وسائل کے مالک سارے لوگ ہوں، کوئی ارب پتی ہو گا اور نہ کوئی گداگر، ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہو گا۔ جسے امداد باہمی، کمیونسٹ یا پنچایتی یا نسل انسانی کی برادری کا سماج کہا جا سکتا ہے۔
259 مرنے والوں کے لواحقین میں سے اب تک 45 لواحقین کو کسی قسم کا معاوضہ ہی نہیں ملا بلکہ کچھ نام نہاد مزدور رہنما چالیس، چالیس ہزار روپے تقریباً 80 لواحقین سے جھانسہ دے کر وصول کر چکے ہیں کہ انھیں لاکھوں کروڑوں روپے دیے جائیں گے۔ دوسری جانب ان مزدوروں کے لواحقین کے لیے کام کرنے والوں کے بچے ان مزدوروں کے بچوں کے ساتھ سرکاری اسکولوں میں پڑھنے کے بجائے او لیول اور بیرون ملک میں پڑھتے ہیں۔
اسی طرح 2014ء کے وسط میں کراچی ائر پورٹ پر دہشت گردوں کے حملے کے دوران جیری داناتا کے 7 مزدور اسٹور میں پھنسے رہے اور آگ میں جھلس کر جان سے جاتے رہے۔ ان کے لواحقین کو بھی حکومت سندھ یا وفاقی حکومت نے کوئی معاوضہ نہیں دیا۔ ورکرز یونین اور لواحقین کی جانب سے ایک ایک کروڑ روپے دینے کا مطالبہ تھا، لیکن صرف بیس بیس لاکھ روپے لواحقین کو تھما دیے گئے۔ صرف گزشتہ ماہ اگست میں کراچی میں 157 محنت کش جان سے جاتے رہے۔
حالیہ سیلاب میں سیکڑوں کسان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہم بم تو بنا لیتے ہیں لیکن بند نہیں بناتے، نہ مرمت کرتے ہیں اور نہ ہی اس کی مضبوطی پر توجہ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور اور ملتان کے قرب میں بند ٹوٹے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امیروں کے محلات بچانے کے لیے لاکھوں غریبوں کے مکانات کو زیر آب کر دیا گیا۔ اسی طرح کئی سال قبل کشمیر اور ہزارہ کے علاقوں میں زلزلہ آیا تھا، جس میں 5 بلین ڈالر کی امداد بیرون ملک سے آئی تھی مگر نجانے وہ امداد کہاں چلی گئی؟
سانحہ بڑا ہو یا چھوٹا، سانحہ ہوتا ہے۔ ہمارے لیے پاکستان کی 3 اہم شخصیات کے ہم سے بچھڑنے کے سانحات بھی ہوئے۔ مشہور و معروف اور جرأت مند خاتون رہنما کامریڈ شانتہ کا گزشتہ دنوں 95 برس کی عمر میں لاڑکانہ میں انتقال ہو گیا۔ یہ عظیم خاتون ساری زندگی مزدوروں، ہاریوں اور کارکنوں کی خدمت کرتی رہیں اور ان کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتی رہیں۔ تادم مرگ کارکنوں کو لیکچر دیتی رہیں۔ اب وہ ہم سے جسما نی طور پر جدا ہو گئیں لیکن ان کے نظریات اور رہنمائی ہمیشہ تابندہ رہے گی۔
بلوچی زبان کے معروف و مشہور انقلابی شاعر جی آر ملا بھی ہم سے بچھڑ گئے۔ وہ ساری زندگی محنت کشوں کے لیے لکھتے، نغمہ نگاری کرتے اور گیت گاتے رہے۔ ان کی ایک نظم کے دو شعر آج بھی یاد آتے ہیں جن میں وہ گورکن کی زبان سے یہ شعر کہلواتے ہیں کہ ''صبح گزر گئی، دن گزر گیا اور اب رات ہو گئی، لیکن اے خدا، ابھی تک قبرستان میں کوئی میت نہیں آئی۔'' یعنی بھوک ایسی چیز ہے کہ گورکن لوگوں کے مرنے کی دعا کر رہا ہے کہ کوئی مرے تو دفنانے کے پیسے ملیں گے، پھر ان پیسوں سے بیوی بچوں کے لیے دال روٹی خریدے گا۔
ایک اور بزرگ کمیونسٹ رہنما کامریڈ ایس ایم مناظر بھی ہمیں چھوڑ گئے۔ وہ شاہ فیصل کالونی میں رہتے تھے، پھر شانتی نگر چلے گئے۔ وہ پہلے پیپلز پارٹی پھر معراج محمد خان کی قومی محاذ آزادی اور بعد ازاں کمیونسٹ پارٹی میں سرگرم عمل رہے۔ ساری زندگی خلوص اور ایمانداری سے جدوجہد کرتے رہے۔ ایس ایم مناظر اسٹیٹ لائف میں میرے استاد بھی رہے ہیں۔ ابھی چند دنوں پہلے ایک اور مزدور رہنما اور وکیل کمیونسٹ دانشور کامریڈ ریاض حسین جان سے جاتے جاتے رہ گئے۔ انھیں گولی لگنے پر افسوس کے ساتھ بچ جانے کی زیادہ خوشی ہے۔
وہ شہید ذالفقار علی بھٹو لا کالج، میمن گوٹھ ملیر کراچی کے پرنسپل ہیں اور انھوں نے حال ہی میں لا کالج کے ملازمین کی فلاح و بہبود کے لیے پرویڈنٹ فنڈ، تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ، انکریمینٹ کی منظوری اور تمام ملازمین کا اسٹیٹ لائف انشورنس کے ذریعے انشورنس کروایا۔ ایک ایسے عوام دوست انسان کے ساتھ کیسا بہیمانہ برتائو کیا گیا۔ انھیں 13 ستمبر 2014ء کو نیشنل ہائی وے کے ایک پٹرول پمپ پر گھات لگا کر چار گولیاں سینے اور پیٹ میں ماری گئیں۔ کامریڈ ریاض گھر (گلشن حدید) سے ملیر کی عدالت میں آ رہے تھے۔ جناح اسپتال میں ان کا گھنٹوں آپریشن کے بعد آئی سی یو میں منتقل کر دیا گیا ہے، جہاں ان کی حالت بہتر بتائی گئی ہے۔ 15 ستمبر بروز پیر وکلا نے ان سے یکجہتی کے لیے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا۔
ان تمام واقعات کے خاتمے اور مسائل کا واحد حل ایک غیر طبقاتی معاشرے کا قیام ہے، جہاں کوئی ریاستی جبر نہ ہو، سب ہر ایک کا اور ہر ایک سب کا۔ سارے وسائل کے مالک سارے لوگ ہوں، کوئی ارب پتی ہو گا اور نہ کوئی گداگر، ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہو گا۔ جسے امداد باہمی، کمیونسٹ یا پنچایتی یا نسل انسانی کی برادری کا سماج کہا جا سکتا ہے۔