جمہوریت کے آبگینے پر دھرنوں کی سنگ باری
طاہر القادری کے سمجھ سے بالاتر انقلاب اور عمران خان کے آزادی مارچ کا انجام کچھ بھی ہو...
KARACHI:
زین پیش نشان بودینہا بودہ است
پیوستہ قلم ز َنیک و بد فرسودہ است
اندر تقدیر آں چہ بایست بداد
غم خوردن وکوشیدن ما بیہودہ است
(عمرخیام)
طاہر القادری کے سمجھ سے بالاتر انقلاب اور عمران خان کے آزادی مارچ کا انجام کچھ بھی ہو، ایک بات طے ہے کہ تاریخ میں یہ سب کچھ پاکستان کی سیاسی ڈراما سیریل کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔ البتہ ٹی وی چینلز پر آنے والے متعدد ایسے تجزیہ کار جو معروضی حالات پر زیادہ توجہ نہیں دیتے، بلوچ سیاسی کارکنوں کے کوئٹہ سے اسلام آباد تک طویل ترین لانگ مارچ کو فراموش کر جاتے ہیں، جس کا مقصد صرف یہ اپیل کرنا تھا کہ اُن کے اغوا ہو جانے والے عزیزوں اور رشتے داروں کو بازیاب کرایا جائے۔
یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ مارچ پیدل تھا، اس میں بلٹ پروف کنٹینر اور چمکتی ہوئی مہنگی گاڑیاں شامل نہیں تھیں۔ یہ لوگ اس واقعے کو بھی بھول جاتے ہیں کہ ایک بلوچ نوجوان طالب ِ علم نے اپنی پارٹی کے صدر کے اغوا کے خلاف کراچی پریس کلب کے باہر ایک ماہ تک دھرنا دیا اور بھوک ہڑتال پر بیٹھا رہا۔
نتیجہ کچھ بھی نکلے، یہ ضروری ہے کہ پاکستان عوامی تحریک(PAT) اور پاکستان تحریک ِ انصاف(PTI) کے '' دھرنوں'' کے مثبت اور منفی اثرات کا تجزیہ کیا جائے۔ زیادہ تر تجزیہ کار یک طرفہ سوچ کا شکار ہیں۔ آئیے پہلے ہم مثبت اثرات پر غور کرتے ہیں۔
اول، علامہ قادری کے پیروکاروں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے غرور کو خاک میں ملا دیا ہے اور اُن کے اس زُعم کو توڑ دیا ہے کہ وہ ماڈل ٹائون کے ہنگامے میں پولیس کے ہاتھوں دن دہاڑے لوگوں کی ہلاکت کے واقعے سے جان چھڑا سکتے ہیں۔ اگر FIR درج کرانے کے لیے اِن لوگوں کے قانونی حق کا احترام کیا جاتا اور شہباز شریف اخلاقی بنیاد پر مستعفی ہو جاتے تو اس صورت ِ حال سے بچا جا سکتا تھا۔
دوئم، قادری کے پیروکاروں کی مستقل مزاجی، ثابت قدمی اور نظم و ضبط، توجہ کے لائق ہے اور ان صفات نے انھیں جُزوی کامیابی دلا دی ہے اور سوئم، چونکہ ان میں زیادہ تر لوگوں کا تعلق نچلے متوسط طبقے سے ہے اس لیے اگر یہ منظم ہو جائیں تو اس کے باوجود کہ ان کی قیادت ایک جذباتی مذہبی خطیب کے پاس ہے، یہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے دوبارہ اُٹھ کھڑے ہو سکتے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ متحدہ قومی موومنٹ کے تنظیمی طور طریقوں پر بہت سے لوگ تنقید کرتے ہیں، وہ طویل عرصہ قبل سندھ کے شہری علاقوں میں اس بات کو ثابت کر چکی ہے۔
چہارم، طاہر القادری ایسے حالات میں اعتدال پسند اسلام کا پیغام دے رہے ہیں جب عدم تحمل اور انتہا پسندی بڑھ رہی ہے۔پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے کے منفی اثرات: اول،کینیڈا میں رہنے والے ایک مذہبی رہنما، اس وقت تحریک چلانے کے لیے کیوں پاکستان واپس آئے؛ دوئم، ایجنسیوں سمیت مشرف کے حامیوں سے اُن کے مشکوک رابطے کیوں ہیں، جن کا موجودہ حکومت کو جھکانے کا اپنا ایک ایجنڈا ہے؛ سوئم، یہ سمجھ میں نہ آنیوالے انقلاب کے خواب دکھا رہے ہیں اور ایسے وعدے کر رہے ہیں جو اس ملک کی معیشت پورے نہیں کر سکتی؛ چہارم، اگر اصل مسئلہ ماڈل ٹاؤن کے واقعے میں ہلاک ہونے والوں کے متاثرہ خاندانوں کو انصاف دلانا ہے تو اسے پنجاب حکومت کے خلاف مقامی طور پر احتجاج تک محدود رکھنا چاہیے تھا۔
اب ہم پی ٹی آئی کے دھرنے کے مثبت اثرات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ اول، اس کے نتیجے میں مزید انتخابی اصلاحات ہوں گی؛ دوئم، نواز حکومت کو جمہوری قوتوں پر اور زیادہ انحصار کرنا پڑے گا، اور اگر وہ اس مصیبت سے بچ گئی تو اسے اس زُعم سے نکلنا ہو گا کہ وہ اکثریت کی بنیاد پر من مانی کر سکتی ہے؛ سوئم، ایسے نوجوانوں کو جو زیادہ سیاسی شعور نہیں رکھتے، ووٹ کے تقدس کا مطالبہ کرنے کے لیے متحرک کر دیا گیا ہے؛ چہارم، عمران خان کے انتہا پسند رویے سے جمہوری قوتیں ہر قسم کے ماورائے آئین اقدام کے خلاف کھڑی ہو گئی ہیں۔
منفی اثرات کے اندازوں کی فہرست طویل ہے اور خطرناک بھی ہے۔ اول، عمران خان سوچ سکتے ہیںکہ وہ حکومت کو گرانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کو استعمال کر رہے ہیں، لیکن حتمی تجزیے میں صورت ِ حال کچھ اور ہے؛ دوئم، حکومت کو گرانے کے لیے اگر غیر جمہوری طریقوں کا استعمال کامیاب رہا تو ایک غلط مثال قائم ہو جائے گی؛ سوئم، اس سے یہ مثال بھی قائم ہو جائے گی کہ انتخابی دھاندلیوں کے معاملات کا فیصلہ آئین میں دیے گئے طریقہ کار کے مطابق نہیں بلکہ سڑکوں پر ہونا چاہیے، اگر ان قواعد میں کوئی خامی ہے تو اس کو سڑکوں پر احتجاج کرنیوالوں کی طرف سے نہیں بلکہ پارلیمنٹ کی طرف سے ٹھیک کیا جانا چاہیے؛
چہارم، انھوں نے پاکستان کی نازک جمہوریت کو کمزور کیا ہے اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں؛ پنجم، اُن کی پارٹی ایک طرف ہوگئی ہے اور جب دھرنے ختم ہوں گے تو یہ ایک کمزور جماعت بن چکی ہو گی؛ اور ششم، GHQ اس قابل ہو گا کہ ستمبر کے آخری ہفتے میں اپنی مرضی کا انٹیلیجنس چیف مقررر کرنے کے لیے وزیر ِ اعظم پر دبائو ڈال سکے۔جنرل پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ بغاوت جیسے پیچیدہ معاملے پر پیچھے ہٹنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ استغاثہ کے دلائل کو کمزور کر دیا جائے۔
زرداری پہلے ہی اپنے ترجمان کے ذریعے یہ تجویز دے چکے ہیں کہ سیاسی تعطل کے بارے میں فوج کے ساتھ بند کمرے میں بات چیت ہونی چاہیے۔ شاید وہ چاہتے ہیں کہ فوج واضح کرے کہ وہ حکومت کے پیچھے کھڑی ہے یا در پردہ کسی تحریک کا ساتھ دے رہی ہے۔اچھے طریقے سے تیار کی گئی اس سیریل کے آخر میں جمہوری قوتوں ہی کو خسارہ ہو گا، نواز حکومت چلی جائے یا ہر دائو پیچ کا مقابلہ کر کے قائم رہے، اس طویل لڑائی کے بعد جب آخری منظر سامنے آئے گا تو ظاہر ہے کہ طاقتور اسکرپٹ رائٹر ہی کی جیت ہو گی۔
اگر میڈیا کی اطلاعات درست ہیں تو نواز شریف، خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے اہم معاملات پر اپنی بات منوانے کے سلسلے میں زرداری کی طرح پہلے ہی گھٹنے ٹیک چکے ہیں۔ میں نے وسط جولائی میں اپنے ایک کالم میں یہ ذکر کیا تھا کہ وزیر اعظم کے گرد گھیرا ڈالنے کے لیے عمران اور قادری کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور یہ بات اب درست ثابت ہوئی ہے۔ میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ یہ دونوں محض کٹھ پتلیاں ہیں۔ ان کے مفادات اسکرپٹ لکھنے والوں کے ساتھ مل گئے ہیں اور یہ تمام بڑے اداکاروں کی طرح اپنا کردار بہتر طریقے سے نبھائیں گے۔ غلطی یہ ہوئی ہے کہ انھوں نے اپنے ڈرامے کو ایک ایسی بلندی پر پہنچا دیا ہے کہ اس کے انجام کو پھیکا کرنے سے ان کی ساکھ مجروح ہو گی۔
زین پیش نشان بودینہا بودہ است
پیوستہ قلم ز َنیک و بد فرسودہ است
اندر تقدیر آں چہ بایست بداد
غم خوردن وکوشیدن ما بیہودہ است
(عمرخیام)
طاہر القادری کے سمجھ سے بالاتر انقلاب اور عمران خان کے آزادی مارچ کا انجام کچھ بھی ہو، ایک بات طے ہے کہ تاریخ میں یہ سب کچھ پاکستان کی سیاسی ڈراما سیریل کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔ البتہ ٹی وی چینلز پر آنے والے متعدد ایسے تجزیہ کار جو معروضی حالات پر زیادہ توجہ نہیں دیتے، بلوچ سیاسی کارکنوں کے کوئٹہ سے اسلام آباد تک طویل ترین لانگ مارچ کو فراموش کر جاتے ہیں، جس کا مقصد صرف یہ اپیل کرنا تھا کہ اُن کے اغوا ہو جانے والے عزیزوں اور رشتے داروں کو بازیاب کرایا جائے۔
یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ مارچ پیدل تھا، اس میں بلٹ پروف کنٹینر اور چمکتی ہوئی مہنگی گاڑیاں شامل نہیں تھیں۔ یہ لوگ اس واقعے کو بھی بھول جاتے ہیں کہ ایک بلوچ نوجوان طالب ِ علم نے اپنی پارٹی کے صدر کے اغوا کے خلاف کراچی پریس کلب کے باہر ایک ماہ تک دھرنا دیا اور بھوک ہڑتال پر بیٹھا رہا۔
نتیجہ کچھ بھی نکلے، یہ ضروری ہے کہ پاکستان عوامی تحریک(PAT) اور پاکستان تحریک ِ انصاف(PTI) کے '' دھرنوں'' کے مثبت اور منفی اثرات کا تجزیہ کیا جائے۔ زیادہ تر تجزیہ کار یک طرفہ سوچ کا شکار ہیں۔ آئیے پہلے ہم مثبت اثرات پر غور کرتے ہیں۔
اول، علامہ قادری کے پیروکاروں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے غرور کو خاک میں ملا دیا ہے اور اُن کے اس زُعم کو توڑ دیا ہے کہ وہ ماڈل ٹائون کے ہنگامے میں پولیس کے ہاتھوں دن دہاڑے لوگوں کی ہلاکت کے واقعے سے جان چھڑا سکتے ہیں۔ اگر FIR درج کرانے کے لیے اِن لوگوں کے قانونی حق کا احترام کیا جاتا اور شہباز شریف اخلاقی بنیاد پر مستعفی ہو جاتے تو اس صورت ِ حال سے بچا جا سکتا تھا۔
دوئم، قادری کے پیروکاروں کی مستقل مزاجی، ثابت قدمی اور نظم و ضبط، توجہ کے لائق ہے اور ان صفات نے انھیں جُزوی کامیابی دلا دی ہے اور سوئم، چونکہ ان میں زیادہ تر لوگوں کا تعلق نچلے متوسط طبقے سے ہے اس لیے اگر یہ منظم ہو جائیں تو اس کے باوجود کہ ان کی قیادت ایک جذباتی مذہبی خطیب کے پاس ہے، یہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے دوبارہ اُٹھ کھڑے ہو سکتے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ متحدہ قومی موومنٹ کے تنظیمی طور طریقوں پر بہت سے لوگ تنقید کرتے ہیں، وہ طویل عرصہ قبل سندھ کے شہری علاقوں میں اس بات کو ثابت کر چکی ہے۔
چہارم، طاہر القادری ایسے حالات میں اعتدال پسند اسلام کا پیغام دے رہے ہیں جب عدم تحمل اور انتہا پسندی بڑھ رہی ہے۔پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے کے منفی اثرات: اول،کینیڈا میں رہنے والے ایک مذہبی رہنما، اس وقت تحریک چلانے کے لیے کیوں پاکستان واپس آئے؛ دوئم، ایجنسیوں سمیت مشرف کے حامیوں سے اُن کے مشکوک رابطے کیوں ہیں، جن کا موجودہ حکومت کو جھکانے کا اپنا ایک ایجنڈا ہے؛ سوئم، یہ سمجھ میں نہ آنیوالے انقلاب کے خواب دکھا رہے ہیں اور ایسے وعدے کر رہے ہیں جو اس ملک کی معیشت پورے نہیں کر سکتی؛ چہارم، اگر اصل مسئلہ ماڈل ٹاؤن کے واقعے میں ہلاک ہونے والوں کے متاثرہ خاندانوں کو انصاف دلانا ہے تو اسے پنجاب حکومت کے خلاف مقامی طور پر احتجاج تک محدود رکھنا چاہیے تھا۔
اب ہم پی ٹی آئی کے دھرنے کے مثبت اثرات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ اول، اس کے نتیجے میں مزید انتخابی اصلاحات ہوں گی؛ دوئم، نواز حکومت کو جمہوری قوتوں پر اور زیادہ انحصار کرنا پڑے گا، اور اگر وہ اس مصیبت سے بچ گئی تو اسے اس زُعم سے نکلنا ہو گا کہ وہ اکثریت کی بنیاد پر من مانی کر سکتی ہے؛ سوئم، ایسے نوجوانوں کو جو زیادہ سیاسی شعور نہیں رکھتے، ووٹ کے تقدس کا مطالبہ کرنے کے لیے متحرک کر دیا گیا ہے؛ چہارم، عمران خان کے انتہا پسند رویے سے جمہوری قوتیں ہر قسم کے ماورائے آئین اقدام کے خلاف کھڑی ہو گئی ہیں۔
منفی اثرات کے اندازوں کی فہرست طویل ہے اور خطرناک بھی ہے۔ اول، عمران خان سوچ سکتے ہیںکہ وہ حکومت کو گرانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کو استعمال کر رہے ہیں، لیکن حتمی تجزیے میں صورت ِ حال کچھ اور ہے؛ دوئم، حکومت کو گرانے کے لیے اگر غیر جمہوری طریقوں کا استعمال کامیاب رہا تو ایک غلط مثال قائم ہو جائے گی؛ سوئم، اس سے یہ مثال بھی قائم ہو جائے گی کہ انتخابی دھاندلیوں کے معاملات کا فیصلہ آئین میں دیے گئے طریقہ کار کے مطابق نہیں بلکہ سڑکوں پر ہونا چاہیے، اگر ان قواعد میں کوئی خامی ہے تو اس کو سڑکوں پر احتجاج کرنیوالوں کی طرف سے نہیں بلکہ پارلیمنٹ کی طرف سے ٹھیک کیا جانا چاہیے؛
چہارم، انھوں نے پاکستان کی نازک جمہوریت کو کمزور کیا ہے اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں؛ پنجم، اُن کی پارٹی ایک طرف ہوگئی ہے اور جب دھرنے ختم ہوں گے تو یہ ایک کمزور جماعت بن چکی ہو گی؛ اور ششم، GHQ اس قابل ہو گا کہ ستمبر کے آخری ہفتے میں اپنی مرضی کا انٹیلیجنس چیف مقررر کرنے کے لیے وزیر ِ اعظم پر دبائو ڈال سکے۔جنرل پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ بغاوت جیسے پیچیدہ معاملے پر پیچھے ہٹنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ استغاثہ کے دلائل کو کمزور کر دیا جائے۔
زرداری پہلے ہی اپنے ترجمان کے ذریعے یہ تجویز دے چکے ہیں کہ سیاسی تعطل کے بارے میں فوج کے ساتھ بند کمرے میں بات چیت ہونی چاہیے۔ شاید وہ چاہتے ہیں کہ فوج واضح کرے کہ وہ حکومت کے پیچھے کھڑی ہے یا در پردہ کسی تحریک کا ساتھ دے رہی ہے۔اچھے طریقے سے تیار کی گئی اس سیریل کے آخر میں جمہوری قوتوں ہی کو خسارہ ہو گا، نواز حکومت چلی جائے یا ہر دائو پیچ کا مقابلہ کر کے قائم رہے، اس طویل لڑائی کے بعد جب آخری منظر سامنے آئے گا تو ظاہر ہے کہ طاقتور اسکرپٹ رائٹر ہی کی جیت ہو گی۔
اگر میڈیا کی اطلاعات درست ہیں تو نواز شریف، خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے اہم معاملات پر اپنی بات منوانے کے سلسلے میں زرداری کی طرح پہلے ہی گھٹنے ٹیک چکے ہیں۔ میں نے وسط جولائی میں اپنے ایک کالم میں یہ ذکر کیا تھا کہ وزیر اعظم کے گرد گھیرا ڈالنے کے لیے عمران اور قادری کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور یہ بات اب درست ثابت ہوئی ہے۔ میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ یہ دونوں محض کٹھ پتلیاں ہیں۔ ان کے مفادات اسکرپٹ لکھنے والوں کے ساتھ مل گئے ہیں اور یہ تمام بڑے اداکاروں کی طرح اپنا کردار بہتر طریقے سے نبھائیں گے۔ غلطی یہ ہوئی ہے کہ انھوں نے اپنے ڈرامے کو ایک ایسی بلندی پر پہنچا دیا ہے کہ اس کے انجام کو پھیکا کرنے سے ان کی ساکھ مجروح ہو گی۔