روش بدلیں
سکندر اعظم اپنے والد فلپ کا صحیح معنوں میں فرزند اکبر تھا۔ ...
موجودہ پاکستان میں ایک تاریخی اورقدیم تہذیبی دورکا شہر ٹیکسلا ماہرین ارضیات کے لیے ایک قیمتی اور ثقافتی ورثہ ہی نہیں بلکہ پوری ایک تاریخ ہے، اس تاریخی شہر کو یہ شرف حاصل ہے کہ یہاں فاتح عالم سکندراعظم آیا جو ایرانی سلطنت کو زیر کرتا ہوا براستہ افغانستان پہنچا اور پھر کچھ دنوں تک ٹیکسلا میں قیام پذیر بھی رہا۔
سکندر اعظم اپنے والد فلپ کا صحیح معنوں میں فرزند اکبر تھا۔ باپ کی طرح بیٹے نے بھی فتوحات حاصل کیں۔ فتوحات اس لیے حاصل کی جاتی ہیں کہ اس سے استحصالی قوتوں اور جابرانہ طرز حکومت اور سرپھرے عیاش حکمرانوں سے ان کے اختیارات صلب کرکے رعایا کو امن مہیا کیا جائے اور مفتوحہ علاقے میں طرز حکمرانی قانون کے مطابق ہو، سکندر اعظم مقدونیہ کا رہائشی تھا جو یونان کے شمال میں ایک چھوٹا سا علاقہ تھا۔ جہاں آریائی نسلوں کے لوگ آباد تھے، مقدونیہ پر ایک زمانے میں ایرانیوں کا تسلط بھی رہا لیکن ایران کے زوال کے ساتھ ہی مقدونیہ بھی آزاد ہوگیا۔
آزاد قومیں اپنی روایتوں کی امین ہوتی ہیں لیکن پاکستان میں روایتیں جاہ پرستی اور نام و ننگ میں تبدیل ہوچکی ہیں آپ عرب کی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیجیے کسی بڑے کے انتقال کے بعد، اس کے خاندان کا بڑا، زیرک اور ہوشیار شخص ہی تخت منصبی پر فائز ہوتا تھا ناکہ مرنے والے کا بیٹا یا بھائی۔ یہ روایت اسلام میں ہے۔ مقدونیہ کے آزاد ہونے کے بعد یونانی باشندے مقدونیہ کے لوگوں کو کمتر سمجھتے تھے، اور یہاں تک بھی ہوا کہ مقدونیہ کو یونان کی ریاست کے طور پر نہیں سمجھا گیا، یونان میں دیوی دیوتاؤں کو خاصی اہمیت حاصل تھی۔
مقدونیہ پر فلپ 359 ق م جب جلوہ افروز ہوا تو اس نے عسکری قوت کو بڑھانے کے لیے کوششیں کیں اور یونان کی باقی ماندہ ریاستیں فتح کرنی شروع کردیں۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سارا یونان ہی اس کے تابع ہوگیا۔ وہ کہتے ہیں نا اگر مملکت کا سربراہ ہی کمزور ہو تو ریاست میں بغاوتیں جنم لے لیتی ہیں، ایسا ہی فلپ کے اقتدار کے خاتمے پر ہوا اور یونان میں جنگ و جدل (خانہ جنگی) جو بادل نخواستہ پاکستان کا حال دیکھتے ہوئے کچھ ناممکن نہیں یہ میری آراء ہے اس سے آپ اختلاف کرسکتے ہیں، ریاستی ڈھانچوں اور اداروں کو جس طرح لڑایا جا رہا ہے اس سے تو یہی گمان غالب ہے، بغاوتوں سے ریاستیں کمزور ہوجایا کرتی ہیں جیسے یونانی ریاستیں کمزور پڑنے لگی تھیں۔
بعد ازاں فلپ جمہور کو کسی ایسی شخصیت کی تلاش تھی جو مقدونیہ کی خستہ حالی اور مفلوک الحالی کو ختم کردے اور ایک نئی روح پھونک دے اور مقدونیہ کا سابقہ عروج پھر سے شروع ہوجائے اور ایک امنگ اور صبح تازہ تو بیدار ہوجائے، سقراط نے فلپ کو سارے ہی یونان کا پیشرو کہا، سقراط نے اس بات پر زور دیا کہ یونان کی تمام ریاستوں کو مشترکہ قومی عروج کے لیے ایک قائدانہ رہبری اور سرپرستی کی ضرورت ہے تاکہ قوم کسی طور متحد تو ہوجائے، شاید اس کے ذہن میں یہ گمان غالب رہا ہو کہ اس طرح کے عمل سے ایرانی سلطنت کو فتح کرنا آسان ہوجائے گا۔
ایرانی زوال کے دور میں بھی ایران متعدد بار یونان پر حملہ آور ہوا تھا لیکن سولن (Solon) کی اصلاحات نے ان کو قدرے پیچھے دھکیل دیا تھا۔ یہ بہترین وقت تھا جب ایران پر قبضہ ہوسکتا تھا اور ایرانی سرزمین پر زرتشت یہ بات جانتے تھے کہ یہودیوں کے پیروکار اسلامی لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں میں تفریق ڈال سکتے ہیں اور وہ اس میں عبداللہ بن سباء کے حوالے سے کافی کامیاب بھی رہے، اور پھر فلپ نے سقراط ہی کا نظریہ اپنایا۔ اور اس نے خانہ جنگی کو ختم کرنے کے لیے کوششیں تیز کردیں اس سارے معاملے میں فوجی مدد ایک کارگر ہتھیار ثابت ہوئی، فلپ کے ساتھ سکندر اعظم بھی اپنے باپ کے ساتھ ساتھ رہا اور ناختم ہونے والے معرکے اور اس کی فتوحات نے تاریخ میں انمنٹ نقوش چھوڑے۔ تھرلیس پر قبضے کے بعد اس کے ہاتھ میں کافی سونا آیا۔
مسلمانوں میں زر برائی کی جڑ ہے لیکن سکندر اعظم نے اس دولت سے آلات حرب اور فوجی سازوسامان لیا۔ ہمارے حکمرانوں کی طرح ''رام رام جپنا پرایا مال اپنا '' کے اصول کو نہیں اپنایا۔ فلپ اور سکندر اعظم نے یونانی ریاستوں کے دو برابر حصے کیے ایک گروہ یونان میں اتحاد چاہتا تھا تو دوسرا مقدونیہ کی برتری کا مخالف تھا۔ پاکستان میں صوبوں کا قیام کشت و خون، اختلافات کی آگ کے بعد وجود میں آیا۔ لیکن سکندر اعظم جیسے مدبر اور منظم حکمران نے جو حق تھا وہی کیا، مقدومیہ مخالف گروہ نے 338ق م کرونیہ میں اعلان جنگ کردیا۔
جیت مقدونیہ کے حصہ میں آئی اور پھر ایران پر چڑھائی ہوئی۔ سازشیں اپنے ہی کرتے ہیں۔ میرجعفر، میر صادق تو خواہ مخواہ بدنام ہیں سازشوں کے نتیجے میں سکندر اعظم کا باپ فلپ مارا گیا اور پھر 336 ق م میں سکندر اعظم اپنے باپ کے منصب پر فائز ہوا وہ صرف بیس برس کا تھا لیکن سیاسی بصیرت، آج کے 60 سالہ سیاستدانوں سے زیادہ تھی۔ یونان میں ارسطو سکندر کا اتالیق مقرر ہوا۔ حکمرانوں کے حواری اگر اچھے ہوں تو ملکی نظام بغیر کسی سازشی عناصر کے بخوبی چل سکتا ہے، بھٹو صاحب کے ہمراہی یا حواریوں نے بھٹو کو شہید کروایا۔ بھٹو نے پاکستان کو نیوکلیئر طاقت دے کر آنے والی نسلوں کو محفوظ کرلیا۔
ایران پر حملہ اور پھر دارا کی شکست فاش نے سکندر اعظم کو عظیم بلندیوں پر پہنچا دیا۔ سکندر نے دریائے نیل کے کنارے اسکندریہ نامی شہر کی بنیاد رکھی۔ ایران کی شکست و ریخت کے بعد سکندر کی فتوحات کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو اس کی موت تک رہا، بہادر لوگ بعداز مرگ بھی زندہ رہتے ہیں اور سکندر بلاشک و شبہ ایسی ہی ہستیوں میں سے تھا وہ ٹیکسلا پہنچا اور راجہ پورس سے تاریخی معرکہ ہوا جس میں پورس کو بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سکندر کی فوج ہر وقت کی جنگ سے قدرے بیزار ہوگئی۔
وہ یونان کے لیے واپس پلٹی اور کراچی کے قریب سے ایران کی طرف جاتا ہوا وہ عظیم انسان بغداد کے قریب راہ عدم کا شکار ہوا۔ سکندر کی یونانی سلطنت تین حصوں میں بٹ گئی اور تینوں ہی حصوں کے حکمراں آپس میں جنگ و جدل کرتے رہے، لہٰذا معاشی عدم استحکام، افراتفری، جو ان دنوں ہمارے یہاں کثرت سے پائی جاتی ہیں وہ وجود میں آگئیں ملکی نظام مفلوج ہوکر رہ گیا، ہر حصے کا حکمران دوسرے حصے کے حکمراں پر نازیبا انداز میں ان کو برا بھلا کہتا رہا،
قارئین ! میں پاکستان کی صورتحال بیان نہیں کر رہا بلکہ کسی بڑے کے چلے جانے کے بعد ناخلف اولاد کے ہاتھوں جو کچھ ہوتا ہے وہی بیان کر رہا ہوں، سیاسی عدم استحکام سے حکومتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہیں اوراس کا فائدہ گھس بیٹھیے خوب مزے لے کر اڑاتے ہیں، جب بھارت میں 78 سالہ معمر شخص انا ہزارے 23 دن کی بھوک ہڑتال کرکے وہاں سماجی، سیاسی برائیوں کو کسی قدر ختم کروا سکتا ہے تو پاکستان میں تو ساڑھے چھ کروڑ 28 سال سے کم عمر جوان ہیں وہ سینہ سپر کیوں نہیں ہوجاتے۔
کیا ان کو بہتر مستقبل اور بہتر پاکستان نہیں چاہیے، بدعنوانی، جاہ پرستی، قتل و غارت گری، انارکی، معیشت کی گرانی، اخلاقیات میں گراوٹ، سیاسی عدم استحکام، جبری مشقت، اقربا پروری، امتیازی سلوک کیا وہ ان کو ختم نہیں کرسکتے، سکندر اعظم نے تو آدھی دنیا کو زیر کیا تھا اب وقت پاکستانی جوانوں کی ہمت کا ہے کہ وہ قائد اعظم کے پاکستان کو سیاسی، فلاحی اور جمہوری ریاست بنائیں جہاں انصاف کی فراہمی در پر ہی ملے، جہاں سفارش کا قلع قمع ہوجائے اور امن کی فاختائیں امن کے گیت گائیں ہم سکندر اعظم کو کیوں گردانیں، ہم 6 کروڑ پاکستانی جوانوں کے عزم ولولے ہمت کو کیوں نہیں آزمائیں۔
زنجیروں میں قید حق کو چھڑانے کے لیے آج ملت اسلامیہ کو سکندر اعظم کی نہیں میرے ملک کے ان جوانوں کی ضرورت ہے جو پاکستان کا اثاثہ ہیں، حکیم محمد سعید (مرحوم) کا قول ورد زباں رہتا ہے ۔
''پاکستان سے محبت کرو، پاکستان کی تعمیر کرو'' جس کا مطلب واضح ہے کہ ہمارے ہاں اس کا فقدان ہے۔ آج پاکستان کا حکمراں طبقہ ڈرا ہوا، سہما ہوا ہے، وجہ یہ ہے کہ ان میں کردار کی کمی ہے۔ آپ کسی کو برا اس وقت تک نہیں کہہ سکتے جب تک آپ اس برائی سے پاک نہ ہوں مجھے تو پاکستان میں ہر سیاستدان کے اندر حرص و ہوس، لالچ اور ''کرسی'' کی طلب نظر آتی ہے کوئی طارق بن زیاد، حضرت خالد بن ولیدؓ بننے کی کوشش نہیں کر رہا اور کر بھی نہیں سکتا، کیونکہ یہ وہ ہستیاں ہیں جنھوں نے نظام حکومت اپنے لیے یا اپنے خاندان کے لیے نہیں بلکہ عام انسان یا اپنی رعایا کی فلاح و بہبود کے لیے چلایا تھا۔
خان لیاقت علی خان کا بنیان دو جگہوں سے پھٹا ہوا تھا جب ان کو غسل میت دیا جا رہا تھا اور بینک میں 60 روپے تھے وہ اپنے دور کے نواب تھے، آج D.C کے P.A کے پاس وہ سب کچھ ہوتا ہے جو کسی بھی رئیس کے پاس ہوسکتا ہے۔ کم ازکم یہ روش بدلنی چاہیے۔