دہشت گردوں کو سزائیں ملیں تو فرقہ واریت ختم کی جاسکتی ہے

ایکسپریس فورم میں علمائے کرام کا اظہار خیال

ایکسپریس فورم میں علمائے کرام کا اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

مملکت پاکستان کو یوں تو بے شمار مسائل کا سامنا ہے لیکن فرقہ ورانہ دہشت گردی نے پورے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچادیا ہے۔

کراچی سے لیکر خیبر تک ہرچھوٹے بڑے شہر میں فرقوں کے نام پر دہشت گردی کی مسلسل وارداتوں، ٹارگٹ کلنگ اور دھماکوں نے صورتحال کو بے انتہا خراب کردیا ہے۔ حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ ایک مکتب فکر سے تعلق رکھنے والا فرد دوسرے مکتب فکر کی مساجد کے پاس سے گزرنے سے بھی جھجکتا ہے۔ حکومت دہشت گردوں کو پکڑنے کے دعوے کرتی ہے، سیاسی و مذہبی تنظیمیں اتحاد کی اپیلیں کرتی ہیں لیکن روزانہ کوئی نہ کوئی واردات ثابت کررہی ہے کہ ملک دشمن اور اسلام دشمن اپنا کام جامع منصوبہ بندی کے تحت کیے جارہے ہیں۔ اس صورتحال کاتدارک کیسے ہو؟۔

اس سوال کا جواب حاصل کرنے اور موجودہ صورتحال میں مختلف مکاتب فکر اور مسالک کے علمائے کرام کی رائے جاننے کیلیے کراچی میں ایکسپریس فورم کا انعقاد کیا گیا جس کا موضوع '' فرقہ واریت کے خاتمے کیلیے مذہبی ہم آہنگی، وقت کی اہم ضرورت '' تھا، اس موضوع پرمختلف شخصیات اور علمائے کرام نے اظہار خیال کیا اور تجاویز پیش کیں۔ ایکسپریس فورم کی رودادنذر قارئین ہے۔

مولانا شاہ اویس نورانی (مرکزی سیکریٹری جنرل جمعیت علمائے پاکستان)

علمائے کرام نے قیام پاکستان سے قبل بھی اور قیام پاکستان کے بعد بھی فرقہ واریت کے خاتمے کیلیے جدوجہد کی ہے۔ پاکستان میں فرقہ واریت کی صورتحال اس وقت بھی ایسی نہیں ہے جیسی دوسرے مسلم ممالک میں ہے۔ پاکستان میں 1986 سے 1989 کے دوران فرقہ واریت کو عروج حاصل ہوا جس کے خاتمے کیلیے علامہ شاہ احمد نورانی مرحوم نے ملی یکجہتی کونسل کی بنیاد رکھی جس کے بعد فرقہ واریت پر کنٹرول حاصل ہوا۔ بعدازاں متحدہ مجلس عمل کا قیام عمل میں لایا گیا اس کا مقصد بھی فرقہ واریت کو کنٹرول کرنا تھا۔

انھوں نے کہا کہ فسادی اور فاشسٹ لٹریچرکی اشاعت اور اس کی تقسیم پر سرکاری سطح پر پابندی ہونی چاہیے، یہی فساد کی اصل جڑ ہے اور اس کی روک تھام میں حکومت کا کردار سب سے اہم ہے کیونکہ نفرت پھیلانے والے، تنگ نظری اور منافرت پر مبنی لٹریچر اور اسے پھیلانے والوں کو نہ روکا گیا تو صورتحال بہت خراب ہوجائے گی۔مذہبی بنیاد پر اختلافات پہلے بھی ہوتے تھے لیکن اس وقت ایک تہزیب بھی ہوتی تھی آج یہ کونسی قوت ہے جو معمولی معمولی بات پر قتل کو تیار بیٹھی ہے، درحقیقت یہ تیسری قوت ہے جو مغربی ایجنڈے پر گامزن ہے۔

ایک سوال پر شاہ اویس نورانی نے کہا کہ اگر فرقہ واریت کا زہر ہماری رگوں میں ہوتا تو آج سارے علمائے کرام ایک جگہ موجود نہیں ہوتے، فرقہ واریت ٹاپ لیول پر نہیں بلکہ نچلی سطح پر ہے۔ انھوں نے کہا کہ آج ایک طرف علامہ عباس کمیلی کے بیٹے کو تو دوسری طرف مفتی محمد نعیم کے داماد کو شہید کردیا جاتا ہے، یہ کونسی قوت ہے جو جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ علمائے کرام اپنے لوگوں کو کنٹرول کریں ، معاملات صرف چند لوگ بگاڑرہے ہیں ورنہ تو ہر مکتب فکر کے لوگ ایران و عراق بھی جاتے ہیں اور سعودی عرب کا بھی رخ کرتے ہیں۔



پراکسی وار (Proxy War) غلط ہے، 80 سے 90 فیصد علما نے بہت محنت سے فرقہ واریت کو کنٹرول کیا ہے ، دکھ کی بات یہ ہے کہ جب کوئٹہ کا واقعہ ہوتا ہے تو اس کے فوری بعد راولپنڈی کا واقعہ سامنے آجاتا ہے۔امام بارگاہ میں دہشت گردی ہوتے ہی دوسرے مکتب فکر کو نشانہ بنایا جاتا ہے، ایسی صورتحال میں تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کی ذمے داری ہے کہ وہ سختی سے کفر کے فتووں کی مذمت کریں۔ کچھ عناصر ملک میں عسکری قوتوں کو بھی مضبوط کررہے ہیں تاکہ فساد کے ذریعے ملک و قوم کو کمزور کیا جاسکے، یہ مغرب کا ایجنڈا ہے۔

ہمیں ان لوگوں کو بے نقاب کرنا ہوگا جو ایک ایک لفظ پر دوسرے کو قتل کررہے ہیں یا قتل کرنے کی تعلیم دے رہے ہیں۔ میرے والد علامہ شاہ احمد نورانی نے کبھی لسانی، سیاسی، مذہبی فکر میں امتیاز نہیں برتا، کسی بھی مذہب یا مکتب فکر کے لوگوں سے ملنا جلنا منع نہیں، اختلافات کو مل بیٹھ کر ہی طے کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ وزیرستان کی وڈیو تو سارے ملک میں دکھائی جاتی ہے لیکن کیا پاکستان کے دوسرے شہروں میں ایک دوسرے کے گلے نہیں کاٹے جارہے؟۔مسلمانوں کے ساتھ ساری دنیا میں کیا ہورہا ہے۔ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ مختلف انداز میں ہمارے صبر کا امتحان لیا جارہا ہے۔

کیا سوئٹزرلینڈٖ میں مساجد کے مینار نہیں گرائے گئے؟، کیا فرانس میں حجاب پر پابندی نہیں لگی؟ لیکن اس کے ردعمل میں مسلمانوں نے اپنے علاقوں میں کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے غیر مسلموں کو تکلیف پہنچے۔ انھوں نے کہا کہ مسلمان آج بھی ہر سمجھوتے کے لیے تیار ہے، ایران اور سعودی عرب میں تو امن ہے ، پھر ہمارے ملک پاکستان میں یہ خونریزی کیوں؟۔

ہر مکتب فکر کو سوچنا چاہیے کہ عراق اورا فغانستان چلے گئے، اس کے بعد پاکستان، ایران اور سعودی عرب کی باری ہے، مغرب ہمارے وسائل پر قابض ہونا چاہتا ہے لہٰذا ہمیں اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ نصاب تعلیم کا یکساں نہ ہونا بھی مسائل کی وجہ بن رہا ہے، تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کو بیٹھ کر ایسای اعلامیہ بنالینا چاہیے جس کی آئینی حیثیت ہو اور سب اس پر عمل کریں۔ مجرموں کو سزائیں نہ ملنا بھی ملک میں فرقہ واریت اور دہشت گردی کا بڑا سبب ہے۔

علامہ عون نقوی (سربراہ ادارہ تبلیغ تعلیمات اسلامی پاکستان)

انتہائی دکھ کی بات ہے کہ ہم ہر فورم اور مختلف محافل میں بیٹھ کر تو فرقہ واریت کے خاتمے کی بات کرتے ہیں، میڈیا پر اتحاد بین المسلمین کا مظاہرہ ہوتا ہے مگر جب ہم تمام علما اپنے عوام میں جاتے ہیں تو ان میں فرقہ واریت کے حوالے سے شعور بیدار نہیں کرتے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی باگ ڈور اس وقت ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو اس ملک کے خیرخواہ نہیں اور جنھوں نے قائداعظم ؒ کو کافر اعظم اور تحریک پاکستان کو کفریہ تحریک سے تعبیر کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ملک میں منسٹرز انویسٹرز بنے ہوئے ہیں، یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں بلدیاتی نظام موجود نہیں ، ہم سمجھتے ہیں کہ فوج کو حکومت میں شامل ہونا چاہیے، کم از کم وزیر داخلہ اور وزیر دفاع فوج سے ہی ہونا چاہیے ۔ اتنی خونریزی اور قتل و غارت ہورہی ہے لیکن حکومت کہیں نظر نہیں آتی۔ علامہ عون نقوی کا کہنا تھا کہ ہم یہ بات علی الاعلان کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت ہم فرقہ واریت اور انتہا پسندی کی شکل میں جو جس درخت کا کڑوا پھل کھارہے ہیں، وہ ضیا الحق کے دور میں بویا گیا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ یہ کڑوا پھل نہ اُگلا جارہا ہے نہ نگلا جارہا ہے۔

اُس دور میں اگر تمام مسالک کے علمائے کرام اس حکمت عملی اور پالیسی کی مذمت کرتے، مخالفت کرتے تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تمام علمائے کرام حضرات کو اپنی اپنی کمیونٹی میں اتحاد بین المسلمین اور اتحاد بین المسالک کی تعلیم عام کرنی چاہیے کیونکہ جن علما کے پاس منبر و محراب کی ذمے داری ہے وہ اپنے اپنے زیر اثر علاقوں اور لوگوں کو جو بات کہیں گے، اس پر عمل یقینی طور پر زیادہ ہوگا۔



دوسری جانب علما کے بھیس میں ایسے لوگ بھی ہیں جو مراعات اور جاہ و حشم کی بدولت عوام کو ورغلاتے ہیں لیکن ان کی تعلیمات کی نوعیت بالکل مختلف ہوتی ہے، یہ وہ عناصر ہیں جو ملک میں امن نہیں چاہتے۔ ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ سعودی عرب اور ایران میں خطبات جمعہ سرکاری طور پر ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں بگاڑ کی اصل وجہ یہ ہے کہ ''علمائے سُو'' نے صورتحال کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہم اپنی سطح پر، اپنی محافل و مجالس میں کوشش کررہے ہیں کہ اتحاد بین المسلمین کا پیغام عام کیا جائے۔


ہمارا شروع سے موقف رہا ہے کہ کلمہ پڑھنے والا مسلمان ہے۔ہاتھ کھول کر یا ہاتھ باندھ کرنماز پڑھنے کی وجہ سے کسی پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا جاسکتا۔ مظاہروں اور احتجاجی جلوسوں میں تشدد کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک میں بھی بڑے بڑے احتجاجی جلوس اور مظاہرے ہوتے ہیں لیکن وہاں کوئی بدمزگی نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ خفیہ ہاتھ فساد پھیلا رہا ہے اور وہ احتجاج اور مظاہروں کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرلیتا ہے۔

اجتہاد کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہوا۔فرقہ واریت شیعہ، سنی، دیوبندی اور بریلوی مسالک کا مسئلہ نہیں، پہلے بعض مقامات پر تنازعات ہوتے تھے۔ لیکن جب عوام میں میڈیا کے ذریعے اور دیگر ذرائع سے شعور بڑھا ہے تو انھیں سمجھ آرہی ہے کہ اختلافات کی آگ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بھڑکائی جارہی ہے، اگر عوام میں فرقہ واریت کے جراثیم ہوتے تو ہر واقعے کے بعد گلی کوچوں میں لڑائیاں ہورہی ہوتیں۔

یہ اجتہاد ہی ہے جس نے صورتحال کو کنٹرول کیا ہوا ہے۔ مولانا عون نقوی کا کہنا تھا کہ نبی ؐ کی شان میں گستاخی پر ہر مسلمان کا طیش میں آنا فطری بات ہے، اگر علما لوگوں کو قابو میں نہ رکھتے تو ایسی آگ لگتی جسے بجھانا مشکل ہوتا۔ ایک سوال پر انھوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ تمام مکاتب فکر کے علما مل کر ایسا نظام بنائٰں جو سب کو قبول ہو۔

مولانا عبدالکریم عابد (جمعیت علمائے اسلام (ف) سندھ کے سرپرست)

علما میں اختلافات تو ہردور میں رہے ہیں لیکن وہ کبھی بھی وجہ تنازع نہیں بنے۔ علمی اختلافات کو تو رحمت کہا جاتا ہے تاہم محض مخالفت برائے مخالفت اور کسی کو نیچا دکھانے کے لیے اختلاف کو اسلام نے شدت سے ممنوع قرار دیا ہے۔ علمائے کرام فرقہ واریت میں ملوث نہیں ہیں اور پاکستان میں علمائے کرام نے بہت علمی کام کیا ہے اور فرقہ واریت کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ علامہ عباس کمیلی نے اپنے صاحبزادے مولانا علی اکبر کمیلی اور مفتی نعیم نے اپنے داماد مولانا مسعود بیگ کی میتیں اٹھائی ہیں اور ساری قوم کہہ رہی ہے کہ یہ شیعہ سنی فساد نہیں، یہ چند لوگ ہیں جو علماکی شکل میں آکر خراب کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس وقت صورتحال کی خرابی کا سبب یہ ہے کہ ہر داڑھی والے کو عالم سمجھا جارہا ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ فرقہ واریت اورخونریزی کی موجودہ صورتحال میں بھی علمائے حق اپنا مثبت کردار ادا کررہے ہیں اور وہ کسی بھی طرح ان کارروائیوں میں ملوث نہیں۔

انھوں نے کہا کہ یہ سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے کہ کوئی قاتل پکڑا نہ جائے، انتظامیہ صحیح کردار ادا نہیں کر رہی اور حقیقت یہ ہے کہ انتظامیہ سے کچھ نہیں چھپ سکتا، موجودہ صورتحال میں یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ملک میں قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہورہا۔ ہم عالمی سازش کا شکار ہیں۔ ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ مدارس میں دہشت گردی کا تاثر درست نہیں ہے۔ علمائے کرام نے منبر ومحراب سے بھی اور نجی محافل میں بھی فرقہ واریت کے عفریت کو کنٹرول کرنے کیلیے بھرپور کوشش کی ہے اور صبر و برداشت کی ہی تعلیم دی ہے۔



تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام نے اپنی سطح پر بھرپور کوشش کی ہے کہ حالات مزید بگڑنے نہ پائیں۔ امن پسندی کی وجہ سے ہی ہم آج تک لاشیں اٹھارہے ہیں، امام بارگاہوں، مساجد اور دیگر مقامات پر مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہے لیکن پوری قوم سمجھ چکی ہے کہ ملک میں شیعہ سنی کی کوئی لڑائی نہیں اور قتل وغارت ملک و قوم اور اسلام کیخلاف سازش ہے۔ فرقہ واریت کے ذمے دار وہ عناصر ہیں جنھوں نے علماکا روپ دھار رکھا ہے۔

اجتہاد کے سوال پر مولانا عبدالکریم عابد کا کہنا تھا کہ جہاں قرآن میں اللہ کی واضح ہدایت اور رسول کریم ؐ کی تعلیمات موجود ہوں، وہاں اجتہاد کی ضرورت نہیں۔ معاشرے میں جہاں کسی معاملے پر کوئی واضح ہدایت نہ ہو تو اجتہاد ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہر واردات کی ذمے داری طالبان یا کسی اور پر ڈال دینا آسان ہے مگر یہ حیران کن بات ہے کہ آج تک کسی بھی قتل کا مجرم نہیں پکڑا گیا، سپاہ محمد اور لشکر جھنگوی پر بھی بہت مقدمات ہیں لیکن بظاہر ان کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ ہم عالمی سازش کا شکار ہورہے ہیں۔ جے یوآئی نے اپنی سطح پر اتحاد بین المسلمین کی بھرپورکوششیں کیں، علامہ شاہ احمد نورانی مرحوم نے متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) اور ملی یکجہتی کونسل کا فورم بناکر اتحاد بین المسالک کیلیے اہم کردار ادا کیا۔ مدارس کے نصاب کے سوال پر انھوں نے کہا کہ میں چیلنج سے کہتا ہوں کہ کسی بھی مکتب فکر کے مدرسے میں فرقہ واریت پھیلانے کی تعلیم نہیں دی جاتی، اگر ایسا کہیں ہورہا ہے تو بتایا جائے۔ مدارس میں اخوت و اتحاد کا پرچار کیا جاتا ہے، طالب علموں کو یہی سبق دیا جاتا ہے کہ اسلام امن کا دین ہے۔

مدارس کے نصاب میں جدید دور کے مطابق تبدیلی لائی جاتی ہے، ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ علما اور مدارس امن و اتحاد کے لیے بہت اچھا کام کررہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جلوسوں اور احتجاجی مظاہروں کے دوران گڑبڑ کرنے والے شرپسند ہوتے ہیں۔ ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا ایک دوسرے کی مساجد میں نماز نہ پڑھنا علمائے کرام اور مذہبی تنظیموں کی کمزوری ہے، اس حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اسلام امن و اخوات کا درس دیتا ہے۔ صورتحال اس وقت خراب ہوتی ہے جب ہم دین اسلام کو نہیں دیکھتے اور ہر معاملے پر ذاتیات پر اتر آتے ہیں، یہ سمجھنا چاہیے کہ انتشار کا فائدہ مسلمانوں کو نہیں بلکہ اسلام دشمنوں کو ہوتا ہے۔

اشرف قریشی (چیئرمین اہلحدیث ایکشن کمیٹی)

فرقہ واریت کے بڑھنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں صبر و برداشت ختم ہوگئی ہے، اس کی بنیادی وجہ نظام تعلیم ہے چاہے وہ عصری ہو یا دینی۔ حکومت فرقہ واریت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے لیکن حکومت ہمیشہ جانبداری کا مظاہرہ کرتی ہے اور شرپسند عناصر کو پروموٹ کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں موجود اچھی روایا دم توڑرہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ فرقہ واریت کے خاتمے کیلیے ایک ایسے ضابطہ اخلاق پر اتفاق ہونا چاہیے جس پر سب مسالک اور مکاتب فکر عمل کریں۔ لوگوں کو حسن اخلاق، صبر و برداشت کی جو تعلیم دی جانی چاہیے تھی وہ نہیں دی گئی۔

ہم سمجھتے ہیں کہ مدارس کے نصاب میں بھی احکام خداوندی اورتعلیمات رسول ؐ سے زیادہ فقہی و فروعی معاملات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اختلافات پہلے بھی ہوتے تھے لیکن ایسی سنگین صورتحال اور کشیدہ ماحول نہیں ہوتا تھا جیسا آج کل دیکھنے میں آتا ہے۔ پہلے اختلافات کو علمی مناظروں سے طے کیا جاتا تھا لیکن جب مناظرے ختم ہوگئے تو ان کی جگہ تشدد نے لے لی اور اسی صورتحال کی وجہ سے ''کافر کافر'' کا نعرہ بلند ہوا۔



اشرف قریشی کا کہنا تھا کہ فرقہ واریت میں بیرونی عناصر کا بھی بڑا کردار ہے، معاشرے میں اس وقت شیعہ سنی کا کوئی جھگڑا نہیں، اختلافات ہر جگہ ہوتے ہیں اور تمام مکاتب فکر میں ہیں، شیعہ سنی اختلافات کے علاوہ، اہل حدیث، بریلوی اور دیوبندی مکاتب میں بھی اختلاف ہے، اب تو ایسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے کہ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں پر حملے کیے جارہے ہیں جو تشویشناک بات ہے۔ بعض قوتیں انتظامیہ کو یرغمال بنالیتی ہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے، ایک دوسرے کی دل آزاری سے گریز کرکے صورتحال کو بہتری کی جانب لے جایا جاسکتا ہے۔

اس صورتحال کو بہتر کرنے میں علمائے کرام اور حکومت وقت سب سے موثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ شرپسند ہر جگہ ہوسکتے ہیں، انھیں لگام دینے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے تجویز دی کہ ان حالات میں ایک ایسے امن معاہدے کی ضرورت ہے جسے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام مل کر تیار کریں اور اسے آئینی تحفظ بھی حاصل ہو۔ پھر اس کے بعد اگر کوئی اس معاہدے کی خلاف ورزی کرے تو اسے سزائیں دی جائیں۔
Load Next Story