بات کچھ اِدھر اُدھر کی صحافت میں حلیہ اہم یا کام

جس تیزی سے صحافت کے حسن کو بگاڑا جارہا ہے یقینی طور پر یہ صحافت سے پیار کرنے والے لوگوں کے لیے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے۔


عارف رمضان جتوئی September 19, 2014
آج کے دور میں صحافت کے لیے یہ تلخ حقیقت ہے کہ اب معیار کی بجائے صرف چہروں اور ظاہری شکل و صورت پر توجہ دی جاتی ہے۔ کام کیسا ہے اس سے کسی کو کوئی غرض نہیں تاہم کام کرنے والا کیسا ہے اس پر ضرور غور کیا جاتا ہے۔ فوٹو: فائل

میں جیسے ہی ایس ایم لاء کالج کے گیٹ سے اندر داخل ہوا سامنے کھڑے تین لڑکوں نے میرا بغور جائز لیا۔ باریش چہرا، سادہ سے کپڑوں اور جوتے کے ساتھ میرا یوں یونیورسٹی میں داخل ہونا انہیں عجیب تو لگا ساتھ میں ان کے چہرے پر ناگواری کے اثرات بھی نمایاں تھے۔ ان میں سے ایک لڑکے نے کچھ سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا اور پھر گویا ہوا ''کہاں جارہے ہو؟ '' اتنے میں دوسرے نے جملہ کسا ''مسجد دوسرے محلے میں ہے آپ غلط جگہ آگئے ہو'' جس پر تینوں نے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ ان کی باتوں پر میں نے مسکرا کر ان کی طرف دیکھا اور پھر آگے جانے کے لئے بڑھا۔

میری طرف سے رد عمل نہ پا کر ان میں سے ایک نے پھر آواز لگائی ''یہ جگہ تمہارے جیسوں کی نہیں ہے، تم شاید غلطی سے یہاں آگئے ہو..... وہ ابھی کچھ اور کہنے ہی والا تھا کہ اتنے میں سامنے سے کالج کے سینئر ترین پروفیسر آتے دیکھائی دیے۔ وہ تینوں لڑکے مجھے چھوڑ کر ان کی طرف لپکے اور انہیں گروپ فوٹو بنانے پر اسرار کرنے لگے۔ جس پر انہوں نے اپنی مصروفیات کا اظہار کرتے ان سے معذرت کر لی۔

پروفیسر ان لڑکوں سے فارغ ہوکر میری طرف متوجہ ہوئے اور میرے ہاتھ کو مشفقانہ اندازمیں پکڑتے ہوئے کالج کے اندر چلے گئے۔ باتوں کا سلسلہ چلتے پھرتے ہوتا رہا اور پھر وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے روانہ ہوگئے۔ جب میں بھی واپس جانے کے لئے پلٹا تو وہ تینوں لڑکے اب بھی گیٹ کے پاس کھڑے مجھے دیکھ رہے تھے۔ میں جوں ہی ان کے پاس سے گزرنے لگا ان میں سے ایک نے مجھ سے مخاطب ہوکر پوچھا کہ آپ اِن پروفیسر کو کیسے جانتے ہیں...؟ آپ کس کام کے لئے ان کے پاس آئے تھے؟ وغیرہ وغیرہ۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں کسی کام سے نہیں بلکہ ان کے بلانے پر آیا تھا۔ وہ مجھے ایک ابلاغ عامہ کے ادارے کے نمائندے کے طور پر جانتے ہیں۔ میری ظاہری حالت کو ایک بار پھر غور سے دیکھنے کے بعد اس لڑکے نے ہلکے سے کہا آپ لگتے تو نہیں ہیں کہ آپ کسی اشاعتی ادارے سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ میں ان کی بات سن کر صرف مسکرا ہی سکا اور پھر میں وہاں سے چل دیا۔

کتنی عجیب بات ہے کہ اب معیار کی بجائے صرف چہروں اور ظاہری شکل و صورت پر توجہ دی جاتی ہے۔ کام کیسا ہے اس سے کسی کو کوئی غرض نہیں تاہم کام کرنے والا کیسا ہے اس پر ضرور غور کیا جاتا ہے۔ گزشتہ روز ایک ساتھی صحافی بتانے لگے کہ ''اب میڈیاکے اداروں میں بھی معیار کم اور تعلیمی اسناد اور ظاہر ی پسند نہ پسند پر بہت غور کیا جارہا ہے''۔ جب ہم نئے اس فیلڈ میں آنے کا ارادہ کر رہے تھے تو ایک سینئر صحافی نے ایک میڈیا ورکشاپ میں کہا تھا کہ صحافت میں معیار کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ تاہم ان کی باتیں اپنی جگہ ٹھیک تھیں شاید اُس وقت صحافتی ادارے معیار پر ہی کام کر رہے تھے مگر اب ایسا کچھ نظر نہیں آرہا۔ اب چہرے اور شکل و صورت کو دیکھ کرہی کوئی ادارہ لیتا ہے۔ یا پھر سفارش پر ہی ان اداروں میں جگہ مل پاتی ہے۔ کچھ روز قبل مجھے ایک ٹی وی چینل میں رپورٹنگ کرنے کا موقع ملا۔دو دن بعد بیوروچیف کہنے لگے کام تو آپ کا دیکھ لیا ہے بس اگر آپ اپنے چہرے اور لباس کو تبدیل کر لیں تو ہمیں اسکرین پر لانے کے لئے آسانی ہوگی۔ صحافتی اداروں میں جب یہ صورتحال ہوگی تو ایسے میں شاید معیار ڈھونڈنا مشکل ہوجائے گا۔

ایک بڑے میڈیا گروپ کسے تعلق رکھنے والی رپورٹر نے بڑا عجیب اور افسوسناک انکشاف کیا۔ وہ بتانے لگی کہ میں نے ادارے کو اپنے خرچوں پر بہت سی رپورٹس دیں اور ایک سال سے بغیر کسی معاوضے میں رپورٹنگ کر تی آئی ہوں، تاہم آج تک میرے نام سے کوئی رپورٹ نہیں لگائی گئی۔ ایک مرتبہ میں نے ہمت کر کے اپنے ادارے کے ایک سینئر ایڈیٹر سے اس معاملے پر بات کی تو موصوف نے اپنا نیچ پن دیکھا دیا۔ کہنے لگے ''میڈم آپ کا کام اپنی جگہ اچھا ہے اور ہمیں پسند ہے تاہم کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے''۔ جانے موصوف کا اس کھونے سے کیا مطلب تھا لیکن اداروں میں جب اس قسم کے لوگ بیٹھا دیے جائیں گے تو یقیناًصحافت جیسے عظیم پیشے سے وہ امیدیں وابسطہ کرنا عبث ہوں گی جو عام طور پر عوام الناس لگا بیٹھے ہیں۔ شاید اب صحافت کی تعریف اور اس کے چرچے صرف یونیورسٹیوں اور نصابی کتابوں میں رہ گئے ہیں۔

اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ صحافت میں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو صحافت کی حقیقت کو پہچانتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ صحافت کے لئے ظاہر کو نہیں باطن کو بدلنا پڑتا ہے۔ مگر جس تیزی کے ساتھ اِس عظیم پیشے کے حسن کو بگاڑا جارہا ہے تو یقینی طور پر صحافیوں اور صحافت سے پیار کرنے والے لوگوں کے لیے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں