پاکستان ایک نظر میں شمعیں جنہیں ہم نے خود بجھا دیا
اگر یہ سلسلہ ختم نہ ہوا تو ہمارا معاشرہ ایک ایسی دلدل میں دھنس کر رہ جائے گا جہاں پر صرف برائی کا راج ہوگا۔
خدا جب کسی قوم پر برہم ہوتا ہے تو اسے گمراہی کے اس راستے پر ڈال دیتا ہے جس پر چل کر وہ قوم خود اپنے آپ کو تباہ کر لیتی ہے اور پھر تاریخ کے سیاہ صفحات پر آہستہ آہستہ گم ہو جاتی ہے۔ گمراہی کا یہ سفر اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ شمعیں ہم خود بجھانا شروع کردیں جو معاشرے میں روشن کرنیں بن کر جہالت کے اندھیروں کو ختم کر رہی ہوتی ہیں۔ ایسے ہی ایک رہبر کو آج ہم نے کھو دیا۔
جمعرات کی روشن صبح نے سوچا بھی نہ ہوگا کہ آج سے اس کے مقدر میں ایک تاریک سفر لکھ دیا جائے گا۔ جامعہ کراچی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے سربراہ ڈاکٹر شکیل اوج اس وقت گولیوں کا نشانہ بنے جب وہ اپنے ایک ساتھی شعبہ صحافت کے سربراہ طاہر مسعود اور طالبہ ڈاکٹر آمنہ کے ہمراہ اس تقریب کی طرف رواں تھے جو ان کے اعزاز میں منعقد کی گئی تھی۔جب ان کی کار گلشن اقبال میں واقع وفاقی اردو یونیورسٹی کے قریب بیت المکرم مسجد کے پاس پہنچی تو نامعلوم افراد نے گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں وہ خالق حقیقی سے جاملے۔ یہ سانحہ عین اسی مقام کے قریب ہوا جہاں پر 1987 ء میں وفاقی اردو یونیورسٹی میں بطور لیکچراران کا تقرر ہوا تھا اور اس کے بعد 1995ء میں جامعہ کراچی چلے گئے اور آخری سانسوں تک اس سے منسلک رہے۔
کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بہت سے سوالیہ نشانات چھوڑ رہے ہیں۔ جانے کیوں مجھے یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ اس سازش کا حصہ ہے جس کا مقصد پاکستان کو ہر طرح سے تباہ کرنا ہے۔ اس کی معیشت کے ساتھ ساتھ ایسے افراد کا بھی خاتمہ کرنا ہے جو ہجوم کو ایک قوم کی شکل دینے کے لئے علم کا پرچم اٹھا ئے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
ایک وہ وقت بھی تھا جب حکمران مسجد میں اگر اپنے استاد محترم کی جوتیاں دیکھتے تو فورا لپکتے ،کوئی ان رخ سیدھا کر رہا ہوتا تو کوئی انہیں تھام کر ادب سے کھڑا ہو جاتا کہ آنے والے کا رتبہ ان سے کہیں زیادہ بلند ہے، کہیں ان کے استاد کو جوتیاں پہننے کے لئے جھکنا نہ پڑے ۔یہی وہ دور تھا جب دھرتی کو ہم ماں کا رتبہ دیتے تھے اور استاد کو روحانی باپ کادرجہ۔ مگر افسوس کے ہم ان روایات کے امین بھی نہ بن پائے۔
ایک دفعہ سکندر اعظم سے کسی نے پوچھا کہ آپ استاد کو باپ پر کیوں ترجیح دیتے ہیں تو اس نے جواب دیا کہ؛
ایک شخص جو اپنی زندگی کا ایک حصہ علم حاصل کرنے میں گزار کر جب اس مقام پر جا پہنچتا ہے جہاں سے وہ ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کا عمل شروع کرتا ہے جو مساوات کے اصول پر قائم ہو،جہاں سے جہالت کے اندھیرے روشنیوں میں بدلنا شروع ہوتے ہوں ٹھیک اسی وقت اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے تو پھرایسے معاشرے میں نوجوانوں کے مستقبل کا کیا حال ہوگا اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ آج ہمارے معاشرے کی منافقت ایک اور عالم کو کھا گئی۔
جامعہ کراچی صرف ایک استاد سے ہی نہیں بلکہ ایک رہنما سے بھی محروم ہو گئی جو اپنے علم کے ذریعے راہ سے بھٹکے ہوؤں کو منزل تک پہنچاتا تھا۔ ہڑتال ، احتجاجوں یا پھر سیاستدانوں کے مذمتی بیان کافی نہیں ہیں۔ اگر یہ سلسلہ ختم نہ ہوا تو ہمارا معاشرہ ایک ایسی دلدل میں دھنس کر رہ جائے گا جہاں پر صرف برائی کا راج ہوگا۔
معاشرے باشعور اور مہذب افراد سے بنتا ہے، جب ایسے افراد کو چن چن کر قتل کردیا جائے گا تو معاشرے سے اچھائی اور برائی کا تصور بہت جلد ختم ہوجائے گا، کیا ایسے حالات میں یہ ملک اور اس کا مستقبل زندہ رہ پائے گا؟
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
جمعرات کی روشن صبح نے سوچا بھی نہ ہوگا کہ آج سے اس کے مقدر میں ایک تاریک سفر لکھ دیا جائے گا۔ جامعہ کراچی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے سربراہ ڈاکٹر شکیل اوج اس وقت گولیوں کا نشانہ بنے جب وہ اپنے ایک ساتھی شعبہ صحافت کے سربراہ طاہر مسعود اور طالبہ ڈاکٹر آمنہ کے ہمراہ اس تقریب کی طرف رواں تھے جو ان کے اعزاز میں منعقد کی گئی تھی۔جب ان کی کار گلشن اقبال میں واقع وفاقی اردو یونیورسٹی کے قریب بیت المکرم مسجد کے پاس پہنچی تو نامعلوم افراد نے گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں وہ خالق حقیقی سے جاملے۔ یہ سانحہ عین اسی مقام کے قریب ہوا جہاں پر 1987 ء میں وفاقی اردو یونیورسٹی میں بطور لیکچراران کا تقرر ہوا تھا اور اس کے بعد 1995ء میں جامعہ کراچی چلے گئے اور آخری سانسوں تک اس سے منسلک رہے۔
کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بہت سے سوالیہ نشانات چھوڑ رہے ہیں۔ جانے کیوں مجھے یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ اس سازش کا حصہ ہے جس کا مقصد پاکستان کو ہر طرح سے تباہ کرنا ہے۔ اس کی معیشت کے ساتھ ساتھ ایسے افراد کا بھی خاتمہ کرنا ہے جو ہجوم کو ایک قوم کی شکل دینے کے لئے علم کا پرچم اٹھا ئے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
ایک وہ وقت بھی تھا جب حکمران مسجد میں اگر اپنے استاد محترم کی جوتیاں دیکھتے تو فورا لپکتے ،کوئی ان رخ سیدھا کر رہا ہوتا تو کوئی انہیں تھام کر ادب سے کھڑا ہو جاتا کہ آنے والے کا رتبہ ان سے کہیں زیادہ بلند ہے، کہیں ان کے استاد کو جوتیاں پہننے کے لئے جھکنا نہ پڑے ۔یہی وہ دور تھا جب دھرتی کو ہم ماں کا رتبہ دیتے تھے اور استاد کو روحانی باپ کادرجہ۔ مگر افسوس کے ہم ان روایات کے امین بھی نہ بن پائے۔
ایک دفعہ سکندر اعظم سے کسی نے پوچھا کہ آپ استاد کو باپ پر کیوں ترجیح دیتے ہیں تو اس نے جواب دیا کہ؛
''میرا باپ تو مجھے آسمان سے زمین پر لایالیکن میرے استاد ارسطو مجھے زمین سے آسمان پر لے گئے،نیز باپ سبب حیات فانی اور استاد موجب حیات جادوانی ہے، باپ جسم کی پرورش کرتا ہے اور استاد جان کی''۔
ایک شخص جو اپنی زندگی کا ایک حصہ علم حاصل کرنے میں گزار کر جب اس مقام پر جا پہنچتا ہے جہاں سے وہ ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کا عمل شروع کرتا ہے جو مساوات کے اصول پر قائم ہو،جہاں سے جہالت کے اندھیرے روشنیوں میں بدلنا شروع ہوتے ہوں ٹھیک اسی وقت اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے تو پھرایسے معاشرے میں نوجوانوں کے مستقبل کا کیا حال ہوگا اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ آج ہمارے معاشرے کی منافقت ایک اور عالم کو کھا گئی۔
جامعہ کراچی صرف ایک استاد سے ہی نہیں بلکہ ایک رہنما سے بھی محروم ہو گئی جو اپنے علم کے ذریعے راہ سے بھٹکے ہوؤں کو منزل تک پہنچاتا تھا۔ ہڑتال ، احتجاجوں یا پھر سیاستدانوں کے مذمتی بیان کافی نہیں ہیں۔ اگر یہ سلسلہ ختم نہ ہوا تو ہمارا معاشرہ ایک ایسی دلدل میں دھنس کر رہ جائے گا جہاں پر صرف برائی کا راج ہوگا۔
معاشرے باشعور اور مہذب افراد سے بنتا ہے، جب ایسے افراد کو چن چن کر قتل کردیا جائے گا تو معاشرے سے اچھائی اور برائی کا تصور بہت جلد ختم ہوجائے گا، کیا ایسے حالات میں یہ ملک اور اس کا مستقبل زندہ رہ پائے گا؟
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔