ڈاکیا
ڈاکٹر علوی اور ان کی ٹیم کسی آپریشن کا کوئی پیسہ وصول نہیں کرتے۔...
طویل مدت کے بعد عصر حاضر کے درویش سے ملاقات ہوئی۔ وقت بے حیثیت ہو گیا! پانچ گھنٹے چند لمحوں میں تبدیل ہو گئے!
سائنس اور پھر میڈیکل کالج کی تعلیم نے مجھے ایک مخصوص نقطہ نظر کا حامل بنا دیا ہے۔ عمل اور ردعمل (Cause and Effect) ہی زندگی کا وہ سبق ہے جس سے میں روشناس رہا۔ یہ میری جبلت اور شعور کا سب سے اہم حصہ بن چکا ہے۔ لیکن اب ایسے لگتا ہے کہ یہ حقیقت تو ضرور ہے۔ مگر پوری طرح سچ کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ بلکہ کبھی کبھی تو اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ شعور اور لاشعور کے صحرا میں انسانی عقل ریت کے ایک ذرہ سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں! بات صرف اور صرف ادراک کی ہے۔
صرف دو دہائیاں قبل، ڈاکٹر عامر منیر چند دوستوں کو قادری صاحب کے پاس لے گیا۔ اس میں طالبعلم بھی شامل تھا۔ لارنس روڈ پر یہ انتہائی سادہ سے بزرگ چالیس برس سے گھر میں مقید تھے۔ باہر نکلنے پر پابندی کس نے لگائی! انھوں نے کبھی اس نکتہ کا جواب نہیں دیا۔ خیر قادری صاحب خدا اور رسول کے عشق میں ڈوبے ہوئے انسان تھے۔ روزانہ شام کو عقیدت مند اور مہمان عقل و دانش کے موتی سمیٹنے ان کے در پر آ جاتے تھے۔ ہر ایک کی خبر گیری اور کھانا کھلانا قادری سرکار کا وصف تھا۔ میں ابتداء میں ان سے بالکل متاثر نہیں ہوا! مگر شائد اس وقت مٹی زرخیز نہیں تھی۔ ایک دن قادری صاحب حسب معمول شام کو گھر پر موجود تھے۔
ایک نوجوان بالکل نئی نئی پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری لے کر جرمنی سے لوٹا تھا۔ اس دن وہ بھی کسی کے ہمراہ قادری صاحب سے ملنے آیا ہوا تھا۔ اس نے بزرگ کے سامنے چند مرتبہ بڑی گستاخی سے کہا کہ وہ بہت پڑھا لکھا انسان ہے۔ وہ دراصل بار بار اپنی علمیت کا اظہار کر رہا تھا۔ قادری صاحب مکمل خاموش ہو گئے۔ مگر کچھ دیر بعد انھوں نے اس نوجوان کو مخاطب کر کے پوچھا کہ کتنا پڑھے ہوئے ہو؟ نوجوان نے فخر سے بتایا کہ اس نے دنیا کی بہترین یونیورسٹی سے فزکس میںPh.D کی ہوئی ہے۔ سوال دوبارہ کیا گیا۔ کیا لوح محفوظ پر لکھا ہوا پڑھ سکتے ہو؟ نوجوان پریشان سا ہو گیا۔
اس کا جواب حیرت سے بھر پور نفی میں تھا۔ جواب دیا کہ پھر پڑھنے کا دعوی کس بنیاد پر کر رہے ہو۔ نوجوان مزید پریشان ہو گیا۔ قادری صاحب نے دوبارہ سوال کیا، کیا لکھ سکتے ہو؟ نوجوان نے فزکس کے حوالے سے جواب دیا کہ وہ اپنے سائنسی مضمون کے حوالے سے ہر چیز کاغذ پر منتقل کر سکتا ہے۔ خلاف معمول قادری صاحب نے پھر سوال کیا، کہ کیا اللہ کے حکم پر دعا کی طاقت سے لوح محفوظ پر جو کچھ بھی تمہارے متعلق لکھا ہوا ہے، مٹا کر دوبارہ لکھنے کی طاقت رکھتے ہو؟ نوجوان بے بس سا ہو گیا۔ ظاہر ہے اس کا جواب نفی میں تھا۔ کہنے لگے کہ پھر کس بات پر تکیہ کرتے ہو کہ تمہیں لکھنا آتا ہے۔ مجھے تو تم بالکل پڑھے لکھے نظر نہیں آتے!
مجھے روحانیت کی دنیا کا بالکل کوئی علم نہیں ہے۔ میں تو اس میدان میں انگلی رکھنے کے قابل بھی نہیں ہوں۔ سچ پوچھیے تو دل اس نظر نہ آنے والی دنیا کو ماننے اور نفی کرنے کے مابین بھٹکتا پھرتا ہے۔ پنڈولم کی طرح، کبھی ایک جانب اور کبھی دوسری سمت! خدا کے یہ نیک لوگ، درویش، ولی، قطب، ابدال بالاخر کون ہیں! ان کی حقیقت اصل میں کیا ہے۔ میرے پاس کسی سوال کا کوئی معقول جواب نہیں ہے۔ مگر ان کی حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں ہے! سچ کے اپنے اپنے خوبصورت رنگ ہیں۔ جذب، کیفیت، خدا کی رضا کے سامنے بچھ جانا اور اپنے وجود کی نفی کر دینا، آپکو کہیں نہ کہیں یہ تمام حقیقتیں مکمل وجود میں سامنے نظر آ جاتی ہیں!
ڈاکٹر علوی آنکھوں کا سرجن ہے۔ اس کے مرشد جو خود بھی سرجن ہیں، پورے ملک کے دشوار ترین علاقوں میں میڈیکل کیمپ لگاتے ہیں۔ یہ کیمپ دراصل غریب لوگوں کی آنکھیں ٹھیک کرنے کا بے مثال طریقہ ہے۔ ڈاکٹر علوی ابھی تک ہزاروں آپریشن کر چکا ہے۔ وہ بیس سے چالیس میل پیدل سفر کرتے ہوئے مشکل مقامات پر خلق خدا کی خدمت کر رہا ہے۔ اجلا انسان! ریاکاری سے دور! اخبار اور ٹی وی کے جھنجھٹ سے مکمل آزاد! ایک دن میں نے سوال کیا، کہ ڈاکٹر یہ آپکا پورا نظام کس طرح چل رہا ہے۔ خاموش سے ہو گئے۔ جواب دیا یہ خدا کے حکم سے چلتا ہے اور ہم یہ تمام کام اس کی رضا کے لیے کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر علوی اور ان کی ٹیم کسی آپریشن کا کوئی پیسہ وصول نہیں کرتے۔ ابھی تک لاکھوں مریض فیضیاب ہو چکے ہیں۔ مگر آج تک کسی سے فیس کا تقاضہ نہیں کیا۔ ایک دن کہنے لگے، کہ میں پورا مہینہ بارہ ہزار روپے میں انتہائی کشادگی سے گزار لیتا ہوں۔ میرے لیے یہ مقام حیرت تھا۔ صرف بارہ ہزار روپے۔ کہنے لگے، کبھی کبھی یہ بھی زیادہ لگتے ہیں کیونکہ دو تین ہزار بچت ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب ان بچے ہوئے پیسوں کی دوائیاں خرید کر غریب لوگوں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر علوی سے امیر آدمی میری نظر سے آج تک نہیں گزرا۔
میرے ذہن میں ہمیشہ سوال قائم رہا کہ منڈی بہاؤالدین کے "پاک بیگھا" میں ڈاکٹر علوی، ان کے مرشد اور ان کی ٹیم اتنی بڑی مسجد کیسے بنوا رہے ہیں۔ مالی وسائل کہاں سے آ رہے ہیں؟ یہ مسجد چار پانچ سال سے مستقل زیر تعمیر ہے۔ اس کی تعمیر پر بلا مبالغہ کروڑوں روپے صَرف ہو چکے ہیں! طالبعلم کے ذہن میں ہمیشہ سوال رہا۔ ڈاکٹر صاحب کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں! کوئی مالی وسائل نہیں تو پھر اتنی بڑی مسجد کی تعمیر کیسے ممکن ہوئی؟ ایک دن ہمت کر کے میں ڈاکٹر علوی سے یہ سوال کر ہی لیا! وہ مسکرانے لگ گئے۔ چند منٹوں کی خاموشی کے بعد کہنے لگے کہ ہم ہر جمعہ کو ان تمام لوگوں کو معاوضہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے پورا ہفتہ تعمیراتی کام کیا ہوتا ہے۔
جتنا مٹیریل بازار سے خریدا گیا ہو، اس کی ادائیگی بھی جمعہ کے دن ہوتی ہے۔ بتانے لگے کہ اگر اس جمعہ کو ہم نے پانچ یا دس بارہ لاکھ کی ادائیگی کرنی ہو، تو ادائیگی کرنے سے کچھ وقت قبل کوئی انجان سا شخص آتا ہے اور ہماری ضرورت کے بالکل عین مطابق ہمیں پیسے عطیہ کر کے خاموشی سے رخصت ہو جاتا ہے۔ یہ شخص پھر کبھی واپس نہیں آتا۔ اگلے جمعے کو بھی اس طرح کوئی اور شخص آ جاتا ہے جو ہماری ضروریات پوری کر دیتا ہے۔ اس کا ایک اور انتہائی حیرت انگیز پہلو بھی ہے۔ عطیہ کی رقم اتنی ہی ہوتی ہے، جسکی ضرورت ہوتی ہو۔
نہ اس سے ایک روپیہ کم نہ زیادہ! یہ سب کچھ کیسے ہوتا ہے، میرے پاس کوئی مدلل جواب نہیں ہے۔ مگر یہ ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اور ان کی مکمل ٹیم ہر جمعہ کو باوضو ہو کر مزدروں کی طرح خود مسجد کی تعمیر کے کام میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں! یہ خدا کی راہ میں لوگوں کی خدمت کرنے والے درویش ہیں جو لوگوں کے لیے صرف آسانیاں پیدا کرتے ہیں!
دشواری ہے کہ ابھی مکمل نام لکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ چند مہینوں سے میری ایک بڑے عالم نوجوان سے واقفیت اور دوستی ہے۔ یہ انتہائی خوش لباس اور پڑھا لکھا شخص ہے۔ آپ سیاست سے لے کر کسی بھی علمی نکتہ پر بات کرنا چاہیں تو، اس نوجوان کے پاس دلائل کا ایک سمندر موجود ہوتا ہے۔ میں حیران ہوں کہ تیس پینتیس برس کی عمر میں اتنا مطالعہ اور اتنا دقیق مشاہدہ کیسے ممکن ہوا! مگر یہ خدا کے کام ہیں۔ یہ انسانوں کی دین نہیں ہے۔ یہ شخص آئرلینڈ میں کافی مدت رہا۔ بلا کا ذہین اور عاجز آدمی! شاعری ایسی کہ دل پر اثر کرتی ہے۔ میں نے اس کی نثر پڑھی تو تعجب کا شکار ہو گیا۔
پوچھا کہ جناب! اتنی گہرائی اور متانت کیسے؟ جواب یہی ملا کہ حقیقت میں معلوم نہیں! اب میں کیا اور سوال کروں؟ یہ شخص ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل پر بہت باعزت نوکری پر مامور ہے۔ میں دوبارہ عرض کرونگا کہ ابھی نام لکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایک مہینہ پہلے وہ میرے پاس آیا اور خاموشی سے بیٹھ گیا۔ کہنے لگا کہ مجھے تنہائی میں چند منٹ کچھ باتیں کرنی ہیں۔ میں ہمہ تن گوش ہو گیا۔ کیونکہ اس نے کبھی بھی پہلے مجھ سے ایسی بات نہیں کی تھی۔ کہنے لگا کہ آپ کے لیے پیغام لایا ہوں۔ پھر اس نے چند باتوں کا ذکر کیا۔ میں ششدر رہ گیا۔ یہ باتیں اتنی ذاتی اور شخصی تھیں کہ میرے علاوہ کسی کو ان کا علم نہ تھا۔
میرے بار بار پوچھنے پر اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس نے صرف یہ کہا کہ وہ تو محض ایک ڈاکیا ہے۔ مگر پیغام کس کا ہے۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر کہنے لگا کہ درویش شائد آپکے منتظر ہیں۔ میں حیران ہو گیا۔ کیونکہ جس نیک شخص کا نام لیا گیا، میں ان کی خدمت میں صرف ایک بار حاضر ہوا تھا۔ وہ بھی پندرہ برس پہلے! میرا نام انکو اب تک کیسے یاد تھا۔ وہ مجھے کیوں بلانا چاہتے ہیں، کیا معاملہ ہے! میرے دل میں ہزاروں سوالات تھے۔ مگر نہ ڈاکیہ کے پاس جواب تھا اور سچ پوچھیے تو نہ میرے پاس سوال کرنے کی ہمت!
حکم کے مطابق حاضر ہوا۔ ملاقات ہوئی۔ درویش کے چہرے پر حد درجہ متانت اور شگفتگی! علم کا سمندر اور مستقبل پر نظر رکھنے والا شخص۔ چوبیس گھنٹوں میں نیند صرف دو چار گھنٹوں کی۔ اور کھانا محض اتنا کہ زندہ رہا جا سکے۔ عملی طور پر نیند اور بھوک کو انھوں نے اپنی زندگی سے خارج کر چھوڑا ہے۔ مگر کیسے؟ نہ سوال کرنے کی جسارت اور نہ پوچھنے کا قرینہ! گھر کے کمروں میں انتہائی قرینے سے لگی ہوئی کتابیں، مطالعہ سے بڑھ کر سنجیدہ مشاہدہ۔ میں لکھ نہیں سکتا کہ عبادت کا کیا عالم ہے۔ حقیقت میں مجھے علم نہیں۔ نہ پوچھا نہ جواب ملا۔ دیدہ زیب مگر سادہ لباس۔ قرآن اور اسلامی تاریخ کا اتنا گہرا مطالعہ کہ طالبعلم دنگ رہ گیا۔
ہزاروں برس پہلے کے واقعات اور اس میں شامل اشخاص کے نام وہ اس طرح لیتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس واقعہ کے چشم دید گواہ ہیں! سادگی سے لوگوں کی خدمت۔ درویش کا گھر سب خاص و عام کے لیے چوبیس گھنٹے کھلا۔ ایسے ایسے لوگ فیض پا کر جاتے ہیں کہ نام لکھنا بھی مشکل معلوم پڑتا ہے۔ طالبعلم نے پوچھا کہ آخر آپ چاہتے کیا ہیں! یہ سوال میں نے انتہائی ادب سے پوچھا تھا۔ کہنے لگے کہ اپنے دین کے مطابق عصرِ حاضر کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی جستجو! عجیب جواب! بلکہ بے حد عجیب جواب! درویش اپنے دور میں سانس لے رہا ہے۔ اس کی نظر سیاست سے لے کر بین الاقومی واقعات تک ہے۔ رنج صرف یہ کہ ہم نے اپنے عظیم مذہب کو ناپختہ عالموں کے حوالے سے جاننا شروع کر دیا ہے!
میرا قلم اس سے آگے کچھ لکھنے سے قاصر ہے! یہ لوگ کون ہیں! انھیں کون کنٹرول کرتا ہے! یہ ہمیں اچانک کیسے مل جاتے ہیں؟ بلکہ یہ کہیے کہ یہ ہمیں کیوں مل جاتے ہیں؟ میرے پاس کسی بھی سوال کا جواب نہیں! مجھے تو آج تک یہ بھی پتہ نہیں چل سکا کہ "ڈاکیا" میرے پاس پیغام لے کر کیسے پہنچ گیا؟
سائنس اور پھر میڈیکل کالج کی تعلیم نے مجھے ایک مخصوص نقطہ نظر کا حامل بنا دیا ہے۔ عمل اور ردعمل (Cause and Effect) ہی زندگی کا وہ سبق ہے جس سے میں روشناس رہا۔ یہ میری جبلت اور شعور کا سب سے اہم حصہ بن چکا ہے۔ لیکن اب ایسے لگتا ہے کہ یہ حقیقت تو ضرور ہے۔ مگر پوری طرح سچ کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ بلکہ کبھی کبھی تو اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ شعور اور لاشعور کے صحرا میں انسانی عقل ریت کے ایک ذرہ سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں! بات صرف اور صرف ادراک کی ہے۔
صرف دو دہائیاں قبل، ڈاکٹر عامر منیر چند دوستوں کو قادری صاحب کے پاس لے گیا۔ اس میں طالبعلم بھی شامل تھا۔ لارنس روڈ پر یہ انتہائی سادہ سے بزرگ چالیس برس سے گھر میں مقید تھے۔ باہر نکلنے پر پابندی کس نے لگائی! انھوں نے کبھی اس نکتہ کا جواب نہیں دیا۔ خیر قادری صاحب خدا اور رسول کے عشق میں ڈوبے ہوئے انسان تھے۔ روزانہ شام کو عقیدت مند اور مہمان عقل و دانش کے موتی سمیٹنے ان کے در پر آ جاتے تھے۔ ہر ایک کی خبر گیری اور کھانا کھلانا قادری سرکار کا وصف تھا۔ میں ابتداء میں ان سے بالکل متاثر نہیں ہوا! مگر شائد اس وقت مٹی زرخیز نہیں تھی۔ ایک دن قادری صاحب حسب معمول شام کو گھر پر موجود تھے۔
ایک نوجوان بالکل نئی نئی پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری لے کر جرمنی سے لوٹا تھا۔ اس دن وہ بھی کسی کے ہمراہ قادری صاحب سے ملنے آیا ہوا تھا۔ اس نے بزرگ کے سامنے چند مرتبہ بڑی گستاخی سے کہا کہ وہ بہت پڑھا لکھا انسان ہے۔ وہ دراصل بار بار اپنی علمیت کا اظہار کر رہا تھا۔ قادری صاحب مکمل خاموش ہو گئے۔ مگر کچھ دیر بعد انھوں نے اس نوجوان کو مخاطب کر کے پوچھا کہ کتنا پڑھے ہوئے ہو؟ نوجوان نے فخر سے بتایا کہ اس نے دنیا کی بہترین یونیورسٹی سے فزکس میںPh.D کی ہوئی ہے۔ سوال دوبارہ کیا گیا۔ کیا لوح محفوظ پر لکھا ہوا پڑھ سکتے ہو؟ نوجوان پریشان سا ہو گیا۔
اس کا جواب حیرت سے بھر پور نفی میں تھا۔ جواب دیا کہ پھر پڑھنے کا دعوی کس بنیاد پر کر رہے ہو۔ نوجوان مزید پریشان ہو گیا۔ قادری صاحب نے دوبارہ سوال کیا، کیا لکھ سکتے ہو؟ نوجوان نے فزکس کے حوالے سے جواب دیا کہ وہ اپنے سائنسی مضمون کے حوالے سے ہر چیز کاغذ پر منتقل کر سکتا ہے۔ خلاف معمول قادری صاحب نے پھر سوال کیا، کہ کیا اللہ کے حکم پر دعا کی طاقت سے لوح محفوظ پر جو کچھ بھی تمہارے متعلق لکھا ہوا ہے، مٹا کر دوبارہ لکھنے کی طاقت رکھتے ہو؟ نوجوان بے بس سا ہو گیا۔ ظاہر ہے اس کا جواب نفی میں تھا۔ کہنے لگے کہ پھر کس بات پر تکیہ کرتے ہو کہ تمہیں لکھنا آتا ہے۔ مجھے تو تم بالکل پڑھے لکھے نظر نہیں آتے!
مجھے روحانیت کی دنیا کا بالکل کوئی علم نہیں ہے۔ میں تو اس میدان میں انگلی رکھنے کے قابل بھی نہیں ہوں۔ سچ پوچھیے تو دل اس نظر نہ آنے والی دنیا کو ماننے اور نفی کرنے کے مابین بھٹکتا پھرتا ہے۔ پنڈولم کی طرح، کبھی ایک جانب اور کبھی دوسری سمت! خدا کے یہ نیک لوگ، درویش، ولی، قطب، ابدال بالاخر کون ہیں! ان کی حقیقت اصل میں کیا ہے۔ میرے پاس کسی سوال کا کوئی معقول جواب نہیں ہے۔ مگر ان کی حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں ہے! سچ کے اپنے اپنے خوبصورت رنگ ہیں۔ جذب، کیفیت، خدا کی رضا کے سامنے بچھ جانا اور اپنے وجود کی نفی کر دینا، آپکو کہیں نہ کہیں یہ تمام حقیقتیں مکمل وجود میں سامنے نظر آ جاتی ہیں!
ڈاکٹر علوی آنکھوں کا سرجن ہے۔ اس کے مرشد جو خود بھی سرجن ہیں، پورے ملک کے دشوار ترین علاقوں میں میڈیکل کیمپ لگاتے ہیں۔ یہ کیمپ دراصل غریب لوگوں کی آنکھیں ٹھیک کرنے کا بے مثال طریقہ ہے۔ ڈاکٹر علوی ابھی تک ہزاروں آپریشن کر چکا ہے۔ وہ بیس سے چالیس میل پیدل سفر کرتے ہوئے مشکل مقامات پر خلق خدا کی خدمت کر رہا ہے۔ اجلا انسان! ریاکاری سے دور! اخبار اور ٹی وی کے جھنجھٹ سے مکمل آزاد! ایک دن میں نے سوال کیا، کہ ڈاکٹر یہ آپکا پورا نظام کس طرح چل رہا ہے۔ خاموش سے ہو گئے۔ جواب دیا یہ خدا کے حکم سے چلتا ہے اور ہم یہ تمام کام اس کی رضا کے لیے کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر علوی اور ان کی ٹیم کسی آپریشن کا کوئی پیسہ وصول نہیں کرتے۔ ابھی تک لاکھوں مریض فیضیاب ہو چکے ہیں۔ مگر آج تک کسی سے فیس کا تقاضہ نہیں کیا۔ ایک دن کہنے لگے، کہ میں پورا مہینہ بارہ ہزار روپے میں انتہائی کشادگی سے گزار لیتا ہوں۔ میرے لیے یہ مقام حیرت تھا۔ صرف بارہ ہزار روپے۔ کہنے لگے، کبھی کبھی یہ بھی زیادہ لگتے ہیں کیونکہ دو تین ہزار بچت ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب ان بچے ہوئے پیسوں کی دوائیاں خرید کر غریب لوگوں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر علوی سے امیر آدمی میری نظر سے آج تک نہیں گزرا۔
میرے ذہن میں ہمیشہ سوال قائم رہا کہ منڈی بہاؤالدین کے "پاک بیگھا" میں ڈاکٹر علوی، ان کے مرشد اور ان کی ٹیم اتنی بڑی مسجد کیسے بنوا رہے ہیں۔ مالی وسائل کہاں سے آ رہے ہیں؟ یہ مسجد چار پانچ سال سے مستقل زیر تعمیر ہے۔ اس کی تعمیر پر بلا مبالغہ کروڑوں روپے صَرف ہو چکے ہیں! طالبعلم کے ذہن میں ہمیشہ سوال رہا۔ ڈاکٹر صاحب کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں! کوئی مالی وسائل نہیں تو پھر اتنی بڑی مسجد کی تعمیر کیسے ممکن ہوئی؟ ایک دن ہمت کر کے میں ڈاکٹر علوی سے یہ سوال کر ہی لیا! وہ مسکرانے لگ گئے۔ چند منٹوں کی خاموشی کے بعد کہنے لگے کہ ہم ہر جمعہ کو ان تمام لوگوں کو معاوضہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے پورا ہفتہ تعمیراتی کام کیا ہوتا ہے۔
جتنا مٹیریل بازار سے خریدا گیا ہو، اس کی ادائیگی بھی جمعہ کے دن ہوتی ہے۔ بتانے لگے کہ اگر اس جمعہ کو ہم نے پانچ یا دس بارہ لاکھ کی ادائیگی کرنی ہو، تو ادائیگی کرنے سے کچھ وقت قبل کوئی انجان سا شخص آتا ہے اور ہماری ضرورت کے بالکل عین مطابق ہمیں پیسے عطیہ کر کے خاموشی سے رخصت ہو جاتا ہے۔ یہ شخص پھر کبھی واپس نہیں آتا۔ اگلے جمعے کو بھی اس طرح کوئی اور شخص آ جاتا ہے جو ہماری ضروریات پوری کر دیتا ہے۔ اس کا ایک اور انتہائی حیرت انگیز پہلو بھی ہے۔ عطیہ کی رقم اتنی ہی ہوتی ہے، جسکی ضرورت ہوتی ہو۔
نہ اس سے ایک روپیہ کم نہ زیادہ! یہ سب کچھ کیسے ہوتا ہے، میرے پاس کوئی مدلل جواب نہیں ہے۔ مگر یہ ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اور ان کی مکمل ٹیم ہر جمعہ کو باوضو ہو کر مزدروں کی طرح خود مسجد کی تعمیر کے کام میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں! یہ خدا کی راہ میں لوگوں کی خدمت کرنے والے درویش ہیں جو لوگوں کے لیے صرف آسانیاں پیدا کرتے ہیں!
دشواری ہے کہ ابھی مکمل نام لکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ چند مہینوں سے میری ایک بڑے عالم نوجوان سے واقفیت اور دوستی ہے۔ یہ انتہائی خوش لباس اور پڑھا لکھا شخص ہے۔ آپ سیاست سے لے کر کسی بھی علمی نکتہ پر بات کرنا چاہیں تو، اس نوجوان کے پاس دلائل کا ایک سمندر موجود ہوتا ہے۔ میں حیران ہوں کہ تیس پینتیس برس کی عمر میں اتنا مطالعہ اور اتنا دقیق مشاہدہ کیسے ممکن ہوا! مگر یہ خدا کے کام ہیں۔ یہ انسانوں کی دین نہیں ہے۔ یہ شخص آئرلینڈ میں کافی مدت رہا۔ بلا کا ذہین اور عاجز آدمی! شاعری ایسی کہ دل پر اثر کرتی ہے۔ میں نے اس کی نثر پڑھی تو تعجب کا شکار ہو گیا۔
پوچھا کہ جناب! اتنی گہرائی اور متانت کیسے؟ جواب یہی ملا کہ حقیقت میں معلوم نہیں! اب میں کیا اور سوال کروں؟ یہ شخص ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل پر بہت باعزت نوکری پر مامور ہے۔ میں دوبارہ عرض کرونگا کہ ابھی نام لکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایک مہینہ پہلے وہ میرے پاس آیا اور خاموشی سے بیٹھ گیا۔ کہنے لگا کہ مجھے تنہائی میں چند منٹ کچھ باتیں کرنی ہیں۔ میں ہمہ تن گوش ہو گیا۔ کیونکہ اس نے کبھی بھی پہلے مجھ سے ایسی بات نہیں کی تھی۔ کہنے لگا کہ آپ کے لیے پیغام لایا ہوں۔ پھر اس نے چند باتوں کا ذکر کیا۔ میں ششدر رہ گیا۔ یہ باتیں اتنی ذاتی اور شخصی تھیں کہ میرے علاوہ کسی کو ان کا علم نہ تھا۔
میرے بار بار پوچھنے پر اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس نے صرف یہ کہا کہ وہ تو محض ایک ڈاکیا ہے۔ مگر پیغام کس کا ہے۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر کہنے لگا کہ درویش شائد آپکے منتظر ہیں۔ میں حیران ہو گیا۔ کیونکہ جس نیک شخص کا نام لیا گیا، میں ان کی خدمت میں صرف ایک بار حاضر ہوا تھا۔ وہ بھی پندرہ برس پہلے! میرا نام انکو اب تک کیسے یاد تھا۔ وہ مجھے کیوں بلانا چاہتے ہیں، کیا معاملہ ہے! میرے دل میں ہزاروں سوالات تھے۔ مگر نہ ڈاکیہ کے پاس جواب تھا اور سچ پوچھیے تو نہ میرے پاس سوال کرنے کی ہمت!
حکم کے مطابق حاضر ہوا۔ ملاقات ہوئی۔ درویش کے چہرے پر حد درجہ متانت اور شگفتگی! علم کا سمندر اور مستقبل پر نظر رکھنے والا شخص۔ چوبیس گھنٹوں میں نیند صرف دو چار گھنٹوں کی۔ اور کھانا محض اتنا کہ زندہ رہا جا سکے۔ عملی طور پر نیند اور بھوک کو انھوں نے اپنی زندگی سے خارج کر چھوڑا ہے۔ مگر کیسے؟ نہ سوال کرنے کی جسارت اور نہ پوچھنے کا قرینہ! گھر کے کمروں میں انتہائی قرینے سے لگی ہوئی کتابیں، مطالعہ سے بڑھ کر سنجیدہ مشاہدہ۔ میں لکھ نہیں سکتا کہ عبادت کا کیا عالم ہے۔ حقیقت میں مجھے علم نہیں۔ نہ پوچھا نہ جواب ملا۔ دیدہ زیب مگر سادہ لباس۔ قرآن اور اسلامی تاریخ کا اتنا گہرا مطالعہ کہ طالبعلم دنگ رہ گیا۔
ہزاروں برس پہلے کے واقعات اور اس میں شامل اشخاص کے نام وہ اس طرح لیتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس واقعہ کے چشم دید گواہ ہیں! سادگی سے لوگوں کی خدمت۔ درویش کا گھر سب خاص و عام کے لیے چوبیس گھنٹے کھلا۔ ایسے ایسے لوگ فیض پا کر جاتے ہیں کہ نام لکھنا بھی مشکل معلوم پڑتا ہے۔ طالبعلم نے پوچھا کہ آخر آپ چاہتے کیا ہیں! یہ سوال میں نے انتہائی ادب سے پوچھا تھا۔ کہنے لگے کہ اپنے دین کے مطابق عصرِ حاضر کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی جستجو! عجیب جواب! بلکہ بے حد عجیب جواب! درویش اپنے دور میں سانس لے رہا ہے۔ اس کی نظر سیاست سے لے کر بین الاقومی واقعات تک ہے۔ رنج صرف یہ کہ ہم نے اپنے عظیم مذہب کو ناپختہ عالموں کے حوالے سے جاننا شروع کر دیا ہے!
میرا قلم اس سے آگے کچھ لکھنے سے قاصر ہے! یہ لوگ کون ہیں! انھیں کون کنٹرول کرتا ہے! یہ ہمیں اچانک کیسے مل جاتے ہیں؟ بلکہ یہ کہیے کہ یہ ہمیں کیوں مل جاتے ہیں؟ میرے پاس کسی بھی سوال کا جواب نہیں! مجھے تو آج تک یہ بھی پتہ نہیں چل سکا کہ "ڈاکیا" میرے پاس پیغام لے کر کیسے پہنچ گیا؟