کمی کمین پھر بولنے لگے

ذہین بھٹو نے اپنے ’ڈیڈی‘ فوجی حکمران ایوب خان سے الگ ہو کر یا الگ کر دیے جانے کے بعد اپنی پارٹی بنانے کا سوچا...


Abdul Qadir Hassan September 19, 2014
[email protected]

ایک زمانہ تھا اور وہ اس ملک میں پہلی بار آیا تھا جب ایک سیاسی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کے غریبوں یعنی کمی کمینوں کی بات کی تھی اور انھیں اپنے حق کے لیے بات کرنے کی ہمت دی تھی۔ 'روٹی کپڑا مکان' کا نعرہ تو ایک جھوٹا سیاسی نعرہ ثابت ہوا لیکن یہ جن لوگوں کے دلوں کی آواز تھی وہ اسے اب تک بھلا نہیں سکے۔

ذہین بھٹو نے اپنے 'ڈیڈی' فوجی حکمران ایوب خان سے الگ ہو کر یا الگ کر دیے جانے کے بعد اپنی پارٹی بنانے کا سوچا تو ان کی ذہانت نے پنجاب کے شاعر بلھے شاہ کے ایک شعری پیغام کو یاد کیا جو روٹی کپڑا اور مکان کا پیغام تھا۔ اس کے ساتھ ہی بھٹو صاحب نے روٹی کپڑے اور مکان سے محروم لوگوں کی ترجمانی شروع کر دی اور محروم دلوں میں نئی زندگی کا ایک ولولہ بیدار کر دیا۔ وہ زندگی جو ان کا حق تھی مگر ان سے چھین لی گئی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ لاہور میں بھٹو کے الیکشن میں مالکان نے ڈاکٹر جاوید اقبال کو ووٹ دیے مگر ان کے گھریلو ملازموں نے بھٹو کو ۔مالک اور ملازم کا یہی تعلق اس الیکشن میں واضح تھا جس کی کئی مثالیں ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ الیکشن کی شام کو میں مال روڈ سے گزر کر دفتر جا رہا تھا کہ ایک دفتر کا پٹھان چوکیدار پنجابیوں اور خاص کر لاہوریوں کو اونچی اونچی آواز میں گالیاں دے رہا تھا کہ بے غیرتو تم نے اقبال کے بیٹے کو ہرا دیا لیکن عام ووٹروں کے دلوں کی دنیا بہت بدل چکی تھی۔ بھٹو صاحب کی حکومت قائم ہوئی تو ایک موقع پر بھٹو صاحب نے اپنے زمیندار ساتھیوں کو سمجھایا کہ یہ زمینداروں کی آخری حکومت ہے۔ مجھے دیکھ کر انھوں نے کہا کہ تم یہ بے شک لکھ دینا۔

عرض یہ ہے کہ یہ زمانہ اس ملک کے افتادگان خاک اور زمین کے کمزور ترین لوگوں کی زندگی کا پہلا موقع تھا جب انھوں نے بڑے لوگوں کی نافرمانی کا سوچنا شروع کر دیا۔ انھی دنوں میں گاؤں گیا تو وہاں کمی کمینوں کے لہجے بدلتے ہوئے دیکھے۔ گاؤں کے ہنر مند لوگ مثلاً موچی کمہار اور مزارع وغیرہ جو پہلے راستہ چھوڑ کر ادب کے ساتھ ایک طرف ہو جاتے تھے اب وہ سامنے آ کر ہاتھ ملانے لگے۔ یہ وہ اصل تبدیلی تھی جو میں نے خود دیکھی۔ بھٹو صاحب چلے گئے ان کی صحیح جانشین نے دلیری کے ساتھ سیاست پر جان دے دی اور سیاست میں خود مختاری اور آزادی کا یہ سلسلہ ختم ہو گیا لیکن ملک کے افتادگان خاک اور مستضعفین فی الارض کے دلوں سے مساوات اور آزادی کا جذبہ اور سوچ ختم نہ ہو سکی۔ وہ زندہ کلبلاتی رہی اور اب تک وہ کلبلا رہی ہے۔

لاہور کی ایک سڑک پر پولیس نے دونوں طرف خلق خدا کا ایک ہجوم روک رکھا تھا کیونکہ یہاں سے ایک وی آئی پی کی سواری یا سواریوں نے گزرنا تھا۔ میں بھی اس ہجوم میں شامل تھا اور لوگوں کی باتیں سن رہا تھا ایک نوجوان کہہ رہا تھا کہ اگر ہم سب ان گاڑیوں کا راستہ روک لیں اور ان پر ٹوٹ پڑیں تو ہمیں کون روک سکتا ہے۔ یہ فٹ پاتھ والے سڑک پر کیوں نہیں آ جاتے اور اپنے لیے راستوں کو صاف کیوں نہیں کر لیتے۔

میں نے یہ الفاظ سن کر اس زمانے کو یاد کیا جب گھروں کے ملازم مالکوں سے بغاوت کر کے بھٹو کو ووٹ دے رہے تھے ان کے دلوں میں اس وقت جو ہلچل مچی ہوئی تھی وہ اس نوجوان تک بھی کسی طرح پہنچ گئی۔ ممکن ہے یہ اس وقت چھوٹا بچہ ہو گا یا اس کے باپ نے بعد میں اسے یہ سب بتایا ہو گا جس کا اظہار وہ اب کر رہا تھا دل کی بات زبان پر لا رہا تھا اپنے باپ کی طرح دل میں ہی نہیں رکھ رہا ہو گا۔

مجھے یہ باتیں ایک آدھ دن پہلے پی آئی اے کی ایک پرواز میں ہونے والے مشہور واقعہ سے یاد آئیں جس میں دو اہم وی آئی پی شخصیات کو جہاز سے اتار دیا گیا کہ ان کی وجہ سے جہاز لیٹ ہوا تھا اور کتنے ہی مسافروں کو انتظار کی کوفت کے علاوہ کسی کام پر جانے سے رک جانا پڑا۔ پاکستان میں ایسا واقعہ غالباً پہلی بار پیش آیا ہے جب عوام یعنی عام مسافروں نے کسی وی آئی پی کی بے عزتی کی تھی۔ بے عزتی نہیں اسے ان سب کی حق تلفی کا احساس دلایا تھا چند دن پہلے میں نے ایک سبزی فروش سے کہا کہ اس قدر مہنگی سبزی کھلے بندوں بیچنے سے ڈر نہیں لگتا کہ تمہارے گاہک اس کھلی پڑی ہوئی سبزی کو لوٹ نہ لیں۔

اس نے جو جواب دیا اس کا مفہوم یہ تھا کہ ابھی تک ایک جھجھک باقی ہے جس دن ایسا کوئی واقعہ ہو گیا تو پھر دیکھیں گے۔ ہمارے ہاں گاؤں میں آدھی فصل مزارع لیتا ہے اور آدھی زمیندار کیونکہ زمین اس کی ملکیت ہوتی ہے فصل کی کاشت وغیرہ میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ اگر یہ مزارع کبھی ساری فصل خود رکھ لے تو اس کا ضمیر مطمئن ہو گا۔ شاید میں کبھی پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ نو عمری میں گھر والوں نے تربیت کے لیے مجھے ایک بار فصل بٹوانے کے لیے بھیج دیا۔

مجھے دیکھ کر سینئر مزارع نے جل کر کہا کہ سال بھر محنت ہماری پھر ایک دن یہ لڑکا آ جاتا ہے اور نصف لے جاتا ہے۔ اس مزارع کی آواز میں جو تلخی تھی وہ مجھے کبھی نہیں بھولتی۔ میں آج شہری زندگی میں بھی یہی تلخی دیکھ رہا ہوں اور ہوائی جہاز کا یہ واقعہ اس تلخی کا ایک چیختا چلاتا واقعہ ہے۔ جہاز میں عام مسافر بھی صاحب حیثیت لوگ تھے کوئی مزارع یا کمی کمین نہیں تھے لیکن کسی نے اپنی سیاسی حیثیت کی وجہ سے انھیں دکھ پہنچایا اور ان لوگوں نے اس کا بدلہ لے لیا۔

اگر پاکستان ایک آزاد ملک ہے تو ہر پاکستانی کو اپنی حق تلفی پر احتجاج کا حق ہے۔ ہمارے وزیر اعظم امریکا کے دورے پر جا رہے ہیں وہ نیو یارک کے سب سے مہنگے ہوٹل میں قیام کریں گے جہاں امریکی صدر اوباما بھی قیام کریں گے ان کا وفد کوئی 25 افراد پر مشتمل ہو گا جو ان کے ساتھ ہی قیام کرے گا۔

وزیر اعظم کا روزانہ خرچ 80 لاکھ روپے ہو گا۔ دورے کا کل خرچ 5 کروڑ 60 لاکھ سے زیادہ ہو گا۔ ملک کی جو معاشی حالت ہے اور اس وقت ملک پر اربوں روپے نقصان والا سیلاب آیا ہوا ہے اس کو دیکھیں تو سوچنا پڑے گا کہ اس دورے سے ہمیں کچھ بھی نہیں ملے گا سوائے چند وزیر لوگوں کی سیر کے۔ جس ملک کا دورہ اس کے پرانے دوست نہ کریں جس ملک کا عالمی مالیاتی ادارے بھی دورہ نہ کریں جس کی غربت سے ایک دنیا آگاہ ہو اس کا وزیر اعظم اول تو کوئی ایسا غیر ضروری دورہ کرے ہی نہیں اگر کرے تو اس جز رسی کے حال میں کہ دنیا کو اپنے ملک کی معاشی حالت سے عملاً آگاہ کرے لیکن اگر کوئی اپنے ملک کی پروا نہ کرے تو اس کی مرضی۔ صرف ڈیڑھ برس کی حکومت کے خلاف دھرنے عبرت کے لیے کافی ہیں۔ ایسے میں اگر ہمارے کمی کمین پھر سے فریاد نہ کریں تو کیا کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں