دھرنے اور سیلاب
بھارت میں شدید بارشوں سے اس کے ڈیم اس قدر بھر جاتے ہیں کہ اگر انھیں نکاسی کے راستے نہ ملیں تو بہت بڑے....
سیلاب نے پورے ملک کو زیر و زبر کر کے رکھ دیا ہے، سیکڑوں غریب اس بلا کی نذر ہو چکے ہیں ہزاروں گھر لاکھوں ایکڑ زرعی زمین اور ہزاروں مویشی اس تاریخی تباہ کن سیلاب کی نذر ہو چکے ہیں اور لاکھوں انسان کیڑوں مکوڑوں کی طرح سڑکوں کے کنارے درختوں اور اونچی جگہوں پر پناہ لیے ہوئے ہیں نہ ان کے سروں پر سایہ ہے نہ پیٹ میں روٹی نہ پینے کا پانی۔ ٹی وی چینلوں کے رپورٹروں اور کیمرہ مینوں کے سامنے وہ گڑگڑا رہے ہیں بلک رہے ہیں کہ حکومت اور حکمران جماعت کا کوئی وزیر مشیر نہ ان کے پاس آیا ہے نہ ان کے مسائل سے آگاہ ہو رہا ہے نہ ان کی مدد کر پا رہا ہے صرف فوجی جوان ہیں جو ان کی جانیں بھی بچا رہے ہیں۔
ان کے پیٹ بھی بھر رہے ہیں۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب ہیلی کاپٹرز میں کیمرہ مینوں کے ساتھ سیلاب زدگان کا فضائی معائنہ فرما کر اپنی آئینی ذمے داریاں پوری کر رہے ہیں عام طور پر ایسے موقعوں پر سلیکٹڈ عوام کے ہجوم میں حفاظتی فورسز کے حصار میں میڈیا کے لیے فوٹو سیشن کرائے جاتے ہیں۔ انتہائی چھان بین کے بعد چھوٹا مجمع جمع کر کے سیلاب زدگان کے لیے مگرمچھ کے آنسو بہائے جا رہے ہیں حکومت کی اعلیٰ سطح سے ڈینگی مچھروں کی سطح تک اپنی ذمے داریوں اپنی نااہلیوں اپنی بھاری کرپشن کو چھپانے کے لیے دھرنوں کی قیادت پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ سیلاب زدگان کی مدد کرنے کے بجائے موسیقی کی محفلیں سجائے ڈی چوک پر بیٹھے ہوئے ہیں۔
بعض حلقوں سے یہ مخلصانہ اور عوام دوست مشورے بھی آ رہے ہیں کہ عمران اور قادری کو اپنے دھرنے ختم کر کے سیلاب زدہ لوگوں کی مدد کرنا چاہیے۔ بلاشبہ سیلاب کی جو صورتحال ہے اس میں ملک کے تمام عوام کو سیلاب زدگان کی مدد کرنا چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ سیلاب زدگان کی مدد کی اصل ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ اور سیلاب سے عوام کو بچانے کے لیے حکومت نے پہلے سے اقدامات کیوں نہیں کیے؟
آج دنیا سائٹس اور ٹیکنالوجی سمیت زندگی کے دوسرے شعبوں میں ترقی کے جس مقام پر کھڑی ہے وہاں قدرتی آفات سے بچاؤ کے بہت سارے راستے تلاش کیے جا چکے ہیں۔ زلزلے اور سیلاب کا شمار ایسی دو قدرتی آفات میں ہوتا ہے جن میں انسانی جان و مال کا بڑے پیمانے پر نقصان ناگزیر ہوتا ہے۔ لیکن زلزلے کے مقابلے میں سیلاب اچانک اور خلاف توقع نہیں آتا بلکہ ہفتوں پہلے سیلاب کی آمد کا علم ہو جاتا ہے۔ اس سال روایت سے ہٹ کر پورے برصغیر میں شدید بارشیں ہوئیں۔
بھارت میں شدید بارشوں سے اس کے ڈیم اس قدر بھر جاتے ہیں کہ اگر انھیں نکاسی کے راستے نہ ملیں تو بہت بڑے جانی اور مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے بھارتی حکومت نے اپنے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے لیے سیلاب کا رخ پاکستان کی طرف کر دیا جس کے نتیجے میں پاکستانی پنجاب بری طرح متاثر ہوا ہزاروں دیہات سیلاب میں ڈوب کر تباہ ہو گئے۔ حکومت کو دنوں پہلے یہ علم تھا کہ بھارتی دریاؤں کے پانی کا رخ پاکستان کی طرف ہو گا اور اسے یہ بھی علم تھا کہ کون سے علاقے سیلاب کی زد میں آ سکتے ہیں۔ اس جانکاری کے باوجود حکمرانوں نے عوام کو سیلاب سے بچانے کی سرے سے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی اگر حکومت چاہتی تو سیلاب کی زد میں آنے والے سیکڑوں دیہات اور شہروں کے باسیوں کو محفوظ مقامات پر پہنچا سکتی تھی لیکن حکومت نے یہ ذمے داری پوری نہیں کی بلکہ اپنا سارا وقت عمران خان اور قادری کے دھرنوں کو ناکام بنانے کی کوششوں میں لگا دیا، حکومت الزام لگا رہی ہے کہ وہ سیلاب زدگان کی مدد کرنے کے بجائے ڈی چوک پر نعرے بازی کر رہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک مہینے سے تپتی دھوپ، موسلا دھار بارشوں میں چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے مظاہرین سیلاب زدگان کی کیا مدد کر سکتے ہیں؟ دھرنے ختم کرنے کا مشورہ دینے والوں میں مخلص لوگ بھی ہو سکتے ہیں لیکن اس حوالے سے حکومت ہر گز مخلص نہیں وہ کسی نہ کسی بہانے دھرنے ختم کروا کر عمران اور قادری کو مات دینا چاہتی ہے۔
سیلاب کا خطرہ ہر مون سون میں ہوتا ہے حکمران طبقات اور جمہوریت کے چیمپئن عشروں سے برسر اقتدار ہیں کیا ان کی یہ ذمے داری نہیں تھی کہ وہ بڑے اور چھوٹے ڈیم بنا کر عوام کو سیلاب سے بچانے کی کوشش کرتے اور سیلابی پانی کو زرعی مقاصد کے لیے استعمال کر کے زرعی معیشت کو ترقی دیتے؟ آج حکمران جگہ جگہ ڈیم بنانے کے دعوے کر رہے ہیں کیا یہ ڈیم عشرہ دو عشرے پہلے تعمیر نہیں کر سکتے تھے جب کہ پنجاب پر (ن) لیگ کی حکومت 32 سال سے قائم ہے اگر حکومت چاہتی تو درجنوں ڈیم بنا کر عوام کے جان و مال کا تحفظ کر سکتی تھی لیکن یہ ضروری کام اس لیے نہیں کیا گیا کہ اس سے زیادہ ''ضروری'' کاموں میں حکومت مصروف تھی۔ حکومت کو اس وقت خیال آیا جب ہزاروں گاؤں سیلاب میں ڈوب چکے تھے۔ اب سوائے جھوٹی تسلیاں دینے میڈیا میں سیلاب زدگان سے ہمدردی کا پروپیگنڈہ کرنے اور سیلابی علاقوں کا فضائی جائزہ لینے کے کیا ہو سکتا ہے۔
الزام لگایا جا رہا ہے کہ مختلف مقامات پر بند تعمیر کرنے کے لیے 43 ارب روپے حاصل کیے گئے۔ اگر یہ الزام درست ہے تو عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ رقم کہاں گئی؟ ماضی میں وڈیروں نے اپنی ہزاروں ایکڑ زمین کو سیلاب سے بچانے کے لیے سیلاب کا رخ غریب بستیوں کی طرف موڑ کر غریبوں کو سیلاب کے حوالے کر دیا تھا اب کہا جا رہا ہے کہ حکمران اپنی شوگر ملوں کو بچانے کے لیے سیلاب کا رخ غریبوں کی بستیوں کی طرف کر رہے ہیں۔
سیکڑوں دیہات کی تباہی اور غریب انسانوں کی جان پر جو لوگ اپنی زرعی زمینوں اور شوگر ملوں کو ترجیح دے رہے ہیں اگر انھیں عمران خان اور قادری بھیڑیے اور درندے کہہ رہے ہیں تو کیا غلط کہہ رہے ہیں؟ اگر ان ظالموں کے ظلم سے عوام کو نجات دلانے کی کچھ لوگ کوشش کر رہے ہیں تو کیا غلط کر رہے ہیں؟ ہماری محترم عدلیہ چھوٹے چھوٹے انفرادی مسائل پر از خود نوٹس لے کر انصاف کا سربلند کر رہی ہے۔ کیا سیکڑوں لوگوں کے سیلاب میں ڈوب جانے اور بھاری رقم کی خورد برد پر ازخود نوٹس نہیں لیا جانا چاہیے؟
امریکا کا حکمران طبقہ عراق اور افغانستان جیسے آزاد ملکوں پر حملہ کرتا ہے تو نہ اس سے جمہوریت کو کوئی نقصان پہنچتا ہے نہ آزاد ملکوں کی آزادی کو کوئی نقصان پہنچتا ہے۔ اہل عقل اگر ان جمہوری حملوں کے پس منظر میں جھانکتے ہیں تو یہ کریہہ شکل سامنے آتی ہے کہ عراق اور افغانستان پر حملے بھی سرمایہ داروں کی ضرورت تھے کہ ان جنگوں کی وجہ کھربوں ڈالر کے اسلحے کی فروخت کے مواقع پیدا ہوئے اور پھر ان تباہ شدہ ملکوں کی بحالی بھی ان ہی سرمایہ داروں کی اس لیے ضرورت رہی کہ اربوں ڈالر کے ٹھیکے ان ہی سرمایہ داروں کو ملے۔ یعنی تخریب میں تعمیر کا عیارانہ پہلو غالب رہا۔
پاکستان خاص طور پر پنجاب میں سیلاب سے جو ہزاروں دیہات تباہ ہو گئے ہیں ان کی آبادکاری پر بھی اربوں ڈالر لگیں گے اور اس آبادکاری کا کام نہ کسان کریں گے نہ ہاری نہ مزدور بلکہ وہ خدا ترس حکمران طبقات ہی کریں گے جو اس تباہی کے ذمے دار ہیں اور اربوں روپوں کی رقوم ان کی جیبوں اور بینکوں میں چلی جائیں گی غریب غریب تر ہو جائے گا امیر امیر تر۔ یہی اس جمہوریت کا اعجاز ہے جو مغرب سے مشرق تک کوڑھ کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔