عوام بے اختیارکیوں
سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ عوام کے ذہنوں میں منفی سوچ ہی کیوں پیدا ہوتی ہے...
ہمارے ملک میں حکمران اور عوام دونوں ہروقت سوچتے رہتے ہیں حکمرانوں کے ذہنوں میں ہمیشہ ایک ہی سوچ پیدا ہوتی ہے کہ اپنے اقتدار کو کس طرح اور کیسے طویل کیا جائے، مزید اختیارات کیسے حاصل کیے جائیں ۔ کس طرح اس ان کا اقتدار لا فانی ہو جائے ایسے کون کون سے ایکٹ نافذ اورآئینی ترامیم کی جائیں جن کی رو سے ان کا اقتدار ہمیشہ کے لیے قائم ہوجائے ۔ دوسری طرف ہمار ے عوام سوچتے ہیں آخر وہ آزادی، خوشحالی، جمہوریت، روٹی،کپڑا اور دوا کب ہمیں میسر ہوگی جس کو ہم دوسرے ممالک میں ٹی وی پر دیکھتے ہیں ۔ ہمارے عوام یہ سوچتے ہیں کہ عہدے والوں کے پاس ٹھاٹھ باٹ اور شان و شوکت کیوں ہے؟اور ہماری زندگی محض تکلیفوں ،
بھوک،بیروزگاری،غلامی، گالیوں اورذلتوں میں کیوں گذر رہی ہے ۔ دنیاکے لوگ روزگار پر لگے ہیں ہم کیوں بیروزگار ہیں اور جو روزگار پر ہیں آخر کیوں انھیں بہانے بہانے سے روزگار سے نکالا جا رہا ہے ۔ سارے ملکوں میں اصل اختیارات عوام کے پاس ہیں لیکن وہ کیوں اختیارات سے محروم ہیں ۔ افسوس ہماری سو چ کس قدر منفی ہے۔ ہر آنے والا ہمیشہ جانے والے پر الزام لگاتا آیا ہے کہ فلاں کرپٹ تھا فلاں نے لوٹ مار کی، خزانہ خالی کرگئے لیکن اب ہم تمام معاملات صحیح کردیں گے ۔ حقیقی معنوں میںملک اور عوام میں خوشحالی لائیں گے اس سارے معاملے میں ہمارے عوام کی حالت یہ ہے کہ ''شب وروز ہوتا ہے تماشا میرے آگے ''وہ کس کی بات کو تسلیم کریں ، کسے سچا مانیں اس سارے کھیل اور تماشے میں وہ ہمیشہ ہی ہارتے آئے ہیں ، ہمیشہ ہی قلاش ہوئے ہیں ان کی قسمت کبھی نہیں بدلی ا ن کی جیت کبھی نہیں ہوئی ان کا کام صرف اورصرف تالیاں بجانا ، زندہ باد، مردہ باد کے نعر ے لگانا ، ہر آنے والے پر امیدیں باندھنا اور آخرکار پھر مایوس ہوجانا رہ گیا ہے ۔
ان کی بد نصیبی اور بد حالی روزبروز بڑھتی ہی چلی جارہی ہے ، ہمارے ملک میںہر حکمران کو اس کے مشیر روز صبح سویرے یہ نوید سناتے آئے ہیں کہ عوام آپ کی حکومت میں سکھ اور چین کی بانسری بجا رہے ہیں ۔ اس وقت ملک میں شیر اور بکر ی ایک گھاٹ سے پانی پی رہے ہیں ۔ عوام خوشحالی اور سکون کی نیند سو رہے ہیں ۔عوام کے سب مسئلے حل ہوگئے ہیں،عوام ہر وقت آپ کو ہزار سال جینے اور اقتدار میں رہنے کی دعائیں دے رہے ہیں عوام دعا کررہے ہیں کہ مزید اختیارات بھی آپ ہی کو حاصل ہوجائیں ۔ ملک میں ہر طرف خوشحالی اور سکون ہے صرف دوچار شرپسند شرپسندی کررہے ہیں ۔
عوام کوحکومت کے خلاف اکسانے کے لیے کام کررہے ہیں لیکن عوام ہیں کہ ان کی بات سننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں ۔ بلکہ عوام ان دو چار کا وجود بھی برداشت نہیں کر پارہے ہیں ۔ عوام ان دو چار شر پسندوں سے خود نمٹ لیں گے ۔ سر آپ صرف حکومت کیجیے بس صرف حکومت کیجیے ۔ ان دو چار شر پسندوں کی طرف دھیان مت دیجیے اس ملک میں آپ سے پہلے آپ جیسا نہ کوئی آیا ہے اور آپ کے بعد آپ جیسا نہ کوئی آئے گا ۔ آپ ہی عوام کی آخری امید ہیں ، آپ ہی ملک میں اول ہیں اورآپ ہی آخر ہیں ۔خدانخواستہ آپ چلے گئے تو ناجانے اس ملک کا کیا انجام ہوگا لیکن ایک روز جب وہ حکمران سابق ہوجاتے ہیں تو پھر انھیں احساس ہوتا ہے اپنے مشیروں کی شرارت کا ۔ پھر وہ '' سابق'' دیکھتے ہیں کہ اس کے ہی مشیر نئے آنے والے کے ارد گرد جمع ہو گئے ہیں اور وہی پرانا قصیدہ اول بار سے پڑھ رہے ہیں تو ہی اول ہے تو ہی آخر ہے تجھ جیسا نہ کوئی آیا نہ تیرے بعد کوئی آئے گا ۔ تو ملک کے لیے نا گزیر ہے تیرے بعد نہ جانے ملک کا کیاحال ہوگا ۔
سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ عوام کے ذہنوں میں منفی سوچ ہی کیوں پیدا ہوتی ہے سیدھی سی بات ہے کہ اگر کسی فرد کا جی چاہتا ہے کہ وہ ملک پر حکومت کر ے اور اگر وہ حکومت کرنے کے لیے نئے قوانین اور آئینی ترامیم کرتاہے تو عوام کے ذہنوں میں ہمیشہ یہ سو چ کیوں پیدا ہوتی ہے کہ اسے غلام بنایاجارہاہے اسے مزید بھوکا اوربھکاری بنایاجارہاہے۔ ملک میں نہ تو حکمرانوں کو عوام پریقین ہے اور نہ ہی عوام حکمرانوں پر یقین کرتے ہیں ۔
ہمارے ملک کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ہر حکمران نے ہمیشہ اختیارات حاصل کرنے کی جستجو کی ہے ۔عوام سے اس نے ہمیشہ اختیارات مانگے ہیں حالانکہ ہمارے ملک میں اختیارات تو ہمیشہ حکمرانوں کے پاس ہی رہے ہیں۔ عوام تو ہمیشہ بے چارے بے اختیار ہی رہے ہیں ہمارے ملک میں اختیارات حاصل کرنے کا ایسا اندھا کنواں ہے کہ جس کا پیٹ بھرتا ہی نہیں آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی حکمران نے عوام کے سامنے آکر یہ اعلان کیا ہوا کہ '' آج مجھے احساس ہوا ہے کہ میرے پاس بے انتہا اختیارات ہیں اور عوام بے اختیار ہے۔ لہذا آج میں اپنے تمام اختیارات عوام کو واپس لوٹا رہاہوں آج سے اختیار صرف عوام ہی کا ہوگا اور عوام کا ہی اختیار چلے گا ''۔
اصل میں عوام کے پاس اختیارات نہ ہونے کی وجہ سے ملک سیاسی، معاشی ، اور اخلاقی عدم استحکام کاشکار ہے ۔ بیروزگاری ، غربت ،بھوک، پریشانیاں ، جہالت ، مایوسیاں سب اس لیے ہمارے ملک میں عام ہیں کہ ہمارے عوام بے اختیار ہیں ۔ ترقی کرنے والے ممالک میں اختیار صرف عوام کے پاس ہوتاہے صرف اسی ملک میں خوشحالی آتی ہے جہاں کے عوام بااختیار ہوتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں عوام کے پاس اختیارات نہ ہونے کی وجہ سے ظلم ، ناانصافیاں ، محرومیاں عام ہیں ۔ ہمارے لوگ اندر ہی اندر سے کھو کھلے ہو ر ہے ہیں گھٹن بڑھتی جارہی ہے دکھ درد اور بدنصیبی کی تپش اتنی بڑھ گئی ہے کہ ایسا نہ ہو کہ ہمارے لوگ پگھل جائیں ۔
بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ امید پر دنیا قائم ہے لیکن ہمارے ملک کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ حاکمو ں پر امید قائم ہے ۔ جب ہمارے لوگ یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ملکو ں کے لوگوں کی زندگی کا معیار دیکھتے ہیں کہ وہ کس طرح زندگی کی آسائشوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں او ران کی زندگی کس قدر آرام اور سکون سے گزر رہی ہے تو پھر ہمارے لوگ احساس محرومی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ عوام کے دکھ درد کا اب مداوا ہونا چاہیے دلاسے ، امیدیں ، وعدے سن سن کر عوام اکتا چکے ہیں عوام کو وعدے ، امیدیں ، دلاسے لطیفوں سے زیادہ کچھ نہیں لگتے ہیں اور لطیفے بھی وہ جن پر ہنسی نہ آئے بلکہ الٹا رونا آئے اور جناب روتی قومیں ترقی نہیں کرتیں ۔
ہمارے حکمرانوں کو عوام کو زمین پر رینگنے والے کیڑے مکوڑوں کے بجائے جیتا جاگتا انسان سمجھنا ہوگا ۔ ان کو اہمیت دینی ہوگی انھیں خوشحال بنانا ہوگاانھیں بااختیار بنانا ہوگا۔ اختیارات تقسیم کرنے ہونگے ۔ بزرگوں کا کہنا ہے جو سو چ ذہن میں پیدا ہوتی ہے اس کی کاٹ دماغ کے ہی ذریعے ہوسکتی ہے لیکن جو سوال پیٹ کے اندر پیدا ہوتے ہیں ان کی کاٹ ہرگز ہرگز نہیں ہوسکتی ہے بلکہ وہ سوال اسوقت حل ہونگے جب پیٹ بھرے گا۔
ہم آخر یہ بات کیوں نہیں سمجھتے کہ کوئی چیز دنیا میں مستقل نہیں رہتی قدرت کا نظام ہے جو آیاہے وہ جائے گا بھی ۔ لہذا ہمیں یہ بات مد نظر رکھتے ہوئے انسانوں کی فلاح و بہود کے لیے کام کرنا چاہیے اور اپنی خاطر لوگوں کو دکھ درد دینے کے بجائے ان کے دکھ درد کم کرنے کے لیے کام کر نا چاہیے ۔ اصل میں حکمران اس وقت مضبوط ہوتے ہیں جب عوام بااختیار ، خوشحال ، آزاد اور پر سکون ہوتے ہیں جب حکمران اپنے مشیروں کے قصیدوں پر نہیں بلکہ عوام کے حالات اور واقعات پر گہر ی نظر رکھتے ہوں اور اختیارات اپنی ذات میں سمونے کے بجائے اس کی تقسیم پر یقین رکھتے ہوں ۔
بھوک،بیروزگاری،غلامی، گالیوں اورذلتوں میں کیوں گذر رہی ہے ۔ دنیاکے لوگ روزگار پر لگے ہیں ہم کیوں بیروزگار ہیں اور جو روزگار پر ہیں آخر کیوں انھیں بہانے بہانے سے روزگار سے نکالا جا رہا ہے ۔ سارے ملکوں میں اصل اختیارات عوام کے پاس ہیں لیکن وہ کیوں اختیارات سے محروم ہیں ۔ افسوس ہماری سو چ کس قدر منفی ہے۔ ہر آنے والا ہمیشہ جانے والے پر الزام لگاتا آیا ہے کہ فلاں کرپٹ تھا فلاں نے لوٹ مار کی، خزانہ خالی کرگئے لیکن اب ہم تمام معاملات صحیح کردیں گے ۔ حقیقی معنوں میںملک اور عوام میں خوشحالی لائیں گے اس سارے معاملے میں ہمارے عوام کی حالت یہ ہے کہ ''شب وروز ہوتا ہے تماشا میرے آگے ''وہ کس کی بات کو تسلیم کریں ، کسے سچا مانیں اس سارے کھیل اور تماشے میں وہ ہمیشہ ہی ہارتے آئے ہیں ، ہمیشہ ہی قلاش ہوئے ہیں ان کی قسمت کبھی نہیں بدلی ا ن کی جیت کبھی نہیں ہوئی ان کا کام صرف اورصرف تالیاں بجانا ، زندہ باد، مردہ باد کے نعر ے لگانا ، ہر آنے والے پر امیدیں باندھنا اور آخرکار پھر مایوس ہوجانا رہ گیا ہے ۔
ان کی بد نصیبی اور بد حالی روزبروز بڑھتی ہی چلی جارہی ہے ، ہمارے ملک میںہر حکمران کو اس کے مشیر روز صبح سویرے یہ نوید سناتے آئے ہیں کہ عوام آپ کی حکومت میں سکھ اور چین کی بانسری بجا رہے ہیں ۔ اس وقت ملک میں شیر اور بکر ی ایک گھاٹ سے پانی پی رہے ہیں ۔ عوام خوشحالی اور سکون کی نیند سو رہے ہیں ۔عوام کے سب مسئلے حل ہوگئے ہیں،عوام ہر وقت آپ کو ہزار سال جینے اور اقتدار میں رہنے کی دعائیں دے رہے ہیں عوام دعا کررہے ہیں کہ مزید اختیارات بھی آپ ہی کو حاصل ہوجائیں ۔ ملک میں ہر طرف خوشحالی اور سکون ہے صرف دوچار شرپسند شرپسندی کررہے ہیں ۔
عوام کوحکومت کے خلاف اکسانے کے لیے کام کررہے ہیں لیکن عوام ہیں کہ ان کی بات سننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں ۔ بلکہ عوام ان دو چار کا وجود بھی برداشت نہیں کر پارہے ہیں ۔ عوام ان دو چار شر پسندوں سے خود نمٹ لیں گے ۔ سر آپ صرف حکومت کیجیے بس صرف حکومت کیجیے ۔ ان دو چار شر پسندوں کی طرف دھیان مت دیجیے اس ملک میں آپ سے پہلے آپ جیسا نہ کوئی آیا ہے اور آپ کے بعد آپ جیسا نہ کوئی آئے گا ۔ آپ ہی عوام کی آخری امید ہیں ، آپ ہی ملک میں اول ہیں اورآپ ہی آخر ہیں ۔خدانخواستہ آپ چلے گئے تو ناجانے اس ملک کا کیا انجام ہوگا لیکن ایک روز جب وہ حکمران سابق ہوجاتے ہیں تو پھر انھیں احساس ہوتا ہے اپنے مشیروں کی شرارت کا ۔ پھر وہ '' سابق'' دیکھتے ہیں کہ اس کے ہی مشیر نئے آنے والے کے ارد گرد جمع ہو گئے ہیں اور وہی پرانا قصیدہ اول بار سے پڑھ رہے ہیں تو ہی اول ہے تو ہی آخر ہے تجھ جیسا نہ کوئی آیا نہ تیرے بعد کوئی آئے گا ۔ تو ملک کے لیے نا گزیر ہے تیرے بعد نہ جانے ملک کا کیاحال ہوگا ۔
سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ عوام کے ذہنوں میں منفی سوچ ہی کیوں پیدا ہوتی ہے سیدھی سی بات ہے کہ اگر کسی فرد کا جی چاہتا ہے کہ وہ ملک پر حکومت کر ے اور اگر وہ حکومت کرنے کے لیے نئے قوانین اور آئینی ترامیم کرتاہے تو عوام کے ذہنوں میں ہمیشہ یہ سو چ کیوں پیدا ہوتی ہے کہ اسے غلام بنایاجارہاہے اسے مزید بھوکا اوربھکاری بنایاجارہاہے۔ ملک میں نہ تو حکمرانوں کو عوام پریقین ہے اور نہ ہی عوام حکمرانوں پر یقین کرتے ہیں ۔
ہمارے ملک کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ہر حکمران نے ہمیشہ اختیارات حاصل کرنے کی جستجو کی ہے ۔عوام سے اس نے ہمیشہ اختیارات مانگے ہیں حالانکہ ہمارے ملک میں اختیارات تو ہمیشہ حکمرانوں کے پاس ہی رہے ہیں۔ عوام تو ہمیشہ بے چارے بے اختیار ہی رہے ہیں ہمارے ملک میں اختیارات حاصل کرنے کا ایسا اندھا کنواں ہے کہ جس کا پیٹ بھرتا ہی نہیں آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی حکمران نے عوام کے سامنے آکر یہ اعلان کیا ہوا کہ '' آج مجھے احساس ہوا ہے کہ میرے پاس بے انتہا اختیارات ہیں اور عوام بے اختیار ہے۔ لہذا آج میں اپنے تمام اختیارات عوام کو واپس لوٹا رہاہوں آج سے اختیار صرف عوام ہی کا ہوگا اور عوام کا ہی اختیار چلے گا ''۔
اصل میں عوام کے پاس اختیارات نہ ہونے کی وجہ سے ملک سیاسی، معاشی ، اور اخلاقی عدم استحکام کاشکار ہے ۔ بیروزگاری ، غربت ،بھوک، پریشانیاں ، جہالت ، مایوسیاں سب اس لیے ہمارے ملک میں عام ہیں کہ ہمارے عوام بے اختیار ہیں ۔ ترقی کرنے والے ممالک میں اختیار صرف عوام کے پاس ہوتاہے صرف اسی ملک میں خوشحالی آتی ہے جہاں کے عوام بااختیار ہوتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں عوام کے پاس اختیارات نہ ہونے کی وجہ سے ظلم ، ناانصافیاں ، محرومیاں عام ہیں ۔ ہمارے لوگ اندر ہی اندر سے کھو کھلے ہو ر ہے ہیں گھٹن بڑھتی جارہی ہے دکھ درد اور بدنصیبی کی تپش اتنی بڑھ گئی ہے کہ ایسا نہ ہو کہ ہمارے لوگ پگھل جائیں ۔
بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ امید پر دنیا قائم ہے لیکن ہمارے ملک کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ حاکمو ں پر امید قائم ہے ۔ جب ہمارے لوگ یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ملکو ں کے لوگوں کی زندگی کا معیار دیکھتے ہیں کہ وہ کس طرح زندگی کی آسائشوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں او ران کی زندگی کس قدر آرام اور سکون سے گزر رہی ہے تو پھر ہمارے لوگ احساس محرومی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ عوام کے دکھ درد کا اب مداوا ہونا چاہیے دلاسے ، امیدیں ، وعدے سن سن کر عوام اکتا چکے ہیں عوام کو وعدے ، امیدیں ، دلاسے لطیفوں سے زیادہ کچھ نہیں لگتے ہیں اور لطیفے بھی وہ جن پر ہنسی نہ آئے بلکہ الٹا رونا آئے اور جناب روتی قومیں ترقی نہیں کرتیں ۔
ہمارے حکمرانوں کو عوام کو زمین پر رینگنے والے کیڑے مکوڑوں کے بجائے جیتا جاگتا انسان سمجھنا ہوگا ۔ ان کو اہمیت دینی ہوگی انھیں خوشحال بنانا ہوگاانھیں بااختیار بنانا ہوگا۔ اختیارات تقسیم کرنے ہونگے ۔ بزرگوں کا کہنا ہے جو سو چ ذہن میں پیدا ہوتی ہے اس کی کاٹ دماغ کے ہی ذریعے ہوسکتی ہے لیکن جو سوال پیٹ کے اندر پیدا ہوتے ہیں ان کی کاٹ ہرگز ہرگز نہیں ہوسکتی ہے بلکہ وہ سوال اسوقت حل ہونگے جب پیٹ بھرے گا۔
ہم آخر یہ بات کیوں نہیں سمجھتے کہ کوئی چیز دنیا میں مستقل نہیں رہتی قدرت کا نظام ہے جو آیاہے وہ جائے گا بھی ۔ لہذا ہمیں یہ بات مد نظر رکھتے ہوئے انسانوں کی فلاح و بہود کے لیے کام کرنا چاہیے اور اپنی خاطر لوگوں کو دکھ درد دینے کے بجائے ان کے دکھ درد کم کرنے کے لیے کام کر نا چاہیے ۔ اصل میں حکمران اس وقت مضبوط ہوتے ہیں جب عوام بااختیار ، خوشحال ، آزاد اور پر سکون ہوتے ہیں جب حکمران اپنے مشیروں کے قصیدوں پر نہیں بلکہ عوام کے حالات اور واقعات پر گہر ی نظر رکھتے ہوں اور اختیارات اپنی ذات میں سمونے کے بجائے اس کی تقسیم پر یقین رکھتے ہوں ۔