سیلاب متاثرین کی امداد
انگریزوں نے دریائے چناب سے جو نہر نکالی اسے اپر چناب کا نام دیا گیا...
برطانوی دور حکومت میں پنجاب کی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے پنجاب میں واقع دریاؤں سے نہریں نکالی گئیں، جس میں سے نہر اپرباری دواب اور لوئر باری دواب جوکہ دریائے راوی سے نکالی گئی ہیں۔ حالیہ سیلاب کے دوران سب سے زیادہ نقصان دریائے چناب میں طغیانی کے باعث ہوا۔
دریائے چناب سے نکالی جانے والی نہروں نے بپھر کر زمینوں کو سیراب کرنے کے بجائے کھیتوں اور فصلوں کو تباہ کرنا شروع کردیا، اس کے ساتھ ہی وہ کاشتکار جوکہ ان زمینوں کو آباد کر رہے تھے ان کے گاؤں دیہات میں واقع کچے گھروں کو زمین بوس کرنے کے ساتھ ان کے مال مویشی بھی اس سیلابی پانی کا مقابلہ نہ کرسکے۔ انگریزوں نے دریائے چناب سے جو نہر نکالی اسے اپر چناب کا نام دیا گیا، یہ نہر مرالہ ضلع سیالکوٹ کے مقام سے نکلنے کے بعد اردگرد کے دیگر اضلاع گوجرانوالہ، شیخوپورہ کے لاکھوں ایکڑ رقبے کو سیراب کرتی ہوئی بلوکی کے مقام پر دریائے راوی پر آکر گرتی ہے جب کہ بلوکی کے مقام سے ہی نہر لوئرباری دواب جو ضلع ساہیوال اور ملتان کے وسیع رقبے کو سیراب کرتی ہے۔ دریائے چناب میں سے خانکی کے مقام سے ایک اور نہر نکالی گئی تھی جو نہر لوئر چناب ہے جوکہ فیصل آباد اور جھنگ کے تیس لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے کو سیراب کرتی ہے۔
دریائے چناب میں خانکی کے مقام پر ایک اور نہر گرتی ہے جسے نہر اپر جہلم کہا جاتا ہے۔ اس نہر کے ذریعے نہر لوئر چناب کو پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ پنجاب میں 1905 سے 1917 نہر اپر جہلم اور لوئر باری دواب جسے انہار ثلاثہ بھی کہا جاتا ہے، تعمیر کی گئی۔ برطانوی عہد میں کچھ ایسا انتظام کیا گیا کہ نہروں کی مدد سے دریائے جہلم کا پانی دریائے چناب میں ڈالا گیا اور پھر دریائے چناب کا پانی دریائے راوی میں ڈال کر آبپاشی کے لیے نہروں کے ذریعے پانی فراہم کیا جاتا تھا۔
قیام پاکستان کے بعد جب بھارت نے پاکستان کی جانب آنے والے دریاؤں کا پانی کسی طرح کنٹرول کرلیا کہ خاص طور پر دریائے ستلج کا پانی بھارت گھٹا دیتا رہا ہے، لہٰذا یہ فیصلہ کیا گیا کہ ستلج کی وادی کی نہروں کو پانی کی قلت دور کرنے کے لیے دریائے چناب اور راوی کا پانی مرالہ لنک اور بلوکی سلیمانکی لنک کے ذریعے دریائے ستلج میں ڈالا جائے۔ 1960 میں سندھ طاس منصوبہ جوکہ اپنی نوعیت کا دنیا کا سب سے بڑا منصوبہ ہے، اس منصوبے کے تحت دریائے ستلج بیاس راوی بند سے پاکستان دستبردار ہوگیا۔ البتہ جہلم سندھ اور چناب پاکستان کے حصے میں آئے۔ ان تینوں دریاؤں سے رابطہ نہریں نکالی گئیں تاکہ پانی کی کمی کو پورا کیا جائے۔
اس سمجھوتے کے بعد تربیلا بند کے مکمل ہونے کے بعد کوئی اور بڑا قابل ذکر ڈیم تعمیر نہیں کیا جاسکا۔ 2010 میں آنے والے سیلاب کے نتیجے میں جو تباہی ہوئی آیندہ کے لیے اس سے بچنے کی رپورٹ پیش کی گئی تھی لیکن تاحال اس پر عملدرآمد کے لیے کسی قسم کا عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اگر اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ گزشتہ سال وفاقی حکومت کی جانب سے واٹر سیکٹر کے تحت جو پراجیکٹ زیرتکمیل تھے وہ زیادہ تر سندھ پھر بلوچستان اور ایک پراجیکٹ صوبہ کے پی کے اور ایک منصوبہ اسکردو میں زیرتکمیل ہے۔ ان میں سے زیادہ تر منصوبے 50 فیصد تا 80 فیصد مکمل ہوچکے ہیں۔
لہٰذا وفاقی حکومت کی جانب سے پنجاب میں واٹر سیکٹر میں کوئی قابل ذکر پراجیکٹ نظر سے نہیں گزرا۔ جب کہ پنجاب کو اب سیلاب کی صورتحال سے مسلسل گزرنا پڑ رہا ہے، عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث گلیشیئر کے پگھلنے کی رفتار بڑھ گئی ہے کیونکہ درجہ حرارت میں 5 یا6 درجے کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ بارشوں کا سلسلہ بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ چونکہ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کے بعد سے مسلسل ڈیمز بنانے شروع کردیے ہیں لہٰذا وہ دانستہ اور نادانستہ پاکستان کی جانب پانی چھوڑ دیتا ہے۔ جس کے باعث پنجاب اور سندھ کے علاوہ بلوچستان کے چند اضلاع میں بھی سیلاب آجاتا ہے۔ جس سے زرعی ترقی شدید متاثر ہوجاتی ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے ناطے زراعت کی بے حد اہمیت ہے۔ ملک کے کل GDP کا 21 فیصد حصہ زراعت سے حاصل ہوتا ہے اور پاکستان کی کل لیبر فورس کا 43.7 فیصد حصہ زرعی شعبے میں کھپایا جاتا ہے۔ 2013-14 کے دوران زرعی شعبہ کی شرح افزائش 2.1 فیصد تھی، جب کہ گزشتہ سال شرح افزائش زائد تھی یعنی 29 فیصد۔ زرعی شعبے کے مختلف فصلوں کی 2013-14 کے دوران گروتھ کچھ اس طرح رہیں کہ کاٹن گروتھ 2 فیصد اور شوگر کین کی شرح افزائش 4.25 فیصد رہی۔ 2013-14 کے دوران چاول کی پیداوار میں خاص اضافہ ہوا، بعض ماہرین نے 20 فیصد تک اضافہ قرار دیا ہے البتہ لائیو اسٹاک کی مجموعی شرح افزائش 2.88 فیصد نوٹ کی گئی۔
حالیہ سیلاب کے باعث خریف کی فصلوں کا نقصان ہوا ہے۔ اپریل تا ستمبر تک کے لیے جو فصل بوئی جاتی ہے اسے خریف فصل کہتے ہیں جس میں گنا، چاول اور کاٹن سب سے زیادہ قابل ذکر ہے۔ پنجاب کے جن علاقوں میں سیلاب آیا ہے وہاں یہی تینوں فصلیں بوئی گئی تھیں۔ یہ وہ فصلیں ہیں جن میں کھاد کا بھی بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ نیز بیجوں کی لاگت، کھاد کا استعمال اور جو مال مویشی ضایع ہوئے ہیں ان کا نقصان، اس کے علاوہ چھوٹے کاشتکاروں کے علاوہ گاؤں دیہات میں رہنے والے لوگوں کے کچے گھر یا پھر جن مکانوں کو نقصان پہنچا ہے ان تمام کو شامل کرلیا جائے تو ان نہری علاقوں کے اردگرد رہنے والے افراد شدید متاثر ہوئے ہیں۔
جہاں تک خریف کی فصل کے لیے کھاد کا استعمال ہوا ہے تو بتایا جاتا ہے کہ 2013-14 کے دوران 29 لاکھ ٹن یوریا کھاد کا استعمال ہوا ہے اور DAP کھاد کی مقدار استعمال 6 لاکھ 16 ہزار ٹن بتایا جاتا ہے۔ اسی طرح ان نہری علاقوں کے رہنے والے شہریوں اور کاشتکاروں کا شدید نقصان ہوا ہے۔ اس نقصان میں مال مویشی کا نقصان پھر زمین کی تیاری اس میں بیج بونا، کیڑے مار ادویات کا استعمال، کھاد کا بڑے پیمانے پر استعمال، ٹریکٹر اور دیگر مشینری کا خرچہ، ڈیزل پٹرول وغیرہ کے اخراجات اس کے علاوہ مکانوں کے جزوی یا کلی طور پر ڈھے جانے کا نقصان، گھر کا سازو سامان کا نقصان، ان تمام کا اندازہ لگایا جائے پھر بھی اوسط نقصان نہیں بتایا جاسکتا۔
اتنا کہہ سکتے ہیں کہ ان غریب افراد کو فی گھرانہ کم ازکم 10 سے 15 لاکھ کا نقصان لازماً ہوا ہے۔ لیکن حکومت کی طرف سے جو اعلانات امداد کے لیے کیے جا رہے ہیں اور گزشتہ سیلابوں کے نتیجے میں جو اعلانات کیے گئے اور پھر ان کو جس طرح انتہائی قلیل معاوضہ دیا گیا یا کسی کو کچھ نہیں ملا۔ یہ سب بدانتظامی یا بیڈ گورننس یا حکام کے تساہل، صحیح ڈیٹا دستیاب نہ ہونا، بروقت اور فوری سروے نہ کرپانا اور دیگر بہت سی وجوہات کی بنا پر اصل حقدار کو اپنے نقصان سے کہیں بہت ہی کم معاوضہ حاصل ہوتا ہے۔
لہٰذا حکمران اپنے اعلانات کو صحیح اور عملی طور پر نافذ کرنے کے لیے ایسے انتظامات کریں جس سے نتائج پچھلے سال کی طرح برآمد نہ ہوں بلکہ تمام متاثرین، تمام متاثر کاشتکاروں، محنت کشوں اور غریبوں کی جائز اور مناسب مالی امداد کو یقینی بنایا جائے، اس کے ساتھ ہی متاثر ہونے والی نہروں کی دوبارہ مرمت کے علاوہ واٹر سیکٹر پراجیکٹ کے لیے رقوم خرچ کی جائیں تاکہ آیندہ کے لیے سیلاب سے بچاؤ ممکن ہوسکے۔