دنیا بھر سے اقوام متحدہ کی موجودگی میں بھی امن ناپید

اقوام متحدہ کو یہ بات یقینی بنانی ہوگی کہ کوئی ملک دوسرے ممالک میں امن خراب کرنے کی کوشش نہ کرسکے۔


سہیل اقبال خان September 21, 2014
اگرچہ اقوام متحدہ آج کے دن کو امن سے منسوب کرتی ہے مگر اِس کے باوجود عالمی برادری کو امن کے لئے اپنی کوششوں کو مزید تیز کرنا ہو گا کہ ساری کوششوں کے باوجود دنیا میں جہاں دیکھا جائے جنگ کا ماحول ہے پھر چاہے بات شام کی ہو یا پھر یوکرین کی، عراق کی ہو یا پھر افغانستان کی۔ فوٹو: فائل

21ستمبر، امن کا عالمی دن ہے،ہر سال کی طرح اس سال بھی 2 پوری دنیا میں منایا جا رہا ہے۔ جس کا مقصد قوموں میں امن سے متعلق شعور اور امن کی اہمیت کو پوری دنیا میں اجاگر کرنا ہے۔ اقوام متحدہ نے دنیا میں امن کے قیائم اور امن کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے1981ء میں یہ فیصلہ کیا کہ پوری دنیا میں ستمبر کے تیسرے ہفتے میں امن کا عالمی دن منایا جائے گا،بعد میں ستمبر کے تیسرے ہفتے کی بجائے 21ستمبر کا دن امن کے لئے مختص کیا گیا،اور یوں1981ء میں پہلی بار اقوام متحدہ کی جانب سے پوری دنیا میں امن کا عالمی دن منایا گیا۔

امن کی سرحدیں کسی ایک ملک،ریاست یا قوم تک محدود نہیں ہیں،امن ہر معاشرے،قوم اور ریاست کےآج سے نہیں بلکہ بالکل ابتدا سے ایک ناگزیر شہ ہے اور اِس کو قائم رکھنا کسی ایک ملک کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر قوم پر لازم ہے۔دنیا میں کوئی بھی ملک یا قوم اگر جنگ اور بدامنی سے اپنے مفادات حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو یہ اس ملک کی ایک بڑی بھول ہےکیونکہ اگر وہ آج کسی ملک کے حالات خراب کرنے کی متمنی ہے تو پھر وہ وقت بھی جلد آپہنچا ہے جب اُن کے اپنے گھر میں آگ لگ جائے۔ اِس لیے اگر امن کو ہر ایک ملک ،قوم آج کے دور میں اپنے لئے ایک ضرورت سمجھ لے تو یہی ترقی کا ایک اہم ذریعہ بن سکتی ہے ۔

اِس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جن ممالک میں امن کو اہمیت نہیں دی جاتی،ان ممالک کے اندر ایک انتشار کی لہر پیدا ہو جاتی ہے،جسے اکثر اواقات ختم کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہو جاتا ہے۔

اگر چہ اقوام متحدہ عملی طور پر دنیا میں امن قائم کرنے میں ناکام نظر آتی ہے مگر تحریری طور پر اور اداروں کے قیام کی حد تک اِس نے بڑا کام کیا ہے جیسے پولیٹیکل آفئیر،پیس کیپنگ آپریشن،ڈیس آرمامنٹ آفئیر،ڈرگس اینڈ کرائم،فیلڈ سپورٹ،پیس اینڈ سکیورٹی،یو این سپورٹ آن ڈویلپمنٹ اینڈپیس جیسے اداروں کا قیام شامل ہے۔ بنیادی طور پر ان اداروں کے قیام کا مقصد عالمی سطح پر ہر شعبہ جات میں امن کے لئے کوششوں کو یقینی بنانا تھا مگر افسوس کہ یہ نہ ہوسکا اور آج دنیا میں جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا رواج قائم ہے۔

جن ممالک میں امن کی بجائے خانہ جنگی ہے وہاں اقوام متحدہ دوسرے ممالک کے تعاون سے فوجی دستے بھیجتی ہے،جن کا مقصد ان ممالک کو خانہ جنگی سے بچانا اور امن قائم کرنا ہے۔اقوام متحدہ اس وقت بھی مختلف ممالک میں ان کا مشن قائم رکھے ہوئے ہیں ،جن میں لبنان،کوسوو،لیبیریا،مالی،افغانستان سمیت دیگر ممالک شامل ہیں۔اقوام متحدہ کی ان کوششوں میں پاکستان بھی سالوں سے ساتھ ہے،پاک فوج کے گئی دستے اقوام متحدہ کے امن مشن پر بھیجے جا چکے ہیں۔جہنوں نے اقوام متحدہ کے امن مشن کو کامیاب بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔پاک فوج جن ممالک میں امن کے لئے اپنی خدمات پیش کر چکی ہے ان میں کانگو،لیبیریا،کوسوو سمیت دیگر ممالک شامل ہیں۔افواج پاکستان نے نہ صرف ان کے لئے اقوام متحدہ کا ساتھ دیا،بلکہ امن کے ساتھ ساتھ ان ممالک میں ڈویلپمنٹ کے لئے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔اقوام متحدہ کے امن سمیت دیگر مشنز میں پاک فوج کے 128کے قریب جوانوں نے اپنی جانیں پیش کیں۔اس طرح پاکستان کا عالمی سطح پر خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔امن کی خاطر پاکستان ہمیشہ سب سے آگے نظر آیا ہے،پاکستان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر امن کے لئے پاکستان سب سے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرے۔

میرا ذاتی خیال ہے کہ عالمی برادری کو آج کے دور میں امن کے لئے اپنی کوششوں کو مزید تیز کرنا ہو گا،کیونکہ موجودہ دور میں امن کا قیام پہلے سے کئی زیادہ بڑھ چکا ہے کہ دنیا میں جہاں دیکھا جائے جنگ کا ماحول ہے پھر چاہے بات شام کی ہو یا پھر یوکرین کی، عراق کی ہو یا پھر افغانستان کی ۔

اقوام متحدہ کو آج کے دور میں یہ کوششیں کرنی ہوں گی کہ کسی ملک میں امن کو خراب کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی۔کشمیر جیسے مسائل جہاں بھارت فوجی طاقت کے استعمال سے کشمیر کے امن کو خراب کیے ہوئے ہے،اقوام متحدہ کو نوٹس لے کر ان ممالک میں امن کے لئے سنجیدہ کوششیں کرنی ہوں گی۔تب ہی دنیا میں اقوام متحدہ کااصل مشن کامیاب ہو سکتا ہے۔ورنہ عالمی امن کے وہ مقاصد حاصل کرنا مشکل ہوں گئے جو اقوام متحدہ حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔