کے الیکٹرک کی نااہلی ہائی وولٹیج سے لاکھوں روپے کے قیمتی برقی آلات جل گئے

یونیورسٹی ایمپلائز سوسائٹی میں3دن سے وولٹیج کی کمی بیشی جمعہ کی شب اچانک500وولٹ ہوگئی، گھروں میں برقی آلات خراب ہوگئے


Staff Reporter September 21, 2014
کے الیکٹرک کا عملہ ایک فیز ٹھیک کرسکا، 2 فیز خراب چھوڑدیے گئے، مکینوں نے ہفتہ کو پرائیویٹ الیکٹریشن بلواکر 2 فیز ٹھیک کرائے۔ فوٹو: فائل

کے الیکٹرک کی غفلت کے باعث کراچی یونیورسٹی ایمپلائز ہاؤسنگ سوسائٹی میں ہائی وولٹیج کے سبب قیمتی برقی آلات جل گئے۔

تفصیلات کے مطابق جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب گلزار ہجری سیکٹر 18-A میں واقع کراچی یونیورسٹی ایمپلائزکوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی میں ہائی وولٹیج سے شہریوں کے لاکھوں روپے مالیت کے قیمتی برقی آلات خراب ہوگئے جن میں ٹیلی ویژن، ٹی وی ایل سی ڈیز و ایل ای ڈیز، فریج ، ریفریجریٹرز، واشنگ مشین ، پانی کی موٹریں، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ ، پنکھے، انٹرنیٹ ڈیوائس، کارڈلیس ٹیلی فون، ایمرجنسی چارجنگ لائٹس، موبائل فون چارجر، انرجی سیور شامل ہیں۔

شہریوں نے بتایا کہ گزشتہ 3 دن سے وولٹیج کی کمی بیشی جاری ہے جس کی کے الیکٹرک کے شکایتی مرکز پر شکایات درج کرادی تھی لیکن کے الیکٹرک کا عملہ آیا اور دیکھ کر واپس چلا گیا جس کے بعد اچانک وو لٹیج 500 وولٹ تک پہنچ گیا جس سے ان کے قیمتی برقی آلات جل گئے واقعے کے بعد بھی کے الیکٹرک کا عملہ صرف ایک فیز کا وولٹیج صحیح کرسکا تاہم کے الیکٹرک کا عملہ 2 فیز کا وولٹیج صحیح کیے بغیر واپس چلا گیا اور ہفتے کی صبح انھوں نے ذاتی طور پر پرائیویٹ الیکٹریشن کو بلواکر دیگر فیز ٹھیک کرائے۔

انھوں نے بتایا کہ شہری پہلے ہی کے الیکٹرک کی جانب سے بھیجے جانیوالے اضافی بلوں سے پریشان تھے لیکن اب کے الیکٹرک کے افسران کی نا اہلی اور مجرمانہ غفلت کے باعث وہ اپنے گھروں میں موجود قیمتی برقی آلات سے بھی ہاتھ دھوبیٹھے ہیں انھوں نے بتایا کہ اگر کے الیکٹرک کا عملہ شکایات پر عمل کرلیتا تو اتنے بڑے نقصان سے بچا جاسکتا تھا۔

کراچی یونیورسٹی سوسائٹی میں رہائش پذیر تمام افراد کے الیکٹرک کو بروقت بل کی ادائیگی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود سوسائٹی میں لوڈشیڈنگ شہر کے دیگر علاقوں سے زیادہ ہے متاثر افراد نے گورنر سندھ، وزیر اعلیٰ اور دیگر اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ کے الیکٹرک کے عملے اور افسران کی نا اہلی کے باعث ہونے والے نقصان کو پورا کرنے کیلیے کے الیکٹرک کو پابند بنایا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں