واحد حل
توہین آمیز فلم نے عالم اسلام کو ہلا دیا، پھر اس کی دھمک نے یورپ اور امریکا کو بھی سہما ڈالا۔
PESHAWAR:
توہین آمیز فلم نے عالم اسلام کو ہلا دیا، پھر اس کی دھمک نے یورپ اور امریکا کو بھی سہما ڈالا۔
اس معاملے میں مسلمان دنیا کو صدر اوباما کی تقریر کا شدت سے انتظار تھا جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے پروگرام میں شامل تھی۔گذشتہ روز یہ تقریر ہوئی لیکن اس میں سب کچھ تھا سوائے اس کے جو ہونا چاہیے تھا اور جس کا مسلمانوں کو انتظار تھا۔
اوباما نے کہا ''اس فلم سے امریکا کی بھی توہین ہوئی ہے۔ ہم اس گستاخانہ فلم کی مذمت کرتے ہیں، اس سے مسلمانوں میں بے چینی پیدا ہوئی لیکن یہ فلم پر تشدد مظاہروں کا جواز نہیں بن سکتی۔'' گستاخانہ فلم کی مذمت پر تین تالیاں لیکن کیا اس کی تعریف کی بھی کوئی گنجائش تھی؟ مذمت تو پہلے بھی دنیا بھر میں ہو رہی تھی۔
مسلمان ملکوں نے یہ مطالبہ تو کبھی کیا ہی نہیں تھا کہ صدر اوباما اپنی زبان سے مذمت کر کے دکھائیں۔ مسلمانوں کا مطالبہ تو یہ ہے کہ نہ صرف اس گستاخانہ اور بیہودہ فلم پر پابندی لگا کر اس کے بنانے والوں کو پکڑا جائے بلکہ ایسی قانون سازی کی جائے جس کی رو سے محض پیغمبر اسلامؐ ہی نہیں، تمام مذاہب کے پیغمبروں اور بانیوں کی توہین کو جرم قرار دیا جائے۔
یہ کوئی انوکھا مطالبہ نہیں ہے۔ دنیا کے ہر قانون میں دوسرے لوگوں کے مذہبی جذبات کو مجروح یا مشتعل کرنا جرم ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ مغربی ممالک میں بانیان مذاہب کی توہین سے مجروح ہونے والے جذبات اس قانون سے باہر رکھے گئے ہیں۔
ہٹلر نے یہودیوں کا قتل عام کیا۔ یہودیوں کا کہنا ہے کہ چالیس پنتالیس لاکھ یہودی مارے گئے تھے۔ بے شمار مورخوں اور تحقیق کرنے والوں نے ثابت کیا کہ مرنے والوں کی تعداد اتنی نہیں تھی۔ ان اعداد و شمار میں حقیقت کم اور مبالغہ زیادہ ہے۔
یورپ اور امریکا کی حکومتوں اور با اثر طبقوں کا خیال تھا کہ اس معاملے میں حقائق سامنے لانے سے یہودیوں کی دلآزاری ہوتی تھی۔ اگرچہ یہ منطق سمجھ سے بالاتر ہے کہ خالصتاً اعداد و شمار کی کہانی میں ترمیم و اضافے سے کسی کے جذبات مجروح ہونے کا تعلق ہو سکتا ہے لیکن اس کے باوجود اس ''دلآزاری'' کی سخت سزا رکھی گئی اور اس کا اتنا پاس کیا گیا کہ آج تک کبھی کسی ''مجرم'' سے رعایت نہیں برتی گئی۔ جرمنی اور پولینڈ میں کیے گئے۔
اس قتل عام کو ''ہولو کاسٹ'' کہا جاتا ہے اور وزیر اعظم پاکستان پرویز اشرف نے بجا طور پر یہ سوال اٹھایا کہ ''ہولو کاسٹ'' کے اعداد و شمار میں کمی بیشی کا ذکرجرم ہے تو ایک ایسی ہستی کی توہین کیوں جرم نہیں جن کو اربوں افراد اپنی عقیدت اور محبت کا مرکز سمجھتے ہیں۔
اوباما نے اپنی تقریر میں توہین آمیز فلم کی مذمت صرف اس ایک جملے میں کی کہ یہ صرف مسلمانوں ہی نہیں، امریکا کی بھی توہین ہے لیکن ان کی تقریر کا باقی تمام حصہ جو اس اِشو سے متعلق تھا، امریکیوں پر ہونے والے حملوں اور پرتشدد مظاہروں کی مذمت کے لیے وقف تھا۔
انھوں نے بار بار کہا کہ کوئی فلم یا کوئی تقریر پرتشدد مظاہروں کا جواز نہیں بن سکتی اور پرتشدد مظاہرے برداشت نہیں کیے جائیں گے۔ تقریر سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں فلم پر تو زیادہ افسوس نہیں لیکن اس بات پر ان کا غصہ بے پناہ حد تک بھڑک اٹھا ہے کہ امریکاکے خلاف پُرتشدد مظاہرے کیوں ہوئے۔
ہو سکتا ہے ان کے اس اشتعال کی وجہ آئندہ امریکی انتخابات ہوں اور وہ اپنے ووٹروں کو پیغام دینا چاہتے ہوں کہ امریکی مفادات پر حملوں سے ان کی غیرت کسی بھی دوسرے امریکی سے زیادہ بھڑکتی ہے۔ اس لیے عوام دوسری مدت کے لیے بھی ان پر اعتماد کریں۔ شاید وہ یہ احساس نہیں کر رہے یا کرنا نہیں چاہتے کہ ان کی حکومت صرف امریکا کی حکومت نہیں ہے بلکہ ساری دنیا کی حکومت ہے، بالخصوص مسلمان دنیا، آبادی کے مجموعی اعتبار سے دیکھا جائے تو امریکا کی رعایا کا سب سے بڑا حصہ مسلمان ہی ہیں۔
اوباما نے اپنی رعایا کے پرتشدد مظاہروں کی مذمت تو کی لیکن یہ نہیں دیکھا کہ اس رعایا کو کتنا دکھ پہنچا ہے۔ معاملہ صرف دکھ تک محدود نہیں امریکا کی مسلمان رعایا میں ایسی فلموں، تقریروں یا کارٹونوں کی وجہ سے جو ردعمل اٹھا ہے، اس کے نتیجے میں امریکا کی وفادار حکومتوں کیلیے کیسی کیسی مشکلات اٹھ کھڑی ہوئی ہیں' اوباما کو اس کا خیال بھی رکھنا چاہیے تھا۔
مسلمانوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ انصاف کیلیے انھیں آخر کار امریکا ہی کا در کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔ مسلمان حکومتیں اس لیے کمزور ہیں کہ ان کے ملک اور نظام کمزور ہیں۔ موجودہ صنعتی دنیا میں مسلمان دنیا کا کوئی ملک قابل ذکر نہیں ہے جبکہ صنعت ایک بڑا ہتھیار ہے۔
مسلمان ملکوں میں زیادہ تر حکومتیں غیر جمہوری ہیں اور جہاں جہاں جمہوری حکومتیں ہیں، وہ فوج کی ماتحت یا اتنی کرپٹ ہیں کہ ان کی کوئی ساکھ ہی نہیں۔ جبکہ بھارت یا ہندوئوں کی معمولی سی مذہبی توہین ہو تو وہ تجارتی تعلقات توڑنے کی دھمکی دے کر امریکا سے اپنی مرضی کی معافی منگوا سکتا ہے۔
مسلمان ممالک اول تو ایسی دھمکی دینے کی پوزیشن ہی میں نہیں اور اگر تجارتی تعلقات توڑ لیں تو امریکا کا نقصان کم اور اپنا زیادہ کر لیں گے۔ امریکی یا یورپی درآمدات نہ ہوں تو ان کی مارکیٹیں ویران ہو جائیں گی اور ان کے اپنے ''پوش'' طبقات ہی حکومت کے خلاف بغاوت کریں گے۔ رہا غریب تو اسے درآمدات سے کیا غرض وہ تو ملکی صنعت کا مال خریدنے کی بھی ہمت نہیں رکھتا۔
اس المیے کا ایک سطری خلاصہ یہ ہے کہ عالمی معاشرے میں مسلمان حکومتوں کی طاقت بھی بس اتنی ہی ہے جتنی مسلمان ملکوں میں غریب کو حاصل ہے، یہ ''غریب حکومتیں'' توہین آمیز حملوں کے جواب میں بس اتنا ہی کر سکتی ہیں جو وہ کر رہی ہیں۔
یعنی ''احتجاجی خود سوزی '' مسلمان ممالک یا تو کہیں سے طاقتور ہونے کا نسخہ لیں یا پھر اس مار کو صبر کے ساتھ برداشت کریں جو انھیں نہ جانے کب سے پڑ رہی ہے اور نہ جانے کب تک پڑتی رہے گی۔ عوام کی غیرت و حمیت قابل تعریف مگر یہ بھی تو دیکھ لیں کہ ان کے چوکیداروں کے ہاتھوں میں دیمک زدہ عصا کے سوا کچھ نہیں جبکہ دشمنوں کا اسلحہ خانہ ایک سے بڑھ کر ایک تباہ کن اور طاقتور ہتھیاروں سے بھرا پڑا ہے۔
امریکا اور یورپ سے پیغمبر اسلامؐ کے بارے میں گستاخی پر مبنی فلمیں اور مواد مسلسل منظر عام پر آتا رہتا ہے۔ ہر گستاخی پر مسلمانوں کا ردعمل پرتشدد ہوتا ہے حالانکہ اس کا نقصان عام طور پر احتجاج کرنے والوں کے ملکوں کا ہی ہوتا ہے، یہ موقع ہے کہ اس بار لیبیا میں امریکی سفیر بھی احتجاجی ہنگامے میں مارے گئے۔کوئی عملی اقدامات کرنے کے بجائے صدر اوباما کے اس ایک جملے میں کہ گستاخانہ فلم سے امریکا کی بھی توہین ہوئی ہے۔
آئندہ کے لیے کوئی پیغام ہے نہ ہی آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی لائحہ عمل ہے۔ اس مسئلے کا کوئی حل صرف اسی صورت میں نکل سکتا ہے کہ صدر آصف زرداری کی تقریر میں شامل اس مطالبے پر مغربی دنیا سنجیدگی سے غور کرکے عمل کرے جس میں کہا گیا کہ اقوام متحدہ گستاخانہ فلم جیسے عمل کو جرم قرار دے۔ یہی وہ واحد حل ہے جس سے آئندہ کے لیے گستاخی پر مبنی فلموں اور مواد کے سامنے بند باندھا جا سکتا ہے۔
توہین آمیز فلم نے عالم اسلام کو ہلا دیا، پھر اس کی دھمک نے یورپ اور امریکا کو بھی سہما ڈالا۔
اس معاملے میں مسلمان دنیا کو صدر اوباما کی تقریر کا شدت سے انتظار تھا جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے پروگرام میں شامل تھی۔گذشتہ روز یہ تقریر ہوئی لیکن اس میں سب کچھ تھا سوائے اس کے جو ہونا چاہیے تھا اور جس کا مسلمانوں کو انتظار تھا۔
اوباما نے کہا ''اس فلم سے امریکا کی بھی توہین ہوئی ہے۔ ہم اس گستاخانہ فلم کی مذمت کرتے ہیں، اس سے مسلمانوں میں بے چینی پیدا ہوئی لیکن یہ فلم پر تشدد مظاہروں کا جواز نہیں بن سکتی۔'' گستاخانہ فلم کی مذمت پر تین تالیاں لیکن کیا اس کی تعریف کی بھی کوئی گنجائش تھی؟ مذمت تو پہلے بھی دنیا بھر میں ہو رہی تھی۔
مسلمان ملکوں نے یہ مطالبہ تو کبھی کیا ہی نہیں تھا کہ صدر اوباما اپنی زبان سے مذمت کر کے دکھائیں۔ مسلمانوں کا مطالبہ تو یہ ہے کہ نہ صرف اس گستاخانہ اور بیہودہ فلم پر پابندی لگا کر اس کے بنانے والوں کو پکڑا جائے بلکہ ایسی قانون سازی کی جائے جس کی رو سے محض پیغمبر اسلامؐ ہی نہیں، تمام مذاہب کے پیغمبروں اور بانیوں کی توہین کو جرم قرار دیا جائے۔
یہ کوئی انوکھا مطالبہ نہیں ہے۔ دنیا کے ہر قانون میں دوسرے لوگوں کے مذہبی جذبات کو مجروح یا مشتعل کرنا جرم ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ مغربی ممالک میں بانیان مذاہب کی توہین سے مجروح ہونے والے جذبات اس قانون سے باہر رکھے گئے ہیں۔
ہٹلر نے یہودیوں کا قتل عام کیا۔ یہودیوں کا کہنا ہے کہ چالیس پنتالیس لاکھ یہودی مارے گئے تھے۔ بے شمار مورخوں اور تحقیق کرنے والوں نے ثابت کیا کہ مرنے والوں کی تعداد اتنی نہیں تھی۔ ان اعداد و شمار میں حقیقت کم اور مبالغہ زیادہ ہے۔
یورپ اور امریکا کی حکومتوں اور با اثر طبقوں کا خیال تھا کہ اس معاملے میں حقائق سامنے لانے سے یہودیوں کی دلآزاری ہوتی تھی۔ اگرچہ یہ منطق سمجھ سے بالاتر ہے کہ خالصتاً اعداد و شمار کی کہانی میں ترمیم و اضافے سے کسی کے جذبات مجروح ہونے کا تعلق ہو سکتا ہے لیکن اس کے باوجود اس ''دلآزاری'' کی سخت سزا رکھی گئی اور اس کا اتنا پاس کیا گیا کہ آج تک کبھی کسی ''مجرم'' سے رعایت نہیں برتی گئی۔ جرمنی اور پولینڈ میں کیے گئے۔
اس قتل عام کو ''ہولو کاسٹ'' کہا جاتا ہے اور وزیر اعظم پاکستان پرویز اشرف نے بجا طور پر یہ سوال اٹھایا کہ ''ہولو کاسٹ'' کے اعداد و شمار میں کمی بیشی کا ذکرجرم ہے تو ایک ایسی ہستی کی توہین کیوں جرم نہیں جن کو اربوں افراد اپنی عقیدت اور محبت کا مرکز سمجھتے ہیں۔
اوباما نے اپنی تقریر میں توہین آمیز فلم کی مذمت صرف اس ایک جملے میں کی کہ یہ صرف مسلمانوں ہی نہیں، امریکا کی بھی توہین ہے لیکن ان کی تقریر کا باقی تمام حصہ جو اس اِشو سے متعلق تھا، امریکیوں پر ہونے والے حملوں اور پرتشدد مظاہروں کی مذمت کے لیے وقف تھا۔
انھوں نے بار بار کہا کہ کوئی فلم یا کوئی تقریر پرتشدد مظاہروں کا جواز نہیں بن سکتی اور پرتشدد مظاہرے برداشت نہیں کیے جائیں گے۔ تقریر سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں فلم پر تو زیادہ افسوس نہیں لیکن اس بات پر ان کا غصہ بے پناہ حد تک بھڑک اٹھا ہے کہ امریکاکے خلاف پُرتشدد مظاہرے کیوں ہوئے۔
ہو سکتا ہے ان کے اس اشتعال کی وجہ آئندہ امریکی انتخابات ہوں اور وہ اپنے ووٹروں کو پیغام دینا چاہتے ہوں کہ امریکی مفادات پر حملوں سے ان کی غیرت کسی بھی دوسرے امریکی سے زیادہ بھڑکتی ہے۔ اس لیے عوام دوسری مدت کے لیے بھی ان پر اعتماد کریں۔ شاید وہ یہ احساس نہیں کر رہے یا کرنا نہیں چاہتے کہ ان کی حکومت صرف امریکا کی حکومت نہیں ہے بلکہ ساری دنیا کی حکومت ہے، بالخصوص مسلمان دنیا، آبادی کے مجموعی اعتبار سے دیکھا جائے تو امریکا کی رعایا کا سب سے بڑا حصہ مسلمان ہی ہیں۔
اوباما نے اپنی رعایا کے پرتشدد مظاہروں کی مذمت تو کی لیکن یہ نہیں دیکھا کہ اس رعایا کو کتنا دکھ پہنچا ہے۔ معاملہ صرف دکھ تک محدود نہیں امریکا کی مسلمان رعایا میں ایسی فلموں، تقریروں یا کارٹونوں کی وجہ سے جو ردعمل اٹھا ہے، اس کے نتیجے میں امریکا کی وفادار حکومتوں کیلیے کیسی کیسی مشکلات اٹھ کھڑی ہوئی ہیں' اوباما کو اس کا خیال بھی رکھنا چاہیے تھا۔
مسلمانوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ انصاف کیلیے انھیں آخر کار امریکا ہی کا در کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔ مسلمان حکومتیں اس لیے کمزور ہیں کہ ان کے ملک اور نظام کمزور ہیں۔ موجودہ صنعتی دنیا میں مسلمان دنیا کا کوئی ملک قابل ذکر نہیں ہے جبکہ صنعت ایک بڑا ہتھیار ہے۔
مسلمان ملکوں میں زیادہ تر حکومتیں غیر جمہوری ہیں اور جہاں جہاں جمہوری حکومتیں ہیں، وہ فوج کی ماتحت یا اتنی کرپٹ ہیں کہ ان کی کوئی ساکھ ہی نہیں۔ جبکہ بھارت یا ہندوئوں کی معمولی سی مذہبی توہین ہو تو وہ تجارتی تعلقات توڑنے کی دھمکی دے کر امریکا سے اپنی مرضی کی معافی منگوا سکتا ہے۔
مسلمان ممالک اول تو ایسی دھمکی دینے کی پوزیشن ہی میں نہیں اور اگر تجارتی تعلقات توڑ لیں تو امریکا کا نقصان کم اور اپنا زیادہ کر لیں گے۔ امریکی یا یورپی درآمدات نہ ہوں تو ان کی مارکیٹیں ویران ہو جائیں گی اور ان کے اپنے ''پوش'' طبقات ہی حکومت کے خلاف بغاوت کریں گے۔ رہا غریب تو اسے درآمدات سے کیا غرض وہ تو ملکی صنعت کا مال خریدنے کی بھی ہمت نہیں رکھتا۔
اس المیے کا ایک سطری خلاصہ یہ ہے کہ عالمی معاشرے میں مسلمان حکومتوں کی طاقت بھی بس اتنی ہی ہے جتنی مسلمان ملکوں میں غریب کو حاصل ہے، یہ ''غریب حکومتیں'' توہین آمیز حملوں کے جواب میں بس اتنا ہی کر سکتی ہیں جو وہ کر رہی ہیں۔
یعنی ''احتجاجی خود سوزی '' مسلمان ممالک یا تو کہیں سے طاقتور ہونے کا نسخہ لیں یا پھر اس مار کو صبر کے ساتھ برداشت کریں جو انھیں نہ جانے کب سے پڑ رہی ہے اور نہ جانے کب تک پڑتی رہے گی۔ عوام کی غیرت و حمیت قابل تعریف مگر یہ بھی تو دیکھ لیں کہ ان کے چوکیداروں کے ہاتھوں میں دیمک زدہ عصا کے سوا کچھ نہیں جبکہ دشمنوں کا اسلحہ خانہ ایک سے بڑھ کر ایک تباہ کن اور طاقتور ہتھیاروں سے بھرا پڑا ہے۔
امریکا اور یورپ سے پیغمبر اسلامؐ کے بارے میں گستاخی پر مبنی فلمیں اور مواد مسلسل منظر عام پر آتا رہتا ہے۔ ہر گستاخی پر مسلمانوں کا ردعمل پرتشدد ہوتا ہے حالانکہ اس کا نقصان عام طور پر احتجاج کرنے والوں کے ملکوں کا ہی ہوتا ہے، یہ موقع ہے کہ اس بار لیبیا میں امریکی سفیر بھی احتجاجی ہنگامے میں مارے گئے۔کوئی عملی اقدامات کرنے کے بجائے صدر اوباما کے اس ایک جملے میں کہ گستاخانہ فلم سے امریکا کی بھی توہین ہوئی ہے۔
آئندہ کے لیے کوئی پیغام ہے نہ ہی آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی لائحہ عمل ہے۔ اس مسئلے کا کوئی حل صرف اسی صورت میں نکل سکتا ہے کہ صدر آصف زرداری کی تقریر میں شامل اس مطالبے پر مغربی دنیا سنجیدگی سے غور کرکے عمل کرے جس میں کہا گیا کہ اقوام متحدہ گستاخانہ فلم جیسے عمل کو جرم قرار دے۔ یہی وہ واحد حل ہے جس سے آئندہ کے لیے گستاخی پر مبنی فلموں اور مواد کے سامنے بند باندھا جا سکتا ہے۔