دھرنا اور دیگر معاملات
حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کا خیال تھا کہ دھرنوں کی طوالت انھیں کمزور اور آخر کار ان کا خاتمہ کر دے گی...
اپوزیشن جماعتوں کے سیاسی جرگے نے دھرنے ختم کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم پارلیمنٹ میں اعلان کریں کہ منظم دھاندلی ثابت ہونے پر استعفی دے دیں گے اور اس بیان کو معاہدہ سمجھا جائے۔ جرگے نے مزید کہا ہے کہ میاں شہباز شریف بھی پنجاب اسمبلی میں بیان دیں کہ ماڈل ٹائون انکوائری میں قصور وار ٹھہرائے جانے پر وزارت اعلیٰ سے استعفی دیں گے۔
حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کا خیال تھا کہ دھرنوں کی طوالت انھیں کمزور اور آخر کار ان کا خاتمہ کر دے گی لیکن ہوا اس کے برعکس۔ امیر جماعت اسلامی اور رحمن ملک نے دھرنوں کے حوالے سے دوبارہ انتباہ کیا ہے کہ اگر دھرنوں نے طوالت پکڑی تو کوئی حادثہ بھی رونما ہو سکتا ہے۔
جہاں تک دھرنے والوں کی تعداد کا تعلق ہے کہتے ہیں دھرنا قوم کا ایک آئینی و قانونی حق ہے۔ اگر اسلام آباد راولپنڈی سے 800 کنٹینر ہٹا لیے جائیں اور عوام کو بغیر کسی خوف و ڈر کے دھرنے تک آزادانہ پہنچنے دیا جائے تو دھرنے کی تعداد پر اعتراض کرنے والوں کو منہ چھپانے کی جگہ بھی نہ ملے گی۔ جب دھرنے تک پہنچنے کو پل صراط بنا دیا جائے اور اس کی قیمت جان ہتھیلی پر رکھنا، جیل و حوالات ہو تو اتنی بڑی تعداد میں دھرنے میں شامل ہونے والوں کی جرأت کو سلام ہی پیش کیا جا سکتا ہے۔
تازہ ترین الزام عمران خان پر یہ ہے کہ انھوں نے دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس وین میں گرفتار تحریک انصاف کے کارکنوں کو زبردستی چھڑایا۔ بات یہ ہے کہ دھرنا تو آئینی قانونی حق ہے تو قانون کی خلاف ورزی پولیس والوں نے کی یا کارکنوں نے۔ اسی آئینی حق کا تحفظ کرنا پولیس اور قانون نافذ کرنے والوں کی ذمے داری ہے۔ نہ صرف عوام کے اس آئینی حق کو پامال کیا گیا بلکہ اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پولیس والوں نے ان کے موبائل فون نقدی و گھڑی بھی چھین لی۔ عمران خان کے اس عمل پر ہمارے کچھ سادہ لوح دانشور اس طرح واویلا کر رہے ہیں کہ جیسے آسمان ٹوٹ پڑا ہو۔ کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ ہماری پولیس کی شہرت کیسی ہے؟
اب کچھ تذکرہ پی ٹی وی میں داخل ہونے والوں کا بھی ہو جائے۔ حکومت نے کہا کہ اس عمل سے پاکستان پوری دنیا میں بدنام ہو گیا۔ پوچھا جا سکتا ہے ان لوگوں سے کہ سانحہ لاہور جس میں سو سے زائد شہید و زخمی ہوئے۔ اسلام آباد میں گولیاں چلیں، میڈیا والوں کو بے دردی سے پیٹا گیا تا کہ وہ سانحہ فوٹیج نہ بنا سکیں تو کیا اس عمل سے پاکستان کا نام روشن ہوا دنیا میں۔
یہ بات ذہین میں رہے کہ پی ٹی وی میں داخل ہونے والے پاکستانی عوام ہی تھے۔ یہ ان دہشت گردوں کی طرح نہیں تھے جو میزائل راکٹ لانچر اور ہر طرح کے جدید اسلحہ سے مسلح ہوں جن سے ہماری حکومت حالت رکوع میں جا کر مذاکرات کرتی رہی۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جو لوگ جدید ترین اسلحے سے مسلح ہوں ان سے نہ صرف مذاکرات کیے جاتے ہیں بلکہ مقدس و محترم بھی سمجھا جاتا ہے اور صرف لاٹھی سے ''مسلح'' افراد کو دہشت گرد کہا جاتا ہے۔
یقینا ان لوگوں کو پی ٹی وی کی عمارت میں داخل نہیں ہونا چاہیے تھا تاہم حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ پی ٹی وی کی عمارت میں داخل ہوئے وہ لوگ پس ماندہ اور دیہاتی علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھیں صورت حال کی سنگینی کا اندازہ تھا نہ ہی انھیں یہ پتہ تھا کہ وہ جس عمارت میں داخل ہو رہے ہیں' وہ حساس عمارت ہے۔ اگر وہ ہتھیاروں سے مسلح ہوتے تو شاید عمارت خالی ہی نہ کرتے' شاید یہی وجہ ہے کہ پاک فوج کے آتے ہی مظاہرین وہاں سے چلے گئے' حکومت کو اس واقعے کی تحقیقات کرتے ہوئے اس پہلو کو بھی ضرور مدنظر رکھنا چاہیے تاکہ سادہ لوح لوگوں کو مصائب کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ادھر پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے واضح کیا کہ حکومت نے ریڈ زون میں جن 5 عمارتوں کی سیکیورٹی کی ذمے داری سونپی تھی اس میں پی ٹی وی کی عمارت شامل نہیں تھی۔ آخر کیوں حکومت نے پی ٹی وی کی سیکیورٹی کی ذمے داری دوسری عمارتوں کی طرح فوج کو نہیں سونپی۔ بہر حال اس واقعہ کے بعد حکومت کو دھرنے والوں کو بدنام کرنے کا موقعہ مل گیا۔ کیوں کہ اس سے پہلے حکومت ہی اپنے کارناموں کی وجہ سے مسلسل بدنام ہو رہی تھی۔ ایک اور پہلو بھی سوچنے والا ہے کہ نشریات بند کرنا ایک ٹیکنیکل کام ہے جو ایک ماہر انجینئر ہی کر سکتا ہے۔ یہ عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ اس حوالے سے بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔
جن لوگوں کو حکومت شر پسند کہہ رہی ہے درحقیقت محروم طبقے کے لوگ ہیں جنھیں غربت بھوک بے روزگاری آخر کار انقلاب کے راستے پر ڈال دے گی۔ حکمران طبقوں کے تضادات شدید ہو رہے ہیں جو حقیقی انقلاب کی منزل کو قریب لا کر رہیں گے۔ اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ ہاں پریشانی ہے تو ان کے لیے جنہوں نے تمام وسائل پیداوار پر قبضہ کر کے بقول کروڑوں پاکستانیوں کو ایک وقت کی روٹی سے بھی محروم کر دیا ہے۔
اگست کے شروع میں وزیر اعظم نواز شریف کے بارے میں کہا تھا کہ وہ اگست ستمبر سے طویل آزمائشی دور میں داخل ہو جائیں گے۔ اکتوبر نومبر اس حوالے سے غیر معمولی مہینے ہیں۔ فوری طور پر اہم تاریخیں 23 ستمبر سے 3 اکتوبر ہیں۔
سیل فون:۔ 0346-4527997