ٹارگٹ کلنگ

تفصیل جاننے پر معلوم ہوا کہ منظر زیدی حسب معمول دکان کے باہر بیٹھے پانی کی موٹر مرمت کر رہے تھے ...


قمر عباس نقوی September 22, 2014

گزشتہ دنوں سے میرے گھر کی پانی چڑھانے والی الیکٹریکل موٹر خراب ہوگئی ۔ گھر کے قریب پانی کی موٹروں کی دکان پرگیا جہاں میرے جاننے والے منظر زیدی ان موٹروں کی مرمت کا کام کرتے تھے ۔دکان پر منظر موجود نہیں تھے وہاں موجود کاریگروں سے ہم نے منظر صاحب کے بارے میں دریافت کیا تو وہ بے ساختہ میری شکل دیکھ کر بولے ''کیا آپ کو نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں ؟ کاریگر کا یہ جملہ سن کر گویا ہم کو دھڑکا لگا ۔ ہم نے جواب دیا ''نہیں '' ہمارے مزید اصرار پر وہ بولا کہ منظر صاحب تو اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔

تفصیل جاننے پر معلوم ہوا کہ منظر زیدی حسب معمول دکان کے باہر بیٹھے پانی کی موٹر مرمت کر رہے تھے کہ اس دوران دو مو ٹر سائیکلوں پر سوار چار نا معلوم نوجوان آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے انھوں نے منظر پر گولیوں کی بوچھار کردی۔ منظر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اس جہان فانی سے کوچ کرگئے ۔ آہ ! منظر صاحب آپ کی کہانی بھی ختم ہوئی ۔ منظر عمر کے درمیانی حصے میں تھے ۔ خاصے صحت مند، محنت کرنے والے ایماندار ذی الشعور انسان تھے۔ سوگواران میں چھوٹی عمر کی تین بچیاں اور بیوہ چھوڑ گئے۔ اُن کی ناگہاں موت کی خبر نے ہماری ذہنی کیفیت کو اُلٹ پلٹ کر رکھ دیا ۔ کس کام سے آئے تھے کچھ پتہ نہیں۔

یہ کوئی اس علاقے میں ایک ہی قاتلانہ واردات نہیں بلکہ کچھ ماہ قبل ایک مشہور ہومیو پیتھک ڈاکٹر بھی ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے ۔ حال ہی میں اسی علاقے میں گھی اور تیل کی دکان پر بیٹھے ہوئے محسن نامی دکاندار پر نا معلوم نوجوانوںنے فائرنگ سے ہلاک کردیا ۔ ہمیں اندازہ ہے کہ ان میں سے بہت سے واقعات کسی بھی حوالے سے پریس تک رپورٹ نہیں ہوسکے ۔ یکے بعد دیگرے ایسے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کا وقوع پذیر ہونا ہمارے لیے لمحہ فکریہ ضرور ہے۔

ہمیں ان جرائم میں ملوث افراد کا پتہ چلانا ہوگا اور ان کے پسِ پردہ عزائم کیا ہیں ؟ کونسی قوتیں اس گھنائو نے جرائم کی پشت پناہی کررہی ہیں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ مارنے والے حملہ آور ہمارے ہی علاقوں کے مقامی لوگ ہوسکتے ہیں۔ سیاسی اور مذہبی تنظیموں سے وابستگیاں کا کسی حد تک خارج از امکان ہوسکتا ہے ۔ پسِ پردہ یہی سیاسی و مذہبی تنظیمیں بھی ہوسکتی ہیں جو اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کے در پر ہوں۔

ٹارگٹ کلنگ کی روک تھام موٹر سائیکل پر ڈبل سواری پر پابندی لگاکر ایک مضحکہ خیز عمل ہے جو محض پولیس کی کمائی کا بہترین ذریعہ ہے ۔ ممکن ہے کمائی کا جواز پید اکرنے کے لیے ٹارگٹ کلنگ جیسے قاتلانہ جرائم انھی عناصر کی طرف سے کیے جاتے ہوں جو ڈبل سواری کی پابندی کو قانون کی حیثیت دیتے ہیں ۔ حالیہ اخباری اطلاع کے مطابق شہر میں موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کی خلاف ورزی پر 485 معصوم شہریوں کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 200 افراد کو شخصی ضمانت پر رہا کیا گیا تھا باقی سے ہدف پورا نہ ہونے پر جیل بھیج دیا گیا ۔

ستمبر کا ماہ رواں ہے ۔ اس مہینے کے حوالے سے ہمارے ملک کے غیور اور بہادر افواج اور شہداء اور غازیوں کے نام منسوب ہے ۔ بلاشبہ ہماری افواج کا شمار دنیا میں تیسرے نمبر پر ہوتا ہے ۔ ہمارے پاس ایٹم جیسی طاقت بھی موجود ہے جو اسلامی دنیا میں پاکستان کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ۔اسی لیے ملک دشمن قوتیں بذریعہ طاقت ہم پر یلغار نہیں کرسکتے ۔ عراق،کویت، لیبیا، شام پر صیہونی قوتوں کے حملے اس چیز کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ ممالک دفاعی طور پرکمزور ہیں۔ صرف خطرہ ہے اس سر زمینِ پاک کو اندرونی خلفشار کا ۔ قدرتی وسائل سے مالا مال یہ زرخیز خطہ کسی بھی بیرونی دنیا کا محتاج نہیں۔

صرف کمی ہے تو اتحاد، تنظیم ، یقین محکم کی جس پر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح زندگی کے آخری لمحات تک کہہ گئے۔ افسوس کہ ہم نے اپنے قائد کے ان تین اصولوں کو فراموش کردیا اور یونہی بھٹکے ہوئے ہیں ۔ بیرونی دنیا ہمارے وسائل لوٹ کر ہم کو ان کا دستِ نگر بنا رہی ہے ۔ملک کو اندرونی،سیاسی اور انتظامی طور پر کمزور کرنے اور عوام میں انتشار پھیلانے ملک کے انتظام کو تہہ و بالا کرنے میں اسی دہشت گردی کے عنصر نے جنم دیا۔ خود کش بمبار کا سلسلہ تھما توکثیر افراد پر مشتمل علاقوں میں بموں کی تنصیب نے تباہی مچائی جس سے افرادی قوت کی ایک کثیر تعداد لقمہ اجل بن گئی ۔

حالیہ خبر یہ آئی ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان نے اپنی عسکری کارروائیاں ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے اور انھوں نے دوسری تنظیموں کو بھی لڑائی ختم کرنے کی اپیل کی ہے اُن کا کہنا ہے کہ وہ اب دعوت تبلیغ کا آغاز کریں گے۔ شکر ہے خدا کا کہ کوئی خبر تو اچھی ملی ۔جو یقینا خوش آیند ہے۔

ادھر اسلام آباد کے ریڈزون میں تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کی طرف سے دھرنا جو گزشتہ ایک مہینے سے جاری ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کی دھوئیں دار تقاریر اپنے زورو شور سے جاری ہیں۔ ہم کبھی ہائی وے پر رواں دواں دیوہیکل کنٹینرز دیکھ کر ہم اپنی معیشت پر فخر کیا کرتے تھے۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہی کنٹینرز ملک کی سیاست میں انقلاب لانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ ایک طرف سیلاب کی تباہ کاریاں جس نے ملک کے بیشتر دیہاتی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔

موروثی اور سرمایہ دارانہ سیاست نے ملک میں طبقاتی جنگ کا آغاز کیا ہے ۔ حکومت کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ بحران کو جلد از جلد کوئی حل نکالیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں