کراچی مافیاز کے نرغے میں … پہلا حصہ
بدقسمتی سے اس وقت بہت سے مافیا کے شکنجے میں جکڑا ہوا نظر آتا ہے ....
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر، دنیا کے دس بڑے شہروں میں سے ایک، پاکستان کی معاشی شہ رگ۔ بیرون دنیا سے سمندر کے ذریعے رابطے کا پاکستان کا واحد ذریعہ، ملکی ٹیکس کی آمدنی میں 60 فیصد سے زیادہ حصہ ڈالنے والا شہر۔ یہ وہ تمام خصوصیات ہیں جو اس شہر کی ملک کی اقتصادی اور معاشی اہمیت پر دلالت کرتی ہیں۔
بدقسمتی سے اس وقت بہت سے مافیا کے شکنجے میں جکڑا ہوا نظر آتا ہے۔ جو لوگ کراچی کے حالات پر خاص نظر رکھتے ہیں وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ پچھلے 5 سے 6 سال کے دوران اس شہر کو جتنا نظرانداز کیا گیا اس کی شاید ہی کوئی مثال مل سکے۔ اور اگر یہ کہا جائے تو بجا ہوگا کہ اس شہر کے ساتھ سیاسی یتیموں جیسا سلوک کیا گیا۔
اس شہر کے منتخب نمایندے چاہے اپوزیشن میں ہوں یا حکومت میں اپنی بے بسی اور اختیارات نہ ہونے کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔ وفاق اور صوبائی حکومتوں کی عدم توجہی کے باعث یہ شہر اب مسائل کا گڑھ بنتا نظر آتا ہے۔ پچھلے 5 برسوں میں امن وامان کی انتہائی مخدوش صورتحال جسے وزیرستان اور دیگر شورش زدہ علاقوں سے بھی بدتر گردانا گیا وہ ریکارڈ حصہ ہے لیکن اب خدا کا شکر ہے کہ اس ٹارگٹ کلنگ میں نمایاں کمی آئی ہے جس کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور حکمرانوں دونوں کو کریڈٹ دینا چاہیے، لیکن یہ ناسور ابھی تک ختم نہیں ہوا اور وقتاً فوقتاً سر اٹھاتا رہتا ہے لیکن اس وقت ہم بات کرتے ہیں ان مختلف مافیاز اور گروپوں کی جنھوں نے پاکستان کی اس معاشی شہ رگ کو بری طریقے سے جکڑا ہوا ہے۔
سب سے پہلے لینڈ مافیا جس کی بڑھتی ہوئی مجرمانہ سرگرمیوں سے سب ہی پریشان ہیں، اگر آپ کا پلاٹ کراچی کے مضافاتی اور دور دراز علاقے میں موجود ہے تو پھر آپ اپنے کو بہت ہی خوش قسمت کہلائیں گے اگر آپ کے پلاٹ پر قبضہ نہ ہوا ہو اور اس کے اردگرد چار دیواری نہ کھینچی گئی ہو اور اگر آپ اتفاق سے وہاں کا دورہ کرنے پہنچ جائیں تو اپنے ہی پلاٹ میں اجنبیوں کی طرح داخل ہونا پڑتا ہے اور جسارت کرنے پر آپ کو بتایا جاتا ہے کہ یہ تو آپ کا پلاٹ ہی نہیں بلکہ جب آپ اپنے کاغذات دکھائیں تو آپ کے سامنے بھی اسی طرح کے کاغذات کا ایک اور سیٹ دکھایا جاتا ہے جس میں قبضہ کرنے والے کے کوائف اور اس کو مالک دکھایا جاتا ہے۔
عمومی طور پر اس کو دہری فائل (deed file) کہا جاتا ہے، اب اصل کاغذات کس کے ہیں اور اس زمین کا اصل مالک کون ہے اس کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے جس کے لیے آپ کو برسوں انتظار کرنا پڑے گا اور اپنی زمین کی واپسی کے لیے اور اپنے آپ کو مالک ثابت کرنے کے لیے لاکھوں روپے بھی خرچ کرنا پڑیں گے۔ بعض اوقات قبضہ کرنے والی پارٹی بھی بڑی بے باکی سے آپ کو پلاٹ کی مالیت کے حساب سے رقم یا جرمانے کی ادائیگی کا مطالبہ کرے گی جس کو دے کر آپ اپنے پلاٹ کا دوبارہ قبضہ حاصل کرسکتے ہیں۔
کافی لوگ اس طرح کا جرمانہ دے کر اپنی جان چھڑاتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ رقم عدالتوں میں خرچ ہونے والی رقم اور وہاں پیشیاں بھگتنے والے وقت سے کہیں کم ہوتی ہے۔ اور اب تو یہ وبا دور دراز نہیں بلکہ کراچی کے بیچ و بیچ رہنے والے علاقوں تک میں پھیل چکی ہے۔ حتیٰ کہ کراچی کے پوش اور امیر علاقوں میں اگر آپ کو کوئی خالی پلاٹ نظر آئے تو اس کے گرد چار دیواری اور اس کے باہر لگا ہوا خبردار کرنے والا نوٹس اور سیکیورٹی گارڈ بیٹھا بھی نظر آئے گا۔ یعنی اپنے پلاٹ کی حفاظت اپنے خرچ پر۔ حکومتی اداروں کی طرف سے دادرسی کا کوئی امکان موجود نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ اپنے خالی مکان کسی نہ کسی کو کرایے پر دینے میں زیادہ عافیت تصور کرتے ہیں۔ کیونکہ اتنا جنگل کا قانون ابھی نہیں آیا کہ رہنے والے کو اس کے سامان سمیت باہر نکال کر پھینک دیا جائے، ہاں البتہ یہ بات اور ہے کہ اگر آپ اس کرائے دار کو ایک یا دو سال سے زیادہ عرصے وہاں رہنے دیں تو وہ خود ہی اس پر قبضہ کرلے اور پھر اس کی حمایت میں اپنے قانونی کاغذات بھی ثبوت کے طور پر پیش کردے یا پھر اپنے آپ کو کسی کالعدم تنظیم یا سیاسی جماعت کا کارندہ ظاہر کرکے ڈرا دھمکا کر مالک مکان کو چلتا کردے، کیونکہ یہاں پر ویسے بھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا راج موجود ہے۔
اس کے بعد ہے بلڈر مافیا۔ یہ مافیا رہائشی علاقوں میں سنگل یا ڈبل اسٹوری مکان خرید کر اس کو ملیا میٹ کرنے کے بعد اس جگہ پر 8 سے 10 منزلہ عمارتیں تعمیر کرتا ہے۔ جن میں کبھی کبھار دو سے تین فلورز پارکنگ کے لیے وقف کیے جاتے ہیں ورنہ ان کے رہائشیوں کی گاڑیاں بھی رہائشی علاقوں کی گلیوں میں ہی پارک ہوں گی۔ چونکہ یہ فلیٹ لاکھوں روپے میں فروخت کیے جاتے ہیں اس وجہ سے یہ بلڈر مافیا اوپر تک سارے حکام تک رشوت پہنچانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ کیونکہ اس صورت میں بھی یہ گھاٹے کا سودا بالکل نہیں۔
اب وہاں رہنے والے رہائشی جس در کا دروازہ کھٹکھٹا لیں کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ان کا علاقہ نہ چاہتے ہوئے بھی اور خلاف قانون بھی کمرشل ہوچکا۔ اب وہاں بجلی، پانی اور سیوریج کے نظام پر کیا اثر ہوگا؟ اس کا پرسان حال تو کوئی بھی نہیں۔ ایک زمانے میں لوگ ایک پلازہ کی تاریخی عمارت کو کراچی کی بلند ترین اور ممتاز عمارت کے طور پر یاد کرتے تھے لیکن اب ذرا شہر کا دورہ کریں یہاں پر تو آپ کو بہت سارے (چھوٹے) پلازہ نظر آئیں گے۔ اب یہ ترقی کی علامت ہیں یا پھر اس شہر کے باسیوں اور یہاں موجود خستہ حال انفرااسٹرکچر پر بوجھ عظیم، اس کا فیصلہ قارئین خود ہی کرسکتے ہیں۔
اب آتے ہیں اسلحہ مافیا کی طرف۔ شہر میں ہر جگہ تھوڑی سی کوشش کرنے پر اسلحہ کے ڈھیر وافر مقدار میں نظر آتے ہیں۔ اب کسی کا ریسٹورنٹ میں جھگڑا ہوجائے یا کسی دکان پر تنازعہ ہوجائے فوراً سے اسلحہ باہر نکل آتا ہے اور معمولی سی تکرار پر لوگوں کا قتل اور زخمی ہونا ایک معمول کا امر بن گیا ہے۔ اور اگر آپ کو ڈر ہے کہ یہ غیر قانونی اسلحہ ہے تو تھوڑے سے پیسے دے کر کسی رکن اسمبلی کے کوٹے پر اسلحہ خرید کر اس کا لائسنس بنالیں، اب جب اسلحے کا لائسنس ہے تو کون پوچھے گا کہ اس کو قانونی طور پر استعمال کرنا ہے یا غیر قانونی مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہے۔
لائسنس تو پھر اجازت نامہ ہے۔ شہر کی مصروف سڑکوں پر پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز کی اسلحے سے لیس گاڑیاں دیکھنا تو اب معمول کا مشاہدہ ہے۔ کسی کی جرأت ہے تو ان کو روک کر پوچھ لے کہ اسلحے کی اس طرح نمائش تو قطعاً غیر قانونی ہے۔ لائسنس کا پوچھنا تو دور کی بات ہے۔ کبھی کبھار قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مہم شروع ہوئی تو تھوڑی بہت پکڑ دھکڑ اور اس کے بعد وہی معمول۔ کون پوچھنے والا ہے کہ یہ پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شہر ہے یا پھر کوئی دور دراز قبائلی علاقہ۔ جہاں پر علاقے کے جاگیردار اور زمیندار اپنا رعب و دبدبہ دکھانے کے لیے کھلے عام اسلحے کی نمائش کرتے ہیں۔
(جاری ہے)