سوئس حکام کو خط حکومت کو 5اکتوبر تک آخری مہلت

خط این آراوفیصلے کے پیرا178 کے مطابق نہیں،درمیانی راستے کی بات نہیں کی ،جسٹس کھوسہ

خط این آراوفیصلے کے پیرا178 کے مطابق نہیں،درمیانی راستے کی بات نہیںکی ،جسٹس کھوسہ،تاخیرپرتوہین عدالت کی کارروائی آگے بڑھائی جائیگی،سپریم کورٹ۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے بدھ کو بھی سوئس حکام کولکھے جانے والے حکومتی خط کے مسودے پر اعتراض کرتے ہوئے حکم دیاکہ5 اکتوبرکوخط کے مسودے کو عدالت کے فیصلے کی روشنی میں نہ لکھا گیا توعدالت توہین عدالت کی کارروائی آگے بڑھانے پرمجبور ہوگی۔

وفاقی وزیر قانون نے آئندہ سماعت پر این آر اوفیصلے کے مطابق خط کا مسودہ پیش کر نے کی یقین دہانی کرائی ہے۔جسٹس آصف سعیدکھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے این آر او عملدرآمد کیس کی سماعت کی ۔وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے سوئس کیسز سے متعلق جنیوا کے اٹارنی جنرل کیلیے تیارکر دہ خط کا نیا مسودہ سپریم کورٹ میں پیش کیا عدالت نے لکھے گئے خط کے مسودے پر اعتراض کیا اورکہا خط ،این آراوکیس کے فیصلے کے پیرا 178 کے مطابق نہیںہے۔وزیر قانون نے عدالت سے استدعاکی کہ معاملے کے حل کیلیے انھیںچیمبرمیںسن لیا جائے کیونکہ اس میں بعض حساس معاملات ہیں جن پرکھلی عدالت میں بات کرنامناسب نہیں ہوگا۔

عدالت نے پہلے تو ان کی یہ استدعامستردکر دی اوران کو کھلی عدالت میں ہی دلائل دینے کی ہدایت کی ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا موقف تھاکہ عدالت میںبیٹھ کرمسودے کے تمام مندرجات پر بحث کرناعملی طور پرممکن نہیں،عدالت میں تومائیکروفون موجود ہیں ہم ججزیہاں پر تومشاورت بھی نہیںکر سکتے اس لیے چیمبر میںجانا مناسب ہوگا انھوںنے اس موقع پرکہاکہ کل بھی اسی مشکل کی وجہ سے چیمبر میں جاناپڑا تھا تاہم جسٹس اعجاز افضل خان کاکہنا تھا کہ عدالت میں فیصلے آئین اور قانون کے مطابق ہوتے ہیںاس میںکسی کی فتح یا شکست نہیں ہوتی،جو مشکل باتیں ہیں وہ اوپن کورٹ میں بھی ہوسکتی ہیں۔


اس موقع پر جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہاکہ عدالت نے کبھی بھی درمیانی راستہ نکالنے کی بات نہیںکی ،ہم نے یہ کہاتھا کہ مسئلے کاحل نکالاجائے ۔ اس کے بعد عدالت اٹھ کر چلی گئی ۔بعد ازاں فاضل ججز نے چیمبر میںان کیمرہ سماعت کی استدعا پر غورکر نے کے بعد وفاقی وزیر قانون اورایڈووکیٹ وسیم سجاد کو چیمبر میں طلب کر لیا۔جہاں پران دونوں حکومتی نمائندوں نے عدالت کو نئے مسودے پربریفنگ دی اور اس کے کچھ دیر بعد فاضل ججز دوبارہ کورٹ میںواپس آئے۔عدالت میں وفاقی وزیر نے کیس کی سماعت 5اکتوبر تک ملتوی کر نے کی استدعاکی تو عدالت نے قراردیا کہ عدالت نے گزشتہ روزوزیر قانون کو یہ نشاندہی کی تھی کہ ان کی جانب سے پیش کیے جانے والے خط کے مسودے میںکچھ حصے ایسے ہیں جوکہ پیراگراف 178 کے مطابق نہیں ہیں۔

آج ان کی جانب سے نظرثانی شدہ مسودہ پیش کیا گیا اوروزیر قانون کی استدعا پر اس مسودے پر ان چیمبر سماعت بھی کی۔عدالت نے کہا کہ حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے مسودے میںابھی کچھ کمی ہے جس کو دورکر نے کی ضرورت ہے اور وزیر قانون نے عدالت کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ مسودے کو عدالت کے احکامات کے مطابق بنایاجائے ۔عدالت نے کیس کی سماعت کو 5اکتوبر تک ملتوی کرنے کی استدعا کومنظورکر تے ہوئے کہاکہ عدلیہ اس بات کی توقع کر تی ہے کہ اب اس معاملے میںمزید تاخیرنہیںکی جائے گی ،عدالت نے واضح کیاکہ تاخیرکی صورت میںعدالت توہین عدالت کی کارروائی کوآگے بڑھانے پر مجبور ہوگی۔

وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے سماعت کے بعدمیڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ ملک کی سالمیت اور حکومت کے بہتر مفاد میں ہے کہ پارلیمنٹ،عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہو، عدالت کی آبزرویشن کی روشنی میں خط کا معاملہ خوش اسلوبی کے ساتھ حل ہو جائے گا ۔ایک سوال کے جواب میں وزیر قانو ن نے کہا کہ عدالت کے احکامات پر عمل کرنا حکومت اور ہر شہری کا فرض ہے ۔ایک سوال کے جواب میںانھوںنے کہا کہ خط کے معاملے میںکوئی اسٹیٹ سیکرٹ نہیں ہے ، یقین ہے کہ خط کا معاملہ حل ہوجائے گا ،صدرکے استثنیٰ کے معاملے پر ججزکے درمیان اختلاف نہیں ہے ۔

آئی این پی کے مطابق انھوں نے کہا ججزسے چیمبر میں نہ کوئی خفیہ باتیں ہوئیں نہ کوئی راز و نیازہوا 'عدالت نے مشاورت کیلیے مزید وقت دے دیا ہے۔ اٹارنی جنرل عرفان قادر نے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ آئین کے تحت صدر کو مقدمات میں استثنیٰ حاصل ہے، ہم سپریم کورٹ سے تصادم نہیں چاہتے۔ معاملہ بہت جلد حل ہو جائے گا،امید ہے کہ اداروں کے درمیان تصادم نہیں ہوگا۔

Recommended Stories

Load Next Story