خیالی پلاو ہَٹ دھرمی

’’کاش تُم ہٹ دھرمی نہ دکھاتے اورمیرا آخری مطالبہ بھی مان لیتے تو آج میں بے آسرا اور میرے بچے یتیم نہ ہوتے‘‘۔


قیصر اعوان September 22, 2014
آنسوؤں کا سیلاب ہاجرہ کی آنکھوں سے رواں دواں تھا ۔ ’’کاش تُم ہَٹ دھرمی نہ دکھاتے اورباقی مطالبوں کی طرح میرا آخری مطالبہ بھی مان لیتے تو آج میں بے آسرا اور میرے بچے یتیم نہ ہوتے‘‘ وہ اصغرکی قبر سے مخاطب تھی۔ فوٹو: فائل

HYDERABAD: اصغر ایک سرکاری ملازم تھا۔ اپنی کم تنخواہ کے باوجود وہ اپنی بیوی اورتین بچوں کے ساتھ اپنے چھوٹے سے گھر میں ایک خوشحال زندگی بسر کر رہا تھا۔ اصغر کے بچے پڑھتے تو سرکاری سکولوں میں تھے لیکن ذہانت میں بڑے بڑے پرائیویٹ سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کو مات دیتے تھے۔ اصغر کی بیوی ہاجرہ تھوڑی ضدی طبیعت کی واقع ہوئی تھی لیکن تھی سمجھدار، گھر کیسے چلایا جاتا ہے وہ اِس ہُنر سے بخوبی آشناتھی۔ غرضیکہ اصغر کی کم آمدنی اُس کی خوشحال زندگی کی راہ میں کبھی رکاوٹ نہیں بنی تھی۔

لیکن پھر اچانک سب کچھ بدل گیا، اصغر کے ہنستے بستے گھر کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ جب گیدڑ کی شامت آتی ہے تو وہ شہر کا رُخ کرتا ہے، اسی طرح جب مرد کی شامت آتی ہے تو وہ دوسری شادی کر لیتا ہے۔ اصغر نے بھی اپنی خوشیوں بھری زندگی کو ٹھوکر مارتے ہوئے اچانک دوسری شادی کر لی تھی۔ پورے محلے میں یہ بات جنگل میں آگ کی طرح مشہور ہوئی تھی۔ اصغر کی بیوی ہاجرہ کے رونے کی آوازیں پوری گلی میں گونج رہی تھیں اور گلی محلے کی عورتیں ہاجرہ سے اِظہارِ ہمدردی کے لیے گھر میں جمع تھیں۔ کوئی اصغر کو بُرا بھلا کہہ رہا تھا،

''ہائے بے غیرت کو اپنے معصوم بچے بھی نظر نہ آئے، اپنی بیوی کی قُربانیوں کا خیال بھی نہ کیا''۔

طرح طرح کے مشورے دیے جا رہے تھے،

''اب اِس کمینے شخص کو کبھی اپنے گھر میں گُھسنے نہ دینا''، ''عدالت میں کیس کردے اصغر کے خلاف، جب خرچہ پڑے گا تو ہوش ٹھکانے آجائیں گے کمبخت کے''، ''اگر دوسری بیوی گھر لے کر آیا تو منہ نوچ لینا دونوں کا''۔

دیوار کے پاس کھڑی چند عورتیں چہ مگوئیوں میں مصروف تھیں،

''ارے کوئی تو قصور ہو گا ہاجرہ کا بھی جو اصغر بھائی نے دوسری شادی کر لی، ہمارے شوہروں نے کیوں نہ کر لی دوسری شادی''۔

گویا جتنے منہ اُتنی باتیں تھیں۔ ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق بول رہا تھا۔ ہاجرہ کے بچے بے بس کھڑے تھے، نہ اُن سے ماں کا رونا برداشت ہو رہا تھا اور نہ باپ کو پڑنے والی گالیاں۔

ہاجرہ کے گھر والے بھی پہنچ چکے تھے، ہاجرہ کے بھائیوں کا غصّہ آسمان سے باتیں کر رہا تھا۔ اصغر کے ماں باپ تو تھے نہیں، ایک بھائی تھا جو کسی معاملے پر پہلے ہی اصغر سے ناراض تھا لہذا اُس نے بھی اس سارے معاملے سے دور رہنا ہی مناسب سمجھا۔ اصغر کے گھر داخل ہونے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور اس پابندی پر عمل درآمد کے لیے ہاجرہ کا پورا خاندان گھر میں موجود تھا۔ خاندان برادری والے اصغر اور ہاجرہ میں صلح کروانے کی سر توڑ کوششیں کر رہے تھے لیکن سب بیکار جا رہا تھا، ہاجرہ نے اصغر سے صلح دوسری بیوی کو طلاق دینے سے مشروط کر دی تھی لیکن اصغر یہ مطالبہ ماننے کو تیار نہ تھا، وہ طلاق کو اُس غلطی سے بھی بڑی غلطی سمجھ رہا تھا جو اُس نے دوسری شادی کر کے کی تھی۔ مگر اِس کے ساتھ ساتھ وہ ہاجرہ اور بچوں سے بھی دور ہونا نہیں چاہتا تھا۔ دِن گزرتے گئے مگر صلح کروانے والوں کی کوششیں رنگ نہ لائیں، ہاجرہ اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹنے کو تیا ر نہ تھی اور اصغر کو یہ گوارا نہ تھا۔

اصغر کی دوسری بیوی کسی دفتر میں نوکری کرتی تھی، ایک دن وہ اپنے دفتر کی وین میں گھر واپس آ رہی تھی کہ وین کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ اصغر نے اپنی خوشیوں کو اپنے پاؤں سے ٹھوکر مارتے ہوئے دوسری شادی کی تھی مگر اس مرتبہ ٹھوکر مارنے کی باری تقدیر کی تھی، اصغر کی بیوی مَر چکی تھی ۔ کتنی بدنصیب عورت تھی بیچاری جس کی موت پر ہاجرہ کا پورا خاندان خوشیاں منارہا تھا، یہ انا بھی بڑی بُری چیز ہوتی ہے، غالب آجائے تو انسان کی انسانیت ختم کر دیتی ہے۔

بہرحال ایک مرتبہ پھر خاندان والوں نے صلح کی کوششیں تیز کردیں، سب پُرامید تھے کہ اب کی مرتبہ صلح آسانی سے ہو جائے گی کیونکہ راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ مَر چکی تھی۔ مگر ایسا نہیں تھا، ہاجرہ کا اصغر سے اعتبار اُٹھ چکا تھا، اب وہ اپنی طلاق کا مطالبہ کر رہی تھی ۔ پہلے اُسے اصغر کی دوسری بیوی سے نفرت تھی مگر اب اُس کی نفرت کا محور اصغر تھا۔ سارے کا سارا خاندان سر پکڑ کے بیٹھ گیا، ہاجرہ کے گھر والے بھی ہاجرہ کو سمجھارہے تھے کہ اللہ تیرا گھر پھر سے آباد کر رہا ہے ، توتُو کیوں جلا رہی ہے اپنے ہاتھوں سے اپنے آشیانے کو، مگر ہاجرہ کچھ سننے کو تیار نہ تھی وہ مزید اصغر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھی۔ اصغر کسی صورت ہاجرہ کو طلاق دینے پر راضی نہ تھا لیکن یہ بھی جانتا تھا کہ وہ عدالت سے خُلع لینے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔

ہاجرہ کا خاندان اور گھر والے ہاجرہ کے اِس فیصلے سے قطعاََمتفق نہیں تھے لہذٰا اُنہوں نے ہاجرہ کے اس فیصلے کی بھر پور مخالفت کی اور مجبوراََ ہاجرہ کو تھوڑی لچک دکھانی پڑی۔ اب ہاجرہ نے اصغر کے سامنے چار مطالبے رکھے اورساتھ ہی نہ ماننے کی صورت میں خُلع کے لیے عدالت میں جانے کی دھمکی بھی دے ڈالی تھی۔

پہلا مطالبہ؛ اصغرہرمہینے اپنی تنخواہ کا ستّر فیصد ہاجرہ اور بچوں کو خرچہ کی مَد میں دیا کرے گا۔ اصغر نے یہ مطالبہ فوراََ مان لیا، وہ تو پہلے بھی اپنی ساری تنخواہ ہاجرہ کی ہتھیلی پر ہی رکھتا تھا اور اب بھی رکھنے کو تیار تھا۔

دوسرا مطالبہ؛ ماہانہ خرچ کے علاوہ بھی اصغر اپنے بچوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کا پابند ہو گا۔ اصغر نے اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیا، یہ تو وہ اپنا فرض سمجھتا تھا۔

تیسرا مطالبہ؛ اصغر اپنا گھر ہاجرہ کے نام کرے گا۔ اصغر نے یہ مطالبہ بھی بخوشی تسلیم کر لیا۔

چوتھا مطالبہ؛ اصغر اپنے بچوں اورہاجرہ کے ساتھ نہیں رہے گا بلکہ کبھی اِن سے ملنے کی کوشش بھی نہیں کرے گا۔ اصغر کے لیے یہ مطالبہ ہاجرہ کے طلاق والے مطا لبے سے ہر گز مختلف نہیں تھا لہذا اُس نے یہ آخری مطالبہ ماننے سے صاف انکار کر دیا۔

ہاجرہ کاخاندان اور گھر والے ہاجرہ کو سمجھاتے رہے، قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ وہ کسی بھی طرح اپنے آخری مطالبے سے دستبردار ہو جائے ، اصغر منّت سماجت کرتارہا اپنی پچھلی غلطی کی معافی مانگتا رہالیکن ہاجرہ کو نہ ماننا تھا اور نہ وہ مانی ۔ یہاں تک کہ وہ اپنے بچوں کو ساتھ لیے اپنے میکے آگئی اور خلع کا دعویٰ دائر کر دیا، ساتھ میں گھر اور بچوں کے ماہانہ خرچ کا دعویٰ بھی۔

مختلف مقدمات میں اُلجھا ہوااصغراب بلکل اکیلا رہ گیا تھا، ہاجرہ سے صلح کی تمام اُمیدیں دم توڑ چکی تھیں، جس گھر میں کبھی اُس کے بچوں کے کھیلنے کی آوازیں گونجتی تھیں اب اُس مکان میں خاموشی کا راج تھا۔ اپنی غلطی کا پچھتاوا اُسے اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا۔ اُس نے لوگوں سے ملنا جُلنا ختم کر دیاتھا اور شاید لوگوں نے بھی۔ اب وہ زیادہ تروقت اپنے گھر میں ہی قید رہتا تھا۔ وہ کب گھر سے نکلتا ہے اورکب گھر جاتا ہے کسی کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی۔ مگر محلے والوں کوآخرکار اُس وقت اصغر کے گھر کی طرف متوجہ ہوناہی پڑا جب اُس کے گھر سے اُٹھنے والی بدبو نے لوگوں کا جینا حرام کر دیا ۔ ایدھی والے آئے اور اصغر کی گلی سڑی لاش کو ایمبولینس میں ڈال کر لے گئے۔ اصغر کو مرے ہوئے نہ جانے کتنے دن ہو چکے تھے مگر کسی کو خبر بھی نہیں ہوئی تھی۔ اصغر کی موت طبّی تھی یا اُس نے خودکشی کر لی یہ کوئی نہیں جانتا تھا ۔ کسی نے اصغر کے بھائی اورہاجرہ کوبھی اِس واقع کی اطلاع کر دی کہ کہیں اتنے وارثوں کی موجودگی میں اصغر بیچارہ لاوارث ہی نہ دفن ہوجائے۔

ہاجرہ اپنے بچوں کو لیے اصغر کی قبر کے سامنے کھڑی تھی، آنسوؤں کا سیلاب اُس کی آنکھوں سے رواں دواں تھا ۔ ''کاش تُم ہٹ دھرمی نہ دکھاتے اورباقی مطالبوں کی طرح میرا آخری مطالبہ بھی مان لیتے تو آج میں بے آسرا اور میرے بچے یتیم نہ ہوتے'' وہ اصغرکی قبر سے مخاطب تھی۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں