کسی ملک میں ایک بہت بڑا مظلوم طبقہ بستا تھا۔ یہ بیچارے ہر لحاظ سے استحصال کا شکار لوگ تھے اور زندگی کی سختیوں سے شدید تنگ آچکے تھے۔ وہ صبح شام گڑگڑا کر کائنات کے مالک سے دعائیں کرتے کہ ان کیلئے کسی نجات دہندہ کو بھیج دے۔ ایک دن خدائے بزرگوار نے ان محکوموں کی دعائیں سن لیں اور ان کے درمیان ایک ایسے شخص کو بھیج دیا جس نے ان کے متفرق گروہوں کو جوڑ کر ایک ملت ہونے کا احساس دوبارہ ان میں زندہ کردیا۔ اس فرشتہ صفت انسان نے نہ صرف انہیں ان کی شناخت لوٹائی بلکہ انہیں ایک الگ ملک بھی لے کردیا تاکہ وہ وہاں رہ کر اپنی اس شناخت کا لوہا منوا سکیں اور دنیا کو دکھا سکیں کہ وہ کس قدر باصلاحیت قوم ہیں۔
جب تک وہ محسن ان لوگوں کے درمیان رہا تب تک یہ لوگ بھی بےپناہ خوش رہے۔ ایک عجیب جذبہ تھا جو اس نے ان لوگوں میں پیدا کردیا تھا۔ ان میں سے ہر ایک شخص ایثار اور محنت کی مثال بن کر اس نئے ملک کو آگے لے جانا چاہتا تھا۔ محدود وسائل کے باوجود وہ سب لوگ اس نئی مملکت کے حصول سے خوش تھے۔ مملکت اب ایک سال کی ہوگئی تھی اور تیزی سے استحکام کی طرف جا رہی تھی کہ خدا نے اس عظیم انسان کو واپس اپنے پاس بلا لیا۔ یہ پوری قوم اس سانحے پر بہت روئی مگر اس قوم نے پھر بھی ہمت نہیں ہاری اور یکسوئی اور محنت کے ساتھ ترقی کا سفر جاری رکھا۔
جس طرح گھر کے بڑوں کے گزرجانے کے بعد اکثر گھر سلامت نہیں رہ پاتے اسی طرح اس ملک میں بھی کچھ ہی عرصے بعد لوگوں کو یہ احساس ستانے لگا کہ "ایک قوم" کے دلفریب نعرے میں الجھ کر وہ اپنی سابقہ اور اصل شناخت کھو بیٹھے ہیں۔ اس احساس کے ہوتے ہی لوگوں نے اپنی ان تمام شناخت کو جنہیں وہ برسوں پہلے دبا آئے تھے، دوبارہ کھود کر نکال لیا۔ اب وہ ایک قوم کے بجائے بہت ساری صوبائی، معاشی، فرقہ وارانہ اور لسانی بنیادوں پر تقسیم اقوام بن کر رہنے لگے۔ تقسیم کی سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ یہ مسلسل ہوتی ہے۔ تقسیم کا سلسلہ اگر ایک بار شروع ہوجائے تو یہ ایک ایسا لامتناہی سلسلہ بن جاتا ہے جس میں انسان ہر دوسرے انسان سے اپنی شناخت الگ کرتے کرتے بالآخر مکمل اکیلا رہ جاتا ہے۔ تقسیم کے اس سفر میں ہوتے ہوتے ملک بھی تقسیم ہوگیا مگر تقسیم کی ہوس کسی طرح بجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
وقت کا پہیہ بھی چلتا رہا اور زوال کا سفر بھی بخوبی طے ہوتا رہا۔ تقسیم کی عادت سے جو عدم برداشت کی آگ معاشرے میں پیدا ہوئی تھی وہ اب سب کے گھروں کو چاٹ رہی تھی۔ کہیں لسانیت کی بنیاد پر دنگا تھا تو کہیں مسلک اور مذہب کے نام پر فساد۔ لیکن معاشرے کی ایک بڑی تعداد اب بھی اس سب صورتحال سے تنگ تھی، وہ اب اس سارے سلسلے سے نجات چاہتی تھی۔ طلب اور رسد کے قانون کے تحت بہت جلد ایک نیا گروہ تبدیلی کا نعرہ لیکر میدان میں آگیا۔
اس نئے گروہ کو نئی نسل نے خاص طور پر پزیرائی بخشی کہ وہ ملک کے دگرگوں حالات سے تنگ تھے اور اب واقعی بہتری چاہتے تھے۔ ملک میں انتخابات ہوئے تو اس نوجوان طبقے کو امید تھی کہ شاید ہرکوئی ان ہی کی طرح سوچتا ہوگا مگر کسی بھی حقیقی معاشرے میں تمام افراد کبھی بھی یکساں سوچ نہیں رکھتے۔ نتیجہ ان نوجوانوں کی مرضی کے خلاف آیا تو بیچارے وقتی طور پر تو گم سم ہوکر رہ گئے۔ وقت کے ساتھ مگر جب اوسان بحال ہوئے تو حواس کے ساتھ ساتھ تفریق اور نفرت کا وہ جذبہ بھی بیدار ہوگیا کہ جس کی نفرت میں وہ خود میدان میں آئے تھے۔ اس بار نوجوانوں کے ساتھ ساتھ مذہبی طبقہ بھی سڑکوں پر آگیا۔ مطالبہ دونوں کا یہی تھا کہ موجودہ حکمران طبقہ جابر اور بدعنوان ہے لہٰذا حقِ حکمرانی کھو چکا ہے۔
ملک اب کی بار ایک نئی قسم کی تفریق سے دوچار تھا۔ اس مرتبہ یہ محض فرق نہیں بلکہ باقاعدہ نفرت تھی۔ سیاسی اختلافات اب باقاعدہ دشمنیوں میں بدل رہے تھے۔ کل کے دوست، آج کی سیاسی وفاداریوں کی وجہ سے ایک دوسرے کا نام تک سننے کے روادار نہیں رہے تھے۔ قوم کی نفسیات اب یہ ہوچکی تھی کہ محفل میں دوسرے کا گریبان اور گھر میں اپنے بال نوچتے تھے۔ جان اور مال کا تو پہلے ہی اللہ حافظ تھا مگر اب تو خیر سے عزتیں بھی محفوظ نہیں رہی تھیں۔ وہ لوگ بھول گئے تھے کہ اختلاف کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں اور ہدف تنقید بھی ان کا اپنا پاکستانی بھائی ہی ہے جو ان ہی کی طرح سگنل تو توڑ سکتا ہے مگر ملک پر آنچ آنے کی بات آئے تو اپنی جان بھی دے سکتا ہے۔
اس سے آگے مجھے نہیں پتہ کہ کیا ہوا؟ اس کہانی کا انجام کیا تھا؟ ان تمام فریقوں میں سے کون حق تھا اور کون ناحق؟ کس کی جیت ہوئی اور کس کی ہار؟ میں ان میں سے کسی سوال کا جواب نہیں جانتا۔ ایک بات البتہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جس وقت ان تمام لوگوں کے پیروکار ایک دوسرے تہمتیں لگانے میں مصروف تھے، اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی یہ تمام لیڈران ایک دوسرے کے گلوں میں بانہیں ڈال کر بلند و بانگ قہقہے لگا رہے تھے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔