پاکستانی فلم کا دوسرا جنم ہورہا ہے شان

’’O21‘‘ میں فلم بینوں کو انٹرنیشنل معیار دکھائی دے گا‘ فلمسٹار کی ایکسپریس سے گفتگو


Qaiser Iftikhar September 23, 2014
’’O21‘‘ میں فلم بینوں کو انٹرنیشنل معیار دکھائی دے گا‘ فلمسٹار کی ایکسپریس سے گفتگو۔ فوٹو: فائل

زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاں کام کرنے والی شخصیات کی اگلی نسل جہاں سونے کا چمچ منہ میں لے کرپیدا ہوتی ہے، وہیں ان پرایک بھاری ذمہ داری بھی آن پڑتی ہے کہ وہ اپنے والد یا والدہ کے شعبے میں اس قدر بہترین کام کریں کہ ان کے والدین کا نام ہمیشہ زندہ رہے اورجب کسی پلیٹ فارم پران کا تعارف کروایا جائے تواس بات کا تذکرہ ضرور ہوکہ وہ فلاں صاحب یا صاحبہ کی اولاد ہیں لیکن مشاہدے میں یہ بات آتی ہے کہ کامیاب لوگوں کی اکثریت اپنی اولاد کے ذریعے اپنا نام زندہ رہنے کی خواہش کوپورا ہوتے نہیں دیکھ پائی۔

اسی طرح کی متعدد مثالیں موجود ہیں جو شہنشاہ غزل مہدی حسن، ملکہ ترنم نورجہاں اورگلوکارہ ریشماں کی فنی خدمات کو دیکھتے ہوئے دی جاسکتی ہیں۔ ان لیجنڈز نے تمام عمر فن کی خدمت کی لیکن ان کی زندگی اوران کی وفات کے بعد بھی ان کی اولاد میں سے کسی نے ایسا مثالی کام نہیں کیا کہ جس کی وجہ سے انہیں یاد کیا جائے۔

اس سلسلہ میں اگرہم پاکستان فلم انڈسٹری پرنظرڈالیں توگزشتہ دودہائیوں سے فلمسٹارشان ایک ایسا ستارہ بن کرفلم نگری کے افق پرچمک رہے ہیں کہ جس کی روشنی گزرتے وقت کے ساتھ مدھم ہونے کے بجائے مزید روشن ہورہی ہے۔ وہ بڑی کامیابی کے ساتھ اپنے والدین کے نام کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ وہ معروف مصنف وہدایتکار ریاض شاہد اور برسوں تک بطورہیروئن فلم انڈسٹری پرراج کرنے والی اداکارہ نیلوبیگم کے صاحبزادے ہیں۔ شان دو دہائیوں پرمحیط اپنے فنی سفر کے دوران ''بلندی'' سے اب تک ایک ایسی اننگز کھیل رہے ہیں کہ جس میں حالات میں بہتری کم اوربحرانی صورتحال زیادہ رہی ہے۔ لیکن انہوں نے اس سے گھبرانے اورلبرداشتہ ہونے کی بجائے حالات کا سامنا کیا اوراپنی بہترین حکمت عملی سے اس مقام پرپہنچ گئے کہ آج پاکستان میں بننے والی کوئی بھی جدید ٹیکنالوجی کی فلم اداکار شان کے بغیرنہیں بنائی جاتی۔



فلمسٹارشان نے ''روزنامہ ایکسپریس'' کوخصوصی انٹرویودیا اوراس دوران انہوں نے پاکستان فلم انڈسٹری کے بحران اوربحالی کے سفرکے ساتھ جہاں اہم مسائل پرروشنی ڈالی تووہیں بلاوجہ اوربے بنیاد بننے والی باتوں کی بھی صفائی دے ڈالی۔ عیدالاضحیٰ پرنمائش کے لئے پیش کی جانے والی نئی فلم '' O21'' بارے بھی تفصیلی گفتگو کی، جوقارئین کی نذرہے۔

اداکارشان کہتے ہیں کہ '' O21'' دورحاضر کی ایسی جدید فلم ہے جس میں فلم بینوںکوانٹرنیشنل معیاردکھائی دے گا۔ فلم کی کہانی اورکردار حقیقت سے قریب ترہیں ۔ فلم میں کام کرنے والے تمام فنکاروں نے اپنے کرداروں سے خوب انصاف کیا ہے۔ فلم کی پروڈیوسر زیبا بختیار نے جب اس پراجیکٹ کیلئے مجھ سے رابطہ کیا اورمجھے فلم کی کہانی اورکردارسے آگاہ کیا تومیں نے ان کے ساتھ میٹنگ کی اورپھر ہم نے مل کراس فلم کوبنانے کا فیصلہ کیا۔ فلم کی کہانی بہت لمبی تھی لیکن ہم نے باہمی مشاورت سے اس کوتھوڑا ساتبدیل کیا۔

21 گھنٹوں پر بننے والی فلم کے پہلے ڈائریکٹر سمرنکس تھے لیکن چند نامعلوم وجوہات کی بنا پروہ واپس چلے گئے، مگرمیں یہ جانتا ہوں کہ جب آپ کسی غیرملکی ڈائریکٹرکے ساتھ کام کرتے ہیں توپھر باہر بیٹھے مزید ڈائریکٹرزتک ایک اچھا پیغام پہنچتا ہے اوروہ بھی پاکستان میں کام کرنے کوترجیح دیتے ہیں۔ نکس کے واپس جانے کے بعد ڈائریکشن کی کمانڈ معروف ویڈیو ڈائریکٹر جامی کے ہاتھ میں آئی اورپھرانہوں نے اپنے اندازسے کام شروع کیا۔ انہوں نے کہا کہ فلم میں میرا کرداربہت منفرد ہے۔ میں ایک ایکشن ہیرو کا کردار نبھا رہا ہوں لیکن یہ پہلے بننی والی فلموں سے بالکل الگ ہے۔



اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں اب جونوجوان ڈائریکٹرآرہے ہیں ان سب کااپنا مزاج اورانداز ہے اور وہ ایک دوسرے کوکاپی کرنے کے بجائے اپنی صلاحیتوں سے فلم بنا رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں جو جدید سینما اور فلم فروغ پارہی ہے اس سے جڑے تمام لوگ ہالی وڈ سے متاثر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران بننے والی فلموں میں جہاں جدید ٹیکنالوجی، کہانی اور دیگر تکنیکی چیزوں پر زیادہ فوکس کیا گیا، وہیں فلموں میں میوزک پر کچھ خاص توجہ نہ دی گئی۔ اگریہ لوگ پاکستان فلم انڈسٹری سے متاثرہوتے تویہ کبھی اس کے کلچر کو نہ چھوڑتے اور فلموں میں میوزک کو ضرور شامل کرتے۔

اس کی ایک اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اب ہمارے ہاں میوزک کمپنیاں نہیں ہیں، ملٹی نیشنل کمپنیاں ہمارا میوزک نہیں خرید رہیں۔ نوجوان فلم میکر یہ سمجھتے ہیں کہ اگروہ اپنی فلم میں کوئی گانا شامل کریں گے تووہ ماضی کی فلم انڈسٹری کا حصہ بن جائیں گے اوریہ اسی بات سے ڈرتے ہیں لیکن آج یہ لوگ جو غلطی کررہے ہیں اس کا نقصان انہیں ضرور ہوگا کیونکہ بالی وڈ نے ترقی کی اور جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا لیکن انہوں نے اپنی فلم کے کلچر کو نہیں چھوڑا۔

آج بھی بھارتی فلموں کی کامیابی میں میوزک اہم کردارادا کرتا ہے اور میوزک کے ذریعے کروڑوں روپے کمائے جارہے ہیں۔ مگرہمارے نوجوان فلم میکرز سمجھتے ہیں کہ براڈ پٹ اور جیمز بانڈ تو گانے نہیں گاتے توہم کیوں فلم میں گانے شامل کریں۔ ان کو اپنی فلموں میں گاتے ہیرو کی شکل میں وحید مراد دکھائی دیتا ہے۔ یہ سوچ اُس وقت تک تبدیل نہیں ہوگئی جب تک کراچی اور پنجاب کا امتزاج نہیں ہوگا۔ اس کی مثال ہم ممبئی اوردہلی سے دے سکتے ہیں۔ ممبئی فلم کا گھرہے لیکن دہلی سمیت بھارت کے تمام صوبے وہاں شہد کی مکھیوں کی طرح اپنااپنا حصہ ڈالتے ہیں۔



چند برس قبل ''سنگھ از کنگ'' ریلیزہوئی جس میں پنجاب کی دھرتی کوفوکس کیا گیا۔ اس فلم کی کامیابی ہوئی اورپھر پنجابی کلچرپرفلمیں بننے لگیںاورانہوں نے کروڑوں، اربوں روپے کمائے، اسی طرح سائوتھ انڈیا کے کلچرکوسامنے رکھتے ہوئے فلمیں بننے لگیں توپھر ''چینائی ایکسپریس اورسنگھم'' نے بھی بڑا بزنس کیا۔ یہ بالی وڈ کا آسان فارمولا ہے اوراس کے ذریعے وہ لوگ بہترین کام کرتے ہوئے منافع بخش کاروبار کررہے ہیں، ہمیں بھی اس ٹرینڈکواپنانا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی فلم انڈسٹری کا دوسرا جنم ہورہا ہے۔ اس لئے میں اس کی پہلی سالگرہ منا رہا ہوں۔ کیونکہ گزشتہ برس جس طرح سے میری فلم نے بزنس کے تمام ریکارڈ توڑے اورایک نئی تاریخ رقم کی تھی اس کے بعد سے پاکستان فلم انڈسٹری شہروں کی سرحدیں توڑتی ہوئی قومی سطح پر سامنے آئی ہے۔ اب ہم فلم کو لاہور، پشاور، اسلام آباد اورکراچی کی فلم نہیں کہتے بلکہ اب یہ پاکستانی فلم بنی ہے۔

ہمارے دلوں میں ویسے توبہت کم جگہ ہے کیونکہ ہم نے سرحدیں قائم کرلی ہیں لیکن ان کونمایاں کرنے سے ہم مزید ٹکڑوں میں تقسیم ہوجائیں گے۔ اس وقت فلم انڈسٹری کی نئی شاخ پھوٹ رہی ہے۔ یہ سب ابھی انتظارکررہے ہیں کہ کوئی ایک ایسا بندہ آئے جوفلم میں میوزک بھی شامل کرے۔ وقت یہ بات ثابت کرے گا اورمجھے امید ہے کہ انہی نوجوانوں میں سے کوئی ایک فلم کے میوزک پرکام کرے گا اوریہ ٹرینڈ دوبارہ سے فروغ پائے گا۔



ایک سوال کے جواب میں فلمسٹارشان نے کہا کہ میں نے اپنی فنی سفرکے دوران پانچ سوسے زائد فلموں میں کام کیا ہے اوراس کے ساتھ ساتھ ڈائریکشن بھی کرچکاہوں۔ میراایک فیملی بیک گرائونڈ ہے جوفلم انڈسٹری سے جڑا ہے۔ میرے والد ریاض شاہد اوروالدہ نیلوبیگم کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، اس لئے میرے کاندھوں پرپاکستان فلم انڈسٹری کے ساتھ اپنے والدین کے نام کوزندہ رکھنے کا بھی بوجھ ہے۔ جس کواٹھانے کیلئے میں بہترین کام کرنے کی کوشش کرتا ہوں اورمستقبل میں بھی کچھ ایسے پراجیکٹس کررہا ہوں جن سے میرے والدین اورفلم انڈسٹری کو منفرد مقام ملے گا۔

انہوں نے کہا کہ پہلے یہ تاثرعام تھا کہ پڑھے لکھے لوگ فلم نہیں بناتے مگراب پڑھے لکھے لوگ فلم بنارہے ہیں توان کو بھی پڑھا لکھا انداز ہی اپنانا ہوگا۔ کیونکہ میرا ماننا یہ ہے کہ صرف پرانے کی جگہ جدید کیمرہ کے استعمال سے فلم میں تبدیلی نہیں آسکتی، اس کے لئے ہمیں سب سے پہلے اپنے آپ کوپروفیشنل بنانا ہوگا۔ ہمیں ایک دوسرے کے کام کوعزت دینا ہوگی، ہمیں ایک دوسرے کی فنی صلاحیتوں کا اعتراف کرنا ہوگا۔ میں تواپنے سینئرزسے باقاعدہ رہنمائی حاصل کرتا تھا لیکن آج کل اس بات پرتوجہ نہیں دی جاتی۔

شان نے کہا کہ مجھے میڈیا سے ایک بات پراختلاف ہے کہ چینلزکے منتظمین ہالی وڈ اور بالی وڈ فلم کی مفت تشہیر کرتے ہیں مگرجب ہم ان کے پاس اپنی پراڈکٹ لے کرجاتے ہیں توہم سے تشہیر کے لئے پیسے مانگ لئے جاتے ہیں۔ حالانکہ اس وقت ہم سب کومل کراپنی پراڈکٹ کو سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک بات انڈین فلم کی ہے تو کو عیدالاضحیٰ پر لگنے دیں، اگرہمیں مقابلہ کرنا ہے تو پھر ہمیں ان کے ساتھ ہی مقابلہ کرنا چاہئے، اپنے ملک میں بننے والی فلموں سے ہمارا کیا مقابلہ۔

انہوں نے کہا کہ میں بھارتی فلموں کی نمائش کا مخالف نہیں، میں بھارت کی مخالفت صرف اس لئے کرتا ہوں کہ ان کا ہمارے فنکاروں کے ساتھ سلوک اور ہمارے فلم میکرز کے ساتھ رویہ اچھا نہیں، اگر ان کا رویہ ٹھیک ہو تو ہم انڈیا کے لئے وہ کردار ادا کرسکتے ہیں جو چائنہ، امریکہ کیلئے کررہا ہے۔ آج عمران ہاشمی جیسے اداکارکی فلم بنانے کیلئے بھی انڈیا کے چالیس کروڑ روپے لگ جاتے ہیں، ایسی فلم توہم تین کروڑمیں بنا کردے سکتے ہیں۔

دوسری جانب جب میں یہ کہتا ہوں کہ علی ظفر وہاں جاکرکیوں کام کرتے ہیں تواس کا مقصد ان پرتنقید نہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ جتنے بہترین اورقابل فنکار ہیں ان کواتنا معاوضہ ادا نہیں کیا جاتا، مگراس کا غلط مطلب نکال لیا جاتا ہے۔ ہمارے فنکار انڈیا میں جاکر سکینڈ پیئرمیں تو کام کرلیتے ہیں لیکن پاکستان میں اگرکوئی انہیں رول آفر کردے تو وہ یہاں لیڈ رول کے علاوہ کام نہیں کرنا چاہتے۔ مجھے عامرخان نے اپنی فلم '' گجنی '' میں ولن کے کردار کی پیشکش کی اگر میں چاہتا تویہ کردار قبول کرسکتا تھا کیونکہ میں پاکستانی فلموں میں متعدد بارولن کے کردار نبھاچکا تھا لیکن میں نے صرف اس لئے اس پیشکش کوٹھکرا دیا تھا کیونکہ جب فلم کے اختتام پرولن کوٹھڈے پڑتے تویہ ٹھڈے ولن کو نہیں بلکہ پاکستان کوپڑتے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے لیکن بدقسمتی لوگ اس طرح سے نہیں سوچتے۔

شان نے حکومت کو تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے حکمران بیرون ممالک دوروں پرجاتے ہیں توان کے وفود میں جس طرح بزنس کمیونٹی کو شامل کیا جاتا ہے، اگراسی طرح فلم انڈسٹری سے بھی کسی کو شامل کرلیا جائے تو فلمسازی کے شعبے میں بھی بہتری آسکتی ہے۔ چائنہ ہمارا دوست ملک ہے ۔ چائنہ میں بہترین فلمیں بنتی ہیں اگرہم ان کے ساتھ مل کرفلمیں بنائیں تواس سے جہاں تعلقات بہترہونگے وہیں ہماری فلم انڈسٹری کوسپورٹ ملے گی، اس بارے میں حکومت کوسنجیدگی سے ضرورسوچنا چاہئے اوراس کے بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔

انٹرویو کے اختتام پرشان نے اپنے پیغام میں کہا کہ جب تک ہم لوگ مل کرپاکستان کی ترقی کیلئے دن رات کام نہیں کرینگے، اس وقت تک بہتری ممکن نہیں۔ جولوگ خواب دیکھنا چھوڑدیتے ہیں وہ کبھی اپنے خوابوں کو حقیقت کا رنگ نہیں دے پاتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |