جلسوں کے انعقاد کی نئی اسٹرٹیجی

خدا کرے کہ جلسوں کے انعقاد کے ساتھ سیاسی قائدین ملکی بحران اوردھرنوں سے نمٹنے کی مدبرانہ تدبیر بھی کریں

خدا کرے کہ جلسوں کے انعقاد کے ساتھ سیاسی قائدین ملکی بحران اوردھرنوں سے نمٹنے کی مدبرانہ تدبیر بھی کریں. فوٹو:فائل

WAH CANTT:
ملکی سیاست میں دھرنا فیکٹر کی طلسمی حیثیت نے جمہوری عمل کو کس رخ پر ڈالنے کا عزم کررکھا ہے اس کا اندازہ تو حکومت کی حکمت عملی اور دھرنے میں مصروف تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کی قیادت کے آیندہ ارادوں اور فیصلوں کی شکل میں سامنے آجائے گا تاہم یہ حقیقت قابل دید ہے کہ ان دنوں ایک نئی پیش رفت ہوئی ہے جس کے تحت سیاسی جماعتوں کے زیراہتمام اب ملک کے مختلف شہروں میں سیاسی گلشن کا کاروبار جلسوں کے انعقاد سے شروع ہونے لگا ہے ، اور دھرنوں کی یکسانیت کا تاثر قائم ہونے کے باعث اسٹرٹیجی عوامی جلسوں کی طرف منتقل کرنے سے مشروط کی جارہی ہے ۔

اس ضمن میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے پہل کی ، انھوں نے رات گئے کراچی سے اسلام آباد واپسی پر دھرنے کے شرکاء سے خطاب کیا،انھوں نے کراچی میں 3 دن کے نوٹس پر انتہائی کامیاب جلسہ کیا،عندیہ دیا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی کے آیندہ اجلاس میں لاہور جلسہ کی تاریخ کا فیصلہ کیا جائے گا، تحریک انصاف اندرون سندھ بھی جلسوں کا ارادہ رکھتی ہے ۔

احتجاج ، تعمیری تنقید اور اختلاف رائے سے سیاست کی رونقیں بحال رہتی ہیں جب کہ جمہوری عمل میں تسلسل کے لیے جلسے ایک بنیادی عنصر اور اکثر جمود شکن ہوتے ہیں ، یہ عوام کے حق اجتماع کے ساتھ ساتھ سیاست دانوں کو اپنے پارٹی منشور، ملکی صورتحال اور آیندہ کے اقدامات کے حوالہ سے اپ ڈیٹ کرنے کا مہذب اور مسلمہ طریقہ کار ہے ۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈیڈ لاک کے خاتمہ کے لیے موجودہ حکومت کے پاس کوئی تیر بہدف نسخہ نہیں ہے،جو قابل افسوس ہے۔ پیپلزپارٹی کے سینیٹر سعید غنی نے کہا ہے کہ کراچی بڑا شہر ہے ، ہمیں توقع تھی کہ پی ٹی آئی کا جلسہ بڑا ہوگا تاہم بلاول بھٹو اگلے مہینے اسی جگہ اس سے بڑا جلسہ کریں گے، ہفتہ کو ایم کیو ایم نے نئے صوبوں کی مخالفت کرنے پر پی ٹی آئی کے خلاف سول سوسائٹی کی طرف سے کلفٹن میں احتجاجی مظاہرہ اور جلسہ کیا جس میں شہریوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔


لاڑکانہ میں پیپلز پارٹی شہید بھٹو کی چیئرپرسن غنویٰ بھٹو نے کارکنوں سے خطاب کیا ۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے پشاور میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کیا ۔ ان جلسوں کا خوش آیند پہلو یہ ہے کہ سیاست میں روادارانہ اور تحمل کے کلچرکا احیا بھی نظر آنے لگا ہے، کیونکہ کسی شہر میں جلسوں کے انعقاد میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی، مگر محض جلسوں سے طرز حکمرانی کی کایا نہیں پلٹی جاسکتی ۔

خدا کرے کہ جلسوں کے انعقاد کے ساتھ ساتھ سیاسی قائدین ملکی بحران اور دھرنوں سے پر امن طریقے سے نمٹنے کی مدبرانہ تدبیر بھی کریں، صورتحال کسی بھی طرف سے ''دیکھو اور انتظار کرو ''کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ختم ہوا، متفقہ قرارداد آئی ، جرگہ اور پارلیمانی وفود کی بات چیت کے کئی دور ہوئے مگر حکومت اور دو متحارب اور مشتعل جماعتوں کے درمیان افہام و تفہیم کا مرحلہ نہیں آیا، مسائل جوں کے توں ہیں ، جب کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ فریقین اور حکومت کے مابین ملک کے عظیم ترمفاد میں جلد باوقار اور پائیدار مفاہمت ہو، سیاسی مظاہرین اور دھرنے میں شریک قوتوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے بجائے مکالمہ کا آغاز ہونا چاہیے۔

14اگست سے 21 ستمبر تک عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے قائدین اور سیکڑوں کارکنوں کے خلاف اب تک مجموعی طور پر 37مقدمات درج کیے جاچکے ہیں، اس پر سنجیدگی سے نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔ امید کی جانی چاہیے کہ وزیراعظم نواز شریف اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت سے پہلے ان امور پر فوری فیصلہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے ۔
Load Next Story