اول و آخر پاکستان
ہماری قوم کی سب سے بڑی بد نصیبی یہ ہے کہ بانیان پاکستان کے بعد ہمیں کوئی بے غرض اور مخلص رہنما میسر نہیں آیا۔۔۔۔
وطن عزیز اس وقت اپنی تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزررہا ہے۔ ایک طرف وفاقی دارالخلافہ اسلام آباد میں دھرنوں کا لا متناہی سلسلہ جاری ہے اور دوسری جانب طوفانی بارشوں اور سیلاب کی صورت حال نے ایک اور بحران پیدا کردیا ہے۔
ابھی گزشتہ سال کے سیلابوں کے لگائے ہوئے زخم مندمل نہیں ہوئے تھے کہ حالیہ سیلاب نے نئے گمبھیر مسائل پیدا کردیے ہیں۔ دنیا ہر آن تیزی سے بدل رہی ہے لیکن قیام پاکستان کے 67 برس گزرنے کے باوجود ہمارے یہاں کچھ بھی نہیں بدلا۔ حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں،کبھی فوجی آمریت اور کبھی نام نہاد جمہوریت لیکن ظلمت میں کوئی کمی نظر نہیں آئی،کتنے افسوس کی بات ہے کہ حکمران اس بات کو فراموش کر بیٹھے کہ پچھلے سال کے سیلابوں سے کتنی تباہی و بربادی ہوئی تھی اور کتنا بھاری جانی اور مالی نقصان ہوا تھا اگر حکومت کو سابقہ تجربے کا ذرا بھی خیال ہوتا تو اس نے آیندہ کے لیے کچھ نہ کچھ حفاظتی اقدامات ضرور کیے ہوتے۔
جس وقت ہم یہ کالم سپرد قلم کررہے ہیں اس وقت بھی سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ ہزاروں ایکڑ زرعی زمینیں دریا برد ہوگئی ہیں اورکھڑی ہوئی فصلیں بالکل تباہ ہوگئی ہیں۔ بہت سے حفاظتی بندوں میں شگاف پڑ گئے جب کہ کئی شہروں کو بچانے کے لیے بعض بند کاٹنے پڑے۔ خوفناک سیلابوں نے بے شمار بستیاں اجاڑ دی ہیں اور لاکھوں لوگوں کو خانماں برباد کردیا ہے۔ ان بستیوں کی دوبارہ آبادکاری کوئی آسان کام نہیں ہے
بستی بسنا کھیل نہیں ہے، بستے بستے بستی ہے
اب تک کے اندازوں کے مطابق طوفانی بارشوں اور زبردست سیلاب کے نتیجے میں صرف صوبہ پنجاب میں ہلاک شدگان کی تعداد ڈیڑھ سو افراد سے تجاوزکرگئی ہے جس میں مزید اضافہ خارج از امکان نہیں ہے۔ اندیشہ ہے کہ صوبے میں سیلاب سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 7 لاکھ تک جا پہنچے گی۔ ادھر آزاد کشمیر میں سیلاب کے باعث جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 64 ہوگئی ہے جب کہ شمالی علاقوں گلگت اور بلتستان میں تقریباً ایک درجن افراد سیلاب کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
اس صورت حال کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ محکمہ موسمیات کے سربراہ نے حکومت کو جولائی کے مہینے ہی میں آیندہ پیش آنے والی صورت حال سے خبردار کردیا تھا لیکن افسوس کہ حکومت نے ہوش کے ناخن ہی نہیں لیے کیوں کہ اسے اپنے مفاد کی دلچسپیوں سے ہی فرصت اور فراغت نہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی یہ پرانی عادت ہے کہ ہر سال جب بھی سیلاب آتا ہے وہ خواب غفلت سے یکا یک بیدار ہوکر متاثرہ علاقوں کے طوفانی اور ہنگامی دورے کرتے ہیں جن کی میڈیا پر خوب خوب تشہیر کی جاتی ہے تاکہ عوام کو یہ تاثر دیا جاسکے کہ ہمارے لیڈران کرام کو اپنے عوام سے کوئی ہمدردی ہے حالانکہ کڑوا سچ یہ ہے کہ
قوم کے غم میں ڈنرکھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہیں مگر آرام کے ساتھ
چنانچہ ماضی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے وزیر اعظم میاں نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے کیے۔ایسے میں بھلا تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھلا کہاں پیچھے رہنے والے تھے اگرچہ سیلاب زدگان کی ہمدردی میں انھوں نے اپنا دھرنا تو ختم نہیں کیا لیکن دھرنے سے قیمتی وقت نکال کر وہ بھی اظہار ہمدردی کے طور پر تھوڑی دیر کے لیے متاثرین سیلاب کا دکھ درد بانٹنے کے لیے گئے۔
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ ہمیں بہت زیادہ توقع تھی کہ دھرنوں کے عوام دوست قائدین غمگین متاثرین سیلاب کے ساتھ اظہار یکجہتی و ہمدردی کے طور پر دھرنوں کا سلسلہ ختم کرکے خدمت خلق کے نیک کام میں جت جائیں گے مگر افسوس ہماری تمام امیدوں پر پانی پھر گیا اور ہماری نیک خواہشات دھری کی دھری رہ گئیں ضمناً یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور سربراہ عوامی تحریک علامہ طاہر القادری کو بھی دعوت دیتے ہوئی ان سے یہ گزارش کی تھی کہ وہ دھرنے چھوڑکر متاثرین سیلاب کی مدد کرکے ثواب دارین حاصل کریں۔
قابل فخر اور لائق تحسین ہیں ہماری افواج پاکستان جنہوں نے اپنی سنہری روایت کو برقرار رکھتے ہوئے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے وا شگاف الفاظ میں اعلان کردیا کہ فوج متاثرین سیلاب کی امداد کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھے گی اور اس کام کے لیے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔ ان کے اس اعلان کی پیروی کرتے ہوئے پاکستان نیوی کے جوانوں نے پنجاب کے سیلاب سے متاثرہ اضلاع سیالکوٹ اور جھنگ سے اپنے فیلڈ ریلیف آپریشن کی شروعات کی۔
ہماری قوم کی سب سے بڑی بد نصیبی یہ ہے کہ بانیان پاکستان کے بعد ہمیں کوئی بے غرض اور مخلص رہنما میسر نہیں آیا۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی حاصل کرنے کے 67 سال گزر جانے کے بعد بھی قوم بد حالی، مایوسی اور انتشار کا شکار ہے، ہمارے اقتدار کے بھوکے سیاسی قائدین سیاست کو ریاست پر ترجیح دیتے رہے ہیں اور انھوں نے اس حقیقت کو فراموش کردیا ہے کہ ریاست کا وجود سیاست کے لیے لازم و ملزوم ہے کیونکہ جب بانس ہی باقی نہ رہے گا تو بانسری بھلا کیسے بجے گی؟
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب سیاست دانوں کا قبلہ ہی درست نہ ہوگا تو پھر بھلا اداروں کا قبلہ کیوںکر درست ہوگا، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیشن (NDMC) ہی کی مثال لے لیجیے جس کا کام قدرتی آفتاب سے نمٹنے کی تیاری اور منصوبہ بندی کرنا ہے۔ کلیدی سرکاری اہلکاروں پر مشتمل اس ادارے کا سربراہ وزیراعظم ہیں۔ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہوگی کہ 2012 سے اس کا کوئی اجلاس ہی نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ 10 سالہ منصوبہ جو قدرتی آفات سے نمٹنے کی حکمت عملی میں اصلاح کے لیے تیار کیا گیا تھا مسلسل کٹھائی میں پڑا رہا گویا نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس ادارے کا اجلاس صرف وزیراعظم کی ہدایت یا حکم کے مطابق ہی طلب کیا جاسکتا ہے۔
مشکل یہ ہے کہ ہمارے وزیراعظم کو اپنے غیر ملکی دوروں اور بعض دیگر مصروفیات سے وقت ملتا تو وہ اس ادارے کا اجلاس طلب کرتے ان بے چاروں کو تو پارلیمان میں آنے کی فرصت بھی بڑی مشکل سے میسر آتی ہے۔ رہی بات 2010 کے سیلابی ریلوں کی قیامت خیز تباہ کاری کی تو یہ حقیقت اب کسی سے بھی پوشیدہ نہیں رہی کہ با اثر سیاست دانوں نے اپنی اپنی زمینوں کو سیلاب سے بچانے کے لیے متعلقہ اہلکاروں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے سیلابی ریلوے کا رخ مڑوادیا تھا۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے موجودہ حیران کن دور میں دنیا کے کتنے ہی ممالک مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے دس دس اور پچاس پچاس سال قبل منصوبہ بندی مکمل کرلیتے ہیں تاکہ ناگہانی آفات سے ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کو ممکنہ حد تک کم سے کم کیا جاسکے۔ لیکن نہایت افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں سیلابوں کا آنا ایک معمول کی بات ہے وقت سے پہلے کسی بھی قسم ی تیاری کا کوئی تصور ہی موجود نہیں ہے۔
حکومتیں آتی رہیں اور جاتی رہیں، کبھی فوجی اور کبھی جمہوری مگر اس جانب کسی نے بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ بھلا ہو ایوب خان کا کہ اس نے اپنے دور میں عظیم الشان تربیلا ڈیم بنادیا اور منگلا ڈیم بھی معرض وجود میں آگیا۔ اس کے بعد کالا باغ ڈیم کے چرچے تو بہت ہوئے مگر یہ سب سبز باغ دکھانے کے ہی مترادف تھا اور سیاسی مفاد پرستی اور مصلحت کوشی آج تک اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کی شکل میں حائل ہے۔
کاش ہمارے نام نہاد جمہوریت پسند سیاسی حکمران علاقائی مفادات سے بالاتر ہوکر مجموعی قومی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے حب الوطنی کے تقاضوں کی تکمیل کریں تاکہ چھوٹے بڑے مطلوبہ ڈیم تعمیر کرکے ایک جانب سیلابی ریلوں کی تباہی و بربادی کا سد باب کیا جاسکے اور دوسری جانب پن بجلی پیدا کرکے توانائی کے بحران پر قابو پایا جاسکے۔ اپنے محترم قائدین سے ہماری دست بستہ استدعا ہے کہ اگر واقعی آپ کو وطن کا مفاد سب سے زیادہ عزیز ہے تو اپنی توانائیاں ایک دوسرے کا سر پھوڑنے میں ضایع کرنے کے بجائے سر جوڑ کر بیٹھنے اور تعمیری سرگرمیوں میں حصہ لینے میں بروئے کار لایئے کیوں کہ یہ ملک کسی بھی عنوان سے انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یاد رکھیے! اول و آخر پاکستان۔
ابھی گزشتہ سال کے سیلابوں کے لگائے ہوئے زخم مندمل نہیں ہوئے تھے کہ حالیہ سیلاب نے نئے گمبھیر مسائل پیدا کردیے ہیں۔ دنیا ہر آن تیزی سے بدل رہی ہے لیکن قیام پاکستان کے 67 برس گزرنے کے باوجود ہمارے یہاں کچھ بھی نہیں بدلا۔ حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں،کبھی فوجی آمریت اور کبھی نام نہاد جمہوریت لیکن ظلمت میں کوئی کمی نظر نہیں آئی،کتنے افسوس کی بات ہے کہ حکمران اس بات کو فراموش کر بیٹھے کہ پچھلے سال کے سیلابوں سے کتنی تباہی و بربادی ہوئی تھی اور کتنا بھاری جانی اور مالی نقصان ہوا تھا اگر حکومت کو سابقہ تجربے کا ذرا بھی خیال ہوتا تو اس نے آیندہ کے لیے کچھ نہ کچھ حفاظتی اقدامات ضرور کیے ہوتے۔
جس وقت ہم یہ کالم سپرد قلم کررہے ہیں اس وقت بھی سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ ہزاروں ایکڑ زرعی زمینیں دریا برد ہوگئی ہیں اورکھڑی ہوئی فصلیں بالکل تباہ ہوگئی ہیں۔ بہت سے حفاظتی بندوں میں شگاف پڑ گئے جب کہ کئی شہروں کو بچانے کے لیے بعض بند کاٹنے پڑے۔ خوفناک سیلابوں نے بے شمار بستیاں اجاڑ دی ہیں اور لاکھوں لوگوں کو خانماں برباد کردیا ہے۔ ان بستیوں کی دوبارہ آبادکاری کوئی آسان کام نہیں ہے
بستی بسنا کھیل نہیں ہے، بستے بستے بستی ہے
اب تک کے اندازوں کے مطابق طوفانی بارشوں اور زبردست سیلاب کے نتیجے میں صرف صوبہ پنجاب میں ہلاک شدگان کی تعداد ڈیڑھ سو افراد سے تجاوزکرگئی ہے جس میں مزید اضافہ خارج از امکان نہیں ہے۔ اندیشہ ہے کہ صوبے میں سیلاب سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 7 لاکھ تک جا پہنچے گی۔ ادھر آزاد کشمیر میں سیلاب کے باعث جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 64 ہوگئی ہے جب کہ شمالی علاقوں گلگت اور بلتستان میں تقریباً ایک درجن افراد سیلاب کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
اس صورت حال کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ محکمہ موسمیات کے سربراہ نے حکومت کو جولائی کے مہینے ہی میں آیندہ پیش آنے والی صورت حال سے خبردار کردیا تھا لیکن افسوس کہ حکومت نے ہوش کے ناخن ہی نہیں لیے کیوں کہ اسے اپنے مفاد کی دلچسپیوں سے ہی فرصت اور فراغت نہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی یہ پرانی عادت ہے کہ ہر سال جب بھی سیلاب آتا ہے وہ خواب غفلت سے یکا یک بیدار ہوکر متاثرہ علاقوں کے طوفانی اور ہنگامی دورے کرتے ہیں جن کی میڈیا پر خوب خوب تشہیر کی جاتی ہے تاکہ عوام کو یہ تاثر دیا جاسکے کہ ہمارے لیڈران کرام کو اپنے عوام سے کوئی ہمدردی ہے حالانکہ کڑوا سچ یہ ہے کہ
قوم کے غم میں ڈنرکھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہیں مگر آرام کے ساتھ
چنانچہ ماضی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے وزیر اعظم میاں نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے کیے۔ایسے میں بھلا تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھلا کہاں پیچھے رہنے والے تھے اگرچہ سیلاب زدگان کی ہمدردی میں انھوں نے اپنا دھرنا تو ختم نہیں کیا لیکن دھرنے سے قیمتی وقت نکال کر وہ بھی اظہار ہمدردی کے طور پر تھوڑی دیر کے لیے متاثرین سیلاب کا دکھ درد بانٹنے کے لیے گئے۔
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ ہمیں بہت زیادہ توقع تھی کہ دھرنوں کے عوام دوست قائدین غمگین متاثرین سیلاب کے ساتھ اظہار یکجہتی و ہمدردی کے طور پر دھرنوں کا سلسلہ ختم کرکے خدمت خلق کے نیک کام میں جت جائیں گے مگر افسوس ہماری تمام امیدوں پر پانی پھر گیا اور ہماری نیک خواہشات دھری کی دھری رہ گئیں ضمناً یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور سربراہ عوامی تحریک علامہ طاہر القادری کو بھی دعوت دیتے ہوئی ان سے یہ گزارش کی تھی کہ وہ دھرنے چھوڑکر متاثرین سیلاب کی مدد کرکے ثواب دارین حاصل کریں۔
قابل فخر اور لائق تحسین ہیں ہماری افواج پاکستان جنہوں نے اپنی سنہری روایت کو برقرار رکھتے ہوئے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے وا شگاف الفاظ میں اعلان کردیا کہ فوج متاثرین سیلاب کی امداد کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھے گی اور اس کام کے لیے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔ ان کے اس اعلان کی پیروی کرتے ہوئے پاکستان نیوی کے جوانوں نے پنجاب کے سیلاب سے متاثرہ اضلاع سیالکوٹ اور جھنگ سے اپنے فیلڈ ریلیف آپریشن کی شروعات کی۔
ہماری قوم کی سب سے بڑی بد نصیبی یہ ہے کہ بانیان پاکستان کے بعد ہمیں کوئی بے غرض اور مخلص رہنما میسر نہیں آیا۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی حاصل کرنے کے 67 سال گزر جانے کے بعد بھی قوم بد حالی، مایوسی اور انتشار کا شکار ہے، ہمارے اقتدار کے بھوکے سیاسی قائدین سیاست کو ریاست پر ترجیح دیتے رہے ہیں اور انھوں نے اس حقیقت کو فراموش کردیا ہے کہ ریاست کا وجود سیاست کے لیے لازم و ملزوم ہے کیونکہ جب بانس ہی باقی نہ رہے گا تو بانسری بھلا کیسے بجے گی؟
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب سیاست دانوں کا قبلہ ہی درست نہ ہوگا تو پھر بھلا اداروں کا قبلہ کیوںکر درست ہوگا، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیشن (NDMC) ہی کی مثال لے لیجیے جس کا کام قدرتی آفتاب سے نمٹنے کی تیاری اور منصوبہ بندی کرنا ہے۔ کلیدی سرکاری اہلکاروں پر مشتمل اس ادارے کا سربراہ وزیراعظم ہیں۔ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہوگی کہ 2012 سے اس کا کوئی اجلاس ہی نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ 10 سالہ منصوبہ جو قدرتی آفات سے نمٹنے کی حکمت عملی میں اصلاح کے لیے تیار کیا گیا تھا مسلسل کٹھائی میں پڑا رہا گویا نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس ادارے کا اجلاس صرف وزیراعظم کی ہدایت یا حکم کے مطابق ہی طلب کیا جاسکتا ہے۔
مشکل یہ ہے کہ ہمارے وزیراعظم کو اپنے غیر ملکی دوروں اور بعض دیگر مصروفیات سے وقت ملتا تو وہ اس ادارے کا اجلاس طلب کرتے ان بے چاروں کو تو پارلیمان میں آنے کی فرصت بھی بڑی مشکل سے میسر آتی ہے۔ رہی بات 2010 کے سیلابی ریلوں کی قیامت خیز تباہ کاری کی تو یہ حقیقت اب کسی سے بھی پوشیدہ نہیں رہی کہ با اثر سیاست دانوں نے اپنی اپنی زمینوں کو سیلاب سے بچانے کے لیے متعلقہ اہلکاروں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے سیلابی ریلوے کا رخ مڑوادیا تھا۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے موجودہ حیران کن دور میں دنیا کے کتنے ہی ممالک مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے دس دس اور پچاس پچاس سال قبل منصوبہ بندی مکمل کرلیتے ہیں تاکہ ناگہانی آفات سے ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کو ممکنہ حد تک کم سے کم کیا جاسکے۔ لیکن نہایت افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں سیلابوں کا آنا ایک معمول کی بات ہے وقت سے پہلے کسی بھی قسم ی تیاری کا کوئی تصور ہی موجود نہیں ہے۔
حکومتیں آتی رہیں اور جاتی رہیں، کبھی فوجی اور کبھی جمہوری مگر اس جانب کسی نے بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ بھلا ہو ایوب خان کا کہ اس نے اپنے دور میں عظیم الشان تربیلا ڈیم بنادیا اور منگلا ڈیم بھی معرض وجود میں آگیا۔ اس کے بعد کالا باغ ڈیم کے چرچے تو بہت ہوئے مگر یہ سب سبز باغ دکھانے کے ہی مترادف تھا اور سیاسی مفاد پرستی اور مصلحت کوشی آج تک اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کی شکل میں حائل ہے۔
کاش ہمارے نام نہاد جمہوریت پسند سیاسی حکمران علاقائی مفادات سے بالاتر ہوکر مجموعی قومی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے حب الوطنی کے تقاضوں کی تکمیل کریں تاکہ چھوٹے بڑے مطلوبہ ڈیم تعمیر کرکے ایک جانب سیلابی ریلوں کی تباہی و بربادی کا سد باب کیا جاسکے اور دوسری جانب پن بجلی پیدا کرکے توانائی کے بحران پر قابو پایا جاسکے۔ اپنے محترم قائدین سے ہماری دست بستہ استدعا ہے کہ اگر واقعی آپ کو وطن کا مفاد سب سے زیادہ عزیز ہے تو اپنی توانائیاں ایک دوسرے کا سر پھوڑنے میں ضایع کرنے کے بجائے سر جوڑ کر بیٹھنے اور تعمیری سرگرمیوں میں حصہ لینے میں بروئے کار لایئے کیوں کہ یہ ملک کسی بھی عنوان سے انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یاد رکھیے! اول و آخر پاکستان۔