مشورہ
لوگ عملی کاموں کو دیکھ رہے ہیں آیندہ الیکشن میں برادری سسٹم یا پنکچر زدہ سیاست کام نہیں کرے گی۔۔۔
PESHAWAR:
ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم وہ نہیں جو دنیا کو نظر آتے ہیں ، کتنے ہی نقاب ہیں جو ہم نے اپنے چہروں پر ڈال رکھے ہیں خود کو اونچے سنگھاسن پر بٹھا کر دیوتا بن بیٹھے ہیں کہ ہم سے تو کوئی غلطی ہو ہی نہیں سکتی۔ اسی تصور نے ہمیں عام لوگوں سے دورکردیا ہے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آنے والوں نے نہ تو کبھی عام آدمی کے مسائل کو سمجھا اور نہ ہی سمجھنا چاہتے ہیں۔
یاد ہے تو بس اتنا کہ عوام ان پر کتنا دان نچھاور کرتے ہیں اسی لیے ہر چیز پر اپنا حق سمجھتے ہیں جس کی مثال مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں سے اب مرسوں مرسوں پنجاب نہ ڈیسوں تک پہنچ گئی ہے اس لیے یہ دیوتا عوام سے دان بھی لیتے ہیں اور بلی دان بھی۔ مگر ان زمینی خداؤں نے کبھی اپنی مسند سے نیچے آنا گوارا نہیں کیا مگر اب وقت آگیا ہے کیونکہ عوام نے اپنے حقوق کو سمجھنا شروع کردیا ہے آہستہ آہستہ ان لوگوں کی تعداد بڑھتی جائے گی اور وہ دن اب دور نہیں جب کوئی عوام کے حقوق کو غصب نہیں کرسکے گا۔
پی آئی اے کی پرواز میں ہونے والا واقعہ سخت حبس میں پڑنے والی وہ بوند ہے جو پتھر میں بھی سوراخ کردیتی ہے آج صفائیاں دی جا رہی ہیں کہ یہ ایک سازش ہے کبھی الزام لگا رہے ہیں کہ اقلیت سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ایسا ہوا۔ پارلیمنٹ میں گرجنے برسنے والے یہ مقرر میڈیا کے سامنے آئیں بائیں شائیں کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ انھیں الفاظ نہیں ملتے کہ اپنی صفائی میں موثر الفاظ پیش کرسکیں۔ اسی لیے الفاظ کے قحط الرجال میں مبتلا ہوجاتے ہیں یہ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ اب عوام میں تبدیلی آ رہی ہے عوام اب آنکھیں بند کرکے ان کے الفاظ پر یقین نہیں کریں گے۔
پی آئی اے کی پرواز پر جو کچھ ہوا وہ اچانک نہیں ہوا بلکہ یہ لاوا تو آہستہ آہستہ پک رہا تھا۔ آئے دن عوام اس وی وی آئی پی کلچر کی وجہ سے پریشان رہتے ہیں ان حکمرانوں بلکہ ان کے لواحقین کے لیے بھی گزرگاہوں کو گھنٹوں پہلے بند کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے عوام جس کرب کا شکار ہوتے ہیں اسی کرب نے عوام کو مجبور کردیا ہے یہ سب جو کچھ ہوا یہ ان واقعات کا ہی نتیجہ ہے جس پر عام آدمی بھی عملی قدم اٹھانے پر مجبور ہوگیا ہے ۔
عوام میں بیداری کی لہر جو پہلے سے موجود تھی اب اس نے لاوے کی شکل اختیار کرلی ہے جو کبھی کہیں بھی پھٹ سکتی ہے اس لیے اب یہ کہنا کہ وہ لوگ جنھوں نے شاہی حکمرانوں کو بھاگنے پر مجبور کیا عمران خان یا قادری کے آدمی تھے غلط ہے، آج ایک فلائٹ میں ہوا ہے اب ہر جگہ ایسا ہوگا۔ اس سوچ و تبدیلی کا مظاہرہ ہمیں سکھر میں بھی نظر آگیا جب وزیر اعلیٰ سندھ کی گاڑیوں کے قافلے کو ایک گدھا گاڑی والے کی رفتار کی وجہ سے سست ہونا پڑا تو ان وقت کے خداؤں سے یہ برداشت نہ ہوا اور اس بے چارے غریب کو زدوکوب کیا گیا مگر نتیجہ کیا ہوا عوام نے بھی اپنے حقوق کی آواز کو اتنا بلند کردیا کہ سالار قافلہ کو مجبوراً اپنا رخ تبدیل کرنا پڑا۔ اب ہر جگہ ہی یہ ہوگا اس لیے ضروری ہے کہ اس کلچر کو ہی ختم کیا جائے عوام کے نمایندوں کو اب عوامی سطح پر آنا پڑے گا جمہوریت کا ذکر تو بہت ہوتا ہے مگر جمہوریت میں جس طرح کے کام کیے جاتے ہیں ان کی تفسیر نظر نہیں آتی ۔
برطانیہ کا وزیر اعظم اپنی گاڑی خود چلا کر لے جاتا ہے ٹرین میں عام مسافروں کے ساتھ سفر کرسکتا ہے تو پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا مگر ہمارے ہاں صرف اور صرف بیانات کے ذریعے ہی عام آدمی سے ہمدردی کی جاتی رہی ہے لیکن اب تاریخ بدل رہی ہے۔ آپ ڈنڈے کے زور پر کب تک انسانوں کو غلامی پر مجبور کرسکتے ہیں غلامی کی زنجیریں آخر ایک دن ٹوٹ ہی جاتی ہیں ایک وہ وقت تھا جب سابق صدر کے پروٹوکول کی وجہ سے راستے بند ہونے کی صورت میں ایک ماں بروقت اسپتال نہ پہنچ سکی اور اس نے رکشے میں ہی اپنے بیٹے کو جنم دیا تھا۔
آج وہ وقت ہے کہ بلاول بھٹو زرداری سیلاب کے پانی میں سے گزرتے ہوئے کیچڑ میں لتھڑے ہوئے عوام کے پاس پہنچ رہے ہیں اور یہ عوام کی طاقت کا ہی ثبوت ہے کہ آپ اپنے دام میں صیاد آگیا ورنہ تو ان حکمرانوں کا یہ حال ہے کہ کچھ لوگ اپنے ذاتی ملازمین کو بھی مختلف پروازوں میں اکنامک کلاس کے ٹکٹ پر بزنس کلاس میں سفر کروانا چاہتے ہیں اور اگر کوئی اللہ کا بندہ ان کی اس خبر کو عام کردے تو اس کی شامت آجاتی ہے اسے ملازمت سے رخصتی کا پروانہ تھما دیا جاتا ہے مگر وقت کی رفتار بتا رہی ہے کہ اس طرح کے کلچر کو اب ختم ہونا پڑے گا۔ کیونکہ شعور کی بیداری کی ابتدا ہوچکی ہے اب ووٹ کی طاقت کا اندازہ ہو رہا ہے عوام کے پیسوں پر حکومت کرنے والے لوگ اب عوام کو حقیر نہیں سمجھ سکیں گے اس لیے بلندوبانگ دعوے یا لفظوں کی تکرار سے لوگوں کو بے وقوف بنانے کا وقت گزر گیا ہے۔
لوگ عملی کاموں کو دیکھ رہے ہیں آیندہ الیکشن میں برادری سسٹم یا پنکچر زدہ سیاست کام نہیں کرے گی بلکہ وہ لوگ ہی منتخب ہوکر ایوانوں میں بیٹھیں گے جوکہ عوام کے درد کو سمجھتے ہوئے عوام کی بھلائی کے لیے کام کریں گے عوام کو مہنگائی، ٹیکسوں کے بوجھ سے نجات دلائیں گے اگر آج ان بلاوجہ کے ٹیکسوں کا بوجھ آدھا بھی کردیا جائے تو یہ عوام سکون کا سانس لے لیں گے ۔
عمران خان کو بھی مشورہ ہے کہ وہ دھرنے ختم کریں اور عوام کے لیے کام کریں سیلاب سے پنجاب کا وسیع رقبہ متاثر ہوا ہے۔ سندھ میں بھی کچھ اضلاع اس کا شکار ہوچکے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ اب ان متاثرین کی بحالی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جائے وزیر اعظم بذات خود ہر جگہ پہنچ کر سیلاب زدگان سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب بھی سیلاب کا پیچھا کرتے ہوئے ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں مختلف سیاسی پارٹیاں سیاسی جرگوں کے ذریعے افہام و تفہیم کا ماحول پیدا کر رہی ہیں تو اسی دوران اگر ایک جرگہ کالا باغ ڈیم یا دوسرے ڈیموں کی تعمیر کے لیے بھی بیٹھ جائے اور تمام لوگوں کی آرا سے نئے ڈیموں کی تعمیر اور پرانے بندوں کی مرمت کے لیے کام ہوجائے تو بہت اچھا ہو کیونکہ ہر سال سیلاب آتا ہے اور اب تو ماحولیات کی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان کو مون سون کی بارشوں اور اس طرح کے سیلابوں سے خطرہ ہے تو پھر کیوں ہم دوسری باتوں میں الجھے ہوئے ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم ان ضروری باتوں پر توجہ دے کر آیندہ سال کی ممکنہ تباہی سے بچ سکتے ہیں۔
ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم وہ نہیں جو دنیا کو نظر آتے ہیں ، کتنے ہی نقاب ہیں جو ہم نے اپنے چہروں پر ڈال رکھے ہیں خود کو اونچے سنگھاسن پر بٹھا کر دیوتا بن بیٹھے ہیں کہ ہم سے تو کوئی غلطی ہو ہی نہیں سکتی۔ اسی تصور نے ہمیں عام لوگوں سے دورکردیا ہے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آنے والوں نے نہ تو کبھی عام آدمی کے مسائل کو سمجھا اور نہ ہی سمجھنا چاہتے ہیں۔
یاد ہے تو بس اتنا کہ عوام ان پر کتنا دان نچھاور کرتے ہیں اسی لیے ہر چیز پر اپنا حق سمجھتے ہیں جس کی مثال مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں سے اب مرسوں مرسوں پنجاب نہ ڈیسوں تک پہنچ گئی ہے اس لیے یہ دیوتا عوام سے دان بھی لیتے ہیں اور بلی دان بھی۔ مگر ان زمینی خداؤں نے کبھی اپنی مسند سے نیچے آنا گوارا نہیں کیا مگر اب وقت آگیا ہے کیونکہ عوام نے اپنے حقوق کو سمجھنا شروع کردیا ہے آہستہ آہستہ ان لوگوں کی تعداد بڑھتی جائے گی اور وہ دن اب دور نہیں جب کوئی عوام کے حقوق کو غصب نہیں کرسکے گا۔
پی آئی اے کی پرواز میں ہونے والا واقعہ سخت حبس میں پڑنے والی وہ بوند ہے جو پتھر میں بھی سوراخ کردیتی ہے آج صفائیاں دی جا رہی ہیں کہ یہ ایک سازش ہے کبھی الزام لگا رہے ہیں کہ اقلیت سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ایسا ہوا۔ پارلیمنٹ میں گرجنے برسنے والے یہ مقرر میڈیا کے سامنے آئیں بائیں شائیں کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ انھیں الفاظ نہیں ملتے کہ اپنی صفائی میں موثر الفاظ پیش کرسکیں۔ اسی لیے الفاظ کے قحط الرجال میں مبتلا ہوجاتے ہیں یہ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ اب عوام میں تبدیلی آ رہی ہے عوام اب آنکھیں بند کرکے ان کے الفاظ پر یقین نہیں کریں گے۔
پی آئی اے کی پرواز پر جو کچھ ہوا وہ اچانک نہیں ہوا بلکہ یہ لاوا تو آہستہ آہستہ پک رہا تھا۔ آئے دن عوام اس وی وی آئی پی کلچر کی وجہ سے پریشان رہتے ہیں ان حکمرانوں بلکہ ان کے لواحقین کے لیے بھی گزرگاہوں کو گھنٹوں پہلے بند کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے عوام جس کرب کا شکار ہوتے ہیں اسی کرب نے عوام کو مجبور کردیا ہے یہ سب جو کچھ ہوا یہ ان واقعات کا ہی نتیجہ ہے جس پر عام آدمی بھی عملی قدم اٹھانے پر مجبور ہوگیا ہے ۔
عوام میں بیداری کی لہر جو پہلے سے موجود تھی اب اس نے لاوے کی شکل اختیار کرلی ہے جو کبھی کہیں بھی پھٹ سکتی ہے اس لیے اب یہ کہنا کہ وہ لوگ جنھوں نے شاہی حکمرانوں کو بھاگنے پر مجبور کیا عمران خان یا قادری کے آدمی تھے غلط ہے، آج ایک فلائٹ میں ہوا ہے اب ہر جگہ ایسا ہوگا۔ اس سوچ و تبدیلی کا مظاہرہ ہمیں سکھر میں بھی نظر آگیا جب وزیر اعلیٰ سندھ کی گاڑیوں کے قافلے کو ایک گدھا گاڑی والے کی رفتار کی وجہ سے سست ہونا پڑا تو ان وقت کے خداؤں سے یہ برداشت نہ ہوا اور اس بے چارے غریب کو زدوکوب کیا گیا مگر نتیجہ کیا ہوا عوام نے بھی اپنے حقوق کی آواز کو اتنا بلند کردیا کہ سالار قافلہ کو مجبوراً اپنا رخ تبدیل کرنا پڑا۔ اب ہر جگہ ہی یہ ہوگا اس لیے ضروری ہے کہ اس کلچر کو ہی ختم کیا جائے عوام کے نمایندوں کو اب عوامی سطح پر آنا پڑے گا جمہوریت کا ذکر تو بہت ہوتا ہے مگر جمہوریت میں جس طرح کے کام کیے جاتے ہیں ان کی تفسیر نظر نہیں آتی ۔
برطانیہ کا وزیر اعظم اپنی گاڑی خود چلا کر لے جاتا ہے ٹرین میں عام مسافروں کے ساتھ سفر کرسکتا ہے تو پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا مگر ہمارے ہاں صرف اور صرف بیانات کے ذریعے ہی عام آدمی سے ہمدردی کی جاتی رہی ہے لیکن اب تاریخ بدل رہی ہے۔ آپ ڈنڈے کے زور پر کب تک انسانوں کو غلامی پر مجبور کرسکتے ہیں غلامی کی زنجیریں آخر ایک دن ٹوٹ ہی جاتی ہیں ایک وہ وقت تھا جب سابق صدر کے پروٹوکول کی وجہ سے راستے بند ہونے کی صورت میں ایک ماں بروقت اسپتال نہ پہنچ سکی اور اس نے رکشے میں ہی اپنے بیٹے کو جنم دیا تھا۔
آج وہ وقت ہے کہ بلاول بھٹو زرداری سیلاب کے پانی میں سے گزرتے ہوئے کیچڑ میں لتھڑے ہوئے عوام کے پاس پہنچ رہے ہیں اور یہ عوام کی طاقت کا ہی ثبوت ہے کہ آپ اپنے دام میں صیاد آگیا ورنہ تو ان حکمرانوں کا یہ حال ہے کہ کچھ لوگ اپنے ذاتی ملازمین کو بھی مختلف پروازوں میں اکنامک کلاس کے ٹکٹ پر بزنس کلاس میں سفر کروانا چاہتے ہیں اور اگر کوئی اللہ کا بندہ ان کی اس خبر کو عام کردے تو اس کی شامت آجاتی ہے اسے ملازمت سے رخصتی کا پروانہ تھما دیا جاتا ہے مگر وقت کی رفتار بتا رہی ہے کہ اس طرح کے کلچر کو اب ختم ہونا پڑے گا۔ کیونکہ شعور کی بیداری کی ابتدا ہوچکی ہے اب ووٹ کی طاقت کا اندازہ ہو رہا ہے عوام کے پیسوں پر حکومت کرنے والے لوگ اب عوام کو حقیر نہیں سمجھ سکیں گے اس لیے بلندوبانگ دعوے یا لفظوں کی تکرار سے لوگوں کو بے وقوف بنانے کا وقت گزر گیا ہے۔
لوگ عملی کاموں کو دیکھ رہے ہیں آیندہ الیکشن میں برادری سسٹم یا پنکچر زدہ سیاست کام نہیں کرے گی بلکہ وہ لوگ ہی منتخب ہوکر ایوانوں میں بیٹھیں گے جوکہ عوام کے درد کو سمجھتے ہوئے عوام کی بھلائی کے لیے کام کریں گے عوام کو مہنگائی، ٹیکسوں کے بوجھ سے نجات دلائیں گے اگر آج ان بلاوجہ کے ٹیکسوں کا بوجھ آدھا بھی کردیا جائے تو یہ عوام سکون کا سانس لے لیں گے ۔
عمران خان کو بھی مشورہ ہے کہ وہ دھرنے ختم کریں اور عوام کے لیے کام کریں سیلاب سے پنجاب کا وسیع رقبہ متاثر ہوا ہے۔ سندھ میں بھی کچھ اضلاع اس کا شکار ہوچکے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ اب ان متاثرین کی بحالی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جائے وزیر اعظم بذات خود ہر جگہ پہنچ کر سیلاب زدگان سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب بھی سیلاب کا پیچھا کرتے ہوئے ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں مختلف سیاسی پارٹیاں سیاسی جرگوں کے ذریعے افہام و تفہیم کا ماحول پیدا کر رہی ہیں تو اسی دوران اگر ایک جرگہ کالا باغ ڈیم یا دوسرے ڈیموں کی تعمیر کے لیے بھی بیٹھ جائے اور تمام لوگوں کی آرا سے نئے ڈیموں کی تعمیر اور پرانے بندوں کی مرمت کے لیے کام ہوجائے تو بہت اچھا ہو کیونکہ ہر سال سیلاب آتا ہے اور اب تو ماحولیات کی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان کو مون سون کی بارشوں اور اس طرح کے سیلابوں سے خطرہ ہے تو پھر کیوں ہم دوسری باتوں میں الجھے ہوئے ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم ان ضروری باتوں پر توجہ دے کر آیندہ سال کی ممکنہ تباہی سے بچ سکتے ہیں۔