پاکستان ایک نظر میں کیا مزید صوبے ترقی کی ضمانت ہیں

جمہوریت صرف احتجاج کے حق کا نام نہیں بلکہ فرائض کی ادئیگی نہ کرنے پر حق مانگنے کو جمہوریت کہتے ہیں۔


عاقب علی September 23, 2014
ملک میں اِس وقت 4 صوبائی اسمبلیاں ہیں جن کے اخراجات بے تحاشہ ہیں ۔۔۔ اگر صوبوں کی تعداد 20 یا اُس سے زائد ہوگئی تو اخراجات کا اندازہ ہم بخوبی لگاسکتے ہیں جبکہ حالات کی بہتری بھی غیریقینی ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

ISLAMABAD: کرپشن ، لاقانونیت ،دہشتگردی ، بے روزگاری، مہنگائی سمیت کئی مسائل کا حل اگر 20یا 32صوبے بنانے میں ہے تو بنائیے۔زبان ، رنگ و نسل کی بنیاد پر نہ سہی انتظامی لحاظ سے ہی ملک تقسیم کرنا بہت ضروری ہے تو کردیں ، مگر سوچ لیں ۔جس ملک کے 50فیصد سے زائدآبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے ہو، بچے تعلیم ، صحت اور مناسب خوراک سے محروم ہوں ۔اس ملک میں صرف ایک ایم این اے پر ( تنخواہ + مراعات کی مد میں ) سالانہ2کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں،5صوبائی اسمبلیوں کے727اراکین کے اخراجات اپنی جگہ اور سینٹ کے اراکین کی مراعات اس میں شامل کردی جائیں تورقم اربوں میں جاتی ہے مگر اس کے باوجود اس جمہوری نظام سے عوام کے مسائل حل نہیں ہورہے ہیں۔

اس حساب کتاب کو یک طرف رکھ دیں ۔مطالبہ کرنے والے سوچیں کہ اس مشق کے بعد بھی مسائل عوام کی دہلیز پر حل نہ ہوئے تو کیا ہوگا؟۔ اور جب یہ ادارے 22یا 34کی تعداد میں ہونگے تو ان کے اخراجات کا بوجھ کس پر ہوگا ؟۔ان اسمبلیوں میں جمہوری انداز سے منتخب ہوکر آنیوالوں کا رویہ آمرانہ نہیں ہوگا اس بات کی گارنٹی کو ن دے گا ؟۔ اس کے بعد بھی کون اس بات کو شرح صدر کے ساتھ کون کہہ سکتا ہے کہ علیحدگی کی تحریکیں دم توڑ دینگی،لسانی بنیادوں پر فسادات نہیں ہونگے اور وفاقی دارالحکومت پر 4سے 40ہزار کا لشکر دھاوا نہیں بولے گا ؟۔
کون اس بات کو یقینی بنا سکتا ہے کہ ان 22یا 34اسمبلیوں میں جاگیر دار ، سرمایہ دار اور صنعت کار منتخب ہوکر غریب عوام کا استحصال نہیں کرینگے؟۔ اور اگر ان منتخب افراد نے اپنے ہی بھائی ، بھتیجے ، بھانجے ، ماموں اور چاچوں کو نوازا توکون ہوگا جو نظام کو درست پٹری پر لاکر ہی رہیگا ؟۔مجھے یقین ہے جن لوگوں نے ملک کو انتظامی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی راہ ہموار کی ہے وہ اس کا درست انداز میں مقدمہ لڑیں گے۔

شاید ان کے ذہن میں ہو کہ 22یا 34ایوان اقتدار کے نمائندے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے تنخواہیں لے گئے نہ ہی مراعات بلکہ عوام کی زندگی میں بہتری کیلئے اپنا تن من دھن وار دینگے۔تو ایسی باتیں حقیقت سے کوسوں دور ہیں۔سب جانتے ہیں کہ جو لوگ منتخب ہونے کیلئے لاکھو ں لگاتے ہیں ،وہ کروڑوں روپے کی واپسی کی راہ بھی ہموار کرتے ہیں ، وہ اپنا سرمایہ سود سمیت عوام سے لیتے ہیں ، چاہے اس کیلئے انہیں پیار و محبت یا پھر جبر کو بطور ہتھیار استعمال کرنا پڑ جائے۔

ان کے پاس تو اور بھی بہت سے طریقے ہیں ،وہ ایسے منصوبے بناتے ہیں جن سے مکمل عوامی آگہی اور کبھی عوام کی لاعلمی کا فائدہ اٹھا کر کروڑوں بٹور لیتے ہیں۔پاکستان کے 2سو ارب ڈالر ایسے ہی تو سویس بینک کا حصہ نہیں بنے،اور تمام ہی سیاسی جماعتیں ایسا لائحہ عمل بنا رہی ہیں کہ ان کی واپسی ناممکن بنادی جائے۔

اس ساری گفتگو کا مطلب یہ نہیں کہ میں جمہوریت مخالف ہوں،اور ایسا بھی کچھ نہیں کہ دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جس میں کرپشن نہ ہوتی ہویا نئے صوبے نہ بنے ہوں ۔جمہوریت بھی دنیا میں چل رہی ہے، نئے صوبے بھی بنتے ہیں اور کرپشن بھی ہوتی ہے۔اگر یہ سب کچھ ہے تو پھر صوبوں کی تقسیم خراب کیسے ہوگئی؟ معاملے کا اصل حل کیا ہے؟۔ یہ دونوں ہی سوالات اہم ہیں۔ جن کا جواب یہ ہے کہ دنیا کے تمام ہی ترقی یافتہ ممالک میں کرپشن ہوتی ہے، مگر عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے جیسے ریلوے، پولیس ، نہری نظام، پبلک ٹرانسپورٹ،پانی ،صفائی،صحت و تعلیم کے منصوبوں میں کرپشن ناقابل معافی جرم ہے۔ کیونکہ وہاں کے حکمرانوں اور بیورو کریسی کو معلوم ہے کہ انہیں اور ان کی اولاد کو صحت و تعلیم بھی اس معاشرے سے ملنی ہے، ٹرانسپورٹ ، پانی ، ریلوے کے بغیر وہ سفر سے محروم ہوجائینگے۔جان سے لے کر مال کے لٹ جانے پر معاون و مددگار صرف پولیس کا ادارہ ہی ہوسکتا ہے اس لیے ان شعبہ جات کو کرپشن اور سیاسی بھرتیوں سے ہر صورت پاک رکھا جاتا ہے۔

یہ درست ہے کہ قلات،مکران، ژوب کے لوگ کوئٹہ آنے جانے میں مشکلات کا شکار ہوتے ہیں یہی معاملہ ہزارہ،مالاکنڈکے عوام کو پشاور جانے ، بہاولپور،ملتان،راولپنڈی ، سرگودھا کے شہری لاہور کے چکر اور سکھر ، میرپور خاص اور حیدر آباد ڈویژن کے عوام چھوٹے چھوٹے کاموں کیلئے کراچی کے دھکے کھاتے ہیں ان کا تدارک ہونا چاہیے۔ لیکن نئے صوبے بنانے سے قبل قوم میں جمہوریت اور جمہوری رویہ پروان چڑھانے کیلئے تعلیم و صحت سب کیلئے کا نعرہ نہیں بلکہ عملی اقدام کیا جاتا ہے۔عوام کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ جمہوریت صرف احتجاج کے حق کا نام نہیں ،حقوق ، حقوق کا راگ الاپنے کا نام بھی نہیں بلکہ یہ فرائض کی ادئیگی نہ کرنے پر حق مانگنے کو جمہوریت کہتے ہیں۔

جب آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نمائندہ اپنے فرائض ادا کرے توآپ ذمہ داریوں سے کیسے فرار اختیار کرسکتے ہیں۔دنیا بھر میں نئے صوبے بنانے کے بعد فوراً ہی تمام انتظامی امور ان کے حوالے نہیں کردئیے جاتے ہیں بلکہ تدریج کا اصول اپنایا جاتا ہے،سادگی اور حب الوطنی کے جذبے کو معاشرے کا جزلازم بنایا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں ہوتا یہ ہے کہ دو حریف جماعتیں پانچ برس اقتدار کے مزے لوٹتیں ہیں اور بلدیاتی نظام تک مرتب کرنے میں ناکام رہتی ہیں اور پھر بھی عوام ان ہی کو دوبارہ منتخب کرکے اقتدار کی راہ داریوں میں پہنچا دیتی ہیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں