پاکستان ایک نظر میں ایک تھی سکینہ
تم سب ہمیں نہ تو وہاں دریا بیچ مرنے دیتے ہو اور نہ یہاں جینے دیتے ہو۔ ہم کدھر جائیں؟
میں۔ جب تم لوگوں کو پتا ہے کہ سیلاب ہر سال آتا ہے تو پہلے ان علاقوں سے نکل کیوں نہیں آتے ہو؟ جان سے بڑھ کر تو کوئی چیز نہیں ہے نا؟
سکینہ۔ انسان کو موت سے نہیں بھاگنا چاہئے خاص طور پر جب اس کے پاس دوسری طرف بھی کوئی ٹھکانا نہ ہو۔ہم وہاں رہیں تو بھی مرنا ہے اور اگر وہاں سے بچ نکلیں تو یہاں آکر بھی مرنا ہے۔وہاں جسم ہی دریا برد ہوگا ناں، یہاں تو بندے کا اندر ہی چھلنی ہو جاتا ہے۔میں اپنی اور اپنے بچوں کی روٹی کے لئے گھنٹوں کھڑی رہتی ہوں ۔ صرف میں نہیں بلکہ یہ سب لوگ جو کیڑے مکوڑوں کی طرح اپنی جان بچا کر یہاں آتے ہیں ، یہاں ہم سب کا مقدر ایک سا ہے، جانے کس سیاہ سیاہی سے لکھا ہے کہ نسل در نسل یہ اندھیرے ختم ہی نہیں ہوتے۔ روٹی اس وقت ملتی ہے جب کوئی وڈا آدمی (بڑا آدمی) آتا ہے،کیمرے آتے ہیں۔تھیلے تقسیم ہوتے ہیں ۔ایک سیلاب میرے دو بچوں کو کھا گیا،میرے خاندان کے کئی لوگوں کا ابھی تک نہیں پتا کہ وہ زندہ ہیں یا کدھر پناہ لی ہے۔ بہہ گئے ہونگے، مر چکے ہوں گے ان کی لاشیں کسی بیراج کے دروازوں میں پھنسی ہونگی یا کسی درخت کی شاخوں میں پھنسی ہونگی۔ یہ قدرتی موت نہیں ہے یہ قتل ہیں اور میں خدا سے حساب لونگی،ایک خدا ہی تو ہمارا سہارا ہے اسی سے ساری امیدیں ہیں۔
میں حقیتاَ صرف ایڈونچر کے لئے گیا تھا جیسے کسی ہائی وے پر کوئی حادثہ ہو اور وہاں پر لوگوں کی تعداد تماشائیوں کی طرح منہ اٹھا کر کھڑی ہو جاتی ہے۔شام کو مجھے اپنے ایک دوست (وڈے آدمی) کا فون آیا کہ اسے کچھ اشیاء متاثرین میں تقسیم کرنے کیلئے کچے ( دریا سندھ کے کناروں کا علاقہ) میں جاناتھا، میرا ایڈونچر کا موڈ تھا تو ان کا قافلہ مجھے بھی ساتھ لے گیا۔ وہاں کسی دریائی بند پر میری ملاقات سکینہ سے ہوئی،اور سکینہ زندگی کے وہ سوال وہ فلسفے میرے کینوس پر اتار گئی جن کے جواب اب شاید میں عمر بھر تلاش کرتا رہوں گا۔
میں اسی بند پر تھوڑا فاصلے پر جا کر کھڑا ہو گیا، اب میرے سامنے دونوں اطراف کا منظر تھا۔ ایک طرف امداد تقسیم ہونے کی فلم چل رہی تھی اور دوسری طرف لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنے اپنے گھروں میں بند تھی ۔ آپ کو معلوم ہے ان گھروں کی دیواریں کیا تھیں؟ دو ڈنڈے بیچ میں رسی اور اس کے اوپر چند پھٹی پرانی چادریں بس۔ ان گھروں کی چھت کیا تھی؟ صرف نیلا آسمان۔ جو امیر امراء تھے انہوں نے بانس لگا کر اس پر گھاس پھونس رکھ کر اسے چھت کا نام دے کر مطمئن تھے۔کچھ لوگ اپنے مال مویشی کو بھی بچا کر لانے میں کامیاب ہوگئے تھے لیکن اب ان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ خود کو موسم کی شدت سے محفوظ رکھیں یا انہیں ۔ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی پر بچوں کی تعداد اتفاق میں برکت ہے کا نمونہ بنی بیٹھی تھی اور ان کے نیچے کچھ بکریا ں باندھ کر بٹھائی ہوئی تھیں۔
فوٹو؛ شہباز علی
میں نے اس محل کی مالکن سکینہ سے پوچھا کہ جہاں امداد تقسیم ہو رہی ہے وہ وہاں کیوں نہیں گئی؟ تو اس کے جواب نے میرے اندر طوفان بھر دیا اور مجھے لگا کہ اگر میں ان لوگوں کوصرف وہ عمارت دور سے دکھا دوں تو یہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں جہاں لاکھوں روپے فی گھنٹہ کے حساب میں صرف جمہوریت بچانے کی، نظام بچانے کی، انقلاب لانے کی، آزادی دلانے کی تو بات کی جاتی ہے مگر زندگی بچانے کی کوئی بات نہیں کرتا ہے۔
اس کا کہنا تھا کہ جب امداد تقسیم ہونے کا عمل شروع ہوتا ہے تو ہم سب لوگوں میں سے کچھ لوگوں کو چن کر آگے کر دیا جاتا ہے اور ہمیں سختی سے منع کر دیا جاتا ہے کہ آگے نہیں آنا ورنہ کچھ نہیں ملے گا۔اور بعض جگہ تو لوگوں نے ان کی بات نہیں مانی اور جب وہ وڈے لوگ آئے تو ہم سب بھاگ کر ان کے پاس گئے کہ شاید وہ ہماری بھی سنے گا، مگر جو حال پھر ان کے جانے کے بعد ہوا ہے۔۔۔ وہ دفع کریں۔ اتنی تذلیل کے بعد روٹی ملے تو کیا فائدہ۔ اچھے لوگ بھی ہیں مگر بعض شہری لوگ جب سامان لے کر آتے ہیں تو ان کی بھوکی نظروں میں وہ قیمت چھپی ہوتی ہے جو مجھ جیسی سکینہ کے اختیار میں نہیں۔ تم سب ہمیں نہ تو وہاں دریا بیچ مرنے دیتے ہو اور نہ یہاں جینے دیتے ہو۔ ہم کدھر جائیں؟
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
سکینہ۔ انسان کو موت سے نہیں بھاگنا چاہئے خاص طور پر جب اس کے پاس دوسری طرف بھی کوئی ٹھکانا نہ ہو۔ہم وہاں رہیں تو بھی مرنا ہے اور اگر وہاں سے بچ نکلیں تو یہاں آکر بھی مرنا ہے۔وہاں جسم ہی دریا برد ہوگا ناں، یہاں تو بندے کا اندر ہی چھلنی ہو جاتا ہے۔میں اپنی اور اپنے بچوں کی روٹی کے لئے گھنٹوں کھڑی رہتی ہوں ۔ صرف میں نہیں بلکہ یہ سب لوگ جو کیڑے مکوڑوں کی طرح اپنی جان بچا کر یہاں آتے ہیں ، یہاں ہم سب کا مقدر ایک سا ہے، جانے کس سیاہ سیاہی سے لکھا ہے کہ نسل در نسل یہ اندھیرے ختم ہی نہیں ہوتے۔ روٹی اس وقت ملتی ہے جب کوئی وڈا آدمی (بڑا آدمی) آتا ہے،کیمرے آتے ہیں۔تھیلے تقسیم ہوتے ہیں ۔ایک سیلاب میرے دو بچوں کو کھا گیا،میرے خاندان کے کئی لوگوں کا ابھی تک نہیں پتا کہ وہ زندہ ہیں یا کدھر پناہ لی ہے۔ بہہ گئے ہونگے، مر چکے ہوں گے ان کی لاشیں کسی بیراج کے دروازوں میں پھنسی ہونگی یا کسی درخت کی شاخوں میں پھنسی ہونگی۔ یہ قدرتی موت نہیں ہے یہ قتل ہیں اور میں خدا سے حساب لونگی،ایک خدا ہی تو ہمارا سہارا ہے اسی سے ساری امیدیں ہیں۔
میں حقیتاَ صرف ایڈونچر کے لئے گیا تھا جیسے کسی ہائی وے پر کوئی حادثہ ہو اور وہاں پر لوگوں کی تعداد تماشائیوں کی طرح منہ اٹھا کر کھڑی ہو جاتی ہے۔شام کو مجھے اپنے ایک دوست (وڈے آدمی) کا فون آیا کہ اسے کچھ اشیاء متاثرین میں تقسیم کرنے کیلئے کچے ( دریا سندھ کے کناروں کا علاقہ) میں جاناتھا، میرا ایڈونچر کا موڈ تھا تو ان کا قافلہ مجھے بھی ساتھ لے گیا۔ وہاں کسی دریائی بند پر میری ملاقات سکینہ سے ہوئی،اور سکینہ زندگی کے وہ سوال وہ فلسفے میرے کینوس پر اتار گئی جن کے جواب اب شاید میں عمر بھر تلاش کرتا رہوں گا۔
میں اسی بند پر تھوڑا فاصلے پر جا کر کھڑا ہو گیا، اب میرے سامنے دونوں اطراف کا منظر تھا۔ ایک طرف امداد تقسیم ہونے کی فلم چل رہی تھی اور دوسری طرف لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنے اپنے گھروں میں بند تھی ۔ آپ کو معلوم ہے ان گھروں کی دیواریں کیا تھیں؟ دو ڈنڈے بیچ میں رسی اور اس کے اوپر چند پھٹی پرانی چادریں بس۔ ان گھروں کی چھت کیا تھی؟ صرف نیلا آسمان۔ جو امیر امراء تھے انہوں نے بانس لگا کر اس پر گھاس پھونس رکھ کر اسے چھت کا نام دے کر مطمئن تھے۔کچھ لوگ اپنے مال مویشی کو بھی بچا کر لانے میں کامیاب ہوگئے تھے لیکن اب ان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ خود کو موسم کی شدت سے محفوظ رکھیں یا انہیں ۔ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی پر بچوں کی تعداد اتفاق میں برکت ہے کا نمونہ بنی بیٹھی تھی اور ان کے نیچے کچھ بکریا ں باندھ کر بٹھائی ہوئی تھیں۔
فوٹو؛ شہباز علی
میں نے اس محل کی مالکن سکینہ سے پوچھا کہ جہاں امداد تقسیم ہو رہی ہے وہ وہاں کیوں نہیں گئی؟ تو اس کے جواب نے میرے اندر طوفان بھر دیا اور مجھے لگا کہ اگر میں ان لوگوں کوصرف وہ عمارت دور سے دکھا دوں تو یہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں جہاں لاکھوں روپے فی گھنٹہ کے حساب میں صرف جمہوریت بچانے کی، نظام بچانے کی، انقلاب لانے کی، آزادی دلانے کی تو بات کی جاتی ہے مگر زندگی بچانے کی کوئی بات نہیں کرتا ہے۔
اس کا کہنا تھا کہ جب امداد تقسیم ہونے کا عمل شروع ہوتا ہے تو ہم سب لوگوں میں سے کچھ لوگوں کو چن کر آگے کر دیا جاتا ہے اور ہمیں سختی سے منع کر دیا جاتا ہے کہ آگے نہیں آنا ورنہ کچھ نہیں ملے گا۔اور بعض جگہ تو لوگوں نے ان کی بات نہیں مانی اور جب وہ وڈے لوگ آئے تو ہم سب بھاگ کر ان کے پاس گئے کہ شاید وہ ہماری بھی سنے گا، مگر جو حال پھر ان کے جانے کے بعد ہوا ہے۔۔۔ وہ دفع کریں۔ اتنی تذلیل کے بعد روٹی ملے تو کیا فائدہ۔ اچھے لوگ بھی ہیں مگر بعض شہری لوگ جب سامان لے کر آتے ہیں تو ان کی بھوکی نظروں میں وہ قیمت چھپی ہوتی ہے جو مجھ جیسی سکینہ کے اختیار میں نہیں۔ تم سب ہمیں نہ تو وہاں دریا بیچ مرنے دیتے ہو اور نہ یہاں جینے دیتے ہو۔ ہم کدھر جائیں؟
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔